نفسِ ذکیہ قسط نمبر ۔ ٣٠

’’وٹ دا ہیل از دز یار؟؟؟ کیا بکواس ہے یہ سب؟؟؟ تم مجھے یہ سب سنانے کے لئے یہاں لائے تھے؟؟؟‘‘ مجدی کا پارا چڑھا ہوا تھا۔ اس کا منہ غصے سے لال ہو گیا تھا۔ میں اور وہ گاڑی میں بیٹھے ’روشن‘ سے دور جا رہے تھے۔ مجھے چپ لگی ہوئی تھی۔ اندازہ نہیں تھا کہ ڈاکٹر ذیشان کی باتوں کا مجدی اتنا برا مان جائے گا۔ نہ ہی مجھے پتا تھا کہ وہ مجدی سے یہ سب کہیں گے۔ جبکہ میں خود یہ چاہتا تھا کہ مجدی دوبارہ صحیح رستے پر واپس پلٹے۔ مگر مجدی تو کسی جانور کی طرح بدک گیا تھا۔ ڈاکٹر ذیشان نے اسے کتنے اچھے طریقے سے ساری بات سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر مجدی کا تو وہی حال تھا کہ ’میں نہ مانوں!‘‘

واپسی کے سارے رستے ہمارا موڈ آف رہا۔ میں بھی چپ تھا اور مجدی نے بھی اپنے ہونٹ سی رکھے تھے۔ کوئی آدھے گھنٹے میں ہم واپس پہنچ گئے۔ میں نے گاڑی اپنے آفس کے پاس روکی جہاں مجدی کی کار کھڑی تھی۔ وہ ’’او کے بائی!‘‘ کہتا ہوا اترا اور مجھ سے نظریں ملائے بغیر اپنی گاڑی میں بیٹھا اور چلتا بنا۔ میں اپنی گاڑی ہی میں بیٹھا مجدی کو دور جاتا دیکھتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن مجدی میرے آفس نہیں آیا۔ مجھے پتا تھا کہ وہ ناراض ہے۔ میں نے بھی اسے کال نہیں کی تا کہ ایک دو دن میں وہ ٹھنڈا ہو جائے پھر بات کروں گا۔ دلاور کا بھی کچھ پتا نہیں تھا کہ کہاں ہے۔ میرے اور مجدی کی کال تو اس نے ریسیو نہیں کی تھی مگر خود بھی ہمیں کانٹیکٹ کرنے کی کوشش نہ کی۔ میں اسی کی کال کا انتظار کر رہا تھا کہ خیریت ہو۔ کچھ دنوں پہلے ہی وہ میرے ساتھ تھا اور خوشی خوشی اپنا پاسپورٹ رینیو اور میڈیکل ٹیسٹ کروایا تھا۔ مگر اس ان کے بعد سے اس کا کچھ پتا نہ تھا۔

میں نے وٹس ایپ کھولا اور اسے چیک کیا۔ وہ کچھ منٹ پہلے وٹس ایپ پر آن لائن تھا۔ میرا دل چاہا کہ پھر اسے کال کروں مگر پھر کچھ سوچ کر میں رک گیا اور مناسب سمجھا کہ اسے وٹس اپ پر ایک میسج کر دوں۔
’’السلام علیکم جناب! کہاں غائب ہیں آپ۔۔۔؟؟؟ کل تمہیں کال کرتے رہے تم نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔۔۔
کہاں ہو؟ کال می۔‘‘ میں نے ایک چھوٹا سا میسج لکھ کر دلاور کو سینڈ کر دیا۔

پانچ دس منٹ بعد تک میں میسج چیک کرتا رہا۔ مگر وہ پڑھا نہیں گیا تھا۔ پھر میں بھی اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ تین چار گھنٹے بعد نظر آیا کہ دلاور میرا وٹس اپ میسج پڑھ چکا ہے۔ مگر اب تک اس کی کوئی کال یا میسج کا جواب نہیں آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔

دلاور اپنے کمرے میں رکھی ایک ریوارولنگ چیئر پر پڑا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں کمرے کی چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہی تھیں۔ جیسے اسے سکتا ہو گیا ہو۔ کمرے میں ایک پرسرار خاموشی کا راج تھا۔ وہ کمرا جہاں ہر وقت ٹی وی یا ڈیک کا شور گونجتا رہتا تھا۔۔۔ کوئی نہ کوئی آتا جاتا رہتا تھا ۔ وہاں اس دن ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ دلاور ایسانڈھال سا پڑا ہوا تھا جیسے اس میں جان ہی نہ ہو۔ وہ شخص جسے سنجیدگی کبھی چھو کر ہی نہ گزری ہو ۔۔۔ ہر دم چہکتے رہنا اور خوش و خرم رہنا جس کا وطیرہ ہو۔۔۔ اس دن اس کی چہرے پرانتہائی مایوسی چھلک رہی تھی۔

دیر تک سر اوپر کئے ایک ہی نکتے کو دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہو گیا ۔مشکل سے اس کی پلکوں نے جنبش لی۔ اس کی گردن بھی جھک گئی۔ شاید ایک ہی طرح سے بت بنے بیٹھے رہنا اب اس کی لئے ممکن نہ رہا۔ اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ ہاتھ کرسی کے سہاروں سے پھسل کر نیچے کو ڈھلک گئے۔ اس کا جسم بے ربط سا ہو گیا۔اب اس نشست پر خود کو قائم رکھنا اس کے لئے مشکل ہو گیا تھا۔ وہ ڈھلک کر کرسی سے نیچے فرش پر پھسل گیا اور ایک ہلکی سی آواز کے ساتھ اپنے ہاتھ زمین سے ٹکا دئیے۔ وہ یوں زمین پر ہاتھ ٹکائے بیٹھا تھا جیسے کوئی مجبور اور مظلوم انسان کسی طاقتور کے در پر کسی مجرم کی طرح بے بس اور مایوس پڑا ہو۔ ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلا اور اس کی نظروں کے سامنے ٹائلوں کے فرش پر گر گیا۔

’’اے اللہ!‘‘ ایک کراہ اس کے منہ سے نکلی اور وہ کسی مردے کی طرح فرش پر چت لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

مجدی اب تک اپنی اس حرکت پر شرمندہ تھا۔ جب اس نے اس پرسرار دروازے کو کھولنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ جیسی ہی اسے اس دن والا واقعہ یاد آتا وہ سائرن اس کے کانوں میں بجنے لگتا۔ اب تو وہ یوں اس دروازے سے دوردور رہنے لگا تھا جیسے اسے ہاتھ لگاتے ہی اسے کوئی ناگ ڈس جائے گا۔ اس دن کوئی خاص کام نہ تھا۔ وہ اپنی کیبن میں بیٹھا بور ہو رہا تھا ۔وہ ادھر اُدھر کی باتیں سوچنے لگا۔ اس کے ارد گرد کوئی نہیں بیٹھتا تھا۔ ایک دو کیبن چھوڑ کر کچھ لوگ بیٹھتے تھے۔ ویسے تو وہاں کا ماحول بڑا کھچا کچھا سا ہوا کرتا تھا۔ مگر اس دن اسے ہر تھوڑی دیر بعد کچھ مختلف اور غیر معمولی حرکت ہوتی نظر آتی۔

وہ ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ پرویز صاحب ایک اور شخص کے ساتھ باہر ہال میں آئے اور ہال کے مین گیٹ پر کھڑے ہو کر جلدی جلدی کچھ باتیں کرنے لگے۔ مجدی زرا سنبھل کر بیٹھ گیا۔ وہ پرویز صاحب کو کچھ روز تک اپنی شکل نہیں دکھانا چاہتا تھا کہ کہیں اس روز کے واقعے کے بارے میں وہ اسے کوئی بات نہ کہہ دیں۔ تھوڑی ہی دیر میں باہر سے کچھ لوگ آئے اور پریز صاحب کے روم میں چلے گئے۔ پھر کچھ دیر میں وہ نکل آئے۔ مجھے اتنا پتا چل گیا تھا کہ وہ انٹیریئر ڈیکوریشن اور فرنیشنگ کی کوئی ٹیم تھی۔

