معذور ننھی کلی نور فاطمہ کو جنسی زیادتی کے بعد جلادیا
گیا اگر مجرموں کو بروقت قرار واقعی سزا دے دی جاتی امکان ہے ایسے اندوہناک
سانحات دیکھنے کو نہ ملتے اگر عرض پاک کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی
ریاست بنانے پر کام کیا جاتا اورفحاشی کو کھلم کھلا پرموٹ نہ کیا جاتا تو
یوں مجرم ہمارے بچوں کو قتل نہ کررہے ہوتے موجود زمانے میں فحاشی اہل دانش
کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے جنسی بے راہ روی جس انداز سے معاشرے میں
اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے اسی انداز سے اس کے طوفانی اثرات عرض پاک اوربین
الاقوامی دنیا کے لیے چیلنج بنتے جارہے ہیں ہمارے بچے جو کل تک ہمارے کنڑول
میں تھے اب وہ مغربی استعماری قوتوں کے اشاروں پر گامزن ہیں افسوس سے کہنا
پڑرہا ہے کہ ایمان وحیاء کے دشمن ہمارے گھروں میں داخل ہوکر ہمارے بچوں پر
کنڑول حاصل کرچکے ہیں بقول شاعرآنکھ جودیکھتی ہے لب پہ آسکتانہیں محو حیرت
ہوں دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی جس انداز سے نسل نو انٹرنیٹ اوردیگر مخراب
اخلاق سوشل میڈیا کا اثر قبول کررہی ہے تو کہنا غلط نہ ہوگا کہ مستقبل کے
قومی معماروں کی ذہنی معاشرتی پرورش ہم نہیں بلکہ مغربی تھنک ٹینک کررہے
ہیں تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے یاددہانی کرانا چاہتاہوں جب تک مغربی
معاشرے میں جنسی بے راہ روی نہیں تھی حیاء اورغیرت موجود تھی خاندانی نظام
موجود تھا پھر چشم فلک نے دیکھا مغربی معاشرہ آزادی کے نام پر اپنی شناخت
گنوا بیٹھا بیٹی ماں باپ بہن بھائی اورخاوند کی شفقت ومحبت سے محروم ہوکر
بوائے فرینڈ کی محبت میں جکڑتی چلی گئی سلسلہ جوں جوں طویل ہوا ذلت اورذہنی
ہیجان میں اضافہ ہوتا گیا وہ بیٹی جو ماں کے پایا شفقت میں محواستراحت ہوا
کرتی تھی وہ ڈرگ لے کر فٹ پاتھوں اورڈانس پارٹیوں کی زینت بنی اس جنسی بے
راہ روی سے طلاقوں اورجنسی امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اورآج امریکہ
اوراہل یورپ اپنی خاندانی شناخت گم اورنسب کا تحفظ معدوم کروچکے ہیں-
پاکستان میں نوجوان نسل جس تیزی کے ساتھ بگاڑ کا شکا ر ہو رہی ہے ، اس کے
اندازہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے چیچہ
وطنی کی بے قصور مریم کی طرح کتنی معصوم بچیاں اورعورتیں ظلم کا نشانہ بنتی
ہیں اس کا اندازہ لگانا اب مشکل نہیں رہا گوجرانوالہ میں مزدور کی دوبیٹیوں
کی گم شدگی کا معاملہ ہو یا اسلام آباد پولیس کی لیڈیز اہلکاروں کی سپریم
کورٹ کو درخواست کا معاملہ یا سکول سے گم شدہ طالبات کا المیہ یا جی سی
یونیورسٹی کی طالبہ کا زیادتی کے بعد قتل کا معمہ صورتحال انتہائی تشویش
ناک دکھائی دیتی ہے میڈیا رپورٹ کے مطابق پچھلے ساڑھے سات سالوں میں 2017
سے 2010 کے درمیان ان واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ محض 2010 میں ہی
2252 ایسے واقعات رپورٹ کیے گئے۔ 2011 میں مزید 2303 واقعات دیکھنے میں آئے۔
2012 میں بھی 2788 واقعات کی شکایات موصول ہوئیں۔ 2013 میں ان ہندسوں میں
3002 تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2014 میں واضح اضافہ 3508 کا دیکھا گیا۔
2015 میں ان واقعات میں 3768 کا اضافہ ہوا۔ جبکہ 2016 میں 4139 کی واضح
شکایات میں اضافہ ہوا۔ سال 2017کے پہلے چھ مہینوں میں ہی 768 زیادتی کے
واقعات ہوئے اور 2018میں ان واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے -
اہل علم اس استحصال کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں ایک طبقہ اس کی وجہ
صنعتی انقلاب بتاتا ہے صنعتی انقلاب نے معاشرتی نظام میں بگاڑ پیدا کیا
عورت کی خودکفیل ہونے کی رغبت نے اس کے لیے مسائل پیدا کیے یا یوں کہیے
صنعتی انقلاب کے تلخ پھل جو کام کی زیادتی کم تنخواہ، عزت نفس کے مجروح
ہونے اور عصمت و عفت کے لٹ جانے کی شکل میں ظاہر ہوئے، ان کی وجہ سے یورپین
عورت اس امر پر مجبور ہوگئی کہ وہ شادی کے بندھن سے چھٹکارا حاصل کرے
