یہ تصوراتی کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جس کو اﷲ تعالی نے
نہ صرف خوبصورت شکل و صورت سے نوازا بلکہ جرات و بہادری کے تمام تر علامتیں
اس کی شخصیت کا حصہ بنادیں ۔ میری مراد اسلام آباد کی ایک ایسی لڑکی سے ہے
جو ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی ٗ جہاں اس کے والد پاکستان ائیر فورس میں
سکوارڈرن لیڈر اور فائٹر پائلٹ تھے ۔ 1965 ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں
میں انہوں نے اپنی ذہانت اور شجاعت کے بے شمار جوہر دکھائے اور دشمن کو
ناقابل یقین نقصان پہنچا کر پاکستانی قوم کے تحفظ کا فریضہ انجام دیا ۔
حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں کتنے ہی سرکاری ایوارڈ اور تعریفی اسناد
عطا کی گئیں ۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ شہید ہوتے لیکن قدرت کو یہ منظور
نہیں تھا اس لیے وہ باعزت طریقے سے ریٹائر ہوگئے ۔ سکوارڈن لیڈر جس کانام
آفتاب خان تھا اس کے گھر میں 1994ء میں ایک لڑکی پیدا ہوئی جو بچپن ہی سے
سب سے الگ تھلگ تھی ۔ وہ ہنستی تو سب کو مسکرانے پر مجبور کردیتی ۔ اگر کسی
بات پر روتی تو سب کو رونے پر مجبور کردیتی ۔ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ
ضد ی بھی تھی وہ جس چیز کو پسند کرتی پھر اسی کو حاصل کرکے چھوڑتی ۔ ماں سے
زیادہ وہ اپنے والد کے قریب تھی ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ ابھی بہت
چھوٹی تھی تو والد کی انگلی تھام کر وہ ائیر بیس پہنچ جاتی ۔ جنگی جہازوں
کو دیکھ کر خوشی کااظہارکرنے کے ساتھ ساتھ سوالات کی بوچھاڑ بھی کرتی ۔
والد نہایت محبت سے اس کے تمام سوالوں کا جواب دیتے اور پھر گھر چلے آتے ۔
زندگی کے یہ بہترین دن گزرتے رہے ۔اس بچی نے زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے
لیے سکول کا راستہ اختیار کیا ۔ وہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ دونوں ہی
اپنی بہن پر جان فدا کرتے ۔سکول چھوڑنے اور واپس لانے کی ذمہ داری بھائیوں
نے آپس میں تقسیم کررکھی تھی ۔ لاڈ اورپیار سے پلی ہوئی اس لڑکی نے میٹرک
کا امتحان سائنس مضامین میں اول پوزیشن میں پاس کیا ۔
ایک دن والد نے پوچھا ۔ بیٹی تم بڑی ہوکر کیا بننا چاہتی ہو ۔تو اس نے جھٹ
سے جواب دیا ۔ابو جان میں آپ کی طرح فائٹر پائلٹ بنوں گی ۔بیٹی کے جواب سے
والد کو یقینا خوشی بھی ہوئی کیونکہ والد نے جس ملک کی حفاظت کے لیے اپنی
عمر کا بہترین حصہ وقف کیا تھا ۔اب ان کی بیٹی وطن عزیز کی حفاظت کا عزم لے
کر جوان ہو رہی تھی ۔والدنے بیٹی کوبتایا کہ آرمی ہو یا فضائیہ ۔سخت ترین
تربیتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ جسمانی ساخت کے علاوہ ذہنی صلاحیتوں کو
بھی پرکھاجاتا ہے ۔ ہر لمحے جان خطرے میں رہتی ہے ٗ زندگی سے زیادہ موت
قریب ہوتی ہے ۔ بیٹیاں تو بہت نرم و نازک ہوتی ہیں اس لیے بہترمشورہ تو یہی
ہے کہ تم میڈیکل سائنس رکھ لو اور ڈاکٹر بن کے دکھی انسانیت کی خدمت کرو ۔
( یہاں یہ بتاتا چلوں کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ابھی خواتین پاک فضائیہ
میں بطور فائٹر پائلٹ متعارف نہیں ہوئی تھیں )۔والد کے سمجھانے کے باوجود
اس لڑکی( جس کانام نائلہ تھا )کا اصرار بڑھتا ہی گیا ۔حتی کہ والدین کو