پھر کچھ دیر میں مجدی کے کیبن سے ایک دو کیبن چھوڑ کر اس کے دو کولیگز آپس میں کچھ کھسر پھسر کرنے لگے۔ چور کی داڑھی میں تنکا۔ مجدی کو ہر بات اپنے ہی خلاف ہوتی محسوس ہورہی تھی۔ شاید وہ اس دن کے واقعے سے کچھ ذیادہ ہی شرمندہ ہو گیاتھا۔ بہر حال سب کچھ اتنا نارمل بھی نہ تھا۔ مجدی کے خیال میں کچھ تو غیر معمولی ہلچل آفس میں ہو رہی تھی جسے اس سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
مجدی نے اپنا سر جھٹکا اور بلا ضرورت اپنے لیپ ٹاپ پر کچھ ونڈرز اوپن اور کلوز کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن اس خفیہ بنگلے کے باہر ایک سامان لوڈ کرنے والا ٹرک کھڑا تھا۔ ٹرک کو دیکھتے ہی مجدی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ وہ سمجھ گیا تھاکہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ آفس میں کو ئی ایسی تبدیلی لائی جارہی ہے جو اس سے چھپائی جا رہی ہے۔ اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے آ رہے تھے۔ کیا آفس بند ہو رہا ہے؟ کیا اسے نکالا جا رہا ہے؟کیا آفس شفٹ ہو رہا ہے؟یا کوئی اور بات ہے؟وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بنگلے میں داخل ہوا۔

اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر زین پر پڑی۔ وہ اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھا جیسے اسی کی آمد کا منتظر ہو۔
’’ہیلو مجدی! ہاؤ آر ہو؟‘‘
’’پلیز میٹ مسٹر پرویز۔۔۔ وہ تمھارا ویٹ کر رہے ہیں۔۔۔‘‘ مجدی نے ابھی پوری طرح ’’آئی ایم فائن‘‘ بھی نہیں کہا تھا کہ زین نے اسے پرویز صاحب کا میسج دے دیا۔
’’اچھا!‘‘ مجدی چونک گیا۔ سوچنے لگا کو جانے کیا بات ہو گی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ مجدی نے غیر ارادی طور پر زین سے ہی پوچھ ڈالا۔
’’آئی ڈونٹ نو۔ مل لو۔۔۔‘‘ زین نے جواب دیا۔

اس دن اسے آفس کا فرنیچر کچھ کم کم لگا۔ پھر یک دم ایک طرف سے دو آدمی ایک ڈیبل اٹھا کر باہر کو جانے لگے۔ مجدی کو یقین ہو گیا کہ آفس شفٹ ہو رہا ہے۔
دوسرے ہی لمحے وہ ٹھٹھک کر رہ گیا۔ اسی پرسراردروازے کا ہینڈل گھوما اور ایک بھاری آواز کے ساتھ وہ دروازہ کھلنے لگا۔ وہ پلک جھپکنا بھول گیا۔ بلیک کلر کی پینٹس اور چمکدار بلیک شوز پہنے ہوئے کسی کے قدم دروازے کی چوکھٹ پر رکھے گئے۔ وہ کون ہے؟ اس کمرے سے کون نکل رہا ہے؟ یہاں اندر کیا ہے؟ یہی تو مجدی کی جستجو تھی۔ اس دن پہلی بار وہ دروازہ کھلتا ہوا وہ دیکھ رہا تھا۔
وہ پرویز صاحب تھے۔ مجدی پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگا ۔ انہوں نے بھی اسے کچھ عجیب سی نظروں سے گھور کر دیکھا اوتین چار قدم چلتے ہوئے دوسرے طرف اپنے آفس میں جانے لگے۔
’’مجدی! پلیز کم ان‘‘ پرویز صاحب نے سنجیدہ لہجے میں کہا اور اپنے آفس میں چلے گئے۔ وہ پرسرار دروازہ خود با خود آہستہ سے بند ہو گیا تھا۔

