مرتبہ
تسنیم سراج الحق
نظم آغاز و ارتقاء
وسیع تر مفہوم میں نظم سے مراد پوری شاعری ہے۔ لیکن شاعری کے باب میں غزل
کے ماسوا تمام اصناف شعر کو نظم کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے مثنوی،
قصیدہ، مرثیہ بھی نظم کے دائرے میں آتی ہیں ۔چونکہ ان اصناف کی اپنی
علاحدہ شناخت قائم ہے اس لیے ہم انہیں اسی اعتبار سے پہچانتے ہیں ۔ ان
اصناف کے علاوہ بھی ہمیں ایسی نظمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں کسی موضوع
پر تسلسل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ ان کا ایک مرکزی خیال بھی ہے۔ یہ
نظمیں مختلف ہیئتوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں نظم سے مراد اسی طرز کی
شاعری سے ہے۔سب سے پہلے نظم کی یہ نمایاں شکل نظیراکبرآبادی کے یہاں پورے
آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔ نظیر نے اردو نظم کو واضح شناخت عطا کی۔
اردو نظم کا ابتدائی دور
اردو نظم نگاری کا ابتدا دکن میں ہوئی۔ مذہبی اور صوفیانہ نظموں کی شکل میں
اردو نظم کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں۔ دکن کی بہمنی سلطنت نے اردو ادب کی
خاصی پزیرائی کی ۔ عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں نے اردو ادب کے فروغ میں
بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ قلی قطب شاہ، عبداللہ قطب شاہ، ملا وجہی،غواصی،
ابنِ نشاطی وغیرہ دکن کے مشہور شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان شاعروں
اور ادیبوں کو اس عہد کے حکمرانوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ خود بادشاہ بھی شعر
و شاعری کاذوق رکھتے تھے۔ ابتدا میں میں مذہبی اور صوفیانہ نظمیں بیشتر
شعرا کی تخلیقات میں مثنوی کی شکل نظر آتی ہیں۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز
ابتدائی دور کے اہم شاعر ہیں۔ انھوں نے تصوف کے کچھ رسالے اور نظمیں تخلیق
کیں۔ ’چکی نامہ‘ ان کی مشہور نظموں میں شمار کی جاتی ہے۔
عادل شاہی عہد میں تصوف مذہبی اور اخلاقی مضامین شاعری میں غالب نظر آتے
ہیں۔ برہان الدین جانم کی نظموں میں مذہبی تعلیمات اور تصوف کے مسائل بیان
کیے گئے ہیں۔ حجت البقا، وصیت الہادی، بشارت الذکر ان کی اہم نظمیں ہیں۔
برہان الدین جانم کے مرید شیخ غلام محمد داول کے یہاں تصوف اور اخلاقی
مضامین کی کئی نظمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ چہار شہادت، کشف الانوار اور کشف
الوجود میں تصوف کے مسائل بیان کیے ہیں۔
سلطان قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ قلی
قطب شاہ نے غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی اور نظم میں طبع آزمائی کی۔ ان کے
فکر کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ان کے کلام میں مختلف موضوعات پر نظمیں دیکھی جا
سکتی ہیں۔ شب برات، عید، بسنت، برسات، اور حسن و عشق وغیرہ کا بیان بڑے
دلکش اندازمیں کیا ہے۔ ان کی یہ نظم دیکھیے:
میری سانولی من کو پیاری دِسے
کہ رنگ روپ میں کونلی ناری دِسے
سہے سب سہیلیاں میں بالی عجب
سر و قد ناری او تاری دِسے
سکیاں میں ڈولے نیہہ بازی سوں جب
او مکھ جوت تھے چندکی خواری دِسے
تو سب میں اتم ناری تج سم نہیں
کوئل تیری بولاں سے ہاری دِسے
تیری چال نیکی سب ہی من کو بھاے
سکیاں میں توں جوںپھل بہاری دِسے
بہوت رنگ سوں آپ رنگیاں کیاں
ولے کاں ترے رنگ کی ناری دِسے
نبی صدقے قطبا پیاری سدا
سہیلیاں میں زیبا تماری دِسے
دکن کے شعرا میں قلی قطب شاہ کی شاعری اپنے موضوعات کے اعتبار سے بڑی اہمیت
کی حامل ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات اور عنوانات عوامی زندگی سے بہت قریب
نظرآتے ہیں۔
جب ہم نظم نگاری کے ابتدائی دور پر نظر ڈالتے ہیں تو اس دور کی نظموں میں
موضوعات کے لحاظ سے بڑا تنوع نظر آتا ہے۔ مذہبی خیالات، تصوف کے مسائل،
حسن و عشق کا بیان، قدرتی مناظر، اور سماجی زندگی کے رسومات، میلے‘ تہوار
وغیرہ کو شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اس عہد کی دکن کی شاعری میں ہندوستانی
تہذیب اور طرزِ معاشرت کی بھرپور عکاسی نظر آتی ہے۔
شمالی ہند میں نظم نگاری
شمالی ہند میں اردو نظم نگاری کا ابتدا سترہویں صدی میں ہوئی۔ محمد افضل
افضل اور جعفر زٹلی کے یہاں اردو نظم کے ابتدائی نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔اس
عہد کی ایک اہم تصنیف محمد افضل افضل کی ’بکٹ کہانی، ایک سنگ میل کا درجہ
رکھتی ہے۔’بکٹ کہانی‘ کوبارہ ماسا کی روایت میں اہم مقام حاصلہے۔ افضل نے
ایک عورت کی زبانی اس کے ہجر کی کیفیات کی تصویر کشی موثر انداز میںکی ہے۔
اس نظم میں مکمل تسلسل، اثر آفرینی اور بیان میں روانی موجود ہے۔ نظم کا
یہ حصہ دیکھیے:
کریں عشرت پیا سنگ ناریاں سب
میں ہی کانپوں اکیلی ہائے یارب
اجی ملّا مرا ٹک حال دیکھو
پیارے کے ملن کی فال دیکھو
لکھو تصویر چی آوے ہمارا
وگرنہ جائے ہے جیوڑا بچارا
رے سیانو تمھیں ٹونا پڑھواے
پیا کے وصل کی دعوت پڑھواے
ارے گھر آ اگھن میری بجھاوے
اری سکھیو کہاں لگ دکھ کہوں اے
کہ بے جاں ہورہی جاکر خبر سے
کہ نک ہوجا، دوانی کو صبر دے
(بکٹ کہانی)
میرجعفر زٹلی اس عہد کا اہم شاعر ہے۔ جعفر زٹلی اپنے پھکڑپن اور فحش کلامی
کی و جہ سے مشہور ہے لیکن انھوں نے اپنے عہد کے حقائق کو ایک مخصوص انداز
میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے۔ مغلیہ حکومت کے زوال اور دہلی کی تباہی و
بدحالی کی تصویر ان کی شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔ انھوں نے ظالم حاکموں،
جا بر حکمرانوں، بے ایمان وزیروں کو ہدفِ ملامت بنایا ہے۔ جعفر زٹلی نے
طنزیہ اور ہجویہ شاعری کی ایک روایت قائم کی۔ اس عہد کے زوال اور انحطاط کو
اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اس عہد میں نوکری کی صورتِ حال کا بیان
دیکھیے:
صاحب عجب بیداد ہے، محنت ہمہ برباد ہے
اے دوستاں فریاد ہے، یہ نوکری کا خطر ہے
ہم نام کیوں اسوار ہیں، روزگار سیں بیزاری ہے
یارو ہمیشہ خوار ہیں، یہ نوکری کا خطر ہے
نوکر فدائی خاں کے، محتاج آدھے نان کے
تابع ہیں بے ایمان کے، یہ نوکری کا خطر ہے
(نوکری)
اٹھارویں صدی میں اردو شاعری کا ایک اہم دور شروع ہوتا ہے۔ نواب صدرالدین
محمد خاں فائز اور شاہ ظہورالدین حاتم کے دور میں اردو نظم کو بہت فروغ
حاصل ہوا۔ ان شعرا کے یہاں غزلو ںکے ساتھ مسلسل نظمیں بھی بہت ہیں۔ فائز کے
یہاں مختلف عنوانات کی نظمیں ہیں۔
اس عہد کے شعرا میں شاہ ظہورالدین حاتم کا مرثیہ بہت بلند ہے۔ ان کے یہاں
کثیر تعداد میں نظمیںموجود ہیں۔ ان کے موضوعات میں بڑی وسعت اور رنگارنگی
ہے۔ ان کی نظموںمیں حمد ونعت، حقہ، قہوہ، نیرنگیِ زمانہ، حال دل وغیرہ بڑی
اہمیت کی حامل ہیں۔ سید احتشام حسین فائز اور حاتم کی شاعری کے بارے میں
لکھتے ہیں:
’’ایک حقیقت ہے کہ ولی کے ابتدائی دور میں جو نظمیں لکھی گئیں۔ وہ مثنوی کے
اندازمیں بیانیہ قصے نہیں ہیں بلکہ مختلف خارجی اور داخلی موضوعات کے
شاعرانہ بیان پر حاوی ہیں۔ اگر فائز کے موضوعات زیادہ تر حسن اور اس کے
تاثرات سے تعلق رکھتے ہیں تو حاتم فلسفیانہ اور مفکرانہ موضوعات کاانتخاب
بھی کرتے ہیں۔ فائز زیادہ تر داخلی اور رومانوی تاثرات کا ذکر کرتے ہیں تو
حاتم خارجی حالات اور زندگی پراثر کرنے والے مسائل بھی پیش کرتے ہیں۔ فائز
زیادہ تر مثنوی کی ہیئت سے کام لیتے ہیں تو حاتم ان میں بھی تجربے کرتے ہیں
چنانچہ انھوں نے مخمس سے بھی کام لیا ہے۔‘‘ (جدید ادب منظر پس منظر: احتشام
حسین)
اس عہد میں بعض دوسرے شاعروں کے یہاں بھی نظم کے نمونے ملتے ہیں جس سے ان
کی قادرالکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس دورکے بعد اردو شاعری کا وہ دور آتا
ہے جسے ہم میر و سودا کا دور کہتے ہیں۔ گوکہ میر و سودا کی حیثیت نظم
نگارکی نہیں ہے لیکن ان کی مثنویوں، قطعات، ہجو اور شہر آشوب کو ان کے
روایتی مفہوم سے الگ کرکے دیکھیں تو اس عہد کے مسائل اور انفرادی و اجتماعی
زندگی کی کشمکش کاا ندازہ ہوتا ہے۔ میر کی مختصر مثنویاں، مخمس، مسدس اور
شکارنامے میں اس عہد کے سیاسی اور معاشرتی انحطاط اور اخلاقی قدروں کے زوال
کی تصویر نمایاں نظر آتی ہے۔ ان تخلیقات کو نظم کے زمرے میں شمار کیے
جاسکتے ہیں۔ سودا کے شہر آشوب اور ہجو میں نظم کی صفات موجود ہیں۔ سودا کا
شہر آشوب اس عہد کا آئینہ ہے۔ سودا نے سیاسی سماجی معاشی زندگی کی جیتی
جاگتی تصویر کشی کی ہے۔ میر و سودا کے یہاں نظم جس صورت میں موجود ہے انھیں
نظم کے دائرے میں خارج نہیں کرسکتے۔ یہی دور مرثیہ نگاری کے عروج کا بھی
ہے۔ انیس و دبیر کے مرثیے میں بھی نظم نگاری کی خوبیاں موجود ہیں۔ میر ،
سودا، انیس و دبیر کے یہاں گرچہ ہماری زندگی اور اس عہد کے مسائل کو بیان
کیا گیا ہے لیکن ان شاعروں کے یہاں خالص نظم نگاری کی طرف رجحان نظر نہیں
آتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ان کے یہاں نظم اپنی الگ شناخت قائم نہیں کرتی۔
اس عہد میں نظم کے حوالے سے نظیر اکبرآبادی کا کوئی مدمقابل نظر نہیں
آتا۔ نظیر کی شاعری اس عہد کے مجموعی مزاج سے بالکل الگ ایک نئی روایت
قائم کرتی ہے۔ نظیراگرچہ غزل کے بھی شاعر تھے لیکن نظم ان کے اظہار کا
بہترین ذریعہ بنی۔تنوع اور رنگارنگی کے لحاظ سے نظیر کا کلام آج بھی بے
مثال ہے۔ ان کی نظموں کے مطالعہ سے ہم زندگی کے گوناگوں مشاہدات سے دوچار
ہوتے ہیں۔ سماجی زندگی کے مختلف پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ رسم و رواج،
کھیل کود، تہوا ر، بچپن، جوانی، گرمی، برسات، جاڑا، چرند و پرند، غرضیکہ ہم
جس فضاا ور ماحول میں سانس لیتے ہیں اس کی جیتی جاگتی تصویر سامنے آجاتی
ہے۔ نظیر کی نظمیں اس عہد کے زندہ مسائل سے گہرا سروکار رکھتی ہیں۔ معاشی
مسائل ہوں یا سماجی اور اخلاقی ہر موضوع پر ان کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے
انھوں نے اپنے گرد و پیش زندگی کو جس رنگ میں دیکھا اس پر نظمیں تخلیق کیں
چنانچہ ہولی، دیوالی، عید، بسنت، برسات، جاڑا، بچپن، جوانی، بڑھاپا، تل کے
للو، بلدیوجی کا میلہ، آٹا، دال پر نظمیں موجود ہیں۔
دراصل نظیر کی شاعری کو کسی دائرے میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری سیاسی
سماجی تہذیبی اور سیاسی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس پر نظیر کی نظر نہ
گئی ہو۔ اردو نظم نگاری میں نظیر اپنی طرزِ فکر کا تنہا شاعر ہے جس کے یہاں
موضوعات کی اتنی کثرت ہے۔ نظیر نے عوامی موضوعات کو عوامی زبان میںا س
خوبصورتی سے پیش کیا کہ لوگوں کے نظیر کی شاعری ان کی زبان بن گئی۔نظیر کی
نظم نگاری کا ایک نمونہ دیکھیے:
کیا چھوٹے کام والے، و کیا پیشہ ور نجیب
روزی کے آج ہاتھ سے عاجز ہیں سب غریب
ہوتی ہے بیٹھے بیٹھے جب آ، شام عن قریب
اٹھتے ہیں سب دکان سے کہ کر کہ یا نصیب
قسمت ہماری ہوگئی ہے اختیار بند
قسمت سے چار پیسے جنھیں ہاتھ آتے ہیں
البتہ روکھی سوکھی وہ روٹی پکاتے ہیں
جو خالی آتے ہیں وہ قرض لینے جاتے ہیں
یوں بھی نہ پایا کچھ تو فقط غم ہی کھاتے ہیں
سوتے ہیں، کر کواڑ کو اک آہ مار، بند
(مفلسی)
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں، مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
کیا بدھیا، بھینسا، بیل، شتر، کیا گوئیں۔ بَلّا، سربھارا
کیا گیہوں، چاول موٹھ، مٹر، کیا آگ دھواں، کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
(بنجارا نامہ)
نظیر کے بعد عرصے تک نظم کی دنیا سونی ہی رہی۔ اس درمیان بعض شعرا کے یہاں
نظم نگاری کی سمت میںکوشش دیکھی جاسکتی ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی نمایاں
تخلیق منظر عام پر نہیں آئی۔
1857 میں ہندستان پر انگریزوں کا مکمل تسلط قائم ہونے کے بعد حکومت اور
عوام کے درمیان رابطے کے لیے کئی شہروں میںا نجمنوں کا قیام عمل میں آیا۔
ان انجمنوں کے اغراض و مقاصد میں علوم و فنون کی ترویج واشاعت بھی تھا۔ 21
جنوری 1865 کو انجمن اشاعتِ مطالبِ مفیدہ پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ یہی
انجمن ’انجمن پنجاب‘ کے نام سے مقبول ہوئی۔ محمد حسین آزاد اس انجمن سے
وابستہ تھے۔ مئی 1874 میں کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میںموضوعاتی مشاعرہ
منعقدہوا جس میں مصرع طرح کے بہ جائے موضوعاتی نظمیں پڑھی گئیں۔ ان شاعروں
میں مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی نے بھی اپنی نظمیں
پیش کی ہیں۔ گرچہ شاعروں کا یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا لیکن
نظم نگاری کی انھیں کوششوں سے اردو نظم نگاری کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔
نظم نگاری کی تحریک کے روحِ رواں محمد حسین آزاد اورمولانا الطاف حسین
