’’یتیم‘‘اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس
کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو اور وہ شفقت پدری سے محروم ہو
گیا ہو۔اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق
کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوشِ محبت
میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے
مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو
پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا
مالک بنانااور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی
اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن
کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔
زمانہ قبل از اسلام آئے دن عربوں میں باہمی قتل و قتال اور کشت و خون ریزی
جاری رہتی جس کے نتیجے میں بیسیوں معصوم بچوں کو داغِ یتیمی ملتا اور اِس
کے بعد اُن پر ظلم و ستم کا ایک نیا دور شروع ہوجاتا،خاندان کے خود کفیل
لوگ اِن کے مال و اسباب پر قابض ہوجاتے،اِن کی جائیدادیں ہڑپ کرجاتے، اِن
کو تعلیم و تربیت سے عاری رکھتے، اور اِن کا کسی مناسب جگہ رشتہ طے کرکے
اِن کی شادی نہ کرتے، نتیجہ یہ نکلتا کہ یہ بچے کل جب اپنے سن شعور کو
پہنچتے اور عاقل بالغ ہوجاتے تو اِن کے ہاتھ میں سوائے غلامی و اسیری ،افلاس
و تنگ دستی اور مناسب تعلیم و تربیت سے محرومی کے کچھ بھی نہ آتا، لیکن جب
اسلام نے اپنی کرنیں بکھیریں اور وہ اِس دُنیا میں آیا تو اُس نے اپنی
رُوشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعے یتیم بچوں اور بچیوں کو اُن کا حقوق
دلوائے، اُن کی حفاظت و نگہداشت کی اور اُن کے حقیقی مقام و مرتبہ سے تمام
مسلمانوں کو روشناس کیا، تب کہیں جاکر یتیموں کی اِس صنف پر سے ظلم و ستم
کا دور ختم ہوا اور اُنہوں نے سکھ کا سانس لیا ۔
چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ آجانے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے
یتیموں کے حقوق کے متعلق چند مخصوص احکام اُتارے اور یتیموں کی صحیح کفالت
نہ کرنے والوں کو حکم دیا گیا کہ:اُن کے مال و اسباب پر اپنے ہاتھ صاف مت
کرو اور نہ ہی اُس میں خرد برد کرو کہ یہ بڑے گناہ کی بات ہے۔چنانچہ قرآنِ
مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ترجمہ:اور یتیموں کو اُن کے وارثوں کا
چھوڑا ہوا مال دے دو، اور اُن کے اچھے مال کو اپنے برے مال سے بدلا نہ کرو،
اور نہ اپنے مال کے ساتھ ملاکر اُن کا مال کھاؤ، یہ بڑے گناہ کی بات ہے۔‘‘
زمانۂ جاہلیت کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ یتیم بچیوں کے مال و جائیداد پر
قبضہ کرلینے کی غرض سے اُن کے کفالت کرنے والے ان کو اپنے نکاح میں لے آتے
اور بے والی وارث جان کر ان کو خوب ستاتے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
’’ترجمہ:اگر تم کو ڈر ہے کہ تم اِن یتیم بچیوں کے حق میں انصاف نہ کرسکوگے
تو (ان کو چھوڑ کر اور) عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں نکاح کرلو۔‘‘ اسی طرح
یتیم بچوں کے مال کو بد دیانتی اور اسراف سے بھی خرچ نہیں کرنا چاہئے اور
نہ ہی اُن کو اُس وقت تک یہ مال سپرد کرنا چاہیے جب تب کہ وہ عقل و شعور
کامل بیدار نہ ہوجائے، پس جب وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائیں اور اُن میں عقل
و شعور بیدار ہوجائے تب اُن کی یہ امانت اُن کے سپرد کی جائے۔ چنانچہ قرآنِ
مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: اور یتیموں کو جانچتے رہو، جب وہ
نکاح کی (طبعی) عمر کو پہنچیں تو اُن میں اگر ہوشیاری دیکھو تو اُن کا مال
اُن کے حوالے کردو۔‘‘اسی طرح یہ بھی زمانۂ جاہلیت کا ایک دستور تھا کہ یتیم
بچے بچی کے عاقل بالغ ہونے سے پہلے پہلے ہی محض اِس غرض اور نیت سے اُن کے
مال کو جلدی جلدی ہڑپ کرلیا جاتا کہ کہیں سن شعور کو پہنچنے کے بعد اِن کو
یہ مال واپس نہ کرنا پڑجائے اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے بھی منع
فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ’’اور اُڑا کر اور جلدی کرکے ان کا مال نہ
کھاؤ کہ کہیں یہ بڑے نہ ہوجائیں۔‘‘
قرآنِ مجید کی طرح احادیث نبویہ صلی اﷲ علیہ وسلم میں بھی یتیم بچوں اور
بچیوں کے حقوق اداکرنے اور اُن کے ساتھ صلہ رحمی اور شفقت و پیار کرنے کی
بڑی تاکید اور ترغیب ذکر فرمائی گئی ہے۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپنے دل کی سختی کی
شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ: ’’ یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا کرواور مسکین کو
کھانا کھلایا کرو۔‘‘ حضرت ابودرداء رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر اپنے دل کی سختی کی شکایت کرنے لگا۔ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیاتم کیا چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہوجائے
اور تمہاری یہ ضرورت پوری ہوجائے؟ تم یتیم پر شفقت کیا کرواور اُس کے سر پر
ہاتھ پھیرا کرواور اپنے کھانے میں سے اُسے کھلایا کرو اس سے تمہارا دل نرم
ہوجائے گااور تمہاری ضرورت پوری ہوجائے گی۔‘‘حضرت بشیر بن عقربہ جہنی رضی
اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد کے دن میری حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے
ملاقات ہوئی ، میں نے پوچھا میرے والد کا کیا ہوا؟۔‘‘حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا: ’’وہ تو شہید ہوگئے اﷲ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے۔‘‘ میں یہ سن
کر رونے لگ پڑا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے پکڑ کر میرے سر پر ہاتھ
پھیرا اور مجھے اپنے ساتھ اپنی سواری پر سوار کرلیااور فرمایا کہ: ’’کیا تم
اِس پر راضی نہیں ہوکہ میں تمہارا باپ بن جاؤں اور عائشہ ؓ تمہاری
ماں؟۔‘‘حضرت ام سعید بنت مہرہ الفہری رضی اﷲ عنہا اپنے والد سے روایت کرتی
ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’میں اور یتیم کی
کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے، اس کے بعد آپ نے درمیان والی
انگلی اور شہادت والی اُنگلی سے اشارہ فرمایا۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمانوں کا
سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہواور اُس کے ساتھ اچھا سلوک کیا
جاتا ہواور سب سے برا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ برا
سلوک کیا جاتا ہو۔ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اِس طرح ہوں گے
اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔‘‘
آج دُنیا کے چپہ چپہ پر یتیم خانے قائم ہیں۔ سکول قائم ہیں۔ ہسپتالیں قائم
ہیں۔ لیکن اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دُرّ
یتیم اور آمنہؓ کے لال حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے
یہ بدقسمت گروہ اِس نعمت عظمیٰ سے یکسر محروم تھا۔ بلا شبہ اسلام ہی وہ
پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے اِس مظلوم گروہ کی داد رسی کی، عرب پہلی
سرزمین ہے جہاں کسی یتیم خانہ کی بنیاد پڑی، اور اسلامی حکومت وہ پہلی
حکومت ہے جو جہاں جہاں وسیع ہوتی گئی اِن کے لئے امن و راحت کا گہوارہ بنتی
گئی، اُس نے یتیموں کے لئے پرسکون گھر بنائے، اُن کو ان کے حقوق دلوائے،
اُن کے وظائف مقرر کیے، اُن کی اسلام کے مطابق مناسب تعلیم و تربیت کی، اور
اُس نے اپنے قاضیوں اور حاکموں کو اِس مظلوم و بے کس طبقہ کا سرپرست بنایا،
اُن کو اُن کی جائیدادیں محفوظ رکھنے کا پابند بنایا، اُن کے جملہ معاملات
کی دیکھ بھال کا حکم دیا، اور اُن کا مناسب جگہ رشتہ طے کرکے اُن کے گھروں
کو آباد کرنے کا اُن کو پابند بنایا۔ آج یورپ و امریکہ اور بالخصوص لندن کے
لارڈ میریا آرفس کورٹ کے حکام یتیم بچوں اور بچیوں کے حقوق کی جنگ لڑ ی
جارہی ہے وہ اسلام کی درخشاں تاریخ کے مسلمان قاضیوں ہی کی نقالی ہے اور
بس!۔ |