جموں بھارت کے زیر قبضہ ریاست جموں و کشمیر کا ایک ایسا
خطہ ہے جہاں کبھی مسلم اکثریت تھی۔ 1947میں ڈوگرہ سامراج اور جن سنگھی گٹھ
جوڑ سے لاکھوں مسلمانوں کو شہید اور لاکھوں کو پاکستان ہجرت پر مجبور کیا
گیا۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اب چند برسوں سے جموں میں پنپ رہی فرقہ
پرستانہ سوچ اپنا اثر دکھانے لگی ہے۔ہندو انتہا پسند روہنگیائی مسلمانوں کو
جموں بدر کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جنہوں نے اب اپنے مطالبات میں آصفہ قتل
کیس کی سی بی آئی انکوائری اور جموں کے ساتھ امتیاز کے نعرے بھی شامل کرلئے
ہیں۔ اس مہم کا نشانہ روہنگیائی مسلمان ہیں جبکہ جموں میں آباد غیر
ملکیوں(بنگلہ دیشی ہندوؤں ) کی تعداد لاکھوں میں ہے،اور اس پر کوئی بات
نہیں کرتا۔ ان میں مغربی پاکستانی مہاجرین،جو تقسیم کے وقت جموں منتقل
ہوگئے، بھی ہیں، تبتی باشندے بھی ہیں اور یہاں تک کہ نیپال سے تعلق رکھنے
والے باشندگان بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ایک بڑی آبادی کا
تعلق بھارتی ریاستوں سے ہے، جنہوں نے فراڈ سٹیٹ سبجیکٹ اسناد بنا کر جموں
میں جائیداد خریدی ہیں۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ روہنگیائی مسلمان
اپنے ملک میانمار( برما )میں ظالم حکومت کے ستائے ہوئے ہیں جو جان بچاکر
وہاں سے بھاگ آئے اور کوئی کہیں دربدر ہے تو کوئی کہیں۔ چند ہزار روہنگیا
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی اجازت سے جموں میں رہ رہے ہیں اور
انہیں حکومت ہند کی طرف سے بھی اجازت حاصل ہے۔اگر ہندو آبادی جموں میں غیر
قانونی طور پر بسیمغربی پاکستانی ہندوپناہ گزینوں کیلئے مکمل شہری حقوق کے
مطالبات کی حمایتکر سکتی ہے توپھر روہنگیا مسلمانوں کو انسانی بنیادوں پر
تب تک کیوں جموں میں نہیں ٹھہرایاجاسکتاجب تک کہ ان کے اپنے ملک میانمار
میں حالات ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ روہنگیاکے خلاف جموں نشین سیاسی جماعتیں،
بیوپار منڈل،مخصوص ہندو شر پسند نظریہ کے حامل ذرائع ابلاغ کے ادارے اور
انتہاپسند تنظیمیں کافی عرصہ سے مہم چلارہی ہیں اور اس مہم میں مزید کئی
معاملات بھی شامل کرلئے گئے ہیں جن میں سب سے اہم معاملہ 8سالہ معصوم بچی
آصفہ کی آبروریزی اور قتل کیس کی تحقیقات بھارتی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی
کے سپرد کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے، جو اصل میں اس تحقیقاتی عمل پر
اثرانداز ہوکر مجرموں کو بچانے کا حربہ ہی کہاجاسکتاہے۔ ورنہ ریاستی پولیس
کی تحقیقات پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں تھا۔ کٹھوعہ کی کم سن آصفہ کو ہندو
مندر میں لے بھارتی فورسز کے ساتھ کام کرنے والے ہندو سپیشل پولیس افسران
نے آبروریزی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا۔ جب کشمیر پولیس نے چند ملزمان
کو گرفتار کیا تو ہندو آ بادی مظلوم کے بجائے ملزماں کی حمایت میں میدان
میں کود پڑی۔ساتھ ہی جموں کے ساتھ امتیاز کا رونا بھی رویاجارہاہے جبکہ
حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ سب سے زیادہ امتیاز ہواہے اور کسی کا سب سے
زیادہ حق چھیناگیاہے تو وہ مقبوضہ ریاست کے خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب
ہیں، جہاں اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی مسلم آبادی کو بنیادی سہولیات تک
میسر نہیں ہیں۔
خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کے لوگوں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے
سبب جموں منتقل ہونا پڑتا ہے۔ جموں میں یہ شدت پسندانہ مہم شروع کرنے والوں
کوآزاد چھوڑ دیا گیا ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہے۔ مقبوضہ
