تحریر: سفیر احمد چوہدری ، اسلام آباد
شام میں جاری خانہ جنگی کو 7 سال مکمل ہو چکے ہیں اور حالات بہتر ہونے کے
بجائے دن بدن خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں 2011 میں شامی قصبے ڈیرہ سے شروع
ہونے والا نوجوانوں کا احتجاج اب ایک چھوٹی عالمی جنگ کی شکل اختیار کر چکا
ہے ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ سات سالوں میں تقریبا پانچ لاکھ شامی ہلاک
ہو چکے ہیں اور ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد بے گھر ہوچکے ہیں جو کہ شام کی
کل آبادی کا نصف ہے یہ اس صدی کا سب سے بڑا اور دلخراش واقع ہے۔
آنے والے وقتوں میں تاریخ کا سیاہ ترین باب شام اور وہاں ہونے والے مظالم
ہوں گے اور مورخ لکھے گا کہ کیسے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ہوتے ہوئے
ایک مسلمان ملک کو تباہ و برباد کر دیا گیا،کیسے ایک ہنستے بستے اور پر امن
ملک کو کھنڈر بنادیا گیا،کیسے نہتے اور معصوم عوام جن میں بڑی تعداد بچوں
کی ہے پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کئے گئے،کیسے روس اور امریکہ جیسی عالمی
قوتوں نے اپنے مفادات کی جنگ سرزمین شام پر لڑی،کیسے ترکی اور ایران جیسی
بڑی اسلامی قوتوں نے بھی ترجیح اپنے مفادات کو ہی دی،کیسے پوری اسلامی دنیا
بت بن کر اس مظلوم قوم کا تماشا دیکھتی رہی،کیسے اسلام کا قلعہ تصور کیا
جانے والا واحد ایٹمی ملک پاکستان جوکہ امریکہ نواز سعودی عرب کے لیے ہر
مسئلہ پر فوج بھیج دیتا تھا شامی مسلمانوں کی نسل کشی پر صرف احتجاج سے آگے
نہ بڑھ سکا۔
تاریخ گواہی دے گی کہ شام کے معصوم بچوں کی آہیں عرش تک سنی گئی مگر فرش
والے کیا مسلمان اور کیا غیرمسلم بت بنے یہ انسانیت سوز مظالم دیکھتے رہے
کیسے 4 سالہ ایلان کردی اپنے ہی ملک سے جان بچا کرفرار ہوتے ہوئے والدین کے
ساتھ کشتی پہ بوجھ زیادہ ہونے کی وجہ سے سمندر کی لہروں کی نذر ہوگیا اور
اس معصوم اور نئی لاش کا بوجھ سمندر بھی نا اٹھا سکا اور اسے کنارے پر
پھینک کر انسانیت سے سوال کر ڈالا،کیسے پانچ سالہ عمران کو جب کئی گھنٹے
بعد اپنے ہی گھر کے ملبے سے زندہ نکالا گیا تو وہ گرد اور خون میں لت پت
تھا مگر اس آنکھ میں کوئی آنسو نہ تھا نہ ہی زخموں کا درد بس کسی بت کی
مانند کئی گھنٹوں تک شاید یہی سوچتا رہا کہ آخر اس کا قصور کیا تھا کیوں اس
کے بچپن کے ساتھی چھین لیے گئے کیوں اسے بچپن میں ہی اتنا کچھ برداشت کرنا
پڑ رہا ہے،کیسے کافی دن بھوکا رہنے والے بچے کو جب روٹی دی گئی تو اس نے
دینے والے ڈاکٹر سے کہا کہ"کیا کوئی ایسی دوا ہے جس سے بھوک نہ لگے"،کیسے
معصوم بچے بلک بلک کر یہ پوچھتے رہے ہمارا قصور کیا ہے،کیسے اہل شام پر
زندگی تنگ کردی گئی تاریخ سب گواہی دے گی اور ہم آج کے دور کے انسان اور
خاص طور پر مسلمان تاریخ کے اس سیاہ باب کا مرکزی کردار ہوں گے جونا تو اس
ظلم کا طاقت سے مقابلہ کرسکے اور نہ ہی زبان سے اور دل میں برا کہنا جہاد
اور ایمان کا سب سے کمزور ترین درجہ ہے۔ |