پَنِش اے مسلم ڈے - یورپ میں مسلم دشمنی عروج پر

مسلم دشمنی اور اسلام سے عداوت کوئی آج کی پیداوار نہیں ہے، اس کا سلسلہ روزل اول سے ہے، ابتدائے اسلام میں جب مکہ مکرمہ میں مٹھی بھر لوگمسلمان تھے انہیں ہر طرح اذیت دی جاتی تھی، حضرت بلال حبشیؓ، عمار بن یاسرؓ، خباب بن ارتؓ وغیرہ وہ حضرات تھے جن پر بے تحاشہ ستم ڈھایا جاتا تھا، مکہ مکرمہ میں صرف کفار مکہ کی عداوت کا مسئلہ تھا، مدینہ منورہ ہجرت کے بعد یہود اور اہل کتاب بھی معاندین اسلام میں شامل ہوگئے، موجودہ یورپ کی مسلم دشمنی کے تانے بانے، صلیبی جنگوں سے ملتے ہیں،اہل یورپ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبی جنگوں میں جو ذلت آمیز شکست ا ٹھائی تھی وہ اب تک ان کے دل و دماغ سے محو نہیں ہوئی، ویسے گذشتہ ایک صدی سے یورپ مسلم دشمنی کی آگ میں جل رہا ہے؛ لیکن نائن الیون کے بعد مسلم دشمنی کی تازہ لہر اٹھی اور پورے یورپ میں پھیل گئی، اس دوران اسلاموفوبیا کی اصطلاح خوب زور پکڑی، پرنٹ میڈیا سے لیکر الکٹرانک میڈیا تک تمام ذرائع ابلاغ نے اس حوالہ سے کلیدی رول ادا کیا، عالمی میڈیا چونکہ صہیونیوں کے زیر قبضہ ہے؛ اس لیے اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا، اسلام اور دہشت گردی کا ہوّا اس شدت سے کھڑا کیا گیا کہ دہشت گردی اور اسلام ایک دوسرے کے مترادف سمجھے جانے لگے، اسلامی تعلیمات کے تعلق سے یہ تأثر دیا گیا کہ وہ دہشت گردی کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتی ہیں؛ بلکہ اپنے پیروکاروں کو اس پر اُکساتی ہیں، اسلام اپنے ماننے والوں کو انسانیت اور رواداری کے بجائے دیگر اہل مذاہب کے ساتھ تعصب کی تعلیم دیتا ہے، اسلام میں جمہوریت اور بقائے باہم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، پیغمبر اسلام محمد عربیﷺ نعوذ باﷲ جنگ وجدال اور قتل وقتال کے علمبردار تھے، یہ اور اس قسم کے متعدد پروپیگنڈوں کے نتیجہ میں دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عمومی نفرت کا ماحول پیدا ہوا اور اب یہ ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

