صبا کو واپس کوٹھے آکر ایسے محسوس ہوا کہ اس کے زندان کا
دروازہ کھلتے کھلتے بند ہوگیا. اس کے دل میں عمران کے کے لئے شدید نفرت کی
لہر اٹھتی. راتوں کو اس کو بھیانک خواب دکھائی دیتے. وه اکثر خواب میں
دیکھتی کہ وہ رات کے پہر ایک خطرناک جنگل میں تنہا ننگے پاؤں بهاگ رہی ہے.
اس کے پیچھے گیدڑوں کا ایک گروہ لگا ہوا ہے. ان کے غرانے کی آوازیں اس کو
اور تیز بھاگنے پر مجبور کر رہی ہیں، مگر وہ جتنا تیز بھاگتی، گیدڑ اس کے
اتنے قریب آتے جاتے. وہ اکثر ایک چیخ مار کر جاگ جاتی. ہر دفعہ اس کا جسم
پسینے سے شرابور ہوتا اس کا دل چڑیا کی طرح کانپ رہا ہوتا. فائقہ کی موت کے
بعد یہ خواب اس کی راتوں کا حصہ سے بن گئے تھے.
آج اس کی عزیز ترین دوست کی منگنی کی تقریب تھی. بہت منتوں کے بعد وہ ستارہ
بیگم سے اجازت لینے میں کامیاب ہوئی.
اس نے حسب عادت سادہ سے کپڑے پہنے اور ہلکا سا میک اپ کیا. جب وہ شمائلہ کی
طرف پہنچی تو اس کی امی نے ایک زرتار عنابی شراره سیٹ اس کو پکڑایا اور کہا
کہ "بیٹا! شمائلہ نے اپنی منگنی کی تقریب کے لئے اپنی عزیز از جان دوست کے
لئے یہ جوڑا بڑے پیار سے بنوایا ہے اور اگر صبا اس کو پہنے گی تو ان سب کو
بہت اچھا لگے گا. شمائلہ اور اس کی امی کے اصرار پر صبا نے وه جوڑا پہن
لیا. شمائلہ کے میک اپ آرٹسٹ نے ہی اس کا میک اپ کردیا. میچنگ جیولری اور
چوڑیوں پہننے کے بعد جب صبا نے اپنا عکس آئینے میں دیکھا تو وہ ایک لمحے کے
لیے چکرا گئی ایسا روپ اور جوبن اس پر آیا تھا کہ اس کو یقین نہیں آرہا تھا
کہ وہ صبا ہی تھی. مگر اچانک اس کو یاد آگیا کہ جس بازار سے اس کا تعلق ہے
وہاں خوبصورت ہونے کا کیا مطلب ہے. وہ مرے مرے قدموں سے باہر باغ کی طرف چل
پڑی جہاں منگنی کی تقریب کا بندوبست تھا.
منگنی کی تقریب میں رنگ دلہا والوں کے آنے سے آیا. مگر دولہا کے قریبی دوست
کو دیکھ کر صبا کے قدم روک گئے. نبیل کا قریبی دوست کوئی اور نہیں ڈاکٹر
عمران تها. صبا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اس کی پیشانی پسینے سے تر ہو
گئی. اگر عمران نے اس کی حقیقت کا بهانڈه شمائلہ اور نبیل کے سامنے پهوڑ
دیا تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی. اس کو لگا پوری محفل کے
حاضرین انگلیاں اٹھا اٹھا کر اس کی طرف چلا چلا کر کہہ رہے ہوں. "یہ معصوم
نہیں بلکہ ایک طوائف ہے یہ طوائف زادی ہے."
اس نے اپنی مٹھیوں کو مضبوطی سے بند کیا. مگر ایسا لگا جیسے عمران نے اس کو
پہچانا نہیں تھا. اس نے دل میں سوچا آج میں اپنے آپ کو پہچان نہ سکی تو
عمران اس کے اس روپ میں کیسے اس کو پہچان پائے گا. یہ سوچ کر اس کو حوصلہ
ہوا.
پوری منگنی کی تقریب کے دوران عمران کی پر شوق نگاہیں اس کو گھیرے رپیں.
آخر کار کھانے کے دوران عمران اپنی پلیٹ لے کر اس کے پاس آیا اور ہولے سے
بولا
"آپ گهبرائے نہیں میں آپ کا راز افشا نہیں کرونگا. میں آپ سے معذرت چاہتا
ہوں کہ اس دن میں نے آپ کی بات پر یقین نہیں کیا."
صبا کا سانس اس کے گلے میں اٹک گیا. وہ ہکلائی
آپ نے مجھے پہچان لیا. "
عمران ہولے سے مسکرایا اور بولا
"آپ کو میں نے جس دن سے دیکھا ہے بس آپ ہی مجھے ازبر ہیں باقی سب میں بهول
گیا ہوں."
صبا کا دل اس کی بات سن کر ضدی بچے کی طرح ہمک پڑا اس نے اپنے آپ کو یاد
دلایا کہ اس شخص کی وجہ سے وہ دوبارہ زندان میں قید ہوگئی تھی. مگر پاگل دل
کی دھڑکنیں تو کسی اور واردات کی نشاندہی کررہی تھیں.
(باقی آئندہ )☆☆
|