ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ ، ان کے ولی عہد کھڑک سنگھ
اور ولی عہد کھڑک سنگھ کے بیٹے کنور نہال سنگھ آپس میں اکٹھے بیٹھے تھے۔
مہاراجہ نے اپنے وزیر خارجہ فقیر عزیز الدین سے دریافت کیا ہم تینوں میں سے
زیادہ خوش نصیب کون ہے؟ اب جس کیلئے بھی فقیر صاحب خوش نصیبی کا جواب دیتے
ہیں تو باقی دونوں کی ناراضگی کا مؤجب ضرور تھا۔ فقیر نے کہا ’’مہاراجہ
صاحب! میں تو ولی عہد کھڑک سنگھ کو خوش نصیب خیال کرتا ہوں جن کو ایسا
بااقبال باپ اور ایسا اسم بامسمی نونہال ملا ہے ‘‘- اس جواب سے تینوں نسلیں
خوش ہو گئیں اور فقیر صاحب کی حاضر جوابی اور تدبر و دانائی کا اعتراف کیا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خوش نصیبی ایک دن اچانک بدنصیبی میں تبدیل ہو گئی۔
کھڑک سنگھ جو رنجیت سنگھ کا جانشین تھا نے حکم دے دیا کہ فصیل شہر سے باہر
جتنے مکان ہیں سب گرا دیئے جائیں۔ چنانچہ حضرت شاہ محمد غوثؒ کی خانقاہ بھی
اس زد میں آ گئی چونکہ مسلمانوں میں اضطراب پھیلنے کا اندیشہ تھا اس لئے
کنور نہال سنگھ خود سپاہیوں کو لے کر خانقاہ کو منہدم کرنے کے لئے آیا۔
ابھی بیرونی دیواریں ہی گرائی گئی تھیں کہ کھڑک سنگھ مر گیا۔ نہال سنگھ باپ
کی لاش کو دفن کر کے واپس آرہا تھا کہ راستے میں ہلاک ہو گیا۔ اور اس قدر
وقفہ قلیل میں ہی سب کی خوش نصیبی ختم ہو گئی۔ |