بارہ سے تین

کھانے کا شوق کسے نہیں لیکن اسکے لیے ایسی اندھیر مچانا کہ دفتروں کو تالے لگ جائیں، کلاسوں میں پڑھنے والے نہ رہیں، مزدور چلتا کام روک دیں اور ڈاکٹرز علاج سے منکر ہو جائیں۔ جی ہاں اگر تو آپ چائنہ میں ہیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ جونہی گھڑی کی سوئی بارہ کے ہندسے کو چھوتی ہے تو سبھی لوگ اپنے ہر قسم کے کام کو خیرباد کہہ کر کھانے پینے اور آرام کرنے نکل جاتے ہیں اور تین بجے تک واپس آتے ہیں۔ پھر چاہے آندھی آئے طوفان بپا ہو یا سیلاب کا خدشہ ، انہیں کوئی طاقت اپنا شیڈول تبدیل کرنے سے نہیں روک سکتی۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ خدانخواستہ چائنیز کے گھر باپ کی میت سامنے ہی کیوں نہ پڑی ہو لیکن بارہ بجتے ہی انہوں نے اسے بھی چھوڑ کے لنچ کرنے نکل جانا ہے۔یہاں ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ یہ لوگ لنچ اور آرام کرنے ہمیشہ باہر جاتے ہیں کیونکہ انکے نزدیک کام کرنے والی جگہ پر کام کے علاوہ کچھ بھی کرنا غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ مریض درد سے بلک رہا ہو گا لیکن ڈاکٹر نے لنچ کر کے ہی آنا ہے۔ لوگ دفتروں کے باہر بھلے انتظار سے پاگل ہی کیوں نہ ہو جائیں لیکن دفتر ۳ بجے ہی کھلے گا۔ تمام تعلیمی ادارے بارہ سے لے کر ۳ بجے تک بند رہتے ہیں اور بچوں اور اساتذۃ کو بارہ بجے گھر / Dormitory بھیج دیا جاتا ہے تاکہ وہ تسلی سے لنچ اور آرا م کر سکیں۔کوئی بھی اہم کام بارہ سے تین کے درمیانی وقفے میں نہیں ہو سکتا اور پھر۳ بجتے ہی تمام لوگ اپنی اپنی پوزیشنز کچھ اس طرح سنبھال لیتے ہیں کہ کسی کو ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں ہوتی۔ آج کسی کام سے ایک سکول جانا ہوا، پہنچتے پہنچتے بارہ بجکرپندرہ منٹ ہو گئے، دیکھا تو سکول بلکل سنسان اور گیٹ پر بڑا تالہ، حیرت ہوئی کہ اتنا بڑا سکول پندرہ منٹ میں خالی کیسے ہو گیا ، سوچا شاید پاکستان کی طرح یہاں بھی سکولز میں چھٹیوں کا رواج عام ہوتا ہو گا لیکن انتظامیہ سے فون پر بات کرنے پر معلوم ہوا کہ چونکہ لنچ ٹائم ہے اسلیئے سکول خالی ہے اور ۳ بجے کے مققرہ وقت پر ہی کھلے گا۔ بلکل ویسا جواب جیسے پاکستان میں گرمی کی چھٹیوں کی تپتی دوپہر میں کوئی سکول کھولنے کیلئے کئے گئے سوال پر دے۔ پہلے مجھے انکی یہ عادت بڑی مضحکہ خیز لگتی تھی کہ لو یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ابھی ۲۱ بجے نہیں کہ سب کوچ کر گئے۔کچھ پاکستانی تو ابھی تک اسی بات پہ ہنستے ہیں کہ چائینیز آخر کو اس ٹائم اتنے تسلسل سے کھاتے کیسے ہیں ۔ گو کہ میں بھی خالصتا پاکستانی ہوں او ر طنز کرنے کیساتھ ساتھ بریکس لینا مجھے بھی بہت اچھا لگتا ہے لیکن ہماری طرف ایسے تھوڑی ہوتا ہے کہ کھانے اور آرام کیلیئے ٹائم مختص کر دیا جائے۔ ہم تو ۸ بجے سے ۲ بجے تک کہیں بھی نہیں جاتے بس اپنی ہی جگہ بیٹھے رہتے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ کھانا پینا سب چھوڑ دیتے ہیں یا پھر آرام نہیں کرتے لیکن فرق یہ ہے کہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتے بھئی نظربھی تو آئے کہ ہم کام کر رہے ہیں اوراگر نہیں بھی کر رہے تب بھی کچھ تو کر ہی رہے ہیں مثال کے طور پراگر ناشتہ نہیں کر کے آئے تو ناشتہ کر رہے ہیں اور اگر کیا ہے توپھر چائے پی رہے ہیں اور اگر چائے نہیں پینی تو گھریلو اور سیاسی معاملات پر بحث کر رہے ہیں اور پھر جب دوران بحث پندرہ منٹ کی مختصر سی بریک ہوجائے تو اس میں لنچ کرنے کی پلاننگ کر تے ہیں، اب بھلا پندرہ منٹ میں لنچ کیونکر ممکن ہو، سو خالصتا دیسی لنچ کے بعدہمارے دلوں میں مالک اورملک دونوں کیلیئے محبت اور زیادہ ہو جاتی ہے لہذآہ کچھ تو ٓانکھوں میں پاکستاں کے روشن مستقبل کا عکس ڈھونڈنے نیند کا سہارا لیکردلنشیں خوابوں کے مہکتے جزیروں پر اتر جاتے ہیں جبکہ کچھ آذان کی ٓاواز سن کر ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر قبلہ رو ہو جاتے ہیں۔اب اتنا کچھ کرنے کے بعد تو چھٹی بنتی ہے اسلیئے دو بجتے ہی کاندھوں پر دن بھر کی تھکن لادھے واپس گھر کو لوٹ جاتے ہیں۔ اور پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ دن گزارنے کے باوجود بھی کام کی شرح گرتی جا رہی ہے۔ ہمارے کرسیوں پر بیٹھنے اور دفتر کھلے رکھنے کے باوجود بھی بہتری نظر نہیں آرہی ۔ پورا دن تماشا لگانے کے باوجود بھی تماش بین ہم سے خوش نہیں ہوتے ۔ سرکس کا توازن ہے کہ بگڑتا چلا جا رہا ہے اور کرتب اتنے ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے۔ لیکن ہمارے برعکس چائینہ کا معاشی معاشرتی اور تعلیمی توازن قائم ہے اور اسکی ایک بڑی وجہ یہاں کا منفرد بظاہر سادہ اور مضحکہ خیز شیڈول ہے جس میں کامیاب ترین زندگی کا سب سے بڑا راز پوشیدہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ کام ، طعام اور آرام زندگی کے تین بنیادی عناصر ہیں اور انکی اپنی منفرد حیثیت اور متعین اوقات ہیں۔ اگر آرام کے اوقات میں کام اور کام کے اوقات میں آرام ہو گا تو انسانی دماغ اپنے افعال مین توازن پیدا نہیں کر سکے گا ۔ چائنہ کا ہر باشندہ ہر حال میں صبح ۷ بجے ناشتہ، بارہ بجے لنچ اور شام ۶ بجے ڈنر کا پابند ہے۔ یہاں کے ہر دفتر میں ایک چھوٹا سا بیڈ بھی رکھا ہوتا ہے تا کہ لنچ کے بعد سستا لیا جائے۔ تمام تعلیمی اداروں میں سکول کے دورانیے کو ۳ گھنٹوں کے حساب سے ترتیب دیا ہے، یعنی پہلے تین گھنٹے کام، پھر تین گھنٹے بریک اور پھر تین گھنٹے کام، جس سے بچوں اور اساتذہ دونوں کا دماغ فوکسڈ رہتا ہے۔ جاپان میں بھی تمام اداروں میں ملازمیں کیلیئے دوپہر کی نیند لازمی ہے۔ لیکن ہماری طرف تو لوگ خصوصا بچے صبح ۸بجے سکول چلے جاتے ہیں اور ۲ بجے واپس آتے ہیں۔ درمیان میں جوپندرہ منٹ یا آدھے گھنٹے کی بریک ہوتی ہے اس میں نہ ہی لنچ ہو سکتا ہے اور نہ ہی آرام ۔ لہذآہ بچے بریک سے پہلے والی کلاسوں میں کھاتے اور بعد والی کلاسوں میں سوئے رہتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہ وہ سو پاتے ہیں نا ہی کام کر پاتے ہیں یہی حال باقی اداروں کا بھی ہے۔ سرکاری اداروں میں ہفتہ اور اتوار کی چھٹی یہاں بھی ملتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے کوئی سرکاری چھٹی جمعے یا کسی اور دن کو آجائے توہفتہ اور اتوار کو سب کام کی جگہ پہنچے ہوتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اگر ہم نے اتوار کی چھٹی فلاں دن کو منا لی تھی اور اگر اتوار کے بعد کے کسی د ن چھٹیاں آرہی ہوں تب بھی ہفتہ اتوار کو کوئی چھٹی نہیں ہوتی۔یہاں ایک ہی ہال نما دفتر میں سب کے اپنے اپنے کیبنز ہوتے ہیں جہاں کیمرے لگے ہوتے ہیں جس کی وجہ سب کی توجہ محض کام پر ہوتی ہے نہ کوئی گھریلو مسئلہ چھیڑ سکتا ہے نہ سیاست پر بحث جائز ہے ۔ جبکہ ہماری طرف کا حال ہم پاکستانیوں سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ ہمیں ۲۱ بجے بریک ملے تو ہم پاگل تھوڑی ہیں جو واپس کام پہ آئیں، یا پھر چھٹیاں مل رہی ہیں اور اپنا ہفتہ اتوار خراب کریں ۔ہمیں بڑا آفس تو ضرور چاہیئے لیکن کام کی بات آئے تو جگاڑ لگانے میں کوئی ثانی نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں اور اساتذہ دونوں پر بستوں اور کتابوں کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا جاتا جبکہ ہم موٹی کتابوں اور بھاری بستوں کے ساتھ سکول تو پہنچ جاتے ہیں لیکن تعلیم اور تدریس دونوں میں ہی پیچھے ہیں۔ وہ پاکستانی جو پاکستان میں سارا سال مفت خوری اور جگاڑ لگاتے نظر آتے ہیں وہی یہاں آکر رات ۱۱ بجے تک کام کرتے رہتے ہیں۔ہم کسی سے کم نہیں ہیں لیکن ہمارے اندر احساس برتری اس قدر زیادہ ہے کہ ہمیں خود سے آگے کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ہمیں اپنے ملک سے پیار ضرور ہے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دل سے دیسی اور ظاہرا بدیسی ہیں جسے حل کرنے کیلئے ہمیں بھی بریک کی اشدضرورت ہے ۔ ایسی بریک جو کسی حد ہمارے بریکس بھی ٹھیک کر دے۔یہی وجہ ہے کہ چائینہ اپنے مشرقی رنگوں کیساتھ ترقی، خوشحالی اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ہم مغربی رنگوں کی دھن میں اپنے مشرقی رنگ سے بھی ہاتھ دھوتے ہوتے پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ میرے تجرباتی ملک میں ایک تجربہ یہ بھی کر کے دیکھ لیا جائے شاید چائینہ کا سرخ رنگ ہمیں واقعی کسی واضح تبدیلی سے آشنا کر دے اور ہماری بحر کی موجوں میں بھی اضطراب پیدا ہو جائے۔آمین۔

 

Sidra Subhan
About the Author: Sidra Subhan Read More Articles by Sidra Subhan: 18 Articles with 18937 views *Hafiz-E-Quraan

*Columnist at Daily Mashriq (نگار زیست)

*PhD scholar in Chemistry
School of Chemistry and Chemical Engineering,
Key Laborator
.. View More