حضرت عبداﷲ ابن زبیر ؓ نے اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہو
کر عرض کیا۔ ’’اما ں جان !میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ اس وقت کیا کروں
، اگر آپ کی رائے ہو تو یزید کی اطاعت قبول کرلوں‘‘۔ یہ سن کر ماں نے کہا ۔
’’بیٹا اگر تم سمجھتے ہو کہ تم حق اور سچائی کے راستے پر ہو تو مردوں کی
طرح مقابلہ کرو۔ جان کے خوف سے کسی قسم کی ذلت کو برداشت نہ کرو، عزت کے
ساتھ مقابلہ کرنا ذلت اور رسوائی کے عیش و آرام سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اگر
تم نے شہادت کا رتبہ حا صل کیا تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی‘‘۔ماں نے بیٹے کا
حوصلہ بلند کرتے ہوئے مزید کہا۔’’تم کب تک زندہ رہوگے آخر ایک روز مرنا ہی
تو ہیلہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس دنیا سے نیک نام لے کر ہی جاؤ‘‘۔بیٹے نے ماں
کی باتیں سنی تو ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا ۔ ’’میرا بھی یہی خیال
تھا۔ میں نے آپ سے صرف اپنی تسلی و تشفی کے لئے پوچھا تھا‘‘۔
نڈر ماں کے اس بیٹے نے حجاج بن یوسف کی فوج کا مکہ کی سرزمین پر بھرپور
مقابلہ کیا جس کو عبدالملک بن مروان نے بھیجاتھا ۔ حجاج نے انہیں شہید کرنے
کے بعد ان کی لاش کو مکہ میں تین دن تک سولی پر اُلٹا لٹکایا ۔ جب آپ ؓ کی
والدہ اپنی خادمہ کے ہمراہ اپنے لخت جگر کی لاش کے پاس گئیں تو بجائے رونے
پیٹنے اور آہ و زاری کرنے کے نہایت صبر اور حوصلے سے کہا ۔ ’’کیا ابھی وقت
نہیں آیا کہ یہ شہسوار اسلام و فدائے ملت گھوڑے سے نیچے اُترے ‘‘۔یہ صبر و
استقلال کی پیکر اور حوصلہ مند عظیم خاتون خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر ؓ کی
بیٹی حضرت اسماء ؓ تھیں۔ مسلمان خواتین میں آپ کو کئی اعتبار بلند مقام و
مرتبہ حاصل ہے۔ آپ ؓ اسلام کے ابتدائی دنوں میں مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ آپ ؓ
سے قبل صرف سترہ لوگ اسلام قبول کرچکے تھے۔
حضرت اسماء ؓ میں خوداری اور صاف گوئی کے اوصاف کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔
حضرت عبداﷲ ؓ کی شہادت کے بعد آپ ؓ نے ظالم وسفاک حجاج بن یوسف کو بھی منہ
توڑ جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’تو جھوٹا ہے، میرا بیٹا پرہیزگار اور عبادت گزار
تھا۔ میں نے آپ ﷺ سے سنا تھا کہ قبیلہ ثقیف سے دو آدمی پیدا ہوں گے جن میں
سے پہلا دوسرے سے بد تر ہوگا۔ ایک کذّاب (مختار ثقفی )کو تو میں دیکھ چکی
اور دوسرا ظالم میرے سامنے موجود ہے‘‘۔حجاج بن یوسف یہ تلخ جواب سن کر جل
اٹھااور پیچ و تاب کھا کر خاموش رہا۔
حضرت اسماءؓ کی شادی آپ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن العوام ؓ سے
ہوئی تھی۔ آپ ؓ کے پانچ بیٹے عبداﷲ، عروہ، منذر، عاصم اور مہاجرجبکہ تین
بیٹیاں خدیجہ، ام لحسن اور عائشہ تھیں۔ جب آپ ﷺ اپنے رفیق حضرت ابوبکر ؓ کے
ہمراہ مکہ سے ہجرت کرے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو تین دن غار ثور میں
قیام فرمایا۔ قیام کے دوران حضرت اسماء ؓ کھانا لے کر آتی تھیں جبکہ آپ ؓکا
بیٹا حضرت عبداﷲ ؓ مکہ کے حالات باہم پہنچاتا اور آپ ؓ کا غلام بکریوں کا
دودھ پہنچاتا تھا۔ قیام کے تیسرے روز آپ ﷺ نے غار سے مدینہ روانہ ہونے کا
ارادہ کیا تو آپ ؓ دو، تین دن کا کھانا اور پانی کا مشکیزہ لے آئیں۔ مشکیزہ
باندھنے کے لئے آپ ؓ نے اپنا نطاق(کمر سے باندھنے والا رومال) نکال کر اس
کے دو ٹکڑے کئے جن میں سے ایک سے کھانا اور دوسرے سے مشکیزے کا منہ
باندھا۔اس پر آپ ﷺ نے حضرت اسماء ؓ کو ’’ذات النطاقین‘‘ کا لقب عطافرمایا۔
حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ صبر و استقلال اور جرأت و بہادری کے اوصاف کے ساتھ
ساتھ علم و فضل کے میدان میں بھی بلند مرتبہ رکھتی تھیں۔ لوگوں کا آپ ؓ پر
بڑا اعتقاد تھا لہٰذا وہ ہر مصیبت اور مشکل گھڑی میں آپ ؓ کے پاس آکر دعا
کرواتے تھے۔ جب کبھی خود بیمار پڑ جاتیں تو اپنی فیاضیٔ فطرت کے باعث
غلاموں کو آزاد کرتیں۔ آپ ؓ کا انتقال تقریباً 100برس کی عمر میں ہوا اور
مکہ معظمہ میں مدفون ہیں۔ |