دن منانا موجودہ معاشروں میں ایک عام سی بات ہے، دنیا بھر میں بہت سے دن منائے جاتے ہیں، کچھ قومی اور کچھ عالمی، عالمی یوم آب، عالمی یوم مادر، عالمی یوم خواتین، عالمی یوم حقوق انسانی وغیرہ ہر سال منائے جاتے ہیں؛ لیکن گذشتہ دنوں سوشیل میڈیا پر ایک ایسا خط نظر سے گزرا جس میں برطانیہ کے تمام شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ۳؍ اپریل کو ’’پَنِش اے مسلم ڈے‘‘یعنی مسلمانوں کو سزا دینے کا دن کے طور پر منائیں، اس قسم کے خطوط برطانیہ کے اَن گنت افراد کے موصول ہوئے ہیں،جن میں مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے کے ساتھ ان کے خلاف پرتشدد اقدامات کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، برطانیہ کی انسداد دہشت گردی پولیس ان خطوط کے بارے میں تحقیقات کررہی ہے، لندن پولیس نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی یونٹ کے افسران اس خط کے بارے میں تحقیقات کررہے ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ اس حوالہ سے متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جن کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہیں، کاؤنٹر ٹیررزم پولیس چیف سپرنٹنڈینٹ مارٹن اسنوڈن کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم مذہب کی بنیاد پر نفرت کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور افسران اس حوالے سے ملنے والی اطلاعات کی مکمل تحقیقات کریں گے، خط میں نہ صرف مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اُبھارا گیا ہے؛ بلکہ اذیت رسانی کے مختلف اقدامات پر مختلف پوائنٹس بھی دئے گئے ہیں، اس کے لیے باقاعدہ ایک فہرست بھی جاری کی گئی ہے، جس کی تفصیلات یوں ہیں: مسلمانوں کو زبانی طور پر ہراساں کرنے پر ۱۰؍پوائنٹس، مسلم خواتین کے اسکارف کھینچنے پر ۲۵؍ پوائنٹس ، چہرے پر تیزاب پھیکنے پر ۵۰؍پوائنٹس، زد وکوب کرنے پر ۱۰۰؍پوائنٹس، برقی جھٹکوں سے اذیت پہونچانے پر ۲۵۰؍پوائنٹس، پستول، چاقو یا دیگر طریقوں سے مسلمانوں کو ہلاک کرنے پر ۵۰۰؍ پوائنٹس، کسی مسجد کو بم سے اڑادینے یا نذر آتش کرنے پر ۱۰۰۰؍ پوائنٹس، اور مقدس شہر مکہ مکرمہ پر ایٹمی ہتھیار پھینکنے پر ۲۵۰۰؍پوائنٹس۔

برطانیہ میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ بہت قدیم ہے، وہاں لاکھوں مسلمان آباد ہیں اور برطانوی معاشرہ کا اٹوٹ حصہ بنے ہوئے ہیں، ملکی ترقی میں ان کا اہم کردار ہے، مختلف شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے برطانوی مسلمان امن پسند شہریوں کی حیثیت سے برطانیہ کی ترقی میں بھرپور حصہ لیتے ہیں، اس سب کے باوجود گذشتہ نصف صدی سے برطانوی معاشرہ کے اندر مسلم دشمنی کی لہر میں جو شدت آئی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے، مسلم دشمنی کو فروغ دینے میں برطانوی میڈیا سرگرم رول ادا کررہا ہے، سہ روزہ دعوت میں شائع ایک مضمون کے مطابق اس سلسلے میں برطانیہ کے دوممتاز اخبارات ’’ڈیلی میل ‘‘اور’’ ڈیلی ایکسپریس‘‘ کا کردار نمایاں نظر آتا ہے، تجزیہ نگاروں نے اعتراف کیا ہے کہ یہ دونوں اخبارات حکومت کے بہت قریب ہیں، ان اخبارات کی سرخیاں ایسے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں جو مسلمانوں کو دہشت گرد بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہیں، اس کی وجہ سے آج مغرب میں جس طرح اسلام کو دیکھا جارہا ہے اس کے متعلق Runnymede Trust نے ۱۹۷۷ء میں ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ مغرب میں اسلام ایک اجنبی چیز سمجھی جاتی ہے، اگر ڈیلی میل میں یہ لکھا جاتا ہے کہ’’ جنونی (مسلمان) موت چاہتے ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’میں برطانیہ میں پیدا ہوچکا ہوں؛ لیکن پہلے میں مسلمان ہوں‘‘ جیسی اشتعال انگیز سرخیاں شائع کریں تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ کیوں کہ یہ اخبار تو محض ان باتوں کی اشاعت کرتے ہیں جو اسلامو فوبیا کا بنیادی سبب ہیں، مضمون نگار آگے لکھتے ہیں: ’’برطانیہ کے اخبارات ڈیلی میل نے گذشتہ سالوں میں ایک کارٹون شائع کیا، جس میں عام مسلمانوں کا رول دکھایا گیا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈز ہیں، جن پر امریکہ مردہ باد کے نعرے اور برطانیہ مردہ باد جیسے نفرت آمیز نعرے درج تھے، ظاہر ہے اس سے مسلمانوں کے خلاف منفی تأثر ہی جائے گا‘‘ (سہ روز دعوت ۷؍اپریل ۲۰۱۸ء)برطانیہ میں مسلم دشمنی کی لہر کا اندازہ اسلامک ہیومن رائٹس کمیشن لندن کی جانب سے شائع کی گئی سروے رپورٹ سے کیا جاسکتا ہے، جس میں ۸۰ فیصد افراد نے کہا کہ انھوں نے خود شخصی طور پر اسلامو فوبیا کی وجہ سے مختلف مسلمانوں کو نشانہ بنتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نسلی اور مذہبی بنیادوں پر منافرت کی وجہ سے برطانیہ میں مسلمانوں کو گھیراؤ جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔

جرمنی کی صورت ِحال بھی مسلم دشمنی میں کچھ کم ابتر نہیں ہے، جرمن وزیر داخلہ کے ایک حالیہ بیان کے مطابق سال ۲۰۱۷ء میں ملک بھر میں مسلم اداروں اور افراد پر ۲۵۰ حملے کئے گئے، جن میں ۳۳؍ افراد زخمی ہوئے، باحجاب خواتین بھی ان حملوں کا شکار ہوئیں، مساجد بھی نذر آتش کردی گئیں، جرمن وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق سال گذشتہ ۶۰ مساجد پر حملے ہوئے، مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے حقیقی اعداد وشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں، بعض جرمن مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یومیہ اساس پر ان کے بنیادی انسانی حقوق پر حملے کئے جاتے ہیں۔

گذشتہ دنوں شمالی آئر لینڈ میں اسلام مخالف پمفلٹ کی تقسیم کی اطلاع اخبارات میں شائع ہوئی، شمالی آئرلینڈ کے دار الحکومت بیلفاسٹ میں پولیس کو شہر کے ریون ہل کے علاقے سے اسلام مخالف پمفلٹ ملے، یہ پمفلٹ ’’جنیریشن اسپارٹا‘‘نامی گروپ کی جانب سے بھیجا گیا ہے، اس میں صارفین کو پیغام دیا گیا ہے کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکا جائے، پمفلٹ وصول کرنے والی ایک خاتون نے کہا کہ اس میں درج کردہ تحریر کو پڑھ کر وہ سہم گئی تھیں، انھوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑ کارہے ہیں، ایک پولیس اہلکار نے کہا کہ ہم اس کو نفرت پر مبنی جرم تصور کرتے ہیں اور اس حوالے سے تفتیش کررہے ہیں، نفرت کی بنیاد پر کیا جانے والا کوئی جرم ناقابل قبول ہے، بیلفاسٹ کے اسلامی سینٹر کے عہدیدار واصف نعیم کا کہنا ہے کہ پمفلٹ بھیجنے والے اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا مقصد کمیونٹی میں ڈر اور خوف پھیلانا ہے۔

