معاشرہ ترقی یافتہ ہو تو مسائل کا تصور ہی نا ممکن ہے۔ ہر
طرف وسائل ہی وسائل جنم لے رہے ہوتے ہیں ۔ سرکار بھی اپنے عوام کیلئے وسائل
کہ ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس صورت مین ممکن ہی نہیں کہ جرائم کا وجود ہو ۔ جرائم
و تنگدستی اور غربت ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث وجود میں آتے ہیں
۔ کوٹھیاں ، محلات ، بنگلے اور جھونپڑیوں میں فرق کرپشن اور جرائم کا پیش
خیمہ ہے ۔ غریب جب اپنے اور اپنے بچوں کیلئے اس غیر منصفانہ تقسیم رزق کے
نتیجے میں احساس کمتری کا شکار ہو کر دل برداشتہ ہوتا ہے تو وہ ہر طرف سے
اپنے نیچ اور کمتر ہونے کے طعنے سنتا ہے ۔ یوں یہ طعنے اسے مجبو ر کر دیتے
ہیں کہ وہ چوری ، ڈکیتی اور دیگر مجرمانہ اطوار اپنائے تا کہ اپنے بچوں کا
پیٹ پال سکے ۔ ہمارا وی آئی پی طبقہ بھی اصل میں انہی اصولوں پر کار فرما
ہو کر قوم اور ریاست کے وسائل بزور طاقت لوٹنے کے عمل میں ملوث و مشغول ہے
۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک عام آدمی قانون کی زد میں آکر ذلت کا جلد ہی شکار
ہو جاتا ہے۔ جبکہ امیر زادہ قانون کو لونڈی اور اپنی داشتہ قرار دیتا ہے ۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے بجائے اس کے کہ انہیں اپنی گرفت میں لائیں مکمل
تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ یوں کوئی بھی معاشرہ عالمی سطح پر اپنا وجود اور
اعتماد کھو دیتا ہے ۔ یہی حال ریاست پاکستان کا بھی ہے ۔ وطن عزیز میں
سیاستدانوں نے قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا جو حشر کر رکھا ہے
۔ نہایت ہی ملامت خیز ہے ۔ یہاں اس جانب بھی توجہ ضروری ہے کہ قانون کی اس
تذلیل کے ذمہ دار صرف سیاستدان ہی نہیں ۔ تفتیشی اور دیگر اداروں کے اعلیٰ
اور ادنیٰ کارندے بھی ذمہ دار ہیں ۔
معاشرے کی مجموعی اصلاح کیلئے ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس کی تعمیر و
ترقی میں بھر پور کردار اد ا کریں اور ہمارا یہ عمل مثبت طرز فکر کی صورت
میں ظہور پذیر ہو ۔ جہاں ہم ( عوام ) ریاستی مشینری ( انتظامیہ) کو
مجبورکریں کہ وہ سماج میں بگاڑ اور تخریب پیدا کرنے والے اقدامات سے گریز
کرے ۔
|