’’ہیلو سر!‘‘ مجدی پرویز صاحب کے آفس میں ان کے سامنے کھڑا تھا۔
’’پلیز سٹ !‘‘ پرویز صاحب نے اسے اس کا چیک پکڑایا۔
چیک پر ستر ہزار روپے لکھے ہوئے تھے۔یہ رقم ہمیشہ سے کوئی تین گنا ذیادہ تھی۔ عموماََ اسے بیس سے پچیس ہزار ہر ہفتے کے ملتے تھے۔ پرویز صاحب مجدی کے چہرے کے تاثرات پڑھنے لگے۔
’’اس میں بونس بھی شامل ہے۔‘‘ پرویز صاحب نے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی وضاحت کر دی۔ مجدی دل ہی دل میں خوش ہو گیا۔
’’تھینک یو سر!‘‘ مجدی نے کہا۔ اس کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ آ گئی تھی۔
’’۔۔۔ اور سنو کچھ دن کے لئے تم چھٹی پر چلے جاؤ۔۔۔ کوئی ایک ہفتہ۔۔۔ کہیں گھوم پھر آؤ۔۔۔‘‘ پرویز صاحب مسکرا کر کہنے لگے۔ ’’کچھ اور لوگوں کو بھی میں نے چھٹی دی ہے۔ ایکچلی ہم آفس شفٹ کر رہے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ اچھا!‘‘ اندازہ تو مجدی کو پہلے ہی ہو گیا تھا۔ ’’ ۔۔۔ تو کہا شفٹ ہو رہے ہیں ہم؟؟؟‘‘ مجدی نے پوچھا۔
’’ام م م۔۔۔ آآآ۔۔۔ ایک نئی لوکیشن ہے۔ کافی بڑی ہے۔۔۔ میں تمہیں بتاؤں گا کمپلیٹ ایڈریس۔۔۔‘‘ جملہ مکمل کرنے سے پہلے ہی پرویز صاحب نے فون اٹھایا اور کسی کو کال ملانے لگے۔
’’ چلو پھر ۔۔۔ سی یو۔۔۔ میری ابھی ایک میٹنگ ہے۔۔۔‘‘ پرویز صاحب نے ریسیور کان سے لگائے لگائے کہا۔
’’اوہ۔۔۔ اوکے سر۔۔۔‘‘ مجدی یک دم کھڑا ہوا اور آفس سے باہر نکل گیا۔

اس دن سب لوگوں کو ہاف ڈے دے دیا گیا تھا۔ مجدی بھی ہاف ڈے کر کے آفس سے جلدی نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

اس شام میں بے انتہا خوش تھا۔ سارے راستے چہکتے چہکتے ’روشن‘ سے واپس گھر آیا تھا۔ خوش کیوں نہ ہوتا۔ اس دن ہم سب نے ’روشن‘ جا کر سمینہ کے والد سے ان کی بیٹی کا ہاتھ جو مانگا تھا۔ڈاکٹر ذیشان تو ہماری پارٹی میں تھے۔ انہوں نے بھی سمینہ کے والد کو میرے بارے میں بتایا۔ میری خوب تعریفیں کی اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ سمینہ کے ساتھ میرا رشتہ بہت اچھا فیصلہ ہو گا۔ وہ دونوں باپ بیٹی تو ایک لاوارث کی سی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا سب کچھ تو اجڑ چکا تھا۔ ایسے حالات میں ایک شریف، کھاتا پیتا اور پڑھا لکھا نوجوان ان کی بیٹی کو اپنی عزت بنانا چاہتا ہو۔۔۔ اس سے بہتر بات اور کیا ہو سکتی تھی۔

وہ مان گئے۔ میں اور میرے سب گھر والے بہت خوش تھے۔ ہم نے دو دن بعد گھر میں ایک چھوٹی سی منگنی کی تقریب کرنے کا فیصلہ کیا۔ کوئی خاص تیاریاں نہیں کرنی تھیں۔ بس کچھ گنے چنے رشتہ دار اور قریبی دوست احباب کو بلانے کا ارادہ تھا۔ میرے لئے میرے بہترین اور قریب ترین دوست تو دلاور اور مجدی ہی تھے۔

میں نے موبائیل اٹھایا اور سب سے یہلے دلاور کا نمبر ڈائیل کیا۔
دلاور کا موبائیل گھر پر ہی پڑا تھا۔اس دن اس کی طبیعت کچھ خراب تھی۔ وہ اپنا موبائیل گھر ہی چھوڑ آیا تھا۔ موبائیل بجتا رہا اور کسی نے جواب نہ دیا۔ میں نے منہ بنا لیا۔ اور ایک دو بار اور اس کا نمبر ملایا۔ مگر بے سود۔۔۔
’’آخر یہ بندہ ہے کہاں؟؟؟‘‘ میں بڑ بڑایا۔
’’کہاں مر گیا ہے یہ؟؟؟‘‘ میں قدرے غصے اور ناراضگی کے ملے جلے انداز میں بولا۔ میرے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔ منگنی کی تقریب میں اسے دعوت تو دینی ہی تھی۔ میں نے سوچا کہ خود اس کے ہاں جا کر اس سے ملوں گا۔ اور اچھی طرح اس کی خبر لوں گا۔