کشمیر میں حکمران اتحادی جماعت بی جے پی کی طرف سے ان عناصر کو کہیں پوشیدہ
طور تو کہیں کھلم کھلا حمایت میسر ہو رہی ہے۔جو مسلم دشمنی میں مہم چلا رہے
ہیں۔ انسانیت کے خلاف سنگین جرم میں زیر حراست آٹھوں ملوثین کو از رُوئے
قانون اپنے کئے کی سزا دی گئی تو وومنز ایمپاورمنٹ کا بھارتی کھوکھلانعرہ
حقیقت کاروپ دھار سکے گا اور بیٹی بچاؤکا بھارتی آندولن محض ایک ڈھکوسلہ بن
کر نہ رہے گا۔ واضح ہوتا ہے کہ اس گھناؤنے جرم کے مرتکبین کی اصل نیت یہ
تھی کہ آصفہ کو بلی چڑھاکر بہ حیثیت مجموعی جموں کے1947 کی طرح مسلمانوں کو
ڈرایا دھمکایا جائے، انہیں ہندو اکثریتی ضلع کھٹوعہ سے ماربھگایا جائے تاکہ
اس ہندو فرقہ پرستانہ عمل کو ایک ہیبت ناک شکل میں پروان چڑھا کر فرقہ پرست
ووٹ بنک کو تقویت مل جائے۔ ان سیاہ باطن عزائم کو عملانے کی پاداش میں آصفہ
کی پہلے عزت لوٹی گئی اور بعد میں اس غریب بچی کو اذیتیں دے دے کر قتل
کیاگیا۔ مبصرین درست کہتے ہیں کہ جموں کے بے یارو مددگار مسلمانوں کی کہانی
سن کر ہر باشعور اور مہذب انسان کے کلیجے پر چھریاں چلتی ہیں ، اب کی بار
بھی معاملے کی وہ دُرگت ہونے کا خدشہ ہے جو جنوبی کشمیر میں شوپیان کی آسیہ
اور نیلوفر کے بارے میں نام نہادحکومتی اور تحقیقاتی سطح پر بنائی گئی۔
آصفہ کے خلاف سنگین جرم میں میں ملوث گناہ گاروں کو قانون کے کٹہرے میں
کھڑا کرنے کے خلاف جموں کے ہندو فرقہ پرستوں نے مجرموں کو جیل سے چھڑوانے
کے لئے بھوک ہڑ تال کا ہتھکنڈا بھی آزمایا، ملزموں کی علی الاعلان حمایت
میں مخلوط پی ڈی پی ، بی جے پی حکومت کے دو جموی ہندو وزارء مظاہرین کے حق
میں اپنا وزن ڈالتے ہوئے سامنے بھی آگئے، اس جرمِ عظیم میں ملوث آدم خوروں
کی پردہ پوشی کے لئے آصفہ کے کپڑے بھی پولیس کے تفتیش کاروں نے دھودیئے
تاکہ جرائم کی جانچ کر نے والی فورنسک لیباٹری مجرموں کی شناخت میں بے دست
وپا ہوکر رہے۔ یہ سارا کچھ جس منظم انداز میں ہو تارہا، اس سے یہی اخذ ہوتا
تھا جیسے فرقہ پرست عناصر گاندھی کے قاتل نتھورام گوڈسے کو دیوتا قرار دے
رہے ہیں یا جیسے یہ عقل اور اخلاق سے عاری ہجوم دلی کے دومعصوموں کے قاتل
گیتا چوپڑہ اور اور سنجے چوپڑہ کے قاتلوں رنگا اور بلا کو اپنا ہیرو جتلا
رہے ہوں۔ ہوا کا رُخ اُس وقت یکایک بدل گیا جب اُناؤاُترپردیش میں بی جے پی
کے ایک ممبر اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کے جرم کے خلاف رائے عامہ نے کڑارُخ
اختیار کیا۔ایک سال قبل ایک ہندودوشیزہ نے پولیس تھانے جاکر الزام لگایا
تھا کہ ایم ایل اے موصوف اور اس کے دیگر درندہ صفت ساتھیوں نے اس کے ساتھ
اجتماعی طور بہ جبر منہ کالا کیا ہے،متعلقہ پولیس اتھارٹیز نے مذکورہ ممبر
اسمبلی کی سیاسی قوت اور غنڈہ گردی کے پیش نظر اس کے خلاف کوئی قانونی
ایکشن لینا تو دور ایف آئی آر تک درج نہ کیا۔ سال بھر پولیس کی منت سماجت
کے باوجود جب مظلوم لڑکی وردی پوشوں سے اپنا فرض اداکروانے میں ناکام رہی
تو اس نے بالآخر انصاف کی دہائی دینے کے لئے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی کے
سرکاری بنگلے کے سا منیخودکشی کا ٹھان لی۔اس سے سٹپٹا کر مذکورہ ایم ایل اے
نے اپنے بھائی سمیت غنڈوں کے ہاتھوں مظلوم لڑکی کے باپ پر تشدد کر اکے اسے
تھانے میں بند کروایا۔ تھانے میں پولیس والوں نے زیر حراست مظلوم باپ کا
اتنا زدوکوب کیا کہ وہ دم توڑ بیٹھا۔اسی ایک جانکاہ خبر نے بھارت بھر میں
گشت لگاکر ہر قبیل وقماش کے لوگوں کواس قدر سیخ پا کیا کہ وہ مودی اور یوگی
کی حکومت میں صنفِ نازک کے ساتھ صریح ظلم وزیادتی کے خلاف کمرہمت باندھنے
پر آمادہ ہوئے اور انہیں آصفہ بھی یاد آئی۔ بہر صورت اب تاریخ اس دن کا بے
صبری سے انتظار کر ے گی جب اجتماعی ضمیر کی تشفی کے ساتھ ساتھ قانون کی
عملداری کے لئے آصفہ کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ |