ہمت نہ ہاریں

سٹیفن ہاکنگ نے دنیا کو ہمت و حوصلے سے کامیابی چھین لینے کا درس دیا۔ 21سال کی عمر میں جب ڈاکٹروں نے لاعلاج کر دیا کہ وہ صرف دو سال تک زندہ بچ سکے گا۔ مگر ہاکنگ کے عزم اور بلند ولولوں نے اسے نہ صرف مزید 55سال تک زندہ رکھا بلکہ اس کی ذہانت اور ریسرچ نے دنیا کو نئی سائنسی ایجادات اور تھیوریز سے روشناس کیا۔ جسمانی کمزوری اور فالج کو سٹیفن ہاکنگ نے اپنی کمزوری نہ بننے دیا۔ اپنے مسلسل کارناموں اور جدوجہد سے دنیا کو حیران کر دیا۔ چل پھر نہ سکنے یہاں تک کہ جسم کو جنبش دینے سے محروم ہونے کے باوجود انہوں نے اپنا ذہانت کالوہا منوایا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے 15فی صد لوگ کسی نہ کسی طور پر معذور ہیں۔ ایک ارب سے بھی زیادہ لوگ کسی طور پر مفلوج ہیں۔ جن میں کم از کم 11کروڑ لوگ بالکل ہی جسمانی طور پر ناکارہ ہیں۔کچھ عظیم لوگ ہمارے آس پاس بھی موجود ہیں جو معذور ہونے کے باوجود باہمت اور حوصلہ مند ہیں۔ ان کی غیرت اور عزم ہمالیہ سے بھی بلند ہے۔ پروفیسر سائرہ ایوب نے اس سلسلے میں ایک ریسرچ کی ہے جس میں عبدالمعید اور اقصیٰکا خاص طور پر ذکر ہے کہ جنہوں نے معذوری کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہنر مندی، مہارت اور کاروباری رموز میں آگاہی حاصل کرکے خصوصی افراد اپنا کاروبار شروع کرسکتے ہیں۔ عبدالمعیدکی عمر 27 سال ہے۔ جب میں12 سال کا تھا تب مجھے پٹھوں کا مرض Muscular Dystrophy لاحق ہوگیا۔ میں چلتے چلتے گِر پڑتا تھا اور اٹھنے بیٹھنے میں بھی دشواری محسوس کرنے لگا تھا۔''آہستہ آہستہ میرے جسم کے تمام مسلز کمزور ہونے لگے اور میں وہیل چیئر پر بیٹھنے لگا۔ میرے والدین نے بہت علاج کروایا، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔''خوش قسمتی سے میرے والدین نے میری تعلیم کو نظر انداز نہیں کیا اور میں بھی اپنے بہن بھائی کی طرح پڑھتا رہا اور یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب سے بی کام مکمل کرلیا۔تین سال پہلے میں شدید بیمار ہوا اور میرے پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور ڈاکٹر نے مجھے وینٹیلیٹر استعمال کرنے کا مشورہ دے دیا۔ میرے بیڈ روم میں Bipap مشین لگا دی گئی اور میری زندگی بیڈ روم تک محدود ہوگئی۔''اِسی ناامیدی کے دور میں اُمید کی کرن پھوٹی۔ میری والدہ لذت بھرے کھانے بناتی تھیں۔ میں نے انہیں تجویز دی کہ وہ زیادہ مقدار میں کھانا بنانا شروع کردیں، تو میں آن لائن فوڈ سپلائی کا کام کرسکتا ہوں۔''میری آنکھوں میں چمک دیکھ کر انہوں نے حامی بھرلی۔ بالآخر 'رسوئی' کے نام سے ایک آن لائن فوڈ کمپنی کی بنیاد رکھی گئی۔ میں نے بیڈ پر بے کار پڑے رہنے کے بجائے انٹرنیٹ اور لیپ ٹاپ کی مدد سے بزنس کا آغاز کردیا۔ سوشل میڈیا پر 'رسوئی' کے نام سے پیج ڈیزائن کیا اور آن لائن آرڈر لینے شروع کردیے۔ امید، حوصلہ، ہمت اور نت نئے خواب۔''یہی سب کچھ زندگی ہے۔ جب ہمارا بزنس بڑھنے لگا تو ہم نے کچھ مدد گار بھی رکھ لیے۔ میرا اِس بات پر کامل یقین ہے کہ اﷲ تعالٰی کے فیصلے قبول کرنے سے انسان اپنی مشکلات کو کم کرسکتا ہے۔ مثبت سوچ کو اپنا کر نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی بدلی جاسکتی ہے۔ جب سے میں نے بزنس کا آغاز کیا ہے میں اپنی معذوری کو بھول گیا ہوں۔'' اقصیٰ کی بھی ایسی کہانی ہے۔''میرا نام اقصٰی شاہد ہے۔ میری معذوری Muscular dystrophy ہے جس میں جسم کے تمام مسلز بتدریج کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ میری بہترین سہیلی میری وہیل چیئر ہے جو میری زندگی کو ہمہ وقت متحرک رکھتی ہے۔ میں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ تعلیم مکمل کرکے میں نے مختلف اداروں میں جاب کے لیے اپلائی کیا۔ لیکن میری معذوری دیکھ کر کسی نے حوصلہ افزائی نہیں کی۔''Aqsa Dream Creations کے نام سے میں نے فیس بک پیج بنایا،ایک گھر ڈیزائن کیا اور اِس کرافٹ کی تصاویر اپ لوڈ کیں۔ مجھے ساہیوال سے آرائشی گھر کی فروخت کا آرڈر بھی آ گیا، جس سے بہت حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔''میری امی جان آرائش و زیبائش کی اشیاء بنانے میں میری مدد کرتی ہے، میں نے آرٹ اینڈ کرافٹ کے بے شمار یوٹیوب چینلز اور فیس بک پیجز جوائن کرلیے ہیں اور اب میں گھر بیٹھ کر نت نئی اشیاء بنانا سیکھتی ہوں اور اٹیلین ڈو اور موتیوں کی مدد سے موبائل فونز کے کورز، جیولری، بیگز، کارٹون کریکٹرز اور فوٹو فریمز ڈیزائن کرکے انہیں فروخت بھی کرچکی ہوں۔''شدید معذوری کی وجہ سے میں خام مال خریدنے مارکیٹ نہیں جاتی بلکہ آن لائن خام مال خریدتی ہوں۔''میں اﷲ تعالیٰ کی بے حد شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے بہترین ہنر عطا کیا۔ زندگی تجربات کا نام ہے، ایک در بند ہونے سے ہمیشہ دوسرا در کُھل جاتا ہے۔ شوق، لگن، جستجو اور محنت کامیابی کی کنجیاں ہیں۔''عبدالمعید اور اقصٰی شاہد کی روداد سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی میں خواب ضرور دیکھنے چاہئیں۔ اگرچہ خواب سے تعبیر تک کا سفر دشواریوں اور کٹھنائیوں سے بھرپور ہوتا ہے لیکن منزلِ مقصود ہمیشہ مستقل مزاج لوگوں کا مقدر ہوتی ہے۔بقول ایک شاعر کہ مت بیٹھ آشیاں میں پروں کو سمیٹ کر کر حوصلہ کشادہ فضا میں اڑان کا معاشی استحکام اور آزادانہ طرزِ زندگی گزارنا خصوصی افراد کا اولین خواب ہوتا ہے لیکن مُملکتِ خُداداد میں معذور افراد کے لیے سہولتوں کے فقدان کے باعث انہیں اِس خواب کی تکمیل کے لیے مشکلات کے پہاڑ تن تنہا عبور کرنے پڑتے ہیں۔ایک طرف وسائل محدود دوسری طرف معذوری کی وجہ سے لامحدود مسائل انہیں اکثرو بیشتر ناامید کردیتے ہیں۔ مگر مایوسی اور غیر یقینی کی کیفیت سے نِکلنا ہی اصل کامیابی ہے اور فنی تعلیم انہیں ہنر مند بناتی ہے۔کاروبار کا آغاز کرنے سے پہلے اپنے شوق اور جذبے کو کھوجنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کے اندر ولولہ یا جوش نہیں تو آپ کبھی بھی دِل جمعی سے کام نہیں کرسکتے ہیں۔کنویں کا مینڈک ہرگز مت بنیں۔ تحقیق، جستجو، نت نئے علوم کا حصول زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو متحرک کرنے کے لیے اپنے شعبے کے کامیاب افراد سے ترغیب لینا نہایت ضروری ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا سمٹ کر گلوبل مارکیٹ بن چکی ہے، آن لائن مارکیٹنگ ٹولز استعمال کرکے خریدار اور فروخت کار ہمہ وقت رابطے میں رہ سکتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے گھر بیٹھ کر مصنوعات کی تشہیر باآسانی کی جاسکتی ہے۔مارکیٹ میں غیر ملکی اشیاء کی سستے داموں فراہمی سے اگرچہ مقابلہ سخت ہے لیکن منفرد مصنوعات اور اُن کو فروخت کرنے کا مختلف طریقہ کار اپنا کر کاروبار کو مستحکم کیا جاسکتا ہے، جس طرح عبدالمعید اور اقصٰی شاہد نے عملی طور پر کر دکھایا۔اور سٹیفن ہاکنگ دنیا میں انقلاب لے آئے۔اب 03009568439پر ایس ایم ایس ۔ میں ایک ریٹائرڈ ملازم ہوں۔تقریباً 10ہزار روپے پنشن لیتا ہوں۔ شوگراور جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوں۔ میری دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں حافظ قرآن ہیں۔ رواں ماہ ایک کی شادی طے ہے۔ جس کے لئے 80ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ کوئی صاحب ثروت قرض حسنہ عنایت کرے تو ہر ماہ اپنی پنشن سے دو ہزار روپے ادا کروں گا۔ دعا گو۔اشرف خان، سوات، 03075963692۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 487318 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More