پھر میں نے مجدی کو کال ملائی۔
’’السلام علیکم! کہاں ہیں جناب؟؟؟ ابھی تک ناراض ہیں کیا؟؟؟‘‘ مجدی نے جونہی کال ریسیو کی میں نے بولنا شروع کر دیا۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ مجدی نے مسکرا کر اتنا سا جواب دیا۔
’’تو کہاں گم ہیں آپ؟؟؟ اسٹور بھی نہیں آ رہے؟؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
’’ہی ہی ہی۔۔۔ بس یار کچھ موڈ نہیں تھا۔۔۔‘‘ مجدی نے ہلکا سا ہنستے ہوئے کہا۔
’’لو جی آپ کا بھی موڈ ٹھیک نہیں۔۔۔ ادھر وہ کمینہ پتا نہیں کہاں غائب ہے!!!‘‘ میں نے دلاور کی بات کی۔
’’کون؟؟؟ دلاور؟؟؟‘‘ مجدی نے بھانپ لیا۔
’’ہاں اور کون۔۔۔ بات ہوئی ہے اس سے؟؟؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں‘‘
’’چلو آج میں خود اس کی طرف جاؤں گا۔ اسے اپنی منگنی کی دعوت دینی ہے نا!!!‘‘ میں شوخی سے بولا۔
’’ہیں ؟؟؟ کیا؟؟؟ منگنی؟؟؟‘‘ اتنی جلدی بات منگنی تک پہنچ گئی۔۔۔ ما شاء اللہ !!! ماشاء اللہ!!!‘‘ مجدی نے جوشیلے انداز میں کہا۔
’’ہاں یار الحمد للہ!‘‘ میں بھی کھٍل اٹھا اور مجدی کو منگنی کی تقریب میں شرکت کی خاص دعوت دی۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’سر اس پر آپ کا نام غلط لکھا ہوا ہے۔ آپ دوبارہ چیک بنوا کر لائیں۔‘‘ مجدی بنک کے کاؤنٹر پر اپنا چیک کیش کرانے آیا تھا۔
’’غلط!!!‘‘ مجدی نے تیوری چڑھا کر کہا۔ کبھی پہلے ایسا نہیں ہوا تھا۔
’’جی۔‘‘ کیشیر نے اصرار کیا۔
مجدی نے چیک بغور پڑھا۔ اسکا نام مجدی رابرٹ تھا اور چیک پر مجدی رابن لکھ دیا کیا تھا۔ مجدی نے منہ بنالیا۔’’ لو جی!‘‘ اس کی زبان سے نکلا۔’’ اتنے ذیادہ پیسوں کا چیک تھا اور غلط لکھ دیا۔‘‘ اس نے خود سے کہا۔

’’یار ذولقر کے لئے گھڑی بھی لینی تھی۔۔۔‘‘ مجدی بڑبڑایا۔ اس کا ارادہ تھا کے میرے لئے ایک مہنگی سی گھڑی مجھے منگنی کے دن تحفے میں دے گا۔
مجدی نے طے کیا کہ رات کو آفس کا ایک چکر لگا لے گا۔ ہو سکتا ہے اسی دن دوسرا چیک مل جائے ۔ وہ عام سے کپڑے پہن کر رات کے گیارہ بجے گھر سے نکلا۔ گو کہ اسے شک تھا کہ شایدہی اس کا کام ہو کیونکہ آفس کی شفٹنگ کی وجہ سے کئی لوگوں کو چھٹی دے دی گئی تھی۔مگر پھر بھی وہ نکل پڑا۔۔۔