مجبوری کے عالم میں نائلہ کی بات ماننی پڑی ۔ لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے
لیے ایف ایس سی کا امتحان بہترین نمبروں میں پاس کرنا ضروری تھا ۔امتحان
ہونے میں ابھی چند ماہ باقی تھے ۔ لگن جب سچی ہوئی اور مقصد بھی اعلی ہو تو
اﷲ تعالی بھی انسان کی مددکرتاہے ۔ نائلہ نے باقی مصروفیات بالائے طاق رکھ
کر خوب پڑھائی کی اور جب رزلٹ آیا تو نائلہ اے پلس گریڈ میں 90 فیصد نمبر
لیکر ایف ایس سی کاامتحان پاس کرچکی تھی ۔ اپنی کامیابی کی اطلاع جب والدین
کو دی تو دونوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔والدہ کی آغوش میں لیٹ کر والد
کو اپنا وعدہ یاد کروایا تو والد جو پہلے ہی اپنی بیٹی کی شاندار کامیابی
پر بہت خوش تھے انہوں نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا ۔بیٹی کامیاب زندگی گزارنے
کے بے شمار شعبے موجود ہیں جن میں تم اپنی قسمت کو آزما سکتی ہو اور
کامیابیوں کی منزلیں طے کرسکتی ہے ۔ نائلہ بہت اطمینان سے والدکی باتیں سن
رہی تھی۔ جب بات مکمل ہوگئی تو نائلہ نے ایک بار پھر اصرار کرتے ہوئے کہا
ابو جان میں آپ جیسے بہادر انسان کی بیٹی ہوں ۔میں آپ کی طرح فضاؤں میں
اڑنا چاہتی ہوں ٗ میں چاہتی ہوں کہ اپنے پیارے وطن عزیز کی آپ کی طرح حفاظت
کروں ۔میری زندگی کا واحد مقصد ہی پاک فضائیہ کو جائن کرنا ہے ۔میں پاک
فضاؤں کا دفاع کرنا چاہتی ہوں۔ میں اپنے مقصد کو تب ہی حاصل کرسکتی ہوں اگر
مجھے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کی آزادی دی جائے ۔ بیٹی کے دلائل جاری تھے
ٗقریب ہی بیٹھی والدہ کبھی اپنی بیٹی کو دیکھتی تو کبھی اپنے شوہر کے چہرے
پر ابھرنے والے تاثرات کا جائزہ لیتی ۔ باپ بیٹی کے مابین ہونے والی یہ
طویل ترین میٹنگ اس نکتے پر آکے ختم ہوئی کہ نائلہ پاک فضائیہ جائن کرے گی
۔
اگلی صبح نائلہ والد کے ساتھ پاک فضائیہ کے ریکورٹمنٹ آفس جا پہنچی ۔
ریکورٹمنٹ آفس کے عملے نے ریٹائر سکوارڈن لیڈر کا والہانہ استقبال کرتے
ہوئے چائے سے تواضع کی ۔ فراغت کے بعد ریکورٹمنٹ آفس کے انچارج ونگ کمانڈر
فاروق نے آنے کی وجہ دریافت کی تو سکوارڈن لیڈر آفتاب نے بتایا کہ میری
بیٹی نے بہترین نمبروں سے ایف ایس سی کاامتحان پاس کیا ٗاس کی دلی تمنا ہے
کہ وہ فائٹر پائلٹ بنے ۔ میدان جنگ میں پہلے جو کارنامے میں نے انجام دیئے
ہیں ٗ میری یہ بہادر بیٹی ان کارناموں کا تسلسل بنے گی ۔ ونگ کمانڈر نے ایک
نظر نائلہ کو دیکھا پھر کہا سر ابھی تک پاک فضائیہ میں خواتین کو شامل کرنے
کے احکامات نہیں ملے ۔ میں آپ کا کیس بنا ائیر چیف کو بھجوا دیتا ہوں اگر
انہوں نے ہماری تجویز سے اتفاق کیا تو یقینا نائلہ پاک فضائیہ میں شامل
ہونے والی پہلی لڑکی ہوگی ۔سکوارڈن لیڈر آفتاب نے ونگ کمانڈر کی بات سے
اتفاق کیا اور دونوں باپ ٗبیٹی خوشی خوشی گھر چلے آئے ۔
ایک صبح نائلہ اپنی سہلیوں کے ساتھ جھیل سیف الملوک دیکھنے کا پروگرام
بناتی ہے ۔جب تمام سہیلیاں تھکا دینے والا سفر طے کرکے جھیل سیف الملوک
پہنچی تو انہیں تھکاوٹ بہت ہوچکی تھی چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج رات
ہوٹل میں ہی قیام کیاجائے -اگلی صبح جھیل سیف الملوک پہنچا جائے اور سارا
دن خوبصورت وادیوں کے درمیان گھری ہوئی قدرتی جھیل کا نظارہ کیا جائے ۔سفر
کی تھکاوٹ کی بنا پر بستر پر لیٹتے ہی سب گہری نیند کی وادی میں اتر گئیں
۔خواب کے بارے میں اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ انسان جو کچھ سوچتا ہے وہی
ایک فلم کی شکل میں خواب کی حالت میں نظر آنے لگتا ہے ۔ نائلہ خواب میں خود
کو فائٹر پائلٹ کے روپ میں دیکھتی ہے ۔ اس نے فائٹرپائلٹ کی وردی پہن رکھی
ہے ۔ایک پہلو میں حفاظتی ہلمٹ تھا مے وہ تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے ایف 16 کی
جانب جارہی ہے ۔ جو اس وقت رے ون پر فلائنگ کے لیے تیار کھڑا تھا ۔ جیسے ہی
وہ جہاز کے قریب پہنچتی ہے تو معاون اسے جہاز میں سوار ہونے میں مدد کرتے
ہیں ۔پھر روایتی سگنل ملتے ہی نائلہ جہاز کو رن وے پر دوڑانا شروع کرتی ہیں
۔کچھ گھبراہٹ کا احساس ضرور ہوتا ہے کیونکہ جہاز کی رفتار خاصی تیز ہوتی ہے
۔ جیسے ہی جہاز ہوا میں بلند ہوتا ہے تو نائلہ پاک فضاؤں میں اڑتے ہوئے
خودکو محسوس کرتی ہے ۔اب آسمان اور زمین کے درمیان وہ اپنے جہازپر سوار
پرندوں کی طرح کبھی سیدھا اڑتی ہے تو کبھی قلابازیاں لگاتی ہے ۔
وہ اپنے جہازکو اس قدر بلندی کی جانب لے جاتی ہے کہ بادل بھی اس کا راستہ
نہیں روک پاتے ۔ اس لمحے وہ اپنے آپ کو بہت عظیم اور قابل فخر قرار دیتی ہے
اور دل ہی دل میں تصور کرتی ہے کہ میں جس عظیم باپ کی بیٹی ہوں اسی کی طرح
دفاع وطن کے تقاضے بھی اب میں ہی پورے کروں گی ۔ وطن عزیز کا دفاع صرف ماؤں
کے بیٹے ہی نہیں کرتے ٗ پاکستانی قوم کی بیٹیاں بھی کسی سے کم نہیں۔ رات کب
ختم ہوئی اسے کچھ پتہ نہیں چلا ۔ وہ تو اس وقت نیند سے بیدار ہوئی جس ایک
سہیلی نے اسے یہ کہتے ہوئے نیند سے بیدار کیا ٗ صبح ہوچکی ہے ۔اب اٹھ جائیں
اور جھیل سیف الملوک آپ کی راہ دیکھ رہی ہے ۔ جھیل سیف الملوک کانام سنتے
ہی نائلہ اچھل کر اٹھ کھڑی ہوگئی ۔ وہ بہت خوش تھی ۔سہیلوں نے اس کی وجہ
پوچھی تو اس نے بتایا کہ میری زندگی کا واحد مقصد پاک فضائیہ میں فائٹر
پائلٹ کی حیثیت سے شامل ہونا ہے ۔ قدرت نے مجھے وہ سب کچھ دکھادیا ہے جس
کامیں تصور کیاکرتی تھی ۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں سے واپسی کے بعد مجھے
انٹرویو کال لیٹر مل جائے گا ۔ ایک سہیلی نے از راہ مذاق سے کہا اب بس بھی
کریں فلائنگ آفیسر صاحبہ جنگی جہاز اڑانے کے سپنے دیکھنا بند کرو اور ہمارے
ساتھ جھیل دیکھنے چلو ۔ جو قدرت کا شاہکار ہے ۔ نائلہ کا موڈ بہت اچھاتھا
وہ بھی جلد ہی تیار ہوگئی اور تمام سہیلیاں اکٹھی ہوکر ہوٹل سے جھیل کی
جانب چل پڑیں ۔ چاروں اطراف میں بلند و بالا برف پوش پہاڑیاں تھیں اور
سامنے گہری میں جھیل کا خوبصورت منظر نظر آرہا تھا ۔دیکھنے کو تو جھیل
زیادہ دور نہیں تھی لیکن چلتے چلتے آدھا گھنٹہ ہوگیاتب کہیں جاکر جھیل
کنارے پہنچے ۔ایک کشتی میں سوار ہوکر جھیل کی سیر کی ۔ خوب تصویریں
بنوائیں۔ دوپہر کا کھانا بھی جھیل کنارے بیٹھ کر کھایا اور شام کااندھیرا
چھانے سے پہلے ہوٹل واپس لوٹ آئیں ۔جتنے دن یہاں قیام رہا ہر دن صبح
کاآغازان خوبصورت وادیوں کی سیر سے ہوتا اور شام ڈھلنے تک زندگی کی
رعنائیوں سے خوب لطف اندوزہوا جاتا۔ نائلہ باقی تمام لڑکیوں سے اس اعتبار
سے منفرد تھی کہ وہ جہاں بھی ہوتی اس کی نگاہیں آسمان کی بلندیوں کی جانب
مرکوز ہوتیں جیسے وہ فضا میں کسی کو تلاش کررہی ہوں ۔ جب وہ پرندوں کو ہوا
میں اڑتا ہو ا دیکھتیں تو وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاکر
دعامانگتی ۔اے اﷲ مجھے بھی ان پرندوں کی طرح فضا میں پرواز کرنے کی توفیق
دی ۔
یہ حکمت الہی ہے کہ انسان کو قدرت نے جو کچھ بنانا ہوتا ہے بچپن سے ہی اس
کے تصورات ذہن میں اترنے لگتے ہیں ۔ نائلہ کے لاشعور میں بھی ایک ایسی ہی
خواہش اور کسک بچپن سے ہی جنم لے چکی تھی ٗ وہ خود کو طلسماتی دنیا کا
ہیروتصور کرتی۔ ان تصورات کو مزید تقویت دینے کا کام ان کے والد سکوارڈن
لیڈر آفتاب نے انجام دیا۔ وہ جب وردی پہنے ڈیوٹی ختم ہونے پر گھر واپس
لوٹتے تو نائلہ دروازہ کھولتے ہی انہیں سیلوٹ کرتی ۔والد شفقت سے اس کے سر
پر ہاتھ پھیرتے اور شکریہ اداکرتے ۔ جب والد اپنی کیپ اتار کر کہیں رکھتے
تو نائلہ جھٹ سے اس کیپ کو اٹھاکر اپنے سر پر ایسے رکھتی جیسے وہ حقیقت میں
وہی سکوارڈن لیڈ رہے ۔ والد ٗ اس کی بچگانہ حرکتوں پر مسکرا دیتے اور ساتھ
ہی نصیحت آمیز لہجے میں کہتے ۔ فائٹر جہاز کا پائلٹ بننا بہت مشکل کام ہے ٗ
لڑکیاں تو نرم و نازک ہوتی ہیں وہ کہاں ان سختیوں کو برداشت کرسکتی ہیں ۔
والد ابھی اپنی بات مکمل بھی نہیں کر پاتے کہ نائلہ شیرنی کی طرح دھاڑتی
اور کہتی ابو جان .... میں آپ کی بیٹی ہوں ۔میری رگوں میں آپ جیسے بہادر
انسان کا خون ہے۔ اگر چاہوں تو میں ایک ہی جست میں مارگلہ پہاڑ کی چوٹی پر
پہنچ سکتی ہوں ۔مجھے بلندیوں پر پہنچنا اور چوٹیوں کو سر کرنا اچھا لگتا ہے
۔ قدر ت نے بے شک مجھے لڑکی بنایا ہے لیکن میں مردوں سے زیادہ دلیر ہوں ٗ
میں اپنے راستے کی ہر دیوار کو پاؤں کی ٹھوکر سے دور کرنا جانتی ہوں ۔ آپ
ایک بار مجھے موقع تو دیں ۔والد ٗ بیٹی کی باتیں سننے کے بعد مسکرا دیتے
اور کہتے ٗ بیٹی تم میرے بیٹوں سے بھی زیادہ بہادر ہو۔مجھے تم پر فخر ہے
۔مجھے یقین ہے کہ وطن کی حفاظت کے حوالے سے تم میرے مشن کی تکمیل کرو گی ۔
نائلہ مسکرائی اور بولی ابا جان میری زندگی کا مقصد صرف سکوارڈن لیڈر بننا
نہیں بلکہ میں تو ائیر چیف بننا چاہتی ہوں اور دنیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ
ایک لڑکی بھی ائیر چیف بن سکتی ہے ۔ بس مجھے آپ کی دعا چاہیئے ۔
.................
جھیل سیف الملوک کی خوبصورت وادیوں کی سیر کرنے کے بعد لڑکیوں کا یہ قافلہ
واپس اسلام آباد پہنچ گیا ۔ نائلہ کو گھر واپس آئے ہوئے ابھی چند دن ہی
گزرے تھے کہ اچانک ایک دن ریکورٹمنٹ سنٹر کی جانب سے ایک خط موصول ہوا۔ جس
میں ائیر چیف کی جانب سے خواتین کو پاک فضائیہ میں بطور فائٹر پائلٹ شامل
ہونے کی اجازت دینے کی اطلاع شامل تھی ۔ جونہی یہ خط نائلہ تک پہنچا ٗ اس
کے پاؤں پر نہیں ٹک رہے تھے ۔وہ بے حد خوش تھی۔ وہ شدت سے اپنے والد کا
انتظار کررہی تھی ٗ جیسے ہی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد والد گھر پہنچے تو نائلہ
نے پہلے سیلوٹ کیا ٗ پھر والدکو وہ خط تھما دیا جو ریکورٹمنٹ سنٹر کی جانب
سے موصول ہوا تھا ۔ والد نہایت تحمل سے لفافہ کھول کر خط کا متن پڑھنے لگے
اور حیران تھے کہ پاک فضائیہ میں شامل ہونے والی پہلی لڑکی میری ہی بیٹی
ہوگی۔ والد جب خط کا متن پڑھ رہے تھے تو نائلہ کی نگاہوں والد کے چہرے پر
جمی تھیں۔وہ فیس ریڈنگ کرنا چاہتی تھی کہ والد کا تاثر کیا ہوگا لیکن اسے
اس وقت خوشی ہوئی جب والد نے اسے اپنے پہلو میں بٹھاکر مبارک باد دی اور
ریکورٹمنٹ سنٹر ساتھ جانے کی حامی بھر لی ۔
.....................