حالی تھے۔ ان حضرات نے نہ صرف یہ کہ عملی طور پر نظم نگاری کی توجہ دی بلکہ
فکری اعتبار سے نظم نگاری کے لیے ایک سازگار فصا قائم کی۔ انھوں نے انجمن
پنجاب کے جلسوں میں جو لکچر دیے وہ نظم نگاری کے لیے ایک منشور کا درجہ
رکھتے ہیں۔آزاد نے پہلے مشاعرے میں جونظم سنائی اس کا یہ حصہ ملاحظہ
کیجیے:
بوندوں میں جھومتی وہ دختروں کی ڈالیاں
اور سیر کیاریوں میں وہ پھولوں کی لالیاں
وہ ٹہنیوں میں پانی کے قطرے ڈھلک رہے
وہ کیاریاں بھری ہوئی تھالے چمک رہے
آبِ رواں کا نالیوں میں لہر مارنا
اور روئے سبزہ زار کا دھو کر سنوارنا
کوئل کا دور دور دختوں میں بولنا
اور دل میں اہلِ درد کے نشتر گھنگھولنا
گرنا وہ آبشاروں کی چادر کا زور سے
وہ گونجنا وہ باغ کا پانی کے شور سے
(ابرکرم)
نظم نگاری کے حوالے سے آزاد کی کوشش بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ آزاد نے نظم
میں انقلابی تبدیلی کے خواہاں تھے۔ ان کے مقالات اور مضامین میں اردو شاعری
کے متعلق خیالات دیکھے جاسکتے ہیں۔مولانا آزاد اردو نظم کا دائرہ وسیع
تراور اسے ردیف و قافیہ کی قید سے آزاد کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ردیف ا
ور قافیہ سے آزاد نظمیں بھی کہیں۔
اگرچہ ایک نظم نگار کے طور پر آزاد کا مرتبہ بہت بلند نہیں۔ ان کی نظمیں
بہترین نظم کا نمونہ نہ بن سکیں۔ لیکن انھوں نے نظم ہی کے لیے جو راہیں
ہموار کیں اس سے نظم کو بہت فروغ حاصل ہوا۔
انجمن پنجاب کے مشاعروں میں اگرچہ مولانا الطاف حسین حالی، مولوی عمرجان
دہلوی ، مرزا عبداللہ بیگ، مرزا ایوب بیگ، مرزا محمود بیگ، شاہ نواز حسین
ہما، عطاء اللہ خاں عطا، منشی لچھمی داس برہم، مولوی گل محمد عالی، اصغر
علی فقیر، ملا گل محمد عالی، منشی شیخ الٰہی بخش رفیق، مولوی فصیح الدین
انجم، مفتی امام بخش رئیس، پنڈت کرشن داس طالب وغیرہ شعرا شامل ہوئے لیکن
آزاد اور مولانا حالی کے مرتبے کو کوئی نہ پہنچ سکا۔ حالی آزاد کے ہم
رکاب تھے۔ انجمن کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ حالی نے ان مشاعروں میں کئی
اہم نظمیں سنائیں۔ برکھارت، نشاطِ امی، مناظرہ رحم و انصاف، حب وطن، جیسی
نظمیں انھیں مشاعروں میں سنائی گئیں۔حالی کی نظمیں زبان کی سادگی اور صفائی
کے اعتبار سے بلند مقام رکھتی ہیں۔ نظم کایہ حصہ دیکھیے:
ہیں شکر گزار تیرے برسات
انسان سے لے کے تاجمادات
دنیا میں بہت تھی چاہ تیری
سب دیکھو رہے تھے راہ تیری
تجھ سے کھلا یہ رازِ فطرت
راحت ملتی ہے بعدِ کلفت
شکریہ فیضِ عام تیرا
پیشانیِ دہر پر ہے لکھا
گلشن کو دیا جمال تونے
کھیتی کو کیا نہال تونے
(برکھارت)
ایک دن رحم نے انصاف سے جاکر پوچھا
کیا سبب ہے کہ ترا نام ہے دنیامیں بڑا
نیک نامی سے تری سخت تحیر ہے ہمیں
ہاں سنیں ہم بھی کہ ہے کون سی خوبی تجھ میں
دوستی سے تجھے کچھ دوستوں کی کام نہیں
آنکھ میں تری مروت کا کہیں نام نہیں
اپنے بیگانے ہیں سب تیری نظر میں یکساں
دوست کو فائدہ تجھ سے نہ دشمن کو میاں
(مناظرۂ رحم و انصاف)
یہاں حالی کی یہ نظمیں مثال کے طور پر پیش کی گئیں ہیں جو انھوں نے انجمن
پنجاب کے مشاعرے میں سنائی تھیں۔ مسدس مدو و جزر اسلام، مناجاتِ بیوہ،
مرثیۂ غالب، چپ کی داد وغیرہاہم نظموں میں شمار کی جاتی ہیں۔ نظم نگار کے
طور پر حالی ہمارے اہم نظم نگار شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس نئے طرز کے
مشاعرے میں بعض دوسرے شاعروں نے اچھی شاعری کے نمونے پیش کیے۔غلام نبی صاحب
کی نظم کا یہ حصہ دیکھیے:
دکھاتی ہے بس چاندنی بھی بہار
ستارے بھی ہوتے ہیں کو ہر نثار
جدھر دیکھو عالم ہے ایک سیر کا
کہاں لطف یہ موسم غیر کا
کبھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہے چلتی ہوا
کہیں برف پڑتی ہے بس خوشنما
(زمستاں)
تیسرے مشاعرے کا موضوع ’امید‘ تھا۔ الٰہی بخش رفیق نے اپنی نظم ’آئینہ
امید‘ سنائی۔ نظم کا یہ حصہ دیکھیے:
کیا کیا نہیں الفت نے تری رنگ دکھائے
اس عالم نیرنگ میں نیرنگ دکھائے
سادھا ہے محبت میں تری جوگ کسی نے
اور عشق کا ہے مول لیا روگ کسی نے
پھرتا ہے کوئی حیرتِ دیدار کا مارا
جیتا ہے کہ مرتا ہے ترے پیار کا مارا
ہے سب سے نہاں تو یہ چھپاتی نہیں صورت
ہے دل میں و لیکن نظر آتی نہیں صورت
ہر راز جدا ہے ترا ہر ناز الگ ہے
خوبان جہاں سے تیرا انداز الگ ہے
(آئینہ امیر)
ان مشاعروں میں شریک ہونے والے شاعروں میں محمد حسین آزاد اور مولانا حالی
کے علاوہ کوئی اپنی ادبی حیثیت مستحکم نہ کرسکا ۔آزاد اپنی شاعری سے زیادہ
اپنی فکر کی تندی و تیزی اور نثر کے اعتبار سے بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔ گرچہ
آزاد نظم میں فکری اور فنی دونوں اعتبار سے تبدیلی کی طرف قدم اٹھایا لیکن
نظم نگاری کے حوالے سے آزاد کا مرتبہ بس واجبی ہی ہے۔لیکن نظم نگاری کے
حوالے سے ان کی کوشش کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی ہیں۔ یہ ان کی کوششوں کا
ہی ثمرہ تھا کہ نظم نگاری کے لیے شعرا کی ایک جماعت اس مشاعرے میں شریک
ہوئی اور ان سب کی اجتماعی کوششوں سے اردو نظم نگاری کے لیے راہیں ہموار
ہوئیں۔ موضوعاتی مشاعرے سے اردو نظم نگاری کی جو تحریک شروع ہوئی اس کے
اثرات اردو نظم پر بہت گہرے مرتب ہوئے۔
انیسویں صدی کے اواخر کا زمانہ اردو ادب میں غیرتبد معمولی تبدیلیوںکا
زمانہ تھا۔ اردو ادب میں کئی اصناف کا ظہور ہوا۔ ناول نگاری، تنقید نگاری،
سوانح نگاری، مضمون نگاری وغیرہ۔ شاعری کے حوالے سے اردو نظم میں فکری اور
فنی اعتبارسے تبدیلی کا رجحان پیدا ہوا۔ حالی اور آزاد انگریزی شاعری کی
طرز پر اردو نظم میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔ ا ٓزاد اور حالی کی تحریروں میں
انگریزی شاعری سے استفادے پر بہت زور رہا ہے۔ آزاد کی نظم ’ جغرافیہ طبعی
کی پہیلی‘ ہیئت و اسلوب کے تجربے کا اوّلین نمونہ قرار دی جاسکتی ہے۔
انگریزی نظموں کے تراجم اور انگریزی نظموں سے ماخوذ خیالات کو نظم کرنے کا
رجحان پیدا ہوا۔ اس ضمن میں نظم طباطبائی کا ترجمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
انھوں نے گرے کی نظم ایلچی کا ترجمہ بعنوان ’گورِ غریباں‘ کیا جو بے حد
مقبول ہوا۔ عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’دلگداز‘ اور ’سرعبدالقادر نے
’مخزن‘ سے انگریزی شاعری کے تراجم اور استفادے کی حوصلہ افزائی کی۔ نظموں
کے تراجم اور مغربی شاعری سے ماخوذ خیالات پر مبنی نظموں کو ان رسالوں میں
خاص جگہ دی گئی اور انھیں تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا گیا۔ محمد حسین
آزاد، غلام بھنگ نیرنگ، نادر کاکوروی، سرور جہان آبادی، حسرت موہانی،
ضامن کنتو ری، سیف الدین شہاب وغیرہ شاعروں کے تراجم شائع ہوئے۔ اردو نظم
میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں نظموں کے تراجم نے انھیں اور جلا بخشی۔
نظموں کے تراجم اور اس طرز کی نظمیں تخلیق کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں
ہیئت میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہوا۔ نئے اسالیب کی نظمیں منظر عام
پرآئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انجمن پنجاب اور اُردو ادب
ہندوستان میں انگریزی راج کا دبدبہ انیسویں صدی کی ابتدا ہی سے قائم ہوچکا
تھا۔ بہت سی ریاستوں کے اپنے راجا تھے(حالانکہ ابھی آخری مغل بادشاہ بہادر
شاہ ظفر دہلی کے تخت پر قابض تھا) لیکن یہ سب انگریزوں کے خریدے ہوئے تھے۔
ہندوستانی سیاست میں اب ان راجائوں کا رول محض برائے نام رہ گیاتھا۔ جو کچھ
ہورہا تھا وہ سب انگریزوں کے فائدے اور ہندوستان کو پوری طرح غلامی میں
پھنسانے کے لیے ہورہا تھا۔ ہندوستانیوں سے اُن کی وقعت، عزت، حکومت سب کچھ
دھیرے دھیرے چھنتا چلا جارہا تھا۔ انگریزوں کے قدم یہاں پوری طرح جم گئے
تھے۔ حالات کافی تیزی سے بدل رہے تھے۔ اسی دوران میں 1857ء کی بغاوت شروع
ہوئی۔ یہ لڑائی محض کوئی حادثہ نہیں تھی بلکہ اس کا ایک پورا سیاسی، مذہبی
اور سماجی پس منظر تھا۔ انگریز آہستہ آہستہ دیسی ریاستوں پر مختلف بہانوں
سے اپنا اقتدار مسلط کررہے تھے۔ دوسری طرف اودھ کا الحاق اور مغل سلطنت کا
لال قلعے میں سمٹ کر رہ جانے سے عوام میں بے چینی اور غصہ پیدا ہورہا تھا۔
چربی لگے کارتوس نے عوام کے غصے کو اور بھڑکادیا۔18؍اپریل 1857ء کو منگل
پانڈے کی پھانسی نے دیسی سپاہیوں کے ضبط کو توڑ دیا اور بالآخر ان شعلوں
نے آگ کی شکل اختیار کی جو10؍مئی 1857ء کو میرٹھ میں اچانک بھڑک اٹھی۔
1857ء کی بغاوت سیاسی حوالے سے ناکام ہوئی لیکن ناکام بغاوت نے آنے والے
زمانے میں ہندوستانی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ
یہیں سے جدید ہندوستان کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔ مغل سلطنت کا پوری طرح خاتمہ
اور برطانوی سامراج کے استحکام کا اثر ہندوستان کے تہذیبی ،تمدنی اور علمی
وادبی میدانوں میں دن بہ دن بڑھتا جارہا تھا۔ ہندوستان میں اب نئے دور کا
آغاز ہورہا تھا۔ مشرقی اقدار پر مغربی سحر تیزی سے اثر انداز ہورہا تھا۔اسی
دوران میں سرسید اور اُن کے رفقاجن میں محسن الملک، نذیر احمد، الطاف حسین
حالیؔ ،محمد حسین آزادؔ قابل ذکر ہیں، آسمان ادب پر نمودار ہوئے۔ علمی
وادبی میدانوں میں اجتہاد کی داغ بیل پڑرہی تھی اور ایک نیافکری دبستان
تشکیل پارہا تھا۔ ادب میں ہر نئے تجربے اور تبدیلی کا کھلے دل اور جوش کے
ساتھ خیرمقدم ہورہا تھا۔ فراق گورکھپوری فرماتے ہیں:
’’انگریزی راج یوں تو1857ء کے غدر کے پہلے ہی قائم ہوچکاتھا لیکن 1857ء کے
بعد ملک بھر کو اس کا احساس ہوا
کہ گویا ہم سے کوئی چیز چھین لی گئی ہے اور ادب میں یہ احساس حالیؔ اور ان
کے ہم عصروں(شبلیؔ،آزاد،نذیر احمد، سرشار)
کے کارناموں میں کارفرما نظر آتاہے۔ اب پہلے پہل ادب برائے ادب کا نظریہ
ادب برائے زندگی کے نظریے سے بدلتا
ہوا دکھائی دیتا ہے اور زندگی بھی محض وجدانی یاداخلی زندگی نہیں بلکہ
عملی، کاروباری، سماجی اور ملی زندگی۔حالیؔ اور ان کے
رفقانے ادب میں افادی پہلو پیدا کیے اور ان افادی پہلوئوں کو اجاگر کرنا
شروع کیا۔
اردو ادب میں جدید رجحانات اور تجربوں کو فروغ دینے کے لیے لاہور میں
مولانا محمد حسین آزاد ؔنے انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالی۔ اس سلسلے میں میجر
فلر اور کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی انہیں حاصل تھی۔ ان دونوں نے آزادؔ کی بڑی
حوصلہ افزائی کی۔ 1867ء میں آزادؔ انجمن کے سیکریٹری مقرر ہوگئے۔ 8مئی
1874ء کو انجمن کا پہلا اجلاس منعقد ہوا اور 30مئی 1874ء کو باضابطہ ایک
موضوعی مشاعرے کے ا نعقاد کی بات ہوئی۔مشاعرے کا موضوع ’’برسات‘‘ قرار پایا
اور شعرا سے اسی عنوان کے تحت نظمیں کہنے کی گذارش کی گئی۔چونکہ ان دنوں
مشاعروں کا بڑا رواج تھا اور ان مشاعروں میں مصرع طرح دیا جاتاتھا اور شعرا
اسی مصرعے کی زمین میں طبع آزمائی کیاکرتے تھے۔ مولانا آزاد نے ایک جدید
طرز کے مشاعرے کا آغاز کیا۔ ہر مشاعرے کے لیے ایک موضوع دیاجاتا تھا جس پر
شاعروں سے نظمیں لکھ کر لانے کو کہا جاتا تھا اور اس طرح یہیں سے اردو میں
جدید نظم نگاری کی باقاعدہ ابتداہوتی ہے۔ انجمن پنجاب کے جلسوں میں علمی
وادبی مضامین بھی پڑھے جاتے تھے۔ 67 18 ء میں انجمن کے ایک جلسے میں آزاد
نے ایک مضمون’’ نظم اور کلام موزوںکے باب میں خیالات‘‘ پیش کیا جس میں
انہوں نے شعر کے متعلق ایک جدید نظریہ پیش کیا۔ انہوںنے شاعری کے سلسلے میں
بہت سے مفید مشورے دیے۔آزاد ؔکا ایک مشورہ یہ ہے کہ ہمارے شاعروں کو
انگریزی شاعری سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی شاعری میں نئے انداز اور
نئی تکنیکوں کا استعمال کرنا چاہیے اور نئے نئے موضوعات کی طرف بھی توجہ
دینی چاہیے۔ ان کا دوسرا مشورہ یہ ہے کہ ہمارے شاعروں کوبھاشا کی طرف متوجہ
ہوجانا چاہیے اور بھاشا کے شاعروں کی طرح بے جامبالغہ آرائی سے پرہیز کرکے
اپنی شاعری میں جذبات کی سچی تصویر کھینچنی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ ہمیں اپنی
شاعری میں مقامی الفاظ،تشبیہوں اور استعاروں جیسے شعری وسائل کو بروئے کار
لانا چاہیے تاکہ ہمارا پیغام شاعری کے ذریعے عوام تک آسانی سے پہنچ
سکے۔انجمن کا پہلا اجلاس اور موضوعی مشاعرہ 8مئی 1874ء کو منعقدہوا ۔اس
پہلے اجلاس میںآزاد نے شعرو ادب پر کچھ اس طرح کا اظہار ِ خیال کیا:
’’میں نثرکے میدان میں بھی سوار نہیں،پیادہ ہوں اور نظم میںخاک افتادہ،مگر
سادہ لوحی دیکھو
کہ ہر میدان میںدوڑنے کو آمادہ ہوں۔یہ فقط اس خیال سے ہے کہ میرے وطن کے
لیے
شائد کوئی کام کی بات نکل آئے۔میں نے آج کل جو چند نظمیںمثنوی کے طور پر
مختلف مضامین
میں لکھیں ہیں جنہیںنظم کہتے ہوئے شرمندہ ہوتا ہوں۔ ۔۔۔۔۔
اے میرے اہل وطن! مجھے بڑا افسوس اس بات کا ہے کہ عبارت کا زور ،مضمون کا
جوش و خروش