آفس کے بنگلے کے پاس پہنچتے ہی مجدی نے تیوری چڑھا لی۔ ’’یہ اتنے سارے لوگ کیا کر رہے ہیں یہاں؟‘‘ وہ حیرت ذدہ رہ گیا۔ بنگلے کے باہر اس کے بہت سے کولیگز کی گاڑیاں پارک تھیں۔وہ تو سمجھا تھا کہ شاید ہی کوئی موجود ہو۔۔۔بہرحال وہ گاڑی سے اترا اوربنگلے کے اندر داخل ہو گیا۔ بنگلے کے صحن میں ایک پرسرار سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔اس نے ایک نظر آسمان پر ڈالی۔۔۔ سارا آسمان سیاہی میں ڈوبا تھا۔ شاید وہ اماوس کی رات تھی۔ جب چاند نمودار نہیں ہوتا۔ اچانک ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا اس کے چہرے سے ہو کر گزر ا۔۔۔ ساتھ ہی کیاریوں میں لگے اونچے اونچے پودوں سے پتوں کے ہلنے کی ایک سراسراتی آواز آئی۔ اس نے سر گھما کر پودوں کو دیکھا۔ اس اندھیرے میں وہ بڑے خو فناک لگ رہے تھے۔ اتنے سارے لوگوں کی موجودگی کے باوجود اتنی خاموشی بڑی عجیب بات تھی۔ مگر سب وہیں موجود تھے۔ بنگلے کے اندر۔۔۔

وہ دبے پیر آگے بڑھا اور بنگلے کے اندر جانے کا دروازہ آہستہ آہستہ کھولنے لگا۔ اندر ویسا ہی ماحول تھا جیسا کچھ عرصے قبل اس نے مشاہدہ کیا تھا۔ سامنے بنے اس لکڑی کے پرسرار دروازے کے نیچے سے ہلکی ہلکی پیلی رنگ کی مدھم روشنی نکل رہی تھی۔ جیسے کسی نے اس کمر ے میں کئی شمعیں روشن کر رکھیں ہوں۔ مجدی کا دل دھڑکنے لگا۔’’ نا جانے کیا ہو رہا ہے۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں کہا اور آفس کے اندر قدم رکھ دیا۔

وہ گھور گھور کر اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر سوائے اس روشنی کے اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے دو تین قدم آگے اسی دروازے کی طرف بڑھائے۔ اب اسے کچھ ہلکی ہلکی آہٹیں سنائی دینے لگیں۔ اس نے اپنی پوری توجہ ان آوازوں کو سننے میں مرکوز کر دی۔ اس نے بے خود اپنا ایک ہاتھ اپنے دل پر رکھا اور مزید چند قدم اسی بند دروازے کی اور بڑھا دئیے۔ایک انجانہ ڈر اس کے تن بدن میں سرائیت کر گیا ۔
’’مم مم مم مم۔۔۔‘‘
’’ہم م م م۔۔۔‘‘ جیسی عجیب آوازیں اسے سنائی دینے لگیں۔ بہت سے لوگ مل کر آہستہ آواز میں ایسا کچھ کہہ رہے تھے۔
اب وہ دروازے کے عین سامنے تھا اور ایک چھوٹا سا سوراخ جس میں چابی گھمائی جاتی ہے۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو جھکایا اور اس سوراخ کے ساتھ اپنی ایک آنکھ لگا دی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

آفس کے کوئی دس بارہ افراد زمین پر ایک گھیرا ڈالے بیٹھے تھے۔ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک موم بتی تھی۔ اس گھیرے کے بیچ میں کچھ نقش و نگار بنے تھے۔ اور ان نقوش میں بھی جا بجا کچھ اشیاء رکھیں ہوئیں تھیں۔ ایک طرف ایک چمکدار سنہری بوتل رکھی تھی۔ ایک طرف ایک چاقو پڑا تھا۔ ایک نوک پر کچھ جڑی بوٹیاں رکھیں تھیں۔ ایک طرف ایک کتاب رکھی تھی۔ اور اس گھیرے کے بیچ و بیچ ایک بہت بڑا سا کالے رنگ کا پیالا بھی رکھا تھا۔

ان ہی لوگوں میں پرویز صاحب بھی موجود تھے۔ سب نے کالے رنگ کے لمبے لمبے چوغے زیب تن کر رکھے تھے۔ اس پورے گھیرے کے پیچھے کوئی بڑی سی چیز رکھی تھی۔ کسی الماری کے سائز جتنی ۔۔۔ مگر اس پر ایک سرمئی رنگ کی چادر پڑی تھی۔ جانے وہ کیا تھا!

