پاکستانی عدالتوں میں جدید سائنسی ایجادات کی مدد
سے مقدمات کے فیصلہ کرنے کے حوالے سے جو مدد لی جاتی ہے اِس حوالے سے عوام
الناس بالعموم اور ججز، وکلاء، صحافی بالخصوص دلچسپی رکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں
میں ہم نے دیکھا کہ ننھی زینب انصاری کے قتل ، ریپ اور اغوا کے ملزم کے
قصور وار ہونے کا تعین ڈی این اے ٹسٹ سے کیا گیا اور ملزم کو سزاوار ٹھرانے
کے لیے بھی ڈی این اے ہی بطور شہادت استعمال ہوا۔ زینب قتل کیس میں ملزم پر
302,201,363 پی پی سی اور سیکشن 7 انسداد ِ دہشت گردی 1997 کی دفعہ لگائی
گئیں۔ سیکشن 9(3) پنجاب فرینزک سائنس ایجنسی ایکٹ 2007 اور قانون شہادت کے
آرٹیکل 164 ڈی این اے ٹسٹ کو بطور شہادت عدالت تسلیم کرتی ہے ۔شہادت کو
تسلیم کیے جانے میں ڈی این ائے ایکسپرٹ کی رائے اور ڈی این اے رپورٹ مرتب
کرنے والے ایکسپرٹ پر جرح سے مشروط رکھا گیا ہے ۔ ڈی این اے ٹسٹ جنسی
زیادتی کے کیسوں میں ہوتا ہے مزید یہ کہ انسداد دہشت گردی کے قانون کے
سیکشن 27-B کے تحت الیکٹرانک اور فرانزیک شہادتوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں سول اور کریمنل کیسوں میں ڈی این ٹسٹ کی رپورٹس پر بھروسہ کیا
جاتا ہے ۔ سول کیسز میں بچوں کے والدین کے تعین اور کریمنل کیسوں میں جنسی
زیادتی کرنے والے ملزمان کے تعین کے لیے ڈی این اے ٹسٹ کو تسلیم کیا جاتا
ہے۔ سول کیسز میں بچوں کے والدین کے تعین کرنے میں ڈی این اے ٹسٹ پر بھروسہ
کرنے سے عدالتیں اِس لیے ہچکچاتی ہیں کہ قانون ِ شہادت 1884 کے آرٹیکل 128
کے مطابق بچے کی پیدائش صرف شادی ہونے کے ثبوت پر ہی ممکن ہے۔ جنسی زیادتی
کے مقدمات میں ڈی این اے کو ثانوی حیثیت حاصل ہے اور اِس رپورٹ کو مانا
جانا ایکسپرٹ کی رائے اور ایکسپرٹ پر جرح کیے جانے سے مشروط ہے۔
قصور میں زینب اور سات دوسری بچیوں کے قاتل کی گرفتاری ڈی این اے کے ذریعے
ممکن ہوئی۔ اس موقعے پر بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے
کہ ڈی این اے کے ذریعے کسی شخص کی شناخت کیسے کی جا سکتی ہے؟ڈی این اے کو
سمجھنے کے لیے عام طور پر جو مثال دی جاتی ہے وہ کسی مکان کے بلیو پرنٹ یا
نقشے کی ہے۔ جس طرح بلیو پرنٹ کے مطابق گھر تعمیر کیا جاتا ہے، ویسے ہی ڈی
این اے کے اندر ہدایات پر عمل کر کے جسم کا پورا ڈھانچہ تعمیر کیا جاتا ہے۔
جیسے ہر مکان کا تعمیر کا نقشہ الگ ہوتا ہے، ویسے ہی ہر انسان کے جسم کی
تعمیر کے لیے الگ الگ نقشے ہوتے ہیں۔اگر آپ کو کسی مکان کا نقشہ مل جائے تو
اس کی مدد سے آپ اس گھر کو پہچان سکتے ہیں۔جسم تعمیر کرنے اور اس کا نظام
چلانے کے لیے ڈی این اے کی ہدایات ایک خاص زبان میں درج ہوتی ہیں۔ اس زبان
کے حروفِ تہجی صرف چار ہوتے ہیں اور انھیں عام طور پر رومن حروف A, C, T, G
کی شکل میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ ایک انسان کا مجموعی ڈی این اے (جسے 'جینوم'
کہا جاتا ہے) تین ارب الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر یہ ساری ہدایات مکمل طور
