حسن دلرباء

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا
’’کیا رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک تلوار کی مثل تھا؟
تو حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا
’’نہیں، بلکہ مثلِ ماہتاب تھا۔
:: بخاری شریف، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3359
ترمذی شریف، 5 : 598، أبواب المناقب، رقم : 3636

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ایک رات چاند پورے جوبن پر تھا اور اِدھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہا کے حسنِ طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاند پر، پس میرے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے۔
:: ترمذی شریف، 5 : 118، ابواب الأدب، رقم : 2811

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’میں نے کوئی زلفوں والا شخص سرخ جوڑا پہنے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔
:: مسلم شریف، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337
ابو داؤد، 4 : 81، رقم : 4183
ترمذی شریف، 5 : 598، ابواب المناقب، رقم : 3635

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں جب میں مکہ شریف گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرما تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا پس میں آہستہ سے ان کے قریب ہو گئی۔ میں نے اپنا ہاتھ ان کے سینہ مبارک پر رکھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا کر ہنس پڑے اور آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان کی بلندیوں میں پھیل گیا۔
:: انوار المحمديه : 29،علامہ نبھانی

حضرت عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر تھا، میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس چہرہ کو اُس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ (حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔
:: مسلم شریف، 1 : 112، رقم : 121
شفاء، 2 : 30

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’میں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَنوار و تجلیات کا مُشاہدہ کیا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی، اِس لئے کہ (رُوئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہو جاؤں۔
:: جوهر البحار، 2 : 450

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
وَ أَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِيْ
وَ أَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَيْبٍ
کَأَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جمیل تر کو جنم ہی دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک) ہے، (یوں دِکھائی دیتا ہے) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ربّ نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت بنائی ہے۔
:: ديوان حضرت حسان بن ثابت : 21

ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن و جمالِ اَوجِ کمال پر تھا۔۔۔ لیکن ربِ کائنات نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال کو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر مخفی رکھا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جمال پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے تاباں کی طرف آنکھ اُٹھانا بھی مشکل ہو جاتا۔
:: جمع الوسائل، 2 : 9 ،ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ

’’حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرِ انور سے لے کر قدمِ پاک تک نور ہی نور تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حُسن و جمال کا نظارہ کرنے والے کی آنکھیں چندھیا جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اَطہر چاند اور سورج کی طرح منوّر و تاباں تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوہ ہائے حسن لباس بشری میں مستور نہ ہوتے تو رُوئے منوّر کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا ناممکن ہو جاتا۔
:: مدارج النبوة، 1 : 137،شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ

گر خدائے رحیم و کریم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمِ مبارک کی حقیقی برکات کو آج بھی ظاہر کردے تو اُس کی برکت سے مُردہ زندہ ہوجائے، کافر کے کفر کی تاریکیاں دُور ہوجائیں اور غافل دل ذکرِ الٰہی میں مصروف ہوجائے لیکن ربِ کائنات نے اپنی حکمتِ کاملہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس اَنمول جوہر کے جمال پر پردہ ڈال دیا ہے، شاید ربِ کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس اِیمان بالغیب پردہ کی صورت میں ہی ممکن ہے اور مشاہدۂ حقیقت اُس کے منافی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو مکمل طور پر اِس لئے بھی ظاہر نہیں کیا گیا کہ کہیں ناسمجھ لوگ غلُوّ کا شکار ہوکر معرفتِ اِلٰہی سے ہی غافل نہ ہو جائیں۔
:: الزبدة في شرح البردة : 60،ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ

’’حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر حسینانِ عالم کا حسن و جمال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کے مقابلے میں محض ایک جز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک کی صورت پر پیدا کئے گئے ہیں۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کو ہیبت اور وقار کے پردوں سے نہ ڈھانپا ہوتا اور کفار و مشرکین کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اندھا نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ان دنیاوی اور کمزور آنکھوں سے نہ دیکھ سکتا۔
:: مطالع المسّرات : 394،اِمام محمد مہدی الفاسی رحمۃ اﷲ علیہ
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1382505 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.