یہ دن نائلہ کی زندگی میں خوشیوں بھرا تھا۔ وہ بار بار دعاکے لیے کہتی
۔والدہ نصیحت آمیز لہجے میں کہتیں ۔بیٹیاں گھر کی رونق ہوتی ہیں انہیں
پڑھالکھاکر دوسروں کے سپرد کرنا ہوتا ہے ٗیہی کائنات کانظام ہے اور یہی دین
اسلام کا اہم سبق ۔ کیا تم نوکری کرو گی ۔اپنی تعلیم مکمل کرو تاکہ ہم
تمہارے لیے کوئی اچھا سا رشتہ ڈھونڈسکیں۔بیٹیوں کے پیدا ہوتے ہی والدین کو
ان کی بہترین تربیت اور شادی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ۔یہ مردوں کا معاشرہ ہے
اس میں لڑکیوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ تم
عجیب لڑکی ہو ۔نوکر ی بھی ایسے ادارے میں کرنا چاہتی ہوں جہاں قدم قدم پر
موت تعاقب میں ہوتی ہے ۔زندگی کی فکر کم موت کا یقین زیادہ ہوتا ہے ۔سچی
بات تو یہ ہے کہ میں نہیں چاہتی کہ تم فضائیہ کو جوائن کرو ۔ خاندان کے
معاملات میں دلچسپی لو اورزندگی گزارنے کے طریقے سیکھو۔یہی ہر لڑکی کاکام
ہے ۔نائلہ والدہ کی باتیں نہایت تحمل سے سنتی رہی پھر بولی ۔ میری سویٹ امی
۔ یہ کام تو ہر لڑکی کرتی ہے ۔تعلیم حاصل کرکے شادی کرلی ٗ بچے پیدا ہوگئے
پھر نانی اور دادی بن کے قبر میں جاسوئی ۔ میں ذرا ان سے مختلف ہوں مجھے
قدرت نے لڑکی تو بنایا ہے لیکن میں مردوں کی طرح بہادر اور جرات مند ہوں
۔مجھے پہلے اپنا مقصد پورا کرناہے پھر آپ کی خواہش کے مطابق شادی بھی کرلوں
گی اور وہ سب کچھ کروں گی جو روایتی لڑکیاں کرتی ہیں ۔
..................
انہی تصورات میں ڈوبی ہوئی نائلہ نیند کی گہری وادی میں جاسوئی ۔ اگلی صبح
جب بیدار ہوئی تو اس کا سب سے پہلا تقاضا یہی تھا کہ والد اسے اپنے ساتھ لے
کر ائیر فورس کے ریکورٹ منٹ سنٹر جائیں ۔والدجو بیٹی کی خواہشات کی تکمیل
کرنے کے لیے پہلے ہی سے تیار تھے انہوں نے نائلہ کو تیار ہونے کے لیے کہا۔
نائلہ تو پہلے ہی تیار بیٹھی تھی چند منٹوں میں ہی تیار ہوکر والد کے پاس
کھڑی تھی ۔ والد نے ایک نگاہ پاؤں سے سر کی جانب ڈالی اور کہا۔ آج تو میری
بیٹی بہت ہی خوش دکھائی دے رہی ہے ۔ دیکھتے ہیں وہ اپنے والدکاادھورا مشن
مکمل کرتی ہے یا نہیں ۔
باپ ٗ بیٹی دونوں کار میں سوار ہوکر ریکورٹمنٹ سنٹر پہنچتے ہیں جہاں ونگ
کمانڈ ر فاروق ان کا استقبال کرتے ہیں ۔سکوارڈن لیڈر آفتاب اپنی بیٹی کا
ایک بار پھر تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں ٗ میری عمر تو اب ریٹائرمنٹ تک
پہنچ رہی ہے میں نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں شہادت حاصل
کرنے کے بہت جستجو کی لیکن قدرت مجھ پر مہربان نہ ہوئی ۔ اب یہ مشن پاک
فضائیہ میں شامل ہوکر میری بیٹی انجام دے گی ۔ ونگ کمانڈر فاروق نے جواب
دیا کیوں نہیں سر۔ مجھے آپ پر اور آپ کی بہادری بیٹی پر بھی فخر ہے ۔
امیدہے کہ پاک فضائیہ کے پرسکون ماحول میں تربیتی مراحل طے کرکے نائلہ بہت
جلد فائٹر پائلٹ بن سکے گی ۔
پرسنل انٹرویو تو ہوچکا اب فزیکل فٹنس کی باری تھی ۔ نائلہ نے یہ مرحلہ بھی
شاندار طریقے سے طے کرلیا ۔ اس کے بعد نائلہ کو مزید تربیت کے لیے پاک
فضائیہ کے تربیتی مرکز رسال پور بھیج دیاگیا ۔ جب نائلہ وہاں پہنچی تو وہاں
کا ماحول بہت ہی خوشگوار محسوس ہوا ۔ جب انسان کو جنون کی حد تک پائلٹ بننے
کا شوق ہو تو ہر مشکل بھی آسان دکھائی دیتی ہے ۔ نائلہ وہاں اکیلی لڑکی
نہیں تھی بلکہ ائیر چیف کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد پانچ چھ لڑکیاں اور
بھی رسال پور کی تربیت گاہ میں تربیت کا آغاز کرچکی تھیں ۔ صبح سویرے اٹھنا
اور غسل کرنے کے بعد رنگورٹ کی وردی پہن کر پریڈ کرنا اور ڈسپلن کی پابندی