پر لکھی جائیں تو اس سے عام سائز کی تقریباً پانچ ہزار کتابیں بن جائیں
گی۔ڈی این اے کے چار 'حروف' کسی زبان کے حروف کی طرح نہیں، بلکہ دراصل
کیمیائی مرکبات ہیں جنھیں A, C, T, G کا نام دے دیا گیا ہے اور یہ جینوم
میں ایک مخصوص ترتیب سے بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ جس طرح کسی زبان کے الفاظ
کو ایک خاص ترتیب میں لکھنے سے پوری کتاب مرتب ہو جاتی ہے، اس طرح سے ڈی
این اے کے ان مرکبات کی مخصوص تکرار سے کسی ایک مخصوص انسان کا جینوم تیار
ہو جاتا ہے۔جیسے ہر انسان کی انگلیوں کے نشان مخصوص ہوتے ہیں، بالکل اسی
طرح ہر انسان کی ڈی این کی کتاب منفرد اور مخصوص ہوتی ہے۔
ڈی این اے ٹیسٹنگ میں کیا ٹیسٹ کیا جاتا ہے؟ڈی این اے کے بنیادی حروف چونکہ
کیمیائی مرکبات پر مشتمل ہوتے ہیں، اس لیے لیبارٹری میں کیمیائی طریقوں سے
انھیں ٹیسٹ کر کے کسی ملزم کو شناخت کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کو ڈی این اے
فنگر پرنٹنگ کہا جاتا ہے۔اس مقصد کے لیے پہلا مرحلہ تو یہ ہوتا ہے کہ ملزم
کے جسم کے کسی بھی حصے سے ڈی این اے کا نمونہ مل جائے۔ یہ نمونہ اس کے
بالوں، تھوک، جنسی رطوبت، خون یا جلد کے کسی ٹکڑے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہ عمل انتہائی احتیاط سے کیا جاتا ہے کہ اسے کسی اور کا ڈی این اے آلودہ
نہ کر دے۔ اگر نمونہ حاصل کرنے والے اہلکار کو چھینک بھی آ جائے تو اس کا
ڈی این اے ملزم کے ڈی این اے کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔اس کے بعد ڈی این اے
کو صاف کیا جاتا ہے، اور اگر اس کی مقدار کم ہے تو اسے پی سی آر تکنیک کے
ذریعے بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔پنجاب فورینسک لیبارٹری کے ایک عہدے دار کے
مطابق کہ قصور میں متاثرہ لڑکیوں کے جسم سے ملزم کا ڈی این اے حاصل کرنا
آسان نہیں تھا۔ ایک جگہ سے صرف تین سپرم ملے تھے، جب کہ ایک اور لڑکی کے
جسم سے صرف تین نینوگرام (ایک گرام کا ایک اربواں حصہ) حاصل ہوا جسے حساس
طریقے استعمال کر کے اس قابل بنا دیا گیا کہ اسے ٹیسٹ کیا جا سکے۔ڈی این اے
کے ان حصوں کو کیمیائی طور پر شناخت کرنا آسان ہوتا ہے جہاں بار بار ایک ہی
حرف دہرایا گیا ہو۔ اسے شارٹ ٹینڈم ریپیٹ (STR) کہا جاتا ہے۔ کسی ایک ایس
آر ٹی کی مثال کچھ یوں ہو گی:ATATATATAT۔اس مثال میں AT پانچ بار دہرایا
گیا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کرنے والے آلات اس قسم کی تکرار کو آسانی سے پکڑ
لیتے ہیں۔ چوں کہ ہر انسان کا ڈی این اے منفرد ہوتا ہے، اس لیے اس کے اندر
پائی جانے والی تکراریں بھی منفرد ہوتی ہے۔ عام طور پر چار حروف کی تکرار
زیادہ آسانی سے پکڑی جاتی ہے۔قصور واقعے کی متاثرہ بچیوں کے جسم سے ملنے
والے ڈی این اے کا جب ملزم علی عمران کے ڈی این اے سے تقابل کیا گیا تو
معلوم ہوا کہ ان دونوں قسم کے نمونوں میں ایک ہی قسم کی تکرار ایک جیسے
مقامات پر پائی جاتی ہے۔اگر صرف چند تکراروں کے نمونے آپس میں مل جاتے ہوں