اور لطائف و صنائع کے سامان،تمہارے بزرگ اس قدر دے گئے ہیں کہ تمہاری زبان
کسی سے
کم نہیں۔کمی فقط اتنی ہے کہ وہ چند بے موقع احاطوںمیں گھِر کر محبوس ہوگئی
ہے۔وہ کیا؟مضامین
عاشقانہ ہیں جس میں کچھ وصل کا لطف بہت سے حسرت وارمان،اس سے زیادہ ہجرکا
رونا،شراب،
ساقی،بہار،خزاں،فلک کی شکایت اور اقبال مندوں کی خوش آمد ہے۔یہ مطالب بھی
بالکل خیالی
ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایسے دوردور کے استعاروں میں ادا ہوتے ہیں کہ عقل
کام نہیںکرتی۔وہ
اسے خیال بندی اور نازک خیالی کہتے ہیں اور فخر کی موچھوںپر تائو دیتے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اے میرے اہل وطن !ہمدردی کی آنکھیںآنسوں بہاتی ہیں،جب مجھے نظر آتا ہے
کہ چند روز میں
اس رائج الوقت نظم کا کہنے والا بھی کوئی نہ رہے گا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ بہ
سبب بے قدری کے اور کہنے
والے پیدا نہ ہوں۔‘‘
آزاد ؔنے اپنے لیکچر کے بعد اپنی نظم ’’ شب قدر ‘‘ سنائی۔نظم کا عنوان
رمضان ا لمباک کی شب ِ قدر پر نہیں ہے بلکہ اس میں رات کی اہمیت اور غرض و
غایت بتائی گئی ہے۔یہ نظم 115اشعار پر مشتمل تھی۔اس نظم کو پنڈت دتاتریہ
کیفی نے نئی شاعری کی سب سے پہلی نظم قرار دیا۔نظم ’’ شب قدر‘‘ سے چند
اشعارملاحظہ ہو:
عالم پہ تو جو آتی ہے رنگ اپنا پھیر تی ہاتھوں سے مشک اُڑاتی ہے عنبر
بکھیرتی
دنیا پہ سلطنت کا تری دیکھ کر چشم کھاتا ہے دن بھی تاروں بھری ر ات کی قسم
روئے زمیںپہ جل رہے تیرے چراغ ہیں اور آسماں پہ کھلتے ستاروں کے باغ ہیں
بجلی ہنسے تو رخ ترا دیتا بہار ہے شبنم کو موتیوں کا دیا تو نے ہا ر ہے
سب تجھ کو لیتے آنکھوںپہ ہیںبلکہ جان پر پورا ہے ترا حکم پر آدھے جہان پر
مولانا آزادؔ نے اردو شاعری کی اصلاح میں اہم رول ادا کیااورجدید اردو نظم
کے فروغ میں اُن کا کارنامہ ناقابل فراموش ہے۔بقول کوثر مظہری اردو میں
جدید نظم کی اصطلاح کو باضابطہ طور ہر آزاد اور حالی نے رائج کیا۔ اس
سلسلے میں آزاد نے عملی ثبوت بھی دیے۔ ان کی نظم ’حب وطن‘ سے چند شعر
ملاحظہ ہو:
الفت سے گرم سب کے دل سرد ہوںبہم
اور جوکہ ہم وطن ہوں وہ ہمدرد ہوں بہم
لبریز جوشِ حبِ وطن سب کے جام ہوں
سرشارِ ذوق وشوق، دلِ خاص وعام ہو
انجمن پنجاب کے مشاعروں میںآزادؔ نے جو نظمیں پڑھیں ان میںشب قدر،صبح
امید،ابر کرم، برسات، امید ،حب وطن ،انصاف،زمستان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔انجمن
کی نظموں میں نئے اور اچھوتے موضوعات کو برتا گیا جو اس سے پہلے اردو شاعری
میں مفقود تھے۔آزاد نے اردو شاعری کو سوقیانہ مزاج اور ردیف و قوافی اور
لفاظی سے پاک کیا۔اور یہ اردو شاعری میں یقیناایک نیا تجربہ تھا جس نے آگے
چل کر اردو نظم کو ایک نئی راہ دکھائی اور آج اردو نظم جس منزل پر کھڑی ہے
اس کو یہاں تک لانے میں انجمن کے رول سے ادب کا کوئی بھی مورخ انکار نہیں
کرسکتا۔انجمن کے مشاعروں کے ذریعے اردو نظم کا ایک ذخیرہ جمع ہوگیا اور اس
نے اردو میں جدید نظم کی تحریک اور جدید شاعری کے رجحان کو پروان چڑھانے
میں اہم رول ادا کیا۔ڈاکٹر سیدہ جعفرآزاد کی نظم نگاری کی بارے میں فرماتی
ہیں:
’’ یہ نظمیں لفاظی،مبالغہ آرائی،صنائع بدائع اور پرکاری سے دور سادہ،عام
فہم،پر اثر اور فطری تھیں۔آزاد نے اپنی ان
نظموں میں فطرت کے عمل کوتخیل سے ابھارنے اور ان کی صورت گری کرنے کی کوشش
کی۔معاشرتی اصلاح ،اخلاق
کی درستگی اور قومی بہبود ہمیشہ ان کے پیش نظر رہی۔آزاد کی بحروں میں تنوع
موجود ہے اور انہوں نے بندوں کی نئی
تشکیل کی طرف بھی توجہ کی۔آزاد کی نظم نگاری نے بندوں کی ترتیب و تنظیم
اور صورت گری کے نئے انداز کو روشناس کروایا
اور نظم کو نئی ترسیلی قوت کا حامل بنادیا۔‘‘
آ آئے شب سیاہ کہ لیلیٰ شب ہے تو
عالم میں شاہزاری مشکیں نسب ہے تو
آمد کی تیری شاں تو زیب رقم کروں
پر اتنی روشنائی کہاں سے بہم کروں
ہونا وہ بعد شام شفق میں عیاں تیرا
اڑتا وہ آبنوس کا تخت روان ترا
پھیلے گا لشکر اب جو تیرا آسماں پر
فرماں نشان میں بھی ا ڑے گا جہاں پر
انجمن پنجاب کے پہلے جلسے میں سرکاری ملازموں ،بااثر طبقے کے لوگوں اور
جاگیرداروں نے شرکت کی۔لیکن جلد ہی انجمن میں عام لوگ بھی شامل ہوگئے۔انجمن
کے دائمی سرپرست پرنس آف ویلز(Prince of Wales) تھے جبکہ سرپرست پنجاب کے
گورنرتھے۔انجمن کے اراکین کی تعداد 250 تھی۔
انجمن کے بنیادی مقاصد میں قدیم علوم کا احیا ،مقامی زبانوں میں علوم مفیدہ
کی اشاعت،علمی ،سیاسی ،معاشرتی موضوعات پر بحث و مباحثے اور حکومت کے ساتھ
رابطہ اور ہندوستانی عوام بالخصوص مسلمانوں اورا نگریزوں کے درمیان پھیلی
بد گمانیوں کو دور کرنا شامل تھا۔ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مختلف
مقامات پر مدارس ،کتب خانے قائم کیے گئے اور متعدد رسائل جاری کیے گئے اور
مختلف سماجی و سیاسی مسائل پر بحث و مباحثے کے لیے جلسوں کا اہتمام کیا
گیا۔
انجمن کے قیام کے ابتدائی سال ہی ایک پبلک لائبریری ،مطالعے کا کمرہ،مقامی
اور کلاسیکی زبانوں کے تراجم کے ساتھ لاہور میں ایک اورینٹل ا سکول بھی
قائم کر لیا گیا۔اسی طرح دوسرے شہروں جیسے امرتسر،گورداسپور ،راولپنڈی میں
سوسائیٹیز قائم کی گئیں۔ڈاکٹر لائٹنرنے انجمن کے سرکردہ رُکن ہونے کے ناطے
اور اس کے استحکام کے لیے پنجاب میں پنچایتوں کے قیام کی تجویز پیش کی اور
اس سلسلے میں لوگوں کی آرا بھی مانگیں۔انجمن کی شہرت و مقبولیت میںدن بہ
دن اضافہ ہو اور اس طرح لوگوں کی دلچسپی بھی اس میں بڑھنے لگی اور لوگ اس
میں شامل ہونے لگے۔
انجمن کے اہم کاموں میں جلسوں کا انعقاد تھا اور یہ جلسے بہت جلد مشہور
ہوئے اور ان جلسوں کی بازگشت سرکاری ایوانوں میں بھی سُنی جانے لگی۔انجمن
کے جلسوں میں شرکت پر کسی پر کوئی پابندی نہیں تھی،ہر ایک کو بحث و مباحثے
میں حصہ لینے کی اجازت تھی۔انجمن کا جلسۂ خاص انتظامی نوعیت کا ہوتاتھا
اور اس میں صرف عہدہ داروں کو شرکت کرنے کی اجازت تھی لیکن جلسۂ عام میں
عوام کی شرکت اور دانشوروں کے مقالوں کے سُننے پر کوئی پابندی نہیں
تھی۔انجمن کے ابتدائی جلسوں میں مولانا محمد حسین آزاد ،پنڈت من پھول
،ڈاکٹر لائٹنر،بابو نوبین رائے،بابو شاما چرن،مولوی کریم الدین اور علمدار
حسین وغیرہ نے مضامین پڑھے جن میں بیشتر مضامین انجمن کے رسالے’’ رسالۂ
انجمن پنجاب‘‘ میں طبع ہوئے۔
انجمن پنجاب کے جلسوں میں بہت سے دانشورمضامین پڑھتے تھے لیکن ان میں محمد
حسین آزاد ؔکے مضامین زیادہ پسند کیے جاتے تھے اور ان کی شہرت دور دور تک
پہنچ گئی۔آزاد ؔکے لیکچر وں کی مقبولیت کو دیکھ کر ڈاکٹر لائٹنر نے
باضابطہ طور پر لیکچروں کے انعقاد کے لیے کہا اور اس سلسلے میں انہیں انجمن
سے خرچ واگذار کرنے کی تجویز منظور کرائی۔اپنی تقرری کے بعد سے آزاد ؔنے
موثر طور پر اپنے فرائض انجام دیے اور انجمن کو ایک تحریک کی شکل دی۔بحیثیت
انجمن پنجاب میں لیکچرر کے محمد حسین آزاد ؔکے ذمے فرائض میں تھا کہ جو
مضامین انجمن پنجاب کے جلسوں میں پڑھے جائیں ان کو زیادہ سے زیادہ قاری تک
پہنچایا جائے ۔ہفتے میں دو تین لیکچر وں کا اہتمام ،تحریری لیکچر کو آسان
،سلیس اردو میں پیش کرنا تھا۔اس کے علاوہ آزاد ؔکے کاموں میں انجمن کے
رسالے کی طباعت اورمضامین کی ترتیب وغیرہ شامل تھے۔
آزاد ؔکو بہت جلد انجمن میں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوگئی ۔لیکچروں کی ترتیب
وتہذیب ،مجالس کا اہتمام ،مضامین کی ترتیب اور پھر انجمن کے رسالے میں ان
کی باضابطہ اور منضبط اشاعت جیسے بنیادی کام آزاد کے ذمے تھے۔اس طرح ہم
کہہ سکتے ہیں کہ انجمن پنجاب کے تمام بنیادی اور اہم امور کی انجام دہی
آزاد ؔکی ذمہ داری تھی۔آزادؔ نے اپنے فرائض کو بخوبی نبھایا اور آزادؔ
کی مقبولیت میں دن بہ دن تیزی آئی اور وہ جلد ہی پورے ادبی منظرنامے پر
چھا گئے۔
انجمن پنجاب کے اردو ادب پر اثرات:
انجمن پنجاب نے اردو ادب پر بڑے دور رس اثرات مرتب کیے۔جیسا کہ ابتدا میں
ذکر ہواہے کہ انجمن کے قیام کے بنیادی مقاصد میں قدیم مشرقی علوم کا احیا
اور ہندوستانی عوام میں مقامی اور عام فہم زبان میں علوم مفیدہ کی اشاعت
،صنعت و تجارت کا فروغ،سماجی ،سیاسی اور معاشرتی موضاعات پر بحث،صوبے کے
بااثر اور پڑھے لکھے افراد کا حکومت کے ساتھ رابطے قائم کرنا شامل تھے۔ان
مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انجمن کے جلسوں میں مضامین پڑھے جاتے تھے۔ان
مضامین میں شعرو ادب پر دانشوروں اور ناقدین کے خیالات ہوتے تھے۔ان مضامین
نے اردو ادب کے فروغ میں اہم رول ادا کیا اور اردو ادب کو ایک نئی ڈگر پر
لاکھڑا کیااوراس میں نئی اصناف کو متعارف کرایا۔
اردو میں مجلسی تنقید کا آغاز اور بعد میں اس کے فروغ کا سہرا انجمن پنجاب
ہی کے سر جاتا ہے۔انجمن میں جو بھی اور جس طرح کے مضامین پڑھے جاتے تھے ان
پر بحث و مباحث اور تنقید کی کھلی اجازت تھی۔ہر ایک کو اپنی بات سامنے
رکھنے کا پورا موقع دیا جاتا تھا۔اس نے علمی ماحول کو فروغ دیا اور اس طرح
شرکا کو بحث میں حصہ لینے ،علمی نقطئہ نظر پیدا کرنے اور صحت مند تنقید کو
برداشت کرنے کی تربیت ملی۔انجمن کے جلسوں کا یہ فائدہ ہوا کہ ان سے علمی
امور پر اعلیٰ ظرفی،کشادہ نظری اوروسعت نظرکے جذبات کی ترویج میں آسانی
ہوئی۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیںکہ انجمن نے جس قسم کی تنقید کی بنیاد ڈالی اور
پھر اسے فروغ دیا ،اسی کے زیر اثر حالیؔ کی’’ مقدمہ شعر و شاعری‘‘ وجود میں
آگئی جو اردو تنقید کی پہلی باضابطہ تصنیف ہے۔دوسرے یہ کہ حالیؔ کے ادبی
مزاج کو بدلنے میں اوراسے ایک نئی سمت عطا کرنے میں انجمن پنجاب کے مشاعروں
اور جلسوں نے اہم رول ادا کیا۔بہت جلد حالیؔ نے مشہور نظم ’’ مدوجزر
اسلام‘‘ لکھ ڈالی جس کے اردو نظم پر بڑے دور رس اثرات پڑے۔
انجمن کے مشاعروں میں نیچرل شاعری پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔نیچرل شاعری
سے مراد ایسی شاعری تھی جس میں کوئی مبالغہ نہ ہو اور بات کو آسان ،سیدھی
سادی زبان میں بیان کیا جائے تاکہ لوگ سُن کر لطف اندوز ہوں۔نیچرل شاعری کو
فروغ دینے میں محمد حسین آزاد اؔور الطاف حسین حالیؔ نے اہم رول ادا کیا
اور اس کی ابتدا کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔حالی ؔ کی نظم ’’برکھارت‘‘ سے
چند اشعار ملاحظہ ہو:
گرمی سے تڑپ ر ہے تھے جاندار
اور دھوپ میں تپ رہے تھے کہسار
تھی لو ٹ سی پڑی چمن میں
اور آگ سی لگ رہی بن میں
بچو ں کا ہوا تھا حال بے حال
کملائے ہوئے تھے پھول سے گال
اردو زبان و ادب میں انقلابی تصورات کو فروغ دینے میں انجمن پنجاب کی
کاوشیں اہم ہیں۔حب الوطنی ،انسان دوستی،اخلاق اور معاشرت انجمن کے مشاعروں
کے موضوعات بنے ۔اب رسمی و خیالی اور فرضی عشقیہ شاعری سے ہٹ کر حقیقی
موضوعات پر نظمیں کہی جانے لگیں۔مبالغہ آرائی سے پرہیز کیا جانے لگااور
حقیقی جذبات واحساسات کو سادگی کے ساتھ پیش کرنے پر زوردیا جانے لگا۔شاعری
میں ان تصورات کو فروغ دینے میں محمد حسین آزاد پیش پیش تھے۔
اگرچہ انجمن پنجاب سے پہلے بھی ہمیں اردو میں مناظراتی شاعری ملتی ہے اور
اس کے متعدد نمونے نظیر اکبر آبادی کے یہاں موجود ہیں
لیکن اس حقیقت سے انکار کی گنجائش بہت کم ہے کہ اردو نظموںمیں مناظر قدرت
کا بیان اور اس رجحان کو ایک مستقل صورت دینے میں انجمن کا کلیدی رول ہے
اور انجمن میں اس طرح کی شاعری کی ابتدا سب سے پہلے الطاف حسین حالیؔ نے
کی۔اس سلسلے میں حالیؔ کی نظم ’’برکھارت‘‘ کافی مشہور ہوئی ۔اس نظم میں
حالی ؔ نے برسات کے مختلف پہلوئوں کی تصویر کھینچ کر فطرت کی ترجمانی سادہ
و سہل زبان میں کی ہے۔آزادؔ نے ’’ابر کرم‘‘ میں مناظر قدرت کی عکاسی
کی۔حالیؔ اور آزاد ؔ کے بعد اسماعیل میرٹھی،شوق قدوائی وغیرہ نے مناظر
قدرت پر اچھی نظمیں لکھیں۔
اردو کی قدیم شاعری میں حب الوطنی کے جذبات محدود سطح پر ہی ملتے ہیں اور
اس کی کوئی واضح اور ٹھوس سمت نہیں۔لیکن انجمن نے انگریزی شاعری کے زیر اثر
اپنے مشاعروں کے ذریعے وطنی و قومی شاعری کے فروغ میں اہم رول ادا
کیا۔مولانا آزاد اور مولانا حالیؔ نے وطنی موضوعات پر نظمیں لکھیںاور کچھ
عرصے میں چکبست ؔ، اقبالؔ،سرور جہاں آبادی وغیرہ نے وطنی شاعری کو بام
عروج تک پہنچادیا۔آزاد کی ایک نظم ’’حب وطن‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ ہو:
سب اپنے حاکموں کے لیے جاں نثا ر ہوں اور گردن حریف پر خنجر کی دھار ہوں
علم و ہنر سے خلق کو رونق دیا کریں اور انجمن میں بیٹھ کے جلسے کیا کریں
لبریز جوش حب وطن سب کے جام ہوں سرشار ذوق و شوق دل خاص و عام ہوں
آزاد ؔ اور حالیؔ کے زمانے میں ہندوستان کے سیاسی وسماجی حالات مختلف
تھے۔ان دونوں کے نزدیک شاعری کا اثر قومی مذاق اور اخلاق پر یقینی تھا اس
لیے انہوں نے شاعری کے اخلاقی پہلوئوں کی طرف بھی توجہ دی ۔انہوں نے اپنی