کرنا جس میں سینئر کھانے پینے ٗ اٹھنے بیٹھنے اور رات کو جلد سونے اور صبح
جلدی اٹھنے کی تربیت دیا کرتے تھے ۔ ابتداء میں تو کچھ مشکل محسوس ہوئی
لیکن جلد ہی نائلہ بھی اپنے سینئیر کے سانچے میں ڈھلتی چلی گئی ۔ سب سے
اچھی بات جو اسے تربیت گاہ میں محسوس ہوئی وہ ذاتی ریسپکٹ تھی ہر سینئیر
اور جونیئر ایک دوسرے کو پہلے سلام کرنا پھر اپنی بات شروع کرتا ۔ماحول کے
مطابق نائلہ بھی دوسرے رنگورٹ کی طرح سیلوٹ مارنا سیکھ چکی تھی اب اس کی
زمینی تربیت کا مرحلہ ختم ہونے کو تھا ۔ گراؤنڈ پریڈ میں اس نے اعلی اعزاز
حاصل کیا ۔ جس کے بعد اسے بتایا گیا کہ وہ اپنے پسندیدہ شعبے کا انتخاب کرے
۔ مختلف شعبوں میں ائیر مین ٗ آفس ورک کنٹرول ٹاور اور فائٹر پائلٹ کے شعبے
شامل تھے ۔ نائلہ نے سوچے بغیر فائٹر پائلٹ بننے کے لیے شعبہ کا انتخاب
کرلیا ۔ جبکہ باقی لڑکیوں نے اپنی اپنی پسند کے شعبوں کا انتخاب کیا۔
اب تربیت کااگلا مرحلہ شروع ہوچکا تھا نائلہ رسال پور کے اس یونٹ میں پہنچ
چکی تھی جہاں سینئیر پائلٹ مشاق طیارے اڑانے کی تربیت دیا کرتے تھے ۔ چند
ہفتے تو جہاز میں نصب فنکشن کی آپریٹنگ اور تعارف میں گزر گئے پھر ایک صبح
انسٹرکٹر کے ہمراہ نائلہ نے مشاق طیارہ اڑانا شروع کردیا ۔ابتداء میں تو
یقینا خوف محسوس ہورہاتھا لیکن جیسے ہی سمندری بگلے کی طرح اسے اعتماد حاصل
ہوا تو پھر زمین پر اس کے پاؤں ٹکتے ہی نہیں تھے وہ رات سوتے ہوئے بھی ہوا
میں پرواز کررہی ہوتی ۔ اب اس کے تصورات میں صرف تنہااورکامیابی سے پرواز
کرنا ہی رہ گیا تھا ۔ چند ماہ کی تربیت کے بعدوہ اکیلے بھی مشاق طیارہ
اڑانے لگی ۔
چھٹی ملنے پر جب وہ اپنے گھر اسلام آباد وردی پہن کر آئی تو گھرکے دروازے
پر دستک دی ۔ حسن اتفاق سے والد جو اب ریٹائرہوچکے تھے ٗانہوں نے دروازہ
کھولا جونہی انہوں نے بیٹی نائلہ کو وردی میں دیکھا تو سکوارڈن لیڈر (ر)
آفتاب نے اپنی جانباز بیٹی کو فضائی سرفروش کی طرح سیلوٹ کیا ۔ بیٹی نے بھی
سیلوٹ کا جواب دیا اور باپ کے قدموں میں گر گئی اس لمحے نائلہ کی آنکھوں
میں آنسو تھے ۔یہ آنسو خوشی اورکامیابی کی علامت تھے ۔ والد نے دونوں
ہاتھوں سے بیٹی کو اٹھایا اور سینے سے لگا کر مبارک باد دی ۔ اسی لمحے
والدہ بھی دوڑی چلی آئی کیونکہ وہ بھی نائلہ کی غیر موجودگی میں شدت سے اس
کی کمی محسوس کررہی تھی ۔ماں اور بیٹی کا ملاپ بھی خوب ہوا پھر دونوں بھائی
بار ی باری نائلہ کو ملے اور کئی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے ۔
والد نے کہا نائلہ سفر کرکے آئی ہے اسے فریش ہوجانے دو۔ کھانے پر باتیں ہوں
گی ۔ نائلہ والد کے حکم پر اپنے کمرے میں چلی گئی کچھ دیر آرام کیا پھر
شاور لے کر تازہ دم ہوگئی ۔اسی اثنامیں دوپہر کاکھانا بھی تیار ہوچکا۔ سب
نے مل کر کھانا کھایا اور تربیتی مراحل پر والد سے گفتگو کادور شروع ہوا ۔
والدنے بتایا نائلہ پاک فضائیہ کی تربیت تو مشکل ہے ہی ٗ وہاں کا ڈسپلن بھی
بہت سخت ہوتا ہے ۔ اپنے سینئر کا ہر حال میں حکم ماننا اور جہاں بھی کسی
سینئیر کا سامنا ہو تو اسے گرمجوشی سے سیلوٹ کرنانہ بھولنا ۔ اگر سیلوٹ
کرنا بھول گئی تو کڑی سزا مل سکتی ہے ۔ اپنا باس ہو یا کوئی اور سینئیر ہر
کسی کو سیلوٹ کرنا ہی تربیت کا واحد مقصد ہوتا ہے ۔ اگر جونیئر سیلوٹ کرے
تو اس کا جواب بھی اتنی ہی گرمجوشی سے دینا ہوگا ۔اس طرح طے شدہ قواعد و
ضوابط کے اندر رہتے ہوئے ہی زندگی بسر کرنے کانام پاک فضائیہ ہے ۔ یہ زمانہ
امن کی باتیں ہیں لیکن بھارت کی جانب سے ہمیشہ جارحیت کے ارتکاب کا خدشہ