تو ایسا اتفاقی طور پر بھی ہو سکتا ہے، لیکن اگر ایک درجن یا اس سے بھی
زیادہ بار تکرار ہو بہو ایک جیسی ہو تو ایسے اتفاق کا امکان انتہائی کم
ہوتا ہے۔پولیس کے مطابق علی عمران کے ڈی این اے اور بچیوں کے جسم سے حاصل
کیے جانے والے ڈی این اے کے درمیان اتفاقی مماثلت کا امکان ایک کے مقابلے
پر 178 کواڈریلین ہے۔ یعنی 178 کے بعد 15 صفر، گویا
178,000,000,000,000,000,000۔دوسرے الفاظ میں اگر دنیا میں 178 کواڈریلین
انسان موجود ہوں، تو ان میں سے دو کے ڈی این اے کے آپس میں ملنے کا امکان
ہو سکتا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا کی مجموعی آبادی اس رقم کے مقابلے پر دو کروڑ
گنا سے بھی کم ہے اس لیے یہ بات پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ پولیس کو
اس کا مطلوب شخص مل گیا ہے۔
سیکشن 510 سی آر پی سی یہ اجازت دیتا ہے کہ سیرالوجسٹ کی رپورٹ اُسے عدالت
میں طلب کیے بغیر بھی عدالت تسلیم کرتی ہے۔ ڈی این اے رپورٹ عدالت صرف تب
تسلیم کرتی ہے جب ڈی این اے رپورٹ مرتب کرنے والے ایکسپرٹ پر عدالت میں جرح
کی گئی ہو لیکن عدالتوں میں اِس انداز میں جرح ہوتی ہے کہ ڈی این اے کی
پوری رپوٹ ہی مشکوک حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔
2016SCMR 274 کے مطابق سپریم کورٹ یہ قرار دے چکی ہے کہ ڈی این اے کی اہمیت
صرف اُس وقت ہے جب اِس رپورٹ پر جرح ہو اور ڈی این ائے رپورٹ کی حیثیت
ثانوی نوعیت کی ہے نہ کہ پرائمری ۔ 2013 CMR-203 میں سپریم کورٹ یہ قرار دے
چکی ہے کہ وہ ڈی این اے ٹسٹ کروانے کے لیے خون کا نمونہ لینے کا حکم صادر
کرئے۔ ایسا کیا جانا در حقیقت مقدمے کی سچائی جاننے کے لیے ہے۔ ایسا حکم
عدالت روٹین میں نہیں کرسکتی بلکہ فریقین کی رضا مندی اِس کے لیے ضروری ہے۔
2010 . پی ایل ڈی 422 کے مطابق عدالت نے قرار دیا ہے کہ دُنیا کے جس خطے
میں ہم رہتے ہیں وہاں اِس ٹسٹ کی رپورٹ مرتب کرنے والوں سے انسانی غلطی کا
احتمال نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
2102 YLR-652FSC کے مطابق فیڈرل شریعیت کورٹ آف پاکستان ایک مقدمے کی سماعت
میں یہ قرار دے چکی ہے کہ ڈی این اے ٹس کی رپورٹ کا فائدہ ملزم کو ہے
کیونکہ پراسیکیوشن پہلے ہی اپنا کیس ثابت کرچکا ہے۔پاکستان میں ڈی این اے
ٹسٹ کو بطور شہادت مانے جانے کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہ ہے ۔ عدالتیں
کیس ٹو کیس اِن رپورٹس کو بطور شہادت تسلیم کرتے ہیں۔ سندھ ، پنجاب کی
اسمبلیوں نے کچھ عرصہ قبل اِس حوالے سے قانون سازی کے لیے بل موو کیا ہے
لیکن اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے کالعدم قرار دینا ہے۔ ایسا قانون اسلامی
تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ جنسی زیادتی ثابت کیرنے کے لیے چار گواہان کا
ہونا ضروری ہے۔ مندرجہ بالا بحث کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ڈی
این اے ٹسٹ کو بطور شہادت جرح کیے بغیر نہیں مانا جاسکتا ۔ |