وه اپنے آپ کو چادر میں لپیٹ کر تیز قدموں سے بس سٹاپ کی
طرف جارہی تھی. اردگرد سے گزرنے والوں کی ننگی نظروں کا اس کو بخوبی احساس
تھا. کچھ سالوں سے کچھ ایسی مادر پدر آزادی کی ہوا چل پڑهی تھی کہ اب ہر
شخص کی نگاہوں میں بدلاو آگیا تھا .اب بوڑھے، بچے، نوجوان سب کی نظروں سے
معصومیت کا عنصر نکل اس کی جگہ ایک گرسنگی نے لے لی تھی. گرمی کے موسم سے
زیادہ یہ بهوکی نظروں کی تپش تھی جس سے اس کی پیشانی عرق ریز ہوتی جارہی
تھی. سٹاپ پر پہنچ کر بڑی مشکل سے اس کو ویگن ملی. ویگن میں ڈرائیور کے
برابر والی سیٹ عورتوں کے لئے مختص ہوتی ہے اس پر دو عورتوں کے بجائے عام
طور پر ویگن والے تین عورتیں بٹها لیتے.آج بھی ایسا ہی ہوا، ہر دفعہ گئیر
بدلتے ہوئے ڈرائیور کا هاته اس کے پہلو کو بہت بری طرح سے مس کرتا اور ہر
دفعہ ڈرائیور کے ہونٹوں پر اوباش سی مسکراہٹ آجاتی. منٹوں کا سفر اس کو
صدیوں پر محیط لگا تھا. اپنے مقررہ سٹاپ پر پہنچ کر اس نے ابھی سکون کا
سانس بھی نہیں لیا تھا کہ چند اوباش نوجوانوں کی نظر اس پر پڑه گئی. سکول
کا راستہ آج خلاف معمول کچھ ویران تھا شاید آج وہ معمول سے تھوڑی لیٹ ہوگئی
تھی. ویسے بھی یہ اسکول پوش علاقے کی ایک کوٹھی میں بنا ہوا تھا. خوف کے
مارے اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے. ان موٹرسائیکل سوار اوباش لڑکوں نے اس
کی چادر بھی کهیچنے کی کوشش کی تھی. اب وہ اندھا دھند بهاگ رہی تھی. اس کی
کیفیت اس معصوم ہرنی کی سی تھی جو لگڑ بهگوں کے غول میں پھنس گئی تھی. جیسے
ہی اس کو سکول کا دروازہ نظر آیا تو اس نے فورا چوکیدار کو آواز دی.
چوکیدار کو دیکھ کر وہ اوباش لڑکے سیٹیاں بجاتے، آوازیں کستے چلے گئے.
اسکول کے اندر پہنچ کر ابھی اس نے سکھ کا سانس بھی نہ لیا تھا کہ پرنسپل
صاحب کا پیغام آگیا کہ وہ فوراً ان کے آفس میں حاضر ہو. اس نے اپنی چادر
تہہ کر کے اپنے پرس کے ساتھ الماری میں رکھی. سر پر دوپٹہ لیا اور پرنسپل
صاحب کے کمرے میں پہنچی. حسب معمول عابدی صاحب نے اس کو للچائی ہوئی نظروں
سے دیکھا. اس کے دیر سے آنے پر بازپرس کی. ادھر ادھر کے فضول کے قصے اسے
سنائے. اس نے جب انهیں احساس دلایا کہ وہ اپنی کلاس میں جانے کے لئے لیٹ
ہورہی ہے تو انهوں نے مجبورا اس کو جانے کی اجازت دی مگر نکلتے نکلتے
دروازہ کھولنے کے بہانے اس کے شانے پر تھپکی دینے سے نہ چوکے.
صدف نے اپنی کلاس میں پہنچ کر ایک گہرا سانس لیا اور سوچا "یہ آگ کا دریا
میری جیسی کتنی لڑکیاں روز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عبور کرتی ہیں. مگر
لاج اور شرم کے تالے لبوں پر لگائے رکھتی ہیں. کیونکہ جو لڑکی بھی بولتی ہے
وہ بدچلن کہلاتی ہے. لوگ اس پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ سارے زمانے کے مرد اس
کے اوپر ہی لٹو ہیں. حالانکہ اس معاشرے میں کون بدچلن ہے اس کا ثبوت تو
جابجا ملتا ہے. اس کے ہونٹوں پر استہزائیہ زہریلی سی مسکراہٹ پهیل گئی. |