کشمیر لبریشن سیل، اہم بزرگ شخصیات سے انٹرویو کا سلسلہ

معاشرے کے مختلف شعبوں میں اہم ذمہ داریوں پہ فائزافراد اس دور کے حالات و واقعات کے امین بھی ہوتے ہیں۔تاہم ایسی شخصیات کم ہی ہوتی ہیں جو اپنے حاصل کردہ علم،شعور ،اہلیت اور تجربات کو تحریری صورت میں سامنے لاتے ہیں۔آزاد جموںو کشمیر لبریشن سیل نے وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کی ہدایت پہ مختلف شعبوں کی اہم بزرگ شخصیات سے انٹرویو کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔اس حوالے سے چند شخصیات کے ناموں کی فہرست تیار کی گئی ہے جس میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔میری رائے میں اس اہم کام میں کافی تاخیر ہو چکی ہے۔گزشتہ بیس سال کے دوران بالخصوص ایسی کئی شخصیات اس دنیا سے رخصت ہو گئیںجن کی وفات سے تاریخ کشمیر کے کئی اہم وقعات ہمیشہ کے لئے گم ہو چکے ہیں۔ تاہم اب بھی اس حوالے سے بزرگ ریاستی شخصیات سے مختلف ادوار اور واقعات کے بارے میں انٹرویوز کا سلسلہ بنیادی نوعیت کا اہم کام ہے۔

اس حوالے سے پہلا انٹرویو آزاد کشمیر حکومت کے سابق سنیئر بیوروکریٹ جناب طارق مسعود کا کیا گیا۔کشمیر سیل کے ڈائریکٹر آپریشن راجہ اسلم خان، ڈائریکٹر میڈیا سرور گلگتی اور سینئر صحافی اعجاز عباسی کے ہمراہ اسلام آباد کے ایک پوش سیکٹر میں واقع طارق مسعود صاحب کی رہائش گاہ پہنچے۔وقت کی پابندی کے خیال سے مقررہ وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی ہم ان کی گھر پہنچ گئے۔گھر کے باہر اور لان میں خوبصورت گھاس اور پھولوں سے بھی معلوم ہوا کہ طارق مسعود صاحب ایک باذوق شخص ہیں۔ راجہ اسلم صاحب اور طارق مسعود صاحب نے گفتگو شروع کی۔طارق مسعود صاحب کی بات چیت میں بیورو کریٹک انداز نمایاں تھا۔ اس طرح کے انٹرویو کی نوعیت عمومی انٹرویو کی نسبت الگ ہوتی ہے اور اس کے لئے انٹرویو والی شخصیت کے ساتھ'' فریکوئنسی'' کا ملنا بھی ایک اہم عنصر ہوتا ہے۔میں نے انٹرویو کی غرض و غائیت اور اہمیت کا احاطہ کرتے ہوئے انٹرویو کے مطلوبہ امور بیان کئے۔ گھر کے باہر لگے خوبصورت پھولوں کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے کہا کہ اس سے آپ کے ذوق کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔اس طرح کی چند باتوں سے طارق مسعود صاحب کی بات چیت سے بیو روکریٹک انداز غیر محسوس انداز میں ختم ہوتا محسوس ہوا اور بے تکلفی سے وستانہ انداز میں انٹرویو شروع ہو گیا۔

طارق مسعود صاحب کا تعلق مقبوضہ جموں سے ہے۔ ان کے والد محترم ڈوگرہ حکومت میں ڈاکٹر ،میڈیکل سپریٹنڈنٹ تھے۔ طارق مسعود صاحب نوعمری میں اپنے والد کی تعیناتی کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں بھی مقیم رہے۔طارق مسعود صاحب کے دادا تقسیم برصغیر سے پہلے ہی گجرات(پاکستان) منتقل ہو گئے تھے۔انہوں نے 1947ء میں ہندوئوں کی طرف سے جموں شہر میںمسلمان آبادیوں کے گھیرائو کے واقعات بھی تفصیل سے بیان کئے۔جموں کے مسلمانوں کو پاکستان جانے کے لئے سرکاری انتظام کے دھوکہ، راستے میں انتہا پسند ہندو جتھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ، ہلاک ہونے بچ جانے والوں کا بے سرو سامانی کے عالم میں پاکستان کی طرف پیدل سفر اور پاکستان کے ایک چھوٹے سے گائوں پہنچنے کا احوال۔ طارق مسعود کے خاندان والے گجرات اپنے رشتہ داروں کے پاس پہنچے،وہاں ان کے والد محترم کو ڈاکٹر کے طور پر سرکاری ملازمت مل گئی۔طارق مسعود صاحب نے راولپنڈی میں تعلیم حاصل کی اور ایل ایل بی کرنے کے بعد انہوں نے آزاد کشمیر حکومت کے پبلک سروس کمیشن کے پہلے امتحان میں شرکت کی۔آزاد کشمیر 'پی ایس سی' کے اس پہلے امتحان میں تین نوجوان پاس ہوئے جن میں خلیل احمد قریشی اورطارق مسعود(تیسرے کا نام یاد نہیں،ریکارڈنگ میں موجود ہے)شامل تھے۔

ان کی پوسٹنگ ' ایس ڈی ایم' کے طور پر کوٹلی میں ہوئی۔ اس وقت آزاد کشمیر کے تین ہی ضلعے تھے، مظفر آباد، پونچھ اور میر پور۔اسی دوران '' آپریشن جبرالٹر'' شروع ہوا۔ '' آپریشن جبرالٹر'' کے حوالے سے بھی ' ایس ڈی ایم' کے طور پر طارق مسعود صاحب معاملات میں شامل رہے تاہم ''سیکریسی'' کی وجہ سے کسی کو بھی کوئی معلومات حاصل نہ تھیں۔ طارق مسعود صاحب نے بتایا کہ '' آپریشن جبرالٹر'' اور1965 کی جنگ کے بعد بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر سے تقریبا ساڑھے چار لاکھ افراد ہجرت کر کے آزاد کشمیر آنے پر مجبور ہوئے۔ ان کی دیکھ بھال کا سرکاری سطح پر کوئی بندوبست نہ تھا۔ مہاجرین کی امداد اور آباد کاری کے حوالے سے بھی طارق مسعود صاحب نے اس معاملے کو مشترکہ عوامی ذمہ داری کے طور پر اپنا کردار سرگرمی سے ادا کیا۔اس کے بعد 1974-75ء تک مختلف امور کے حوالے سے انہوں نے بات کی۔ اسی دوران ایک ٹیلی فون کال سننے کے بعد طارق مسعود صاحب نے اطلاع دی کہ خلیل قریشی صاحب ہسپتال میں وفات پا گئے ہیں۔ اس صورتحال میں انٹرویو معطل کرنا پڑا۔طارق مسعود صاحب سے انٹرویو کا اگلا حصہ کافی دلچسپ رہے گا کہ اس میں آزاد کشمیر میں مختلف حکومتوں کے قیام،سیاسی و وفاقی امور،آزاد کشمیر کی صورتحال،آزاد کشمیر کے حکمرانوں کا کردار اور ان کا تقابلی جائزہ، اس طرح کے دیگر کئی امور اہم اور دلچسپی کا باعث ہوں گے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609806 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More