یورپ میں اسلام دشمنی کے یہ چند نمونے ہیں، سوال یہ ہے کہ مسلم دشمنی کی اس عمومی فضا میں مسلمانوں کا کیا رول ہونا چاہیے؟ جواب ظاہر ہے، امت ِمسلمہ ایک داعی امت ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس پر ایک عظیم ذمہ داری ڈالی ہے اور وہ دعوت ِاسلام کی ذمہ داری ہے، ساری دنیا اور بالخصوص یورپ کی اسلام مخالف فضا میں مسلمانوں کو نبی کریمﷺ کی مکی زندگی کے اسوہ کو اپنانا ہوگا، رسول اﷲ ﷺ نے مکی زندگی میں ایک طرف اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کے دلوں میں حقیقت ِایمان کو راسخ کرنے کی جدوجہد فرمائی، دوسری جانب اپنے مخالفین کے ساتھ کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدمت ِخلق اور دعوت الی اﷲ پر توجہ مرکوز کی، ناموافق حالات اور ناسازگار ماحول میں ہر طرح کی اذیتوں کو برداشت کرکے اسلام پر جمے رہنے کے لیے یورپ کے مسلمانوں کو اصلاحِ اعمال اور ترسیخ ایمان پر توجہ دینی ہوگی؛ ورنہ وہ یورپ کے اسلام مخالف اور بے حیائی کے سیلاب میں تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے، اس کے ساتھ غیر مسلم برادران وطن کے ساتھ انسانیت اور اسلامی اخلاق کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا،آپسی معاملات میں اعلیٰ اخلاق پیش کرنے کے ساتھ اجتماعی حیثیت سے خدمت ِخلق اور رفاہِ عامہ کے مختلف کام انجام دینے ہوں گے، نفرت کا جواب محبت سے دیا جائے تو زیادہ مؤثر ثابت ہوگا، اسلام تلوار سے پھیلا ہے؛ مگر یہ اخلاق کی تلوار ہے، اسلام کے تعارف کا سب سے مؤثر ذریعہ مسلمانوں کا طرز ِعمل اور ان کا اونچا کردار ہوتا ہے،شاید برطانیہ کے مسلمان اس حوالے سے بہت کچھ کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے حالیہ واقعہ کے بعد نفرت کا جواب محبت سے دیا گیا؛ چنانچہ پنش اے مسلم ڈے کے جواب میں خود اہل برطانیہ کی جانب سے ۳؍ اپریل کو مسلمانوں سے محبت کے دن کے طور پر منانے کی ایک منفرد مہم کا آغاز کردیا گیا، سوشیل میڈیا پر جہاں مسلمانوں سے نفرت پر مبنی مواد پھیلانے کی ترغیب دی گئی وہیں مسلمانوں سے محبت کی بھی ترغیب دی جارہی ہے، مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر Mend Community کی جانب سے Day Love Muslims کے عنوان سے مہم شروع کی گئی ہے، اس مہم کے تحت مسلمانوں کے ساتھ نیکی اور احسان کے ساتھ پیش آنے پر زور دیا گیا ہے، برطانوی اخبار میٹرو کے مطابق سوشیل میڈیا پر مسلمانوں سے نفرت کے مقابلے ، محبت کے لیے جاری عوامی مہم کو زیادہ پذیرائی ملی ہے، نسل پرستی مخالف سماجی کارکنان نے مارٹن لوتھر کنگ کے الفاظ کو استعمال کیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ اندھیرے کو اندھیرے سے ختم نہیں کیا جاسکتا، اندھیرے کو ختم کرنے کے لیے روشنی ہی واحد ذریعہ ہے، اسی طرح نفرت کا مقابلہ نفرت سے ممکن نہیں؛ بلکہ محبت ہی اس کا واحد حل ہے،مہم میں مسلمانوں سے محبت کا ایک دن مقرر کرنے پر زور دیا گیا ہے، مسلمانوں سے اچھے برتاؤ کو پوائنٹس سے ظاہر کیا گیا ہے، مسلمانوں سے خندہ پیشانی سے ملنے کے ۱۰،کافی پلانے کی دعوت کے ۲۵، مسلمانوں کے ساتھ رمضان اور عید منانے کے ۵۰۰، شام، عراق ، فلسطین، لیبیا، میانمار، یمن اور کشمیر کے مسلمانوں کی مدد کے لیے ۱۰۰۰ پوائنٹس ظاہر کئے گئے ہیں۔
 

Syed Ahmed Wameez
About the Author: Syed Ahmed Wameez Read More Articles by Syed Ahmed Wameez: 29 Articles with 24595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.