کچھ دیر میں پرویز صاحب نے کسی انہونی زبان میں کچھ بڑبڑانا شروع کر دیا۔ خوف کے مارے مجدی پر کپکپی طاری ہو گئی۔ یوں لگ رہا تھا جیتے پرویز صاجب کسی نشے کی سی کیفیت میں ہیں۔ وہ یوں اپنا سر جھٹک جھٹک کر کچھ پڑھتے جا رہے تھے جیسے کوئی ملنگ قسم کا آدمی مدہوشی میں حرکت کرتا ہے۔ مجدی کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھر آئیں۔
۔۔۔پھر پرویز صاحب اٹھے اور باقی تمام افراد بھی کھڑے ہو گئے۔ سب نے اپنے اپنے ہاتھوں میں ایک ایک شمع اٹھا رکھی تھی۔

’’حزمت و علیکم یا اصحاب السحر و الوس واس من جنود ابلیس اجمعین یا ھا یا ھو۔۔۔‘‘ ایک نعرہ لگایا گیا اور سب نے مل کر یہی کلمات دہرانے شروع کر دیئے۔ پھر ان میں سے ایک آگے بڑھا اور اس بڑے سے کالے رنگ کے پیالے پر جھک گیا۔جونہی وہ کھڑا ہوا تو اس کے ہاتھ میں ایک کالی بلی کا بچہ تھا۔ سب وہی منتر بدستور پڑھ رہے تھے۔ وہ شخص گھوما اور چاقو اٹھایا۔ پھر اس پیالے کے اوپر اس بلی کی گردن دبوچ لی اور چاقو پھیر دیا۔ ’’میاؤں ‘‘ کی ایک اذیت ناک آواز سارے بنگلے میں گونج اٹھی۔ خون کی ایک دھار سے پرویز کا منہ لال ہو گیا۔ اس نے ایک ہاتھ اٹھا کر وہ خون اپنے ہاتھوں پر لگایا اور اسے کسی خونخوار جانور کی طرح چاٹنے لگا۔ اس پیالے میں کچھ خون جمع ہو گیا تھا۔

اسی شخص نے وہ خون بھرا پیا لہ اٹھایا اور اس بڑی سی چیز کی طرف بڑھنے لگا جس پر چادر چڑھی ہوئی تھی۔ پرویز صاحب سمیت سب اب اس کے پیجھے شمع لئے کھڑے ہو گئے۔ اس آدمی نے اپنی انگلیاں خون میں ڈبوئیں اور کچھ بڑبڑاتے ہوئے اس خون کی چھینٹیں اس چادر پر ڈالنے لگا۔

مجدی پر جیسے سکتا طاری ہو گیا تھا ۔ وہ کسی بت کی مانند جم گیا تھا۔ جیسے کہ اس کے جسم میں جان ہی نہ ہو۔ بے پناہ خوف سے وہ ہواس باختہ ہو گیا تھا۔

۔۔۔پھر یک دم اس شخص نے وہ سارا بچا کچا خون بھی اس چادر میں چھپی ہوئی شے پر انڈیل دیا اور ایک نعرہ مار کر وہ چادر اتار پھینکی۔ مجدی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔اس کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ وہ بہت تیز تیز کپکپارہا تھا۔ وہ ایک زور دار چیخ مار کر بھاگنا چاہتا تھا مگر جیسے اس کے قدموں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اس چادر کے پیچھے ایک بڑا سا مجسمہ تھا۔ کسی شیطان کا مجسمہ۔۔۔ جس کا بکری کا سا منہ تھا اور دو بل کھاتے سینگ بھی تھی۔ اس کا دھڑ کسی بڑے طاقتور جوان کا تھا اور پاؤں کی جگہ بکری کے کھُرتھے۔ پھر اس مجسمے میں کحھ جنبش ہوئی۔۔۔ مجدی پلک چھپکنا بھول گیا وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ خوفناک منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ اسی شیطانی مجسمے کو گھور رہا تھا۔ اس بکری کے سر والے کی آنکھیں چھوٹی بڑی ہونے لگی۔۔۔ اور پھر مجدی کی اس ایک آنکھ سے جاملیں جو چابی کے سوراخ سے لگی ہوئی تھی۔
’’مجدی اندر آؤ!‘‘ وہ شیطان چیخا۔
’’آ آ آ آ۔۔۔‘‘ ایک زور دار چیخ سے مجدی کا گلہ پھٹ گیا۔ اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔
 

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85336 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More