کیونکہ وہ یک و تنہا بیمار یامعذور خاوند اور بچوں کے خاندانی نظام کو
چلانے کی سکت نہیں رکھتی تھی صنعتی ترقی کی آسائشوں اور سہولیات نے خاندانی
نظام پر برااثرڈالا رشتوں کی اہمیت کم سے کم تر ہوتی گئی عورت شہرت کی
بلندیوں کو چھونے کے لیے تمام آداب زندگی بھلاتی گئی نیم عریاں سائن بورڈ
کی زینت بنی توکہیں تھیڑوں میں رقص اورکہیں کیٹ واک کی شکل میں نمائش کا
ذریعہ ٹھہری آج حشرسامانی کا عالم یہ ہے کہ دنیا کی سستی ترین چیز سے لے
مہنگی ترین چیزکی نمائش عورت کے ذریعے کروائی جاتی ہے -
اسلامک سکالر اس بے راہ روی کی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری بتاتے ہیں چونکہ
اسلام الحامی مذہب ہے اوراﷲ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق ومالک ہے اﷲ تعالیٰ
کا دیا ہوا نظام ہی انسانیت کو تباہی سے محفوظ رکھ سکتا ہے اسلام میں عورت
کو نساء اورمستور کہا گیا ہے اور مستور کا مطلب ہے چھپا ہوا، عورت کے پردہ
کے حوالہ سے ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ حضرت عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ نبی
کریم ؐنے فرمایا عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے کیوں کہ جب وہ باہر نکلتی ہے
تو شیطان اسے بہکانے کے لئے موقع تلاش کرتا ہے جامع ترمذی،جلد نمبر اول ،
حدیث نمبر 1181عورت کے پر دہ کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے لئے عبادت
بھی پردہ کے بغیر اور بے پردہ جگہ پر کرنا منع فرمایا گیا ہے حضرت عبداﷲ بن
مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲؐ نے فرمایا کہ عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا
گھر آنگن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور اندرونی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا
کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے مزید ہمیں ان ارشادات نبویؐپر غور کرنا
چاہیے جن میں آپؐ اپنی امت سے مخاطب ہیں کہ اگر تم میرے ساتھ یہ وعدہ کرو
کہ جب تم میں سے کوئی بات کرے تو جھوٹ نہ بولے، جب اسے امین بنایا جائے تو
خیانت نہ کرے ہر حال میں اپنے وعدے کی پاسداری کرے اپنی نگاہوں کو نیچی
رکھے، اپنے ہاتھوں کو روکے رکھے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرے تو میں
تمہارے لئے بہشت کا ضامن ہوں مسلم اُمہ کے ہر شخص کا فرض منصبی ہے کہ جس کی
نگاہوں میں شرم و حیا اور عصمت کی کوئی قدر و منزلت ہے کہ وہ اپنی جوان بہو
بیٹیوں کو بے مقصدبے پردہ باہر نکلنے سے روکیں اور وہ نامحرموں کے سامنے بے
تکلفی سے آنے سے اجتناب کریں ارباب دانش کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام بنی
نوع انسانی کی ہر معاملے میں رہنمائی کرتا ہے -
تیسری وجہ والدین کی عدم توجہ اورلاپرواہی ہے والدین کے لیے ضروری ہے کہ
بچوں کی نہ صرف حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کریں بلکہ ان سے بات چیت بھی
کریں ان کی خواہشات کا جائزہ لیں اگر بچے کسی قسم کے شبہا ت کا اظہار کریں
یا کسی پر الزام عائد کریں تو مطلوبہ الزامات کی غیرجانبدارانہ تحقیق کی
جائیں اورقطعا اس معاملے میں سستی کا برتاؤ نہ کیا جائے والدین بچوں کو
اعتماد میں لیں اور ان پر اپنے رویے سے واضح کریں کہ وہ ان کی رائے کو
اہمیت دیتے اور ان کی بات کا یقین رکھتے ہیں جنسی استحصال کا شکار بچوں کو
اس واقعے کا ذمہ دار قرار دینا انہیں احساس جرم میں مبتلا کر سکتا ہے فی
زمانہ بچوں کے جنسی استحصال اور بچوں پر جنسی زیادتی جیسے جو واقعات تواتر
سے سننے میں آرہے ہیں اس کے تدارک کے لیے بالخصوص والدین کو بہت ضبط اور
سمجھ داری کے مظاہرے کی ضرورت ہے-
مختصر یہی کہنا چاہتا ہوں اپنی تمام تر ذمہ داریوں کے باوجود اپنے بچوں کے
لیے وقت نکالیے ان کے ساتھ سیر پر جائیے ممکن ہوتو خود سکول چھوڑنے جائیں
اورخود سکول سے لے کرآئیں بچوں کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ کریں یقینا یہ
عمل ہمارے مستقبل کے معماروں کے لیے مفید ہوگا ۔ |