رہتا ہے ۔اسی لیے پاک فضائیہ کے تمام ائیر بیس ہائی الرٹ رہتے ہیں ۔ مغرب
میں افغانستان ہےٗ جب سے وہاں امریکہ اور نیٹو کی افواج نے قدم جمائے ہیں
ان کی جانب سے بھی فضائی حملوں کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ تمہیں آگے چل کر
فائٹر پائلٹ بننا ہے جب تم مکمل پائلٹ بن جاؤ گی تو زندگی سے زیادہ موت
قریب دکھائی دے گی ۔ اب زندگی آپ کی اپنی نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی امانت
ہے ۔ تمہیں ہر لمحے چوکس و ہوشیار رہنا ہوگا ۔
تم گھر میں چھٹی پر آئی ہو اپنے سہیلوں سے ملو ٗ خوب گپ شپ کرو لیکن جو راز
ائیر فورس کی امانت ہیں انہیں کسی کے ساتھ بھی شیئر نہ کرنا ۔وہ ٹاپ سیکرٹ
ہوتے ہیں ان میں وطن کے دفاع کے بارے میں اہم معلومات شامل ہوتی ہیں جنہیں
روزانہ اپ ٹو ڈیٹ کیاجاتاہے ۔ اس مقصد کے لیے تمام ائیر بیس پر ایک سسٹم
ڈویلپ ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیوں کو پیش نظر رکھ کر
پالیسی ترتیب دی جاتی ہے ۔ جب والد نائلہ سے مخاطب تھے تو وہ سر جھکائے سن
رہی تھی اور عہد کررہی تھی کہ میں آپ جیسے غیور اور بہادر سکوارڈرن لیڈر کی
بیٹی ہو ں ۔ آپ مجھے ہمیشہ کامیاب و کامران ہی پائیں گے ۔
چھٹی کے دن تو ایسے گزرے جیسے لمحات گزرتے ہیں ۔ پھر وہ لمحہ بھی آ پہنچا
جب نائلہ اپنا بریف کیس پکڑے والدین کے گھر کی دہلیز پر کھڑی اجازت مانگ
رہی تھی ۔ والد ٗوالدہ اور سب بھائیوں کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسو چھوڑ
کر نائلہ ائیر فورس کی گاڑی میں سوار ہوکر واپس رسال پور پہنچ گئی ۔
رسال پور پہنچنے پر اسے معلوم ہوا کہ اب اسے جنگی جہاز اڑانے کی تربیت لینی
ہے ۔یہ اطلاع ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے تھی ۔ نائلہ تو پہلے دن سے ہی
تیار تھی بلکہ اس نے تو ائیر فورس جائن کرنے سے پہلے ہی جنگی جہاز اڑانے کا
تہیہ کررکھا تھا ۔ ایک اسے حکم ملا کہ وہ انسٹرکٹر وقاص سے ملیں ۔نائلہ
خوشی خوشی ٗ سکوارڈرن لیڈر وقاص کے کمر ے میں اجازت لے کر داخل ہوئی تو
وقاص نے انہیں ویلکم کیا اور اپنے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا حکم
دیا ۔ کچھ دیر تک تو تو ٹیبل پر رکھے ہوئے فائٹر جہاز کے ماڈل کی بریفنگ
ہوتی رہی ۔نائلہ نہایت توجہ سے سنتی اور دیکھتی رہی ۔ پھر انسٹرکٹر وقاص ٗ
نائلہ کو گیراج میں کھڑے دو نشستوں والے جہاز کے پاس لے آئے ۔کچھ دیر وہاں
بریفنگ دی جاتی رہی پھر برابر لگی ہوئی دو نشستوں میں سے ایک پر انسٹرکٹر
وقاص اور دوسری پر فلائنگ افیسر نائلہ بیٹھ گئی ۔ جہاز کا انجن سٹارٹ کیا ٗ
پھر رفتہ رفتہ جہاز زمین پر رینگنے لگا ۔نائلہ کے تجسس میں اضافہ ہورہا تھا
وہ خوش بھی تھی اور پرجوش بھی ۔اسی دن کے لیے تو اس نے پاکستان ائیر فورس
کو جائن کیا تاکہ وطن کے دفاع میں اپنے خاندان کا حصہ ڈال سکے ۔کچھ ہی دیر
بعد جہاز ہوا میں بلند ہوا ۔مشاق جہاز کی نسبت اس جہاز کی رفتار کہیں زیادہ
تھی اس لیے خوف کی کچھ لہر سی نائلہ کے جسم میں دوڑ گئی ۔ پھر نائلہ نے
اپنے آپ کو سنبھالا کیونکہ ایک تجربہ کار انسٹرکٹر اس کے ساتھ جہاز میں
موجود تھا جو تیز رفتار جہاز کو کنٹرول کرنے کا فن خوب جانتا تھا ۔ جہاز نے
اپنا رخ تبدیل کیااور دائرے کی شکل میں پرواز شروع کردی اب پورا شہراور ارد
گرد کے پہاڑی علاقے اس جہاز کی گرفت میں تھے کبھی وہ آسمان کی بلندیوں کو
دیکھتی تو کبھی سطح زمین پر پھیلے ہوئے سرسبز و شاداب کھیتوں کو دیکھتی ۔
رسال پور خیبر پختونخوا کے خوبصورت علاقے میں واقع ہے جہاں سے کچھ ہی دور
وادی سوات کا آغاز ہوتا ہے ۔ کابل سے بل کھاتا ہوا دریا کابل بھی اس شہر سے
زیادہ دور نہیں ہے جب جہاز فضا میں پرواز کررہاتھا تو خوبصورت وادیوں کے
ساتھ ساتھ ایک لکیر کی مانند دریائے کابل اور دریائے سندھ آپس میں ملتے نظر
آرہے تھے ۔ نائلہ کا ذہن ماضی کے دریچوں میں پہنچ چکا تھا جب وہ پرندوں کو
اڑتے ہوئے دیکھتی تو خیال کرتی یہ پرندے کیسے اڑ رہے ہیں انہیں کس طاقت نے
تھام رکھا ہے جب اس نے قرآن پاک کی اس آیت کامطالعہ کیا جس میں اﷲ تعالی
فرماتا ہے کہ کیاتم نے اڑتے ہوئے پرندوں کونہیں دیکھا جب وہ پر ہلاتے ہیں
تب بھی اڑتے ہیں اور جب وہ پروں کو سمیٹ لیتے ہیں اس وقت بھی پرواز کرتے
رہتے ہیں انہیں سوائے اﷲ تعالی کے اور کون تھام سکتا ہے ۔
نائلہ تیز رفتار جہاز کو ہوا میں اڑتا ہوا دیکھتی تو رب کا شکر ادا کرتی ۔
فضا میں ٹہلتے ہوئے بادلوں کے ٹکڑے اب اس کی گرفت میں تھے اس کا جہاز کبھی
بادلوں کے اوپر پرواز کرتاتو کبھی نیچے آجاتا ۔ نائلہ جہاز کی ورکنگ پوزیشن
کو بہت توجہ سے دیکھ رہی تھی ۔ چند ہفتے اسی طرح آزمائشی پرواز جاری رہی
پھر وہ وقت بھی آگیا جب جہاز اڑانے والی نشست پر نائلہ کو بیٹھنے کے لیے
کہا گیا اور انسٹرکٹر ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا اور نائلہ نے کامیابی سے
پرواز کو جاری رکھا تو انسٹرکٹر وقاص نے مبارک باد دیتے ہوئے خوشی کااظہار
کیا کیونکہ عام لوگوں کی نسبت نائلہ نے جلد جہاز اڑانا شروع کردیا تھا ۔
چند اور ہفتے انسٹرکٹر کی موجودگی کو جہاز میں ضروری سمجھا گیا پھر نائلہ
نے تنہا پرواز شروع کردی اور ایف 16 جہاز کو کامیابی سے اڑانے کا فن سیکھ
لیا اسے کوئٹہ ائیر بیس پر تعینات کیاگیا جہاں سے وہ پرواز کرتی ہوئی
وزیرستان ٗ طورخم اور اسلام آباد سے لاہور ہوتی ہے پھر کوئٹہ چلی جاتی ۔
اسے جہاز اڑانا اور محو پرواز رہنے کا خوب لطف آرہاتھا ۔کچھ عرصہ کوئٹہ میں
تعیناتی کے بعد اسے میانوالی ائیر بیس پر تعینات کردیا گیا جہاں ایک صبح وہ
پرواز کررہی تھی کہ اچانک جہاز میں خرابی پیدا ہوئی ۔ اس نے گبھرانے کی
بجائے خرابی کو ٹھیک کرنے کی حتی المقدور کوشش کی لیکن جہاز اس وقت ٹھیک
ہوا جب اس کی نوک چیرتی ہوئی زمین کے اندر دھنس چکی تھی ۔ جہاز کریش ہوچکا
تھا اور اس کی پائلٹ نائلہ کے جسم کے ٹکڑے پاک سرزمین پر دور دور بکھر چکے
تھے ۔
نائلہ کا وہ خواب پورا ہوچکاتھا جس کااظہار اس نے اپنے والد کے سامنے کیا
کہ میں زمین پر لیٹ کرنہیں مرنا چاہتی بلکہ میں وطن کا دفاع کرتے ہوئے جام
شہادت نوش کرنا چاہتی ہوں اوردنیا کو بتا دینا چاہتی ہوں کہ پاکستانی
بیٹیاں بھی دفاع وطن کے حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔وہ بھی وطن پر مر
مٹنے کا جذبہ رکھتی ہیں ۔
نوٹ : یہ پاک فضائیہ کی ایک فلائنگ آفیسر مریم مختارکے حوالے سے تصوراتی
کہانی ہے جو 24 نومبر 2015ء کو کندیاں ضلع میانوالی کے قریب FT-7PGطیارہ
کریش ہونے کی بنا پر جام شہادت نوش کر گئیں ۔ یاد رہے کہ مریم مختار
پاکستان ائیر فورس کی پہلی شہید فلائنگ آفیسر ہیں ۔ اس کہانی کے باقی حالات
و واقعات ایک اور فلائنگ افیسر اور ایف 16 کی پائلٹ صبا خان کی کہانی سے
اخذ کیے گئے ہیں جن کے والد پاک فضائیہ کے عظیم ہیرو رہ چکے ہیں انہوں نے
دونوں پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا لیکن شہادت کے مرتبے پر فائز نہ ہوسکے ۔
مصالحت کے تحت اس کہانی میں فلائنگ افیسر کانام نائلہ لکھاگیا لیکن یہ
حقیقت کے بالکل قریب ترین کہانی ہے جو پڑھنے والوں کو تمام معلومات فراہم
کرتی ہے ۔
|