شاعری کے ذریعے قوم کو اخلاق ،صبر و استقلال اور محنت کرنے کی تلقین کی۔
انجمنِ پنجاب کا قیام محمد حسین آزاد ؔکا ایک بڑا کارنامہ ہے جس نے اردو
ادب کے فروغ میں اہم رول ادا کیا ۔آزادؔ کو مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا
لیکن وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔آزادؔ نے انجمنِ کی بدولت قوم میں
صاف اور ستھرے مذاق کو پروان چڑھایا اور قوم کو خواب غفلت سے جگانے کی ایک
کامیاب کوشش کی۔ جدید اردو نظم کے فروغ میں انجمن ِپنجاب کی کاوشیں ناقابل
فراموش ہیں ۔آزاد ؔ نے پابند نظم اور نظم معریٰ کی شرعات کی۔آزاد نے اپنی
نظموں میں زندگی ، فرد ، معاشرت، تہذیب وتمدن، جذبۂ حب الوطنی اور عام
انسانی جذبات کی عکاسی کی اور نظم نگاری کی ایک باضابطہ تحریک شروع کی جس
نے اردو نظم کونئی بلندیوں سے ہمکنار کیا۔
حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری
شاعری کے حوالے سے حلقہ اربابِ ذوق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بلاشبہ حلقے نے
نئی نظم کو فروغ دینے میں قابل قدر خدمات سر انجام دی۔ حلقہ اربابِ ذوق کی
ابتداءافسانہ خوانی سے ہوئی تھی میراجی نے اس کا رخ تنقید کی طرف موڑا۔
حلقے کے رفقاءمیں یوسف ظفر، قیوم نظر، تابش صدیقی اور حلقے کی مرکزی شخصیت
میراجی کا شمار نئے شعراءمیں ہوتا ہے۔ اس لیے بہت جلد حلقے کا رخ شاعری کی
طرف ہو گیا۔ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں بنیادی اہمیت اس حقیقت کو حاصل
ہے کہ شاعر خارج اور باطن دو دنیائوں میں آہنگ اور توازن کس طرح پیدا کرتا
ہے۔ حلقے نے داخل کے اس نغمے کو جگانے کی کوشش کی اس لیے اس شاعری میں
مشاہدے کی جہت خارج سے داخل کی طرف سفر کرتی ہے۔ چنانچہ حلقہ اربابِ ذوق کی
شاعری درحقیقت دھندلے اجالے سے حسن، نغمہ اور سحر پیدا کرنے کی شاعری ہے۔
میرا جی
حلقہ اربابِ ذوق کی شعراءمیں میراجی کو خاص اہمیت حاصل ہے انہوں نے غیر
ملکی شعراءکے مطالعے اور ترجمے سے جدید شاعری کے اصول وضع کیے اور جب حلقے
سے وابستہ ہوئے تو نئے شعراءکی ادبی تربیت میں ان اصولوں کو حسن و خوبی سے
استعمال کیا۔ میراجی شخصی حوالوں سے اردو نظم کا بدنام ترین شاعر ہے۔ اس کی
نظم کی بنیاد داخلیت پر ہے۔ میراجی کا بنیادی سوال انسان کے بارے میں ہے کہ
انسان کیا ہے انسان کا اس پور ے نظام سے کیا تعلق ہے۔ اس نے انسان کی شناخت
اور اس کی پہچان کے لیے مختلف سفر اختیار کیے اس نے اپنی نظم کا موضوع جنس
کو بنایا اور اس عمل سے وہ انسان کی حقیقت تک پہنچناچاہتا تھا۔ اس کے بعد
تصوف کا راستہ اختیار کیا کیونکہ وہ عرفانِ نفس چاہتا تھا۔ میراجی کی نظم
کا بنیادی حوال انسانی حقیقت کی تلاش ہے میراجی کی شاعری کا دوسر ا زاویہ
گیت ہے۔ اور تیسرا آزادغزل ہے۔ میراجی نے غزل کو ایک کنواری عورت کے مماثل
قرار دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس عورت سے لطیف کلامی اور ملائمیت سے گفتگو
کی ہے۔
وہ درد جو لمحہ بھر کا تھا
مژدہ کہ بحال ہو گیا ہے
چاہت میں ہمارا جینا مرنا
آپ اپنی مثال ہو گیا ہے
میراجی کی لمبی بحر کی غزلوں میں دل گرفتہ کیفیت زیادہ نمایاں ہے اور مزاج
بھی گیت کے ٹکڑے نظر آتے ہیں۔
نگری نگری پھر مسافر گھر کا رستہ بھو ل گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
لب پر فریاد کہ ساقی وہ کیسا مے خانہ ہے
رنگِ خونِ دل نہیں چمکا گردش میں پیمانہ ہے
ن۔ م راشد
ن م راشد کو حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ن م راشد
ایک ایسا شاعر ہے جو ہمارے سامنے ایک جدید انسان کا تصور پیش کرتا ہے وہ
انسان جس کا تعلق مغربی تہذیب سے ہے جو مغربی تعلیم کا پروردہ ہے جس کا
رابطہ نہ مذہب سے، نہ تہذیب سے اور نہ اخلاقیات سے ہے اس نے اپنے سارے
مراکز گم کر دیے ہیں۔ اور بقول ڈاکٹر وزیرآغا ”راشد کے انسان کے قدم زمین
میں دھنسے ہوئے ہیں بلکہ زمین سے اُٹھے ہوئے ہیں۔“ راشد کا انسان انتشاری
ہے وہ سب سے پہلے روحانیت کی بات کرتا ہے پھر روحانیت کی نفی کرتا ہے پھر
وہ روحانی تصورات کو رد کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور اپنے انتشار کو کم کرنے
کے لیے مختلف سہارے لیتا ہے کبھی خوابوں کی سرزمین میں پناہ لیتا ہے، کبھی
عورت کے جسم میں اور کبھی فرار حاصل کر لیتا ہے اور سب سے تنگ آکر خوکشی کا
سوچتا ہے۔ ان کے ہاں نہ صرف انفرادی اور اجتماعی دکھ ہے بلکہ پورے ہندوستان
اور پوری ایشیا کا دکھ ان کی شاعری میں موجود ہے۔ ”اجنبی عورت“ میں یہی
کیفیت ہے۔
ارض مشرق ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں
آج ہم کو جن تمنائوں کی حرمت کے سبب
دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے
ان کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں
پھر اس کا انسان آفاقی بن جاتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ مشرق و مغرب کے لوگ
ایک امن کے مرکز پر جمع ہو جائیں یہ تصور ان کے آفاقی انسان کا ہے۔
شہر کی فصیلوں پر دیو کا جو سایہ تھا
پاک ہو گیا آخر رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر
ازدحام انساں سے فرد کی نواآئی
یوسف ظفر
یوسف ظفر کی شاعری میں داخل کی رو بے حد تیز اور متحرک ہے۔ حب وطن کا جذبہ
یوسف ظفر کی شاعری کی قیمتی اساس ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں یوسف
ظفر کی عطا یہ ہے کہ انہوں نے خام مواد تو زندگی سے حاصل کیا اور اسے داخل
کی ہلکی آنچ پر پکا کر تخلیق شعر کا فریضہ ادا کیا۔ چنانچہ وہ صرف خارج کو
ہی متحرک نہیں کرتے بلکہ داخل کی سلگتی ہوئی آنچ بھی قاری کے دل میں اتار
دیتے ہیں۔ فنی طور پر یوسف ظفر الفاظ کے علامتی استعمال سے معنویت اور ان
کے ظاہر سے درد انگیز غنائیت پیدا کرتے ہیں۔ اور اس انداز کو انہوں نے نظم
اور غزل دونوں میں بڑی خوش اسلوبی سے استعمال کیا ہے۔
قیوم نظر
قیوم نظر کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے ہر لمحہ رنگ بدلتی دنیا کو اپنا
موضوع بنایا اور ان کیفیتوں کو شعر کا پیکر عطاکیا جو نغمہ بن کر فضاءکو
مترنم کر دیتی ہے۔ قیوم نظر نے اردو شاعری کی تین اصناف نظم، غزل اور
گیتمیں یکساں طور پر طبع آزمائی کی ہے۔ قیوم نظر کے استعارے اور علامتیں
کسی مخصوص نظام کے تابع نہیں چنانچہ ان کے ہاں یکسانی کی گراں باری پیدا
نہیں ہوتی۔
روش روش پہ ترانے گلوں کے افسانے
ہزار شعبدے پیدا چمکتے رنگوں سے
بہار کھیل رہی ہے نئی امنگوں سے
ضیا ءجالندھری
ضیا ءجالندھری نے داخل کے غیر مرئی جذبے کو جب مرئی صور ت میں پیش کیا تو
انہوں نے فطرت کی موجود صور ت کو نسبتاً زیادہ اہمیت دی اور بیشتر ایسی
تصویریں مرتب کیں جنہیں قاری باآسانی دیکھ سکتا ہے۔ ضیا ءجالندھری کی
امتیازی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے حسن کی دوامی حیثیت کو اجاگر کیا اور یوں
ان کی شاعری میں وقت کی تینوں العاد ایک ایسی لکیر میں منتقل ہو جاتی ہیں
جس کی ابتداءاور انتہا دونوں ابھی تک نامعلوم ہیں۔
ایک شوخی بھری دوشیزہ یہ بلور ِ جمال
جس کے ہونٹوں پہ ہے کلیوں کے تبسم کا نکھار
سیمگوں رخ سے اُٹھائے ہوئے شب رنگ نقاب
تیز رفتا ر اڑائے ہوئے کہرے کا غبار
افق شرق سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے
ناصر کاظمی
ناصر کاظمی حلقے کے شعراءسے متاثر تھے۔ ناصر کاظمی کی عطا یہ ہے کہ انہوں
نے میر کے دل گرفتہ انداز کی باآفرینی کی اور اپنے داخل کے پراسرار جزیرے
کو غزل کے پیکر میں سمو دیا۔ ناصر کی غزل میں دکھ، تنہائی کی سلگتی ہوئی
آنچ نظرآتی ہے۔ ہجرت کا حوالہ بھی ناصر کی شاعری میں بنیادی اہمیت رکھتا
ہے۔ ناصر نے استعارے لفظیات وغیرہ کے پیمانے عشقیہ رکھے ہیں لیکن اس کے
باطن میں کتنے باطن میں کتنے دکھ ہیں اسے ہم اس کی شاعری میں دیکھ سکتے
ہیں۔ محض عشق نہیں بلکہ ہجرت جدید دور کے مسائل اور بہت سی دوسری چیزیں ان
کی غزلوں میں ملتی ہیں۔ مثلاً
کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
شہرت بخاری
شہرت بخاری کی غزل کا خارجی خول بظاہر ایرانی ہے۔ تاہم برصغیر کے عرضی
مظاہر اور داخل میں گہری غواصی نے ان کی آواز کو انفرادیت عطا کی ہے۔
کسی کی روح کا بجھتا ہے شعلہ
کسی کی آنکھ میں جلتا ہے کاجل
آرائش ِ جمال سے فرصت نہیں انھیں
پھرتے ہیں پاگلوں کی طرح ہم گلی گلی
مختار صدیقی
حلقہ اربابِ ذوق سے وابستہ ایک نام مختار صدیقی کا بھی ہے اس کی شاعری میں
زبان و بیان کے علاوہ دکھ درد کے حوالے زیادہ ہیں۔ سادگی اور بناوٹ بھی ہے۔
اور میر سے متاثر نظر آتے ہیں۔
سب خرابے ہیں تمنائوں کے
کون بستی ہے جو بستی ہے یاں
منیر نیازی
حلقے سے متاثر شعراءمیں ایک نام منیر نیازی کا بھی ہے۔ منیر کی غزل کئی
دکھوں سے تعمیر ہوئی ہے اس میں محبت کے دکھ بھی ہیں او رکئی سماجی درد بھی
ہیں۔ کہیں کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ سماج کے بہت سے اندرونی دکھ محبت میں
شامل ہو گئے ہیں اور بعض جگہ یہ احساس ہوتا ہے کہ سماجی دکھ اور محبت کے
دکھ سے مل کر درد کی کوئی نئی اکائی تشکیل دے رہی ہے۔ مثلاً
اس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر
جانے کا اُس کے رنج مجھے عمر بھر رہا
جانتا ہوں ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
حلقہ اربابِ ذوق نے غزل کو جدید یت کی جس راہ پر گامزن کیا تھا اسے بہت سے
شعراءنے خندہ پیشانی سے قبول کیا چنانچہ حلقے کے زیر اثر اختر ہوشیار پوری،
وزیر آغا، شکیب جلالی، سجاد باقر رضوی، سلیم شاہد اور اقبال ساجد جیسے شاعر
ابھر جنہوں نے اردو غزل کو زندگی کی نئی متنوع تجربات سے ہمکنار کر دیا۔
جدیدیت ۔ 1960ء کے بعد
ڈاکٹر منیر الزماں منیر
جدیدیت ایک اصطلاح ہے جس کا چلن 1960 کے بعد ہوا ۔ عام طور سے جدیدیت کی
تعریف تو یہی کی گئی ہے کہ یہ اپنے عہد کے مسائل یا اپنے عہد کی حسیت کو
پیش کرنے کا نام ہے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جدیدیت کے پس منظر میں وجودیت
کی فکری تحریک ہے اور سیاسی بنیادوں پر جدیدیت کی تحریک ، ترقی پسند تحریک
کے ردعمل کے طور پر وجود میں آئی ۔ ہر رجحان ابتداء میں انحراف ، بے سمتی
اور تجرباتی دور میں ہونے کی وجہ سے خام کارانہ انداز رکھتا ہے ۔
اردو شاعری میں مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کو مسلمہ
طور پر جدید رجحانات کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ بعض ناقدین کا یہ بھی
خیال ہے کہ اردو ادب میں جدید دور کا آغاز لاہور میں منعقدہ اردو کی پہلی
کانفرنس سے ہوتا ہے اور بعض کے خیال میں سرسید کی ’’علی گڑھ تحریک‘‘ نے
جدید اردو ادب کی داغ بیل ڈالی ۔ بعض دانشوروں کے یہاں ’’ترقی پسند تحریک‘‘
کے آغاز یعنی 1936 ء کے بعد سے ہندوستانی شعراء کا مزاج بدلا اور بعض اہل
قلم نے ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ سے اس کا رشتہ جوڑا۔ راقم الحروف کا یہ تاثر
ہے کہ اردو ادب میں خصوصاً اردو شاعری میں جب سے روایت شکنی کا رجحان پیدا
ہوا تب ہی سے جدید دور کا آغاز تصور کیا جاتا ہے ۔ ان سارے حالات کی روشنی
میں ہم جدید اردو ادب کے اولین معماروں اور علمبرداروں میں مولانا محمد
حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کو ہی تسلیم کرتے ہیں ۔ سرسید کی علی گڑھ
تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق سے وابستہ شعراء سامنے
آتے ہیں
جن کی مساعی نے اردو ادب میں آنے والے نئے ذہنوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہم عصر
قدآور ہستیوں کے قدامت پسند اور محدود رجحاناتی پردے اٹھا کر انھیں وسیع
اور عریض میدانوں کی سیر کرائی اور کھلی اور تازہ فضاؤں میں سانس لینے کی
راہیں ہموار کیں ۔ جدید ادب اور اس کے مختلف پہلوؤں پر ممتاز شاعر قاضی
سلیم اس طرح روشنی ڈالتے ہیں ’’پَے در پَے سہاروں کی شکست ، فریب اور فریب
کا عام سطح کے لوگوں میں اکتاہٹ ، بیزاری ، جھلاہٹ اور ان کے مظاہر ،
لاقانونیت ، فساد ، طالب علموں کی توڑ پھوڑ ، سادھوؤں کا ننگا جلوس ، ادب
میں بھوکی پیڑی ، پونی ۔ دادی ، کویتا نپوست راج ، ننگا کنچن جنگا اور پھر
کلب کریز ڈرگس ، ترپ ، چاچا چاچا ، عظمتوں کے جھروکے سے جھانکتے ہوئے
دانشوروں ، کھوکھلے فلسفوں سے چمٹے ہوئے لفظوں کے غلام ایسے میں آج کل کے
ادیبوں کی ذمہ داری اپنے پیشتر یا کسی بھی زمانے کے ادیبوں ، شاعروں سے
مختلف ہے ۔ یہی ذمہ داری کا مختلف ہونا جدید ادب کا جواز بھی ہے اور بنیاد
بھی‘‘ ۔
(’’جدیدیت‘‘ مضمون مشمولہ ، جدیدیت تجزیہ و تفہیم ، مرتبہ ڈاکٹر مظفر حنفی
، ص 103)
روایتی شاعری کے فرسودہ تصور سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ بالکل مفلوج ہو کر
رہ گئی ہے جس میں دلوں کو گرمانے اور مسخر کرنے والے عناصر کی گرانی ہے ،
ایسا نہیں ہے ۔
روایتی شاعری جس میں رومانیت کو مرکزیت حاصل ہے ، آج بھی دلوں کو گرماتی
اور خوابیدہ ذہنوں کو بیدار کرتی ہے ۔ہر جدید شاعر کے یہاں اس رنگ میں
دوچار نہیں بلکہ بے شمار اشعار مل جاتے ہیں ۔ لفظیات کی ترتیب اور اسلوب
بیان پر اگرچہ کہ قدرت پائی جاتی ہے لیکن مفہوم کے پردے میں وہی بات نظر
آتی ہے ، جو قدامت پسند شعراء کے یہاں ملتی ہے ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ
پرانے شعری مجسمے کو نیا لباس پہنا کر اور خوب سجا کر نئے روپ اور نئے رخ
سے پیش کیا جارہا ہے جو قاری کو راست بھی اور بالواسطہ بھی متاثر کررہا ہے
۔ موجودہ شعری آہنگ چونکہ غنائیت کو راست پیش کرنا نہیں چاہتا اس لئے جدید
استعاروں ، کنایوں اور تشبیہات ولفظیات کے ذریعے اپنا مدعا پیش کررہا ہے جس
کو فوری سمجھنے سے عام قاری کا ذہن معذور ہے ۔
روایتی شاعری اور فرسودہ شاعری دونوں میں فرق ہے ۔ جدید شعراء کے یہاں
روایتی شاعری سے نہیں بلکہ فرسودہ شاعری سے بغاوت کا میلان نظر آتا ہے ،جو
بے جان اور مہمل ہے اور جو جذبے اور احساس کی بیداری سے عاری ہے ۔ روایتی
شاعری کے بعض مخصوص لفظیات جیسے عشق ، محبت ، دیدار ، آنسو ، وفا ، محبوب ،
زلف ، انگڑائی ، نزاکت ، حسن ،گل و بلبل ، جنون ، قفس ، برق و آشیاں ، حسرت
، شراب ، جام ، مئے خانہ ، ساقی ، رند ، پژمردگی ، شکست ، احساس کمتری ،
ناامیدی ، مایوسی ، شکوہ ، گلہ ، آہ ، نالے ،فغاں ، فریاد ، تنہائی ، چلمن
، پردہ ، نقاب ، کوٹھا ، زاہد ، طوائف ، آئینہ ، تصور ، خزاں ،بہار ، خار ،
عکس ، دربار ، حرم سرا ، جبر حیات ، اکتاہٹ ، بے بسی ناکامی ، محرومی وغیرہ
وغیرہ ،آج کے جدید دور میں کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ مضحکہ خیز معلوم ہوتے
ہیں ۔ آج کے دور میں شعراء کے سامنے زندگی کی قدر ، کھیت ، کھلیاں، کسان ،
صنعتیں ، مزدور ، قید ، پھانسی ، بغاوت ، خون ، قتل جنگ ، سمندر ، طوفان ،
ہل بان ، انقلاب ، چٹان ، آندھی ، موسم ، برسات ، بسنت ، سورج ، دھوپ ،
آواز ، آگ ،سایہ ، عمارت ، شجر ، پتھر ، دیوار ، شہر ، جنگل ، ریت ، بازار
، سناٹا ، سائنس ، ٹکنالوجی ، سیاست ، اولوالعزمی ،جواں مردی ، ارادہ ، قوت
، جرم ، سزا ، دار ، چیخ وغیرہ وغیرہ جیسے عنوانات ہیں ۔ آج کا جدید شاعر
آگے بڑھنے کا عزم رکھتا ہے پیچھے مڑ کر دیکھنا اس کے مذہب میں کفر ہے ۔ ہر
نیا ذہن بیداری کا درس لے کر اٹھتا اور آگے بڑھتا ہے ۔ وسیع عزائم ، بلند
حوصلگی اور عصری شعور ان کے یہاں بہت زیادہ نظر آتا ہے ۔ اس کے باوجود بھی
جدید شعراء نے سائنس اور ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم مثلاً
انتھراپولوجی اور سوشیالوجی وغیرہ سے خاطر خواہ اکتساب فیض نہیں کیا جتنا
کرنا چاہئے تھا ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں کے جدید معمار اس کمی کو پورا
کریں ۔
جس طرح قدیم شاعری میں فرسودہ اور مہمل شاعری کی مخالفت کی گئی اسی طرح
جدید شاعری میں بھی مخالفت کا رجحان پایا جاتا ہے ۔ جدید ادب میں جدید
لفظیات کے استعمال کے علاوہ بعض جدید اصناف کی ہیئتی ترکیبوں پر بھی اعتراض
کیا جارہا ہے ۔ اعتراض اس بات پر نہیں کہ جدید شاعری کو جدید تر اور ترقی
پسند نہیں ہونا چاہئے بلکہ اعتراض کا اصل مقصد یہ ہے کہ ترقی پسندی کا
ہمارے جدید شعراء نے غلط مفہوم لیا ۔ ان اعتراضات کی روشنی میں دو الگ الگ
تحریکیں اور ان سے وابستہ شعراء دو زمروں میں منقسم ہوگئے ،جس کی مثالیں
ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کی شکل میں ہمارے سامنے آئیں ۔ مجموعی
طور پر جدید شاعری کے میلانات کا ہر سمت سے پُر جوش استقبال کیا جانے لگا
جو تھکے ہوئے ذہنوں کو بیدار کرنے میں بڑے ممد و معاون ثابت ہوئے ۔ نئے
شاعر اور اس کے عصری شعور اور حرکیاتی پہلوؤں پر انیس ناگی نے اس طرح روشنی
ڈالی ہے
’’نئے شاعر کے لئے آمد اور آورد کے امتیازات ختم ہوچکے ہیں ، اس کے یہاں
آمد ایک ڈھکوسلا ہے ۔ اس کی شاعری ، شعور کی پیداوار ہے ۔ وہ معاشرے کا ایک
ذمہ دار رکن ہے اور اپنے اردگرد سائنسی دنیا میں حیرت انگیز تغیرات محسوس
کررہا ہے ۔ اس کا شعور ہم عصر حالات اور واقعات کا احساس رکھتا ہے‘‘ ۔
(’’بغیر معذرت کے‘‘ مشمولہ جدیدیت تجزیہ و تفہیم ، مرتبہ ڈاکٹر مظفر حنفی ،
ص 127)
جدید شاعری میں شاعر نے اپنا انفرادی احساس و اظہار کا ایک الگ معیار مقرر
کررکھا ہے ۔ اپنے اس احساس و اظہار کے لئے نئے نئے لفظیات (Diction) کا
تعین کیا گیا اور اس طرح نئے نئے استعارے بھی وضع کئے گئے ۔ جدید شعراء میں
بعض مخصوص مقامات پرانگریزی الفاظ کے استعمال کا رجحان بھی ہمیں ملتا ہے
۔اسی طرح اینٹی غزل کا رجحان بھی جدید شعراء کے یہاں ملتا ہے ۔ اینٹی غزل
اور اس کے تجربے پر پروفیسر محمد عقیل رضوی نے اپنی رائے اس طرح دی ہے
’’پرانے الفاظ ، علائم ، تشبیہات ، استعاروں اور لہجے کی سطح مسلسل استعمال
سے گھس کر چکنی ہوگئی ہے ۔ اس لئے وہ سطح جدید غزل کے لئے کارآمد نہیں ۔
جدید غزل کو اپنے تمام سانچوں اور وسیلوں کو بدل کر ایک نیا قالب بنانا ہے
اور یہی قالب غزل کا نیا سانچہ اور جدید آہنگ ہوگا ۔ اس نئے آہنگ اور سانچے
کو صحیح طور پر اپنانے کے لئے پہلے جدید غزل کو مروجہ رنگِ تغزل کی نفی
کرنی ہوگی جیسے اینٹی غزل کا تجربہ کیاگیا‘‘
ناول اور افسانے میں کیا فرق ہے؟
پس منظر؛
اردو ادب میں شاعری کو اولیت حاصل ہے اور پہلے پہل شعرا شاعری کے ذریعے
اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ نثر نے سر اُٹھانا
شروع کیا۔ اور پھر نثری تحریروں کی صورت وارداتِ قلبی کا اظہار کیا جانے
لگا۔ناول داستان کی ترقی یافتہ شکل ہے اور افسانہ ناول کا مآخذ تصور کیا
جاتا ہے۔
ناول کیا ہے؟
یہ ایک مغربی صنف ہے جو اردو میں داستان کے بعد رائج ہوئی۔ اس کے معنی نیا۔
انوکھا۔ عجیب اور نمایاں کے ہیں۔یہ ایک نثری کہانی ہوتی ہے جو کسی ایک
انسان کی تمام زندگی پر محیط ہوتی ہے۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ Novellaسے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کے معانی ہیں
انوکھا، عجیب ، نرالا، نئی چیز اور بدعت۔ اصطلاحی معنوں میں ناول وہ قصہ یا
کہانی ہے جس کا موضوع انسانی زندگی ہو۔ یعنی انسانی زندگی کے حالات و
واقعات اور معاملات کا انتہائی گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز
میں ترتیب کے ساتھ کہانی کی شکل میں پیش کرنے کا نام ناول ہے۔ ناول کی
تاریخ اتنی قدیم نہیں جتنی بقیہ اُردو اصناف کی ہے۔ ناول کی ابتد اٹلی کے
شاعر اور ادیب جینووینی بو کا شیو نے ۵۵۳۱ءمیں ناویلا سٹوریا نامی کہانی سے
کی۔ انگریزی ادب میں پہلا ناول ”پا میلا “ کے نام سے لکھا گیا اُردو ادب
میں ناول کا آغاز انیسویں صدی میں انگریزی ادب کی وساطت سے ہوا
پروفیسر بیکر نے ناول کے لیے چار شرطیں لازم کردیں ۔قصہ ہو ، نثر میں ہو،
زندگی کی تصویر ہو اور اس میں رابط ویک رنگی ہو۔ یعنی یہ قصہ صرف نثر میں
لکھا نہ گیا ہو بلکہ حقیقت پر مبنی ہواور کسی خاص مقصد یا نقط نظر کو بھی
پیش کر تا ہو ۔
در اصل ناول وہ صنف ہے جس میں حقیقی زندگی کی گونا گوں جزیات کوکبھی اسرار
کے قالب میں کبھی تاریخ کے قالب میں کبھی رزم کے قالب میں کبھی سیاحت یا
پھر نفسیات کے قالب میں ڈھالا جاتا رہا لیکن ان تمام شکلوں میں جو چیزیں
مشترک تھیں وہ قصہ، پلاٹ کردار، مکالمہ، مناظر
فطرت، زمان ومکاں نظریۂ حیات اور اسلوب بیان کو خاص اہمیت حاصل ہے
ناول کے اجزائے ترکیبی
آ
ناول' شفقت اللہ سیال شاکرؔ تعریف:۔ ناول وہ نثری قصہ ہے جس میں ہماری
زندگی کی تصویر ہوبہو پیش کی گئی ہو۔ ولادت سے موت تک انسان کو جو معاملات
پیش آتے ہیں، جس طرح وہ حالات کو یا حالات اسے تبدیل کر دیتے ہیں وہ سب
ناول کا موضوع ہے۔ خلاصئہ کلام یہ کہ ناول ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں
زندگی کے سارے روپ دیکھے جا سکتے ہیں۔ لفظ "ناول" اطالوی زبان کا لفظ
"ناویلا" سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں نیا، عجیب یا انوکھا کے ہیں۔ کلاراریوز
کے مطابق:۔ " ناول اس زمانے کی زندگی اور معاشرت کی سچی تصویر ہے جس زمانے
میں وہ لکھا جا ئے"۔ ایچ۔۔ جی۔۔ ویلز کے مطابق:۔ "اچھے ناول کی پہچان حقیقی
زندگی کی پیشکش ہے" ناول کے اجزائے ترکیبی:۔ ناول کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں
یعنی وہ کیا چیز یں ہیں جن کا کسی ناول میں پایا جانا ضروری ہے۔ فن کے نقطۂ
نظر سے جن چیزوں کا ناول میں پایا جانا ضروری ہے وہ یہ ہیں۔ قصہ، پلاٹ،
کردارنگاری، مکالمہ نگاری، منظر کشی اور نقطۂ نظر۔ اب ان اجزا کا مختصر
تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ قصہ:۔ قصہ وہ بنیادی شے ہے جس کے بغیر کوئی ناول
وجود میں نہیں آ سکتا۔ کوئی واقعہ ،کوئی حادثہ،کوئی قصہ فن کار کو قلم
اُٹھا نے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ایک ضروری بات اور۔ پڑھنے والے کو یہ قصہ
بالکل سچا لگنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ قصہ جتنا جاندار ہوگا قاری کی
دلچسپی اس میں اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ اب یہ فن کار کی ذمہ داری کہ وہ اس
دلچسپی کو برقرار رکھے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کہانی اس طرح آگے بڑھے کہ
پڑھنے والا یہ جاننے کے لیے بے تاب رہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ گویا کہانی
پن برقرار رہے۔ پلاٹ:۔ پلاٹ قصے کو ترتیب دینے کا نام ہے۔ ایک کامیاب فن
کار واقعات کو اس طرح ترتیب دیتا ہے جیسے موتی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ ان
واقعات میں ایسا منطقی تسلسل ہونا چاہیے کہ ایک کے بعد دوسرا واقعہ بالکل
فطری معلوم ہو۔ واقعات ایک دوسرے سے ہوری طرح پیوست ہوں تو پلاٹ مربوط یا
گٹھا ہوا کہلائے گا۔ اور ایسا نہ ہو تو پلاٹ ڈھیلا ڈھیلا کہلائے گا جو ایک
خامی ہے۔"امراؤجان ادا" کا پلاٹ گٹھا ہوا اور کسا ہوا ہے جب کہ " فسانہ
آزاد " کا پلاٹ ڈھیلا ڈھالا ہے۔ ناول میں ایک قصہ ہو تو پلاٹ اکہرا یا سادہ
کہلائے گا۔ ایک سے زیادہ ہوں تو مرکب جیسا کہ " امراؤ جان ادا" میں ہے۔ کچھ
دنوں بحث چلی کہ پلاٹ کا ہونا ضروری ہے بھی یا نہیں۔ ہماری زبان کا ناول "
شریف زادہ" بغیر پلاٹ کے واحد ناول ہے۔ لیکن اصلیت یہ ہے کہ پلاٹ کے بغیر
کامیاب نال کا تصور ممکن نہیں۔ کردار نگاری:۔ کردار نگاری ناول کا اہم جزو
ہے۔ ناول میں جو واقعات پیش آتے ہیں ان کے مرکز کچھ جاندار ہوتے ہیں۔ ضروری
نہیں کہ یہ انسان ہی ہوں۔ حیوانوں سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ یہ افراد قصہ
کردار کہلاتے ہیں۔ یہ جتنے حقیقی یعنی اصل زندگی کے قریب ہوں گے ناول اتنا
ہی کامیاب ہو گا۔ کردار دو خانوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ایک پیچیدہ (
راؤنڈ) دوسرے سپاٹ (فلیٹ) ۔۔ انسان حالات کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔ جن
کرداروں میں ارتقا ہو تا ہے یعنی جو کردار حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں وہ
راؤنڈ کہلاتے ہیں۔ جیسے مرزا ہادی رسوا کے امراؤجان ادا اور سلطان مرزا۔
اسی طرح کے کردار جیتے جاگتے کردار کہلاتے ہیں اور ادب کی دنیا میں امر ہو
جاتے ہیں۔ جو کردار ارتقا سے محروم رہ جاتے ہیں پورے ناول میں ایک ہی سے
رہتے ہیں وہ سپاٹ کہلاتے ہیں۔ نذیر احمد کے "مرزا ظاہر دار بیگ" اور
سرشارکے "خوجی" اس کی مثال ہیں۔ یہ دلچسپ ہو سکتے ہیں مگر سچ مچ کے انسانوں
سے ملتے جلتے نہیں ہو سکتے۔ مکالمہ نگاری:۔ مکالمہ نگاری پر بھی ناول کی
کامیابی اور ناکامی کا بڑی حد تک دارومدار ہوتا ہے۔ ناول کے کردار آپس میں
جو بات چیت کرتے ہیں وہ مکالمہ کہلاتی ہے۔ اسی بات چیت کے ذریعے ہم ان کے
دلوں کا حال جان سکتے ہیں اور انہیں کے سہارے قصہ آگے بڑھتا ہے۔ مکالمے کے
سلسلے میں دو باتیں ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ مکالمہ غیر ضروری طور پر طویل
نہ ہو کہ قاری انہیں پڑھنے میں اکتا جائے۔ دوسری بات اس سے بھی زیادہ ضروری
ہے۔ وہ یہ کہ مکالمہ جس کردار کی زبان سے ادا ہو رہا ہے اس کے حسبِ حال ہو۔
منظر کشی:۔ منظر کشی سے ناول کی دلکشی اور تاثیر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
منظر کشی کامیاب ہو تو جھوٹھا قصہ بھی سچ لگنے لگتا ہے۔" امراؤجان ادا" میں
مرزا رسوا نے خانم کے کوٹھے کا نقشہ ایسی کامیابی کے ساتھ کھینچا ہے کہ
پورا ماحول ہمارے پیش نظر ہوجاتا ہے۔ عرس ،میلے،نواب سلطان کی کوٹھی کا ذکر
ہے تو ایسا کار گر کہ لگتا ہے کہ ہم خود وہاں جا پہنچے ہیں۔ پریم چند کو
بھی منظر نگاری میں بڑی مہارت حاصِل ہے۔ شرر اور طبیب کے ناولوں میں یہ
کمزوری نمایاں ہے۔ نقطۂ نظر:۔ نقطۂ نظر جسم میں خون کی طرح فن کار کے قلم
سے نکلی ہوئی ایک ایک سطر میں جاری و ساری ہوتا ہے۔ ہر انسان اور خاص طور
پر فن کار کائنات اور اس کی ہر شے کو اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جب وہ
کسی موضوع پر قلم اٹھاتا ہے تو گویا اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے
اور اپنا نقطۂ نظر واضع کرتا ہے۔ غرض یہ کہ ہر تخلیق کے پیچھے کوئی نقطۂ
نظر کار فرما ہوتا ہے۔ اور اصنف اسی کی خاطر تخلیق کا کرب چھیلتا ہے۔ مولوی
نذیر احمد نے " ابن الوقت" یہ واضع کر نے کے لیے لکھا کہ بے سوچے سمچھے
نقالی انسان کو ذلیل و خوار کر دیتی ہے۔ ان کا ہر ناول اصلاحی نقطۂ نظر کا
حامِل ہے۔
کیا ہے افسانہ
افسانہ اردو ادب کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ داستان اور ناول کے بعد اس نے
مقبولیت حاصل کی ہے۔ افسانہ کو انگریزی میں شورٹ اسٹوری کہا جاتا ہے۔عام
طور پر ایک ایسی فرضی کہانی کو افسانہ کہا جاتا ہے جو حقیقت کے قریب ہوتی
ہےاور اس میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی کی جاتی ہے۔افسانہ نگار اپنے
گرد کے ماحول سے افسانے کا مواد حاصل کرتا ہے۔افسانہ قدرے مختصر ہوتا ہے
اور ایک ہی نشست میں پڑھا جاسکتا ہے۔اس کی سب سے بڑی خوبی ہی اس کا مختصر
ہونا ہے۔افسانہ زندگی کے کسی ایک رخ کی عکاسی کرتا ہے۔
افسانے کے اجزائے ترکیبی؛
افسانے کے درج ذیل اجزائے ترکیبی ہیں؛
پلاٹ؛
پلاٹ کسی بھی ادبی صنف میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔اس میں واقعات کی فنی
ترتیب کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔افسانے میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے
واقعات میں تنظیم ہو تب ہی کوئی پلاٹ خوبصورت بنتا ہے۔اگر پلاٹ اچھا نہ ہو
گا تو واقعات کا ربط و تسلسل بھی ٹوٹ جائے گا ۔اچھا پلاٹ وہ ہوتا ہے جس میں
واقعات کی کڑیاں آپس میں مربوط و منظوم ہوتی ہیں۔
کردار؛
کردار کسی بھی افسانے میں خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔کرداروں کی بدولت ہی
کسی بھی کہانی میں جان پیدا ہوتی ہے۔ کردار کسی بھی کہانی کو آگے بڑھانے
میں مددگار و معاون ثابت ہوتے ہیں۔بعض اوقات ایک کردار کے گرد ہی افسانے کی
پوری کہانی گھومتی ہے۔کرادر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ارتقاء یافتہ جس میں
بچپن سے بڑھاپے تک کوئی بھی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ایسی طرح ارتقاء پذیر
کردار ایسے کردار ہوتے ہیں جن میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں رونما ہوتی رہتیں
ہیں۔
مکالمہ؛
افسانے میں مکالمے فطری اور کرداروں کے عین مطابق ہونے چاہیے۔
عنوان؛
افسانے کا عنوان معنی سے بھرپور ہونا چاہیے۔ ایسا عنوان ہو کہ قاری کے دل
کو فوراً متوجہ کرے۔ اور پوری کہانی اس کے عنوان میں جھلک رہی ہو۔
اختتام؛
افسانے کا اختتام مکمل کہانی کی طرح نہیں ہوتا۔ کسی بھی افسانے میں بعض وقت
کہانی کو ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے۔اور قاری اس کے انجام تک خود رسائی حاصل
کرتا ہے۔
ناول اور افسانے میں بنیادی فرق؛
ناول اور افسانے میں بہت سے مختلف عناصر ہیں جیسے ناول ایک ایسی نثری کہانی
ہوتی ہے جو کہ کسی انسان کی تمام زندگی پر مبنی ہوتی ہے۔ اس میں بے شمار
کردار پائے جاتے ہیں۔ یہ داستان سے تھوڑی چھوٹی کہانی ہوتی ہے اور اس میں
مصنف زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بیان کرتا ہے۔ اس میں چھوٹی چھوٹی کئی
کہانیاں پائی جاتی ہیں۔ جو آپس میں مربوط ہو کر ناول کی شکل اختیار کر جاتی
ہیں۔ ناول افسانے سے طویل ہوتا ہے اس کو ایک ہی نشست میں پڑھا نہیں جا
سکتا۔ بعض اوقات اس کے ابواب بھی بنا دئے جاتے ہیں۔ اور انکو عنوانات بھی
دئے جاتے ہیں۔ جبکہ افسانہ ناول کی نسبت مختصر ہوتا ہے۔ اس میں انسان کی
زندگی کے کسی ایک پہلو کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔اور اُس ایک پہلو کو اس قدر
خوبصورتی کے ساتھ بیان کر دیا جاتا ہے کہ قاری پر سب کچھ عیاں بھی ہو جاتا
ہے اور ایک طرح سے اصلاح بھی ہو جاتی ہے۔افسانہ ایک ایسی صنفِ ادب ہے جس کو
ہم ایک ہی نشست میں ختم کر سکتے ہیں۔ اس میں ایک بنیادی کردار ہوتا ہے اور
باقی دو چار کردار اس کے گرد گھومتے ہیں۔ناول اور افسانہ میں اسلوب کو
خبصورت بنانے کے لیے بھی بھرپور اقدامات کیے جاتے ہیں۔
ماحصل؛
دورِ جدید میں انسان بہت عجلت پسند ہو گیا ہے۔ اسی عجلت نے انسان کو اختصار
پسند بنا رکھا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ آدمی نے داستان سے ناول کا سفر طے کرنے
کے بعد افسانے سے اب افسانچے کو اہمیت دینا شروع کر دی ہے
اُردو ناول نگاری کا آغاز و ارتقاء
ناول اطالوی زبان کے لفظ Novellaسے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کے معانی ہیں
انوکھا، عجیب ، نرالا، نئی چیز اور بدعت۔ اصطلاحی معنوں میں ناول وہ قصہ یا
کہانی ہے جس کا موضوع انسانی زندگی ہو۔ یعنی انسانی زندگی کے حالات و
واقعات اور معاملات کا انتہائی گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز
میں ترتیب کے ساتھ کہانی کی شکل میں پیش کرنے کا نام ناول ہے۔ ناول کی
تاریخ اتنی قدیم نہیں جتنی بقیہ اُردو اصناف کی ہے۔ ناول کی ابتد اٹلی کے
شاعر اور ادیب جینووینی بو کا شیو نے ۵۵۳۱ءمیں ناویلا سٹوریا نامی کہانی سے
کی۔ انگریزی ادب میں پہلا ناول ”پا میلا “ کے نام سے لکھا گیا اُردو ادب
میں ناول کا آغاز انیسویں صدی میں انگریزی ادب کی وساطت سے ہوا۔
ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کو اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیاجاتا ہے۔
۹۴۸۱ءمیں اُن کا ناول ”مراة العروس“ کو اُردو کا پہلا ناول تسلیم کیا جاتا
ہے۔ دراصل ڈپٹی نذیر احمد کے اصلاحی قصوں کو ناول قرار دینا درست نہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں قصوں کو ایک نئے انداز میں رقم کرنے کا جو انداز
ملتا ہے اس کے ناول کی تکنیک سے رشتے تلاش کیے جاسکتے ہیں مگر انہیں ناول
تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی وہ ناول کی فنی خصوصیات پر پورا اترتے ہیں
اس سلسلے میں پروفیسر سید وقار عظیم رقمطراز ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد کے جن قصوں کو متفقہ طور پر ناول کہا گیا ہے اُن میں فن کے
وہ لوازم موجود نہیں جن کا مطالبہ جدید ناول سے کیا جاسکتا ہے۔ پلاٹ اور
اُس کے مختلف اجزائ، ایک اہم موضوع اور موضوع کو پیش کرنے کیلئے ایک موزوں
اور پرکشش آغاز، الجھن، منطقی انجام، زندگی سے بھرپور کردار، ایک واضح نقطہ
نظر کی موجودگی، مقصد اور فن کا باہمی توازن، موضوع اور بیان میں مکمل
مطابقت، مصنف کی شخصیت کا گہرا پر تو اور اُس کی فکری وجذباتی صلاحیتوں کا
پورا مشاہدہ، نذیر احمد کی قصوں میں یہ سب کچھ نہیں ملتا، یہ کہنے میں زرا
تکلف نہیں برتا جاتا کہ یہ قصے ناول نہیں ہیں۔
ڈاکٹر احسن فاروقی نے ڈپٹی نذیر احمد کے قصوں کو تمثیلی افسانے قرار دیا
ہے۔ مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ نذیر احمد نے ادب میں ایک
نئی چیز متعارف کرائی اگرچہ میں نذیر احمد کے فن سے اتفاق نہیں کرتا مگر یہ
تسلیم کرنا چاہیے کہ ان سے قبل اردو ناول میں کوئی نقشِ تقلید موجود نہ
تھا۔ ظاہر ہے جب پہلی دفعہ کسی نئی چیز کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو اُس میں
غلطیوں کا احتمال لازمی امر ہے۔ آج اردو ناول جس ترقی یافتہ شکل میں ہمارے
سامنے موجود ہے اس کی بنیاد ڈپٹی نذیر احمد نے رکھی۔
ہمارے ناول سے جو بھی رابطے ہوں یہ طے ہے کہ ہم نے اپنی تکمیلی صورت مغرب
سے مستعار لی یوں تو ہمارے ہاں کہانی سے ناول تک کا سفر اپنا ایک ارتقائی
مقام رکھتا ہے اس سفر میں سرشار کے ہاں کرداروں کی کثرت، شیرر کے ہاں منتشر
واقعات کے باوجود پلاٹ کی صورت اور نذیر احمد کے ہاں معاشرتی جھلکیاں
ابھرتی ہیں۔ا بتدائی دور میں اردو ناول تمثیل کی سطح تک رہا جس میں جامد
اور غیر تاثر پذیر قسم کے کردار تھے۔ ناول کے موثر کردار ہمارے ہاں درجہ
بدرجہ اُبھرے، تب کہیں جا کر ”امرو جان ادا“ اور ”گﺅدان“ ابھرے۔ جب ہم مشرق
و مغرب کے ہاں ناول نگاری کے مقاصد کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دونوں کے
مقاصد میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں کے ناول کا مقصد نہ مغرب کی
طرح لامحدود آزادی کی لگن ہے نہ محض زندہ رہنے کی آرزو نہ تقدیر کی وہ طنز
جس کے آگے فرد محض بے معنی ہے اور نہ یہاں کی زندگی کسی Idiotکی ستائی ہوئی
کہانی ہے۔ ہمارے ناول کا موضوع ہماری بدلتی ہوئی بنتی ہوئی اور بگڑتی ہوئی
اقداءہیں اور ہمارے ہاں ناول کی شروعات اُن ایام میں ہوئی جب یہ خطہ تبدیلی
کے عمل سے گزر رہا تھا اس لیے ناول کے مرکز میں غیر یقینی ماحول کا پیدا
ہونا عین فطری امر تھا۔ چونکہ ہمارے ہاں ناول کی عمر ۳۴۱ سال بنتی ہے اور
جن زبانوں میں ناول کی عمر تین صدیوں سے زائد ہے اُن سے اردو ناول کا تقابل
کرنا قرینِ قیاس نہیں۔ تاہم اُردو ناول کا افق اتنا محدود نہیں کہ اُردو
ناول نگار کسی احساس کمتری کا شکار ہوں۔
مولوی نذیر احمد، مرزا ہادی رسوا اور عبدالحیلم شرر نے انیسویں صدی کے
اواخر میں اردو ناول کو جو بنیاد فراہم کی تھی اس پر ایک قصرتعمیر کرنے کے
آثار بیسویں صدی میں نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے ابتدائی ناول نگاروں میں
منشی پریم چند، نیاز فتح پوری اور علی عباس حسینی کے نام اہم ہیں۔ پریم چند
کے ناولوں میں اصلاحی رحجانات اور حقیقت نگاری نظر آتی ہے۔ نیاز فتح پوری
کا ناول ”شہاب کی سرگزشت“ حقیقت کو فلسفے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ علی عباس
حسینی نے طربیہ ناول لکھنے کی کوشش کی ”قاف کی پری“ اور ”شاید کہ بہار آئے“
ناولوں میں محبت کے عمل کو مثالی کرداروں کی مدد سے امتحان سے گزرنے کا
موقع دیا۔ حسینی مرزا رسوا کے شاگرد تھے تاہم اُن کی ناول نگاری پر رسوا کے
اثرات نظر نہیں آتے۔
ترقی پسند مصنفین سجاد ظہیر، کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک وغیرہ نے کسی نہ
کسی حوالے سے ناول کی ضرور خدمت کی اور اس صنف کو آہستہ آہستہ ایک بڑے ناول
نگار کیلئے ساز گار بنایا۔ 1950ءکی دہائی میں ناول کے افق پر جو سب سے بڑی
شخصیت رونما ہوئی وہ قرة العین حیدر کی شخصیت ہے۔ 1959میں قرة العین حیدر
کا ناول ”آگ کا دریا“ شائع ہوا۔ اس سے پہلے ان کے ناول ”میرے بھی صنم خانے“
اور ”سفینہ غم دل“ شائع ہوچکے تھے۔ مگر ”آگ کا دریا“ اُن کا نمائندہ ناول
ہے۔ آگ کا دریا بڑے کینوس کا ناول ہے جو گذشتہ چار ہزار سال کی تہذیبی،
سیاسی ، تاریخی اور معاشرتی زندگی کی عہد بہ عہد ابھرنے والی علامتوں سے
گزرتا ہوا عہد جدید تک آتا ہے۔ آگ کا دریا فنی اعتبار سے اُردو ناول نگاری
میں ایک نیا تجربہ تھا۔ اس ناول میں مصنفہ نے مغربی ناول کی تکنیک ”شعور کی
رو“ استعمال کی ہے۔
عبداللہ حسین اردو کے بڑے اہم ناول نگار ہیں وہ ”اداس نسلیں“ کے ذریعے
اچانک اردو ناول کے منظر پر ابھرے۔ اس ناول کا سیاسی اور سماجی پس منظر
انگریزی حکومت کے نوے سالوں پر محیط ہے۔ لیکن اس دور کے واقعات ناول کی بنت
میں پوری طرح سما نہیں سکے۔
ناول نگار نے ایسے موضوع کا انتخاب کیا جو بہت وسیع تھا۔ ناول کے آخر میں
قاری الجھاو کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ میری رائے میں ناول نگار آخر میں خود
الجھاو کا شکار ہوجاتا ہے۔ کہانی پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور ناول
نگار جان چھڑانے کے چکر میں ہے۔
متماز مفتی کا ناول ”علی پور کا ایلی“ بھی اُردو کے اہم ناولوں میں شمار
ہوتا ہے۔ مفتی ہیت کے بجائے مواد پر زور دینے والے قلمکار ہیں۔ وہ اظہار
کیلئے ہیت کی توڑ پھوڑ اور اس سے انحراف سے گریز نہیں کرتے۔ زندگی کا کوئی
واضح نقطہ نظر ناول میں نظر نہیں آتا۔
محمد احسن فاروقی کا ناول ”شامِ اوودھ“ اُن کیلئے وجہ شہرت بنا۔ امراﺅ جان
ادا کے بعد یہ اُردو کا پہلا ناول ہے جس میں لکھنو ¿ کی مٹتی ہوئی تہذیب کی
عکاسی کی گئی ہے۔
فضل کریم فضلی کا ناول ”خونِ جگر ہونے تک“ سماجی حقائق کو غیر آرائشی اور
سادہ انداز میں سامنے لاتا ہے اس ناول کا پس منظر تقسیم سے قبل کا بنگال
ہے۔
حیات اللہ انصاری کے ناول ”لہو کے پھول“ میں اشتراکی نظریے کی فوقیت ثابت
کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ یہ ناول دراصل ترقی پسند تحریک کا منشور ہے۔
خدیجہ مستور کا ناول ”آنگن“ گھر کی کہانی ہے۔ اس ناول سے نظریہ پاکستان کے
بنیادی مباحث جنم لیتے ہیں۔
اس دور کے ایک اہم ناول نگار غلام اثقلین نقوی ہیں اُن کا ناول ”میراگاﺅں“
ایک بہت ہی مختلف قسم کا ناول ہے۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا ایسا ناول تو کبھی
کبھار تخلیق ہوتا ہے اور جب تخلیق ہوتا ہے تو اپنے عہد کا عظیم ناول قرار
دیا جاتا ہے۔
قدرت اللہ شہاب کا ناول ”یا خدا “ قیام پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات کی
عکاسی کرتا ہے ناول کا موضوع اس دور کا عام موضوع ہے۔ ناول کے اندر کوئی
جدت اور ندرتِ خیال نہیں ہے بس ایک مظلوم عورت کی کہانی ہے جسے فسادات کے
مظالم نے بے حس کر رکھا ہے۔ شوکت صدیقی کا ناول ”خدا کی بستی“ ایک اہم ناول
ہے جس نے عام اور نچلے طبقے کی زندگی کے دو بھٹکے ہوئے نو عمر کرداروں کو
زندگی کے سفر میں دکھایا ہے۔ یہ ناول بڑی سفاک حقیقت نگاری، زبان اور
مکالمے کی کاٹ اور خارج کی عمدہ تصویر کشی کے باوجود ہمارے بعد کے ناولوں
کیلئے کوئی روایت نہیں چھوڑتا۔
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جس طبقاتی معاشرے کی نمائندگی کی گئی ہے اس کے
اثرات بعد کے ناول نگاروں میں بھی موجود ہیں۔ والدہ افضال علی، اے آر
خاتون، وحیدہ نسیم، الطاف فاطمہ، رضیہ بٹ، سلمی کنول اور بشری رحمن کے ہاں
بھی طبقاتی لشکارے نظر آتے ہیں۔
تاریخی ناول نگاری میں ربیس احمد جعفری کا ناول مجاہد، قیسی رام پوری کا
جون نسیم حجازی کا خاک و خون زیادہ نمایاں ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ بیسویں صدی کے آخری ربع میں ایک اہم ناول نگار کے طور پر
اُبھرتے ہیں اُن کا ناول ”بہاو“ ایک تہذیب کے اُجڑنے کا منظر پیش کرتا ہے۔
معاصر تاریخ کو موضوع بنانے کے حوالے سے انتظار حسین کا ناول ”آگے سمندر
ہے“ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ناول میں کراچی کے فسادات کو انتہائی
فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ موضوع بنایا گیا ہے۔ ان ناولوں کے علاوہ دستک نہ
دو (الطاف فاطمہ) تلاش بہاراں (جمیلہ ہاشمی) نگری نگری پھرا مسافر (عزیز
بٹ) باگھ (عبداللہ حسین) راجہ گدھ (بانو قدسیہ) بستی (انتظار حسین) محاصرہ
(انیس ناگی) خوشیوں کا باغ (انور سجاد) وغیرہ وہ ناول ہیں جن کی ابتد امراة
العروس سے ہوئی۔ آج اردو ناول جس کا بیج ڈپٹی نذیر احمد نے بویا تھا ایک
تنو مند درخت بن کر برگ و بار لاچکا ہے۔ چند ایک ناول نگاروں اور ناولوں کا
تذکرہ کیا ہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ آغاز سے لے کر اب تک ہزاروں ناول
منصہ شہود پر رونما ہوچکے ہیں۔
اردو افسانہ، آغاز و ارتقا
ڈاکٹر رضوان احمد مجاہد لاہور
اردو میں داستان کا باقاعدہ آغاز فورٹ ولیم کالج کا مرہون منت ہے۔ بعد ازاں
داستانوں کے خلاف بطور ردعمل اور کچھ انگریزی اثرات کے باعث اردو ناول وجود
میں آیا۔ ناول میں پہلی دفعہ بے سروپا باتوں اور مافوق الفطرت عناصر کے
بجائے زندگی کے حقائق کو پیش کیا جانے لگا۔ ناول کے ساتھ ہی مختصر افسانہ
کا وجود بھی عمل میں آیا جو سبب تھا انسان کی بڑھتی ہوئی مصروفیات اور
مغربی اثرات کا۔ افسانہ دراصل مشینی دور کی پیداوار ہے کہ اس دور میں انسان
کے لیے داستانیں اور ناول پڑھنے کا وقت نہیں ہے۔
افسانہ کی تعریف کے حوالے سے مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ اس لیے اس کی
جامع تعریف مشکل ہے۔ تاہم ہم کہہ سکتے ہیں کہ افسانہ ایک خاص پس منظر میں
کسی خاص یا عام واقعات یا تصور زندگی کے کسی پہلو کو فنکارانہ انداز میں
پیش کرنے کا نام ہے۔ افسانہ اختصار کا متقاضی ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ
اس میں قصہ، پلاٹ، کردار نگاری، وحدت تاثر اور اسلوب کی چاشنی بھی ازحد
ضروری ہے۔ ان سب اصول و ضوابط کے باوجود افسانے کا فن جامد و ساکن نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جدید افسانہ تجربات کا مرہون منت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک
افسانہ نگار انہی قواعد و ضوابط کو افسانہ لکھتے وقت پیش نظر رکھے بلکہ وہ
خود بھی تجربات کر سکتا ہے۔ ان تجربات کا انحصار افسانہ نگار کی ذہنی
صلاحیتوں پر ہے کہ وہ کس نوعیت کی تخلیق پیش کرتا ہے۔
اردو افسانے کے آغاز کے حوالے سے اگرچہ سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری،
علامہ راشد الخیری اور خواجہ حسن نظامی کا ذکر بھی کیا جاتا ہے لیکن اردو
افسانے کی ابتدا کا سہرا حقیقتاً منشی پریم چند ہی کے سر بندھتا ہے۔ وجہ یہ
ہے کہ انہوں نے نہ صرف تواتر سے افسانے لکھے بلکہ اس کے ارتقائی سفر میں
بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ انہی کا دم تا کہ اردو افسانہ نئی تخلیق فضا
اور ماحول سے آشنا ہوا۔
یہ پریم چند ہی ہیں جو اردو افسانے کو داستانی ماحول سے الگ کر کے زندگی کے
قریب لائے۔ ان کے ہاں ہندوستانی معاشرہ اپنے حقیقی روپ میں نظر آتا ہے (۱)۔
اُن کے کردار اپنے گرد و پیش کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُن کے ہاں کسان، مزدور
اور غریب طبقے کے گھرانوںا ور اُن کے ماحول کا ذکر بہت باریک بینی سے کیا
گیا ہے۔
پریم چند کے افسانوں میں ہندوستانی کسان، مزدور اور غربت کی چکی میں پستے
ہوئے پریشان حال لوگوں کی عادات و اطوار اور رسم و رواج کا ایسا نقشہ
کھینچا گیا ہے کہ جیتی جاگتی تصویریںہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔
پریم چند اپنے افسانوں کے ذریعے اخلاقی درس دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اُن
کے کردار،محنت اور انسانی عظمت کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ وہ
اپنے کرداروں کی مدد سے معاشرتی برائیوں کی اصلاح کاکام بھی لیتے ہیں۔
پریم چند ایک باشعور اور بالغ ذہن ادیب کی حیثیت سے اپنے دور میں اٹھنے
والی آزادی کی اُمنگ سے بھی لاتعلق نہیں رہتے۔ اس حوالے سے اُن کے افسانے
‘آشیاں برباد’ اور ‘ڈائل کا قیدی’ اُن کے بدلتے ہوئے رجحانات کی ترجمانی
کرتے ہیں۔
عمر کے آخری حصے میں پریم چند ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے۔ انہوں نے
1936ء میں منعقدہ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کی صدارت بھی کی۔ ترقی
پسند تحریک کے زیر اثر ہی انہوں نے افسانہ ‘کفن’ لکھا۔ تاہم وہ دیگر ترقی
پسندوں کی طرح کسی خاص نظریے کا پرچار نہیں کرتے بلکہ اُن کی تحریروں میں
مقصد زیر سطح ہی رہتاہے۔
اردو افسانے کا ایک اور نمایاں نام کرشن چندر کاہے۔ کرشن چندر بنیادی طور
پر مارکسیت پر یقین رکھنے والے افسانہ نگار ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ دیگر
اشتراکی ادیبوں کی طرح ادب برائے اور شدت سے حقیقت نگاری کے قائل ہیں لیکن
اُن کے ہاں پائی جانے والی رومانیت اُن کے اشتراکی ذہن کے ساتھ ہم آہنگ ہو
کر ایک دلکش امتزاج کا سبب بنتی ہے۔ بقول ڈاکٹر انور سدید، کرشن چندر طبعاً
رومانی ضرور ہیں لیکن ان کی معروضیت گہرے سماجی شعور کی عکاس ہے(2)۔کرشن
چندر سماج اور انسانی مسائل کو اہم موضوعات کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ اُن
کے ہاں وسیع تر مشاہدہ کی نمائندگی ہوتی ہے۔ وہ معمولی واقعات سے بھی
افسانے تخلیق کر ڈالتے ہیں۔ اُن کے ہاں زندگی کا ربط اور بے ربطی پر دونوں
کا اظہار افسانوں کی شکل میں ہوا ہے۔
کرشن چندر کا شمار اہم ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ا پنے
افسانوںمیں وہ زندگی کے حقائق اور مسائل بیان کرتے وقت بھی ترقی پسند
نظریات کو پیش نظر رکھتی ہیں۔ جہاں تک کرشن چندر کی حقیقت نگاری کا تعلق ہے
تو اس سے قطع نظر کہ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ
زندگی کابہت باریکی اور گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ انسان کی محرومیوں
کو نمایاں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اُن کے ہاں زندگی سانس لیتی ہوئی اور آگے
بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ان کے افسانے، ان داتا، گرجن کی ایک شام،
بالکونی اور پیاسا وغیرہ اس کی عمدہ مثال ہیں۔
اُن کا اسلوب رومانیت سے گندھا ہوا ہے جو تلخ سے تلخ بات اور کریہہ سے
کریہہ واقعہ کو بھی فطری رعنائی بخش کر قابل قبول بناتا ہے۔ البتہ کہیں
کہیں ترقی پسند نظریات کے غلبے کی بنا پر اُن کے ہاں جذبے کی کمی ضرور
محسوس ہوئی ہے۔ بحیثیت مجموعی کرشن چندر اردو افسانے کا ایک نمایاں نام ہے
جس نے اردو افسانے کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسی دور کی ایک اور افسانہ نگار عصمت چغتائی ہیں جن کے اردو افسانے پر
انگریزی افسانوی ادب کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے افسانوں میں ایک
ایسی عورت کی تصویر کشی کی گئی ہے جو مشرق کی مروجہ روایات اور نسوانیت سے
آمادہ بغاوت ہے۔ عصمت کے ہاں جنس کے مسائل بہت شدومد سے زیر بحث آئے ہیں۔
اس حوالے سے ‘چوٹیں’ اور ‘لحاف’ اُن کی نمائندہ تحریریں ہیں۔ جس میں انہوں
نے جنسی جذبے کو زندگی کی اہم ترین اور بنیادی ضرورت قرار دیا ہے۔ اُن کے
نزدیک اس جذبے کی تسکین کی خواہش عین فطرت ہے۔
عصمت چغتائی کے ابتدائی افسانوں میں نوجوانوں اور اُن کے مسائل کا تذکرہ
بھی بھرپور انداز میں ملتا ہے لیکن اُن کی یہ حقیقت نگاری توازن کے فقدان
کی بنا پر زیادہ مؤثر نہیں ٹھہرتی بلکہ لذت پسندی پیدا کرنے کا سبب بنتی
ہے۔
اردو افسانے کے ابتدائی خدوخال نمایاں کرنے میں ایک اور افسانہ نگار کے
کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خواجہ احمد عباس ہیں۔ خواجہ
احمد عباس کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید کی رائے ہے کہ وہ ترقی پسند تحریک
کے ایک رپورٹر کی حیثیت رکھتے ہیں (3)۔لیکن خواجہ احمد عباس کے افسانوں کا
مجموعی جائزہ لیں تو یہ بات زیادہ قرین قیاس نہیں لگتی۔ وہ ایک ایسے افسانہ
نگار ہیں جو زندگی کی تعمیر میں سماجی مسائل اور سیاسی الجھنوں کی اہمیت کو
بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ اُن کا مشاہدہ اور تخلیقی قوت دونوں جاندار ہیں
البتہ کہیں کہیں ترقی پسند نظریات کے غلبے کی بنا پر اُن کی حقیقت نگاری پر
غیر فطری ہونے کا گماں ضرور گزرتا ہے۔ اس حوالے سے ان کے افسانے سردار جی،
انتقام اور شکر اللہ وغیرہ کی مثال دی جا سکتی ہےلیکن اس کے ساتھ ساتھ ان
کے بعض افسانے نظریے اور جذبے کا خوبصورت امتزاج بھی ہیں۔ اس سلسلے میں اُن
کا افسانہ ‘پسماندگان’ ایک نمایاں مثال ہے۔ جس میں وہ ایک بڑے افسانہ نگار
کے طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
اردو افسانہ کی تاریخ میں ایک نام احمد علی کا بھی ہے جنہوں نے اردو افسانے
کے پرسکون پانیوں میں اپنے مشترکہ افسانوی مجموعے ‘انگارے’ سے ارتعاش پیدا
کیا۔ دسمبر 1932ء میں نو افسانوں اور ایک ڈرامے پر مشتمل مجموعہ ‘انگارے’
منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے میں احمد علی کے ساتھ سجاد ظہیر، رشید جہاں اور
محمود الظفر کے افسانے بھی شامل تھے۔ ان افسانوں کے موضوعات اور لب و لہجہ
اشتعال انگیزی کا باعث بنا۔ جس نے اس کتاب کو اردو افسانوی ادب میں نمایاں
کر دیا۔ انتظار حسین ‘انگارے’ کے اسلوب اور موضوعات کے حوالے سے لکھتے ہیں
کہ ‘انگارے’ نے ایک غلط روایت کی طرح ڈالی بعد میں آنے والوں نے یہ سمجھا
کہ افسانے میں سنسنی کی ضرورت ہے(4)۔
انگارے کے افسانوں سے بے شک اردو افسانے میں سنسنی خیزی اور اشتعال کی ایک
لہر تو آئی لیکن اس نے اردو افسانے کے ارتقا میں بہت سے در وا بھی کر دیئے۔
اس کے ساتھ ہی اردو افسانے کی بساط پر ایسے لکھنے والے نمودار ہوئے جنہوں
نے ‘انگارے’ کے اسلوب کو اپنا راہنما بنایا اور کچھ پرانے لکھنے والوں کے
قلم سے بھی انقلابی افسانے تخلیق کروائے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انوار احمد کی
رائے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ‘انگارے’ کے افسانوں
نے نہ صرف ہندوستان کے سیاسی اور مذہبی واقعوں میں ہلچل پیدا کی بلکہ ادبی
اور فنی تصورات کی دنیا کو بھی اتھل پتھل کر دیا (5)۔
ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر قمر انیس کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ ‘دُلاری’
اور ‘انگارے’ کی دوسری کہانیوں میں فن کا وہ نیا تصور تھا جس نے نہ صرف
حیات اللہ انصاری اور سہیل عظیم آبادی جیسے نوجوان ادیبوں کو متاثر کیا
بلکہ پریم چند ایسے کہنہ مشق ادیبوں کو بھی اپنے فن کی پرانی روش بدلنے اور
‘کفن’ اور ‘بیولی’ جیسے افسانے لکھنے پر اکسایا۔”(6)
‘انگارے’ کی اشاعت نے احمد علی کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
احمد علی کے افسانوں نے اردو افسانے میں ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی۔
‘انگارے’ میں شامل ان کے افسانے، ‘بادل نہیں آتے’ اور ‘مہاوٹوں کی ایک رات’
مٹتی ہوئی تہذیب پر ایک جرأت مندانہ طنز کی علامت ہیں۔ انہوں نے یہ طنز
نہایت بے باکی سے کیا ہے۔ گو ان کے ہاں اعتدال اور توازن کا فقدان ہے لیکن
ان کے ہاں پائی جانے والی سنسنی خیزی، برصغیر میں پائی جانے والی ان دنوں
کی سیاسی و سماجی کشمکش اور تحریکوں کی عکاس ہے۔
اردو افسانے کے ارتقائی سفر میں مختلف افسانہ نگاروں نے رخت سفر باندھا۔
کچھ دو چار گام پر ہی ساتھ چھوڑ گئے اور کچھ تادیر شریک سفر رہے۔ ایسے ہی
افسانہ نگاروں میں اختر حسین رائے پوری، علی سردار جعفری اور احتشام حسین
شامل ہیں۔ ان کے ہاں زندگی کی ناہمواری اور اتار چڑھائو بنیادی موضوع ہے۔
سیاسی کشمکش اور مختلف تحریکوں کے اثرات بھی ان کی تحریروں پر نمایاں ہیں۔
اختر حسین رائے پوری ٹیگور سے متاثرہیں جبکہ علی سردار جعفری اور احتشام
حسین ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہیں۔
اس قافلے میں اختر انصاری اور حیات اللہ انصاری بھی شامل ہیں۔ اختر انصاری
کے ہاں بورژوا سماج کے استبداد اور پرولتاری جماعت کی مظلومیت سے آویزش
پیدا کی گئی ہے۔ فنی اعتبار سے اُن کے افسانے کمزور ہیں کیونکہ وہ مقصدیت
کابوجھ سہارنے سے قاصرہیں۔ حیات اللہ انصاری کے ہاں زمینی مسائل کو زیر بحث
لایا گیا ہے۔ خاص طور پر سماجی اور معاشی بدحالی کے واقعات ان کے افسانوں
کا موضوع ہیں۔ اُن کا اسلوب اور موضوع توازن اور اعتدال کی مثال ہے۔ وہ
انسانی کرب اور پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے واقعیت اور حقیقت نگاری کو
اعتدال سے محروم نہیں ہونے دیتے۔
اردو افسانے کی روایت میں ایک نمایاں نام راجندر سنگھ بیدی کا ہے۔ ان کے
افسانوں میں پائی جانے والی معروضیت ان کے جذبے کو معتدل کرتی ہے۔ ان کے
موضوعات زمین سے شروع ہو کر زمین پر ہی لوٹ آتے ہیں۔ انسان اس کائنات کا
مرکز و محور ہونے کے باوجود اس کائنات میں سب سے محروم اور دکھی مخلوق ہے
جو احساس اور شعور رکھنے کی بنا پر ہر لمحے تڑپتی اوربے قرار رہتی ہے۔ بیدی
کے افسانوں میں انسانی کرب اورپریشانیوں کو پیش تو کیا گیا ہے لیکن ان کے
اسلوب کی لطافت اور جذبے کے سبب کہیں بھی یہ کرب اور پریشانیاں اشتہار نہیں
بنتیں۔
راجندر سنگھ بیدی کے ہاں تجربے کی گہرائی سے صداقت کا ظہور ہوا ہے۔ جس نے
اُن کے افسانے کو نئی معنویت عطا کی ہے۔ ان کے افسانے گرم کوٹ، دوسرا
کنارہ، متھن، لاجونتی اور گرہن اس حوالے سے عمدہ مثال ہیں۔
اوپندر ناتھ اشک بھی اردو افسانہ نگاری میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں
نے اپنے افسانوں کے ذریعے نچلے اورمتوسط طبقوں کی معاشی، سماجی اور جنسی
محرومیوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے موضوعات کابنیادی ماخذ زمین اور اُس پر بسنے
والا انسان ہی ہے۔ یہ موضوع روز ازل ہی سے ہر لکھنے والے کا موضوع رہا ہے
لیکن انداز بیاں اور جذبے کی صداقت و گہرائی نے ہر لکھنے والے کو امتیاز
بخشا ہے۔ اوپندر ناتھ اشک بھی زمین اور اس کے باسیوں کی محرومیوں اور دکھوں
کو موضوع سخن تو بناتے ہیں لیکن ان کے ہاں جذبے کی چاشنی، انہیں روایتی
ترقی پسندی کے منصب سے کہیں بلند کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں
اقدار کی تخریب کے بجائے ایک صحت مند تبدیلی کا ماحول ملتا ہے۔ ان کے
افسانے قفس، ڈاچی اور چیتن کی ماں، اس حوالے سے عمدہ مثالیں ہیں۔
اردو افسانے کے ارتقائی سفر میں ایک نمایاں افسانہ نگار، جس کے بغیر اردو
افسانے کا تذکرہ نامکمل رہے گا وہ سعادت حسن منٹو ہے۔ بلاشبہ وہ عظیم
افسانہ نگار ہیں۔ اس کے باوجود کہ منٹو پر جنس نگاری کی چھاپ لگی ہوئی ہے
لیکن انہوں نے دوسرے بہت سے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ سعادت حسن منٹو
نہایت بے باکی سے کہانی بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ وہ حقیقت نگاری
کیباوجود اپنے اسلوب میں کہیں سپاٹ پن نہیں آنے دیتے۔ منٹو نے اپنے افسانوں
میں اگر طوائف ہی کو زیادہ موضوع بنایا ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ اُس کا
ماحول ہے۔ امرتسر جہاں منٹو کا بچپن گزرا،وہاں شہر کے درمیان ایک طویل
بازار حسن تھا۔ پھر جب منٹو بمبئی آئے تو یہاں بھی قدم قدم پر انہیں، اُن
کی پسند کے کردار ملے۔ شہر سلطانہ، ممدو بھائی، مسز ڈی کوسٹا اور گوپی
ناتھ، ممبئی کے ہی کردار ہیں۔
سعادت حسن منٹو زندگی کو سرسری نظر سے نہیں دیکھتے، وہ بہت باریک بینی سے
گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں اور نہایت بے باکی سے پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیتے
ہیں۔ یہ پوسٹ مارٹم اتنی بے رحمی سے ہوتے ہیں کہ بعض اوقات تو کراہت محسوس
ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ ٹھنڈا گوشت، کالی شلوار، بلاؤ اور کھول دو جیسے افسانے
لکھتے ہیں تو دوسری طرف نیا قانون اور تماشا جیسے افسانے لکھ کر اپنے سماجی
و سیاسی شعور کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت عمدہ افسانہ نگار بھی ہیں۔
اردو افسانے کی ترویج میں اُن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کے افسانوں
میں مقصدیت اور حقیقت نگاری کار فرما ہے۔ اُن کی مقصدیت اور حقیقت نگاری
رومانیت کے زیر اثر ایک منفرد اسلوب متعارف کراتی ہے۔ اُن کے افسانوں میں
دیہاتی اور شہری زندگی کے تصادم سے ایک اچھوتی فضا تیار کی گئی ہے۔ الحمد
اللہ، کنجری، مامتا، کپاس کا پھول، سناٹا، رئیس تھانہ، بندگی، طلوع و غروب،
اُن کے نمائندہ افسانے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے افسانے فکری اور اسلوبیاتی اعتبار سے ان کی مہارت کے
گواہ ہیں۔ انہیں کہانی کی بنت کاری اور کرافٹنگ پر دسترس حاصل ہے۔
اردو افسانہ نگاری میں ایک اورمعتبر نام قراة العین حیدر کاہے۔ انہوں نے
اودھ کے جاگیردار طبقے اور آئی سی ایس افسروں کے متعلق اپنی کہانیوں کا
آغاز کیا۔ قراة العین حیدر کے افسانوں میں تقسیم ہند کے بعد پیش آنے والے
حالات و واقعات نے ایک اچھوتا کرب نمایاں کیا ہے۔ اس حوالے سے وہ اپنے دیگر
ہم عصر لکھنے والوں سے مختلف انداز میں لکھتی ہیں۔ وہ لٹی ہوئی عصمتوں پر
آنسو نہیں بہاتیں، اُن کے افسانوں میں تباہی و بربادی کا نوحہ نہیں ہے۔
کیونکہ انہیں اس سے غرض نہیں ہے کہ کیا ہوا بلکہ وہ اپنی تمام تر توجہ اس
پر رکھتی ہیں کہ کیوں ہوا۔
قراة العین حیدر کا شمار بھی ارضی رجحان رکھنے والے علمبرداروں میں ہوتا
ہے۔ اُن کے موضوعات اپنے گردوپیش کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُن کے ہاں ‘غفران
منزل’ اور ‘کنور لاج’ کا ذکر ہے تو وہیں معمولی ٹائپسٹ لڑکیوں اور ریڈیو
سٹیشنوں کے برآمدوں میں انتظار کرتی طوائفوں کا تذکرہ بھی ہے۔
آزادی کے بعد اردو افسانے کے اسلوب اور موضوعات پر دو تنوع پیدا ہوا۔ بہت
سے جدید لکھنے والوں نے اس میں تجربات کے در وا کیے ہیں۔ان لکھنے والوںمیں
ایک غلام عباس بھی شامل ہیں۔ جن کی افسانہ نگاری کا آغاز آزادی سے پہلے ہی
ہو چکا تھا لیکن آزادی کے بعد انہوں نے اپنے منفرد اسلوب اور موضوعات کی
بنا پر، اپنا جداگانہ رنگ جمایا۔ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ وہ زندگی
کوبہت قریب سے دیکھتے ہیں اور جذئیات نگاری کو برائے کار لاتے ہوئے واقعیت
نگاری کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ ان کا اسلوب رواں اور سادہ ہے۔ اُن کے اکثر
کردار دوہری شخصیت کے حامل ہیں جو کہانی میں چونکا دینے کا سبب بنتے ہیں۔
ممتاز مفتی ایک اور افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو افسانے میں نفسیاتی
مطالعہ کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ ممتاز مفتی کے کردار بظاہر عام زندگی سے
تعلق رکھنے والے افراد ہوتے ہیں لیکن وہ انہیں نفسیات کی آنکھ سے دیکھ کر
مختلف بنا دیتے ہیں۔ ممتاز مفتی کے اکثر افسانوں میں تو انسانی فطرت کا
نفسیاتی مطالعہ کسی ماہر نفسیات کی طرح کیا گیاہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں کامرکزی نقطہ محبت ہے لیکن اس کے باوجود ان کے ہاں
زندگی کا کرب اور اس کی پریشانیوں کا اظہار بھی ہوا ہے۔ حقیقت میں اُن کے
ہاں موضوعات کا تنوع ہے اور ان موضوعات کے لیے جو جذبہ مہمیز کا کام کرتا
ہے وہ اُن کی والہانہ محبت ہے جو اُن کے افسانوں کا احاطہ کیے رکھتی ہے۔
اردو افسانے کے ارتقائی مراحل میں جس افسانہ نگار کی کاوشوں کو فراموش نہیں
کیا جا سکتا، وہ انتظار حسین ہیں جنہوں نے کہانی کو ایک نیا پن عطا کیا۔
انہوں نے اردو افسانے کے اسلوب کو ایک نئی جہت بخشی۔ تجسیم، تجدید اور
علامت نگاری کے نت نئے تجربات کیے اور اردو افسانے کو دیگر زبانوں میں لکھے
جانے والے شاہکار افسانوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے اردو افسانہ مختلف مراحل اور تجربات سے گزرا
ہے۔ اس میں موضوعات اور اسلوب کے نت نئے تجربات کیے گئے ہیں۔ یہ تجربات
جہاں مختلف شخصیات کے مزاج اور صلاحیتوں کے مرہون منت ہیں وہاں حالات و
واقعات اور زندگی کی سماجی اور سیاسی جہتوں میں آنے والی نت نئی تبدیلیاں
بھی اس کا سبب ہیں۔ بین الاقوامی تحریکیں اور بدلتے ہوئے تہذیبی و سماجی
رجحانات بھی اردو افسانے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
فرانس سے شروع ہونے والی علامتی تحریک کے اثرات بھی ہمارے افسانہ نگاروں نے
لیے۔ اس کے ساتھ ہی فرائیڈ اور ژونگ کے خیالات سے بھی اردو افسانہ محفوظ نہ
رہ سکا۔ گو یہ خیالات اردو افسانے میں قدرے تاخیر سے داخل ہوئے لیکن ان کے
اثرات اجتماعی سوچ اور زندگی پر ظاہر ضرور ہوئے۔ شعور کی رو کے تحت افسانے
لکھے گئے۔ شعور و لاشعور کو موضوع بحث بنایا گیا۔
حسن عسکری نے شعور کی رو کے حوالے سے افسانے لکھے۔ ان کے افسانوں میں اُن
ناآسودہ خواہشات کو موضوع بنایا گیا جو معاشرے کی پابندی کے باعث آسودہ
نہیں ہو پاتیں۔ ان کے افسانوں میں پلاٹ کی ترتیب کا اتنا خیال نہیں رکھا
گیا۔ محض شعور کی غیر مربوط رو سے ہی کہانی اور کرداروں کے خدوخال ترتیب
دیئے گئے ہیں(7)۔
مغرب کے زیر اثر ممتاز شریف نے بھی اپنے افسانوںمیں علمیت کا اظہار کر کے
اپنے قاری کے لیے ذہنی ورزش کا خوب اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں
میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسانی تجربات کو گرفت میں لانے کے لیے محض
حال ہی سے واسطہ کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ماضی میں تاریخ اور دیومالاؤں
میں اس کے رشتے اور جڑیں تلاش کرنا پڑتی ہیں۔ یہ انہیں لکھنے والوں کا
اعجاز ہے کہ اردو افسانہ نگاری اور فرانسیسی ہم عصر افسانوں کے مقابل آ
کھڑا ہوا ہے۔
موجودہ عہد میں اردو افسانے کی تکنیک پر بھی بے شمار تجربات ہوئے ہیں۔ یہی
وجہ ہے کہ تکنیک کے اعتبار سے آج اس میں بے پناہ تنوع پایا جاتا ہے۔ آج کا
افسانہ تجسیم اور تجرید کے بین بین اپنا سفر طے کر رہا ہے۔ دہری سطح کی
کہانیاں لکھی جا رہی ہیں، جنہیں قاری کے لیے سوچنے اور خود کو کہانی میں
شامل کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ اس طرز کی کہانی میں مشتاق قمر، منشا یاد
اور سلیم آغا قزلباش بہت نمایاں ہیں۔ خالدہ حسین احمد کی کہانیوں میں قدرے
ابہام پایا جاتا ہے البتہ ان کا نقطہ نظر بین السطور جاری و ساری رہتا ہے،
اسی طرح مرزا حامد بیگ کی کہانیوں میں بھی ابہام کی فضا ضرور ہے لیکن اُن
کی کہانی کو سمجھنا بھی مشکل نہیں ہے(8 )۔
اردو افسانے کے ارتقا اور ترقی میں اوربہت سے افسانہ نگاروں کا خون جگر بھی
صرف ہواہے۔ جن کا ذکر علیحدہ سے نہیں ہو سکا تاہم اُن کے بغیر اردو افسانے
کی داستان ادھوری رہے گی۔ ان میں سے کچھ نام یوں ہیں:
شیر محمد اختر، قدرت اللہ شہاب، شوکت صدیقی، آغا بابر، شمس آغا، منشا یاد،
انور سجاد، مظہر الاسلام، رشید امجد، مستنصر حسین تارڑ، غلام الثقلین نقوی،
جوگندر پال، رام لعل، جیلانی بانو، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، بانو قدسیہ،
نشاط فاطمہ، عذرا اصغر، امجد الطاف، صلاح الدین اکبر، رحمان مذنب، الطاف
فاطمہ،مسعود مفتی، جمیلہ ہاشمی، فرخندہ لودھی، سائرہ ہاشمی، احمد جاوید،
احمد دائود، مظہر الاسلام، اعجاز راہی، نیلوفر اقبال، محمد الیاس، نیلم
احمد بشیر، شمشاد احمد، جمیل احمد عدیل، ابدال بیلا، امجد طفیل اور محمد
عاصم بٹ۔
حوالہ جات:
1 ۔۔انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو، پاکستان،
لاہور 1999ئ، ص 507۔
2 ۔۔ایضاً۔
3 ۔۔ایضاً۔
4 ۔۔انتظار حسین، نقوش (افسانہ نمبر) مدیر محمد طفیل، لاہور، 1955ئ، ص 80۔
5 ۔۔انوار احمد، ڈاکٹر، اردو افسانہ تحقیق و تنقید، بیکن ہائوس، ملتان،
1988، ص 146۔
6 ۔۔ایضاً۔
7 ۔۔انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، ص 583۔
8 ۔۔غلام الثقلین نقوی، اوراق (ماہنامہ) مدیر وزیر آغا، لاہور،
جولائیـاگست، 1997۔
ڈاکٹر رئیسہ پروین
پریم چند
تعارف ، تنقید
پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے عرف نواب رائے تھا، لیکن وہ پریم چند کے
لقب سے مشہور ہوئے۔ ٣١/جولائی ١٨٨٠ئ میں موضع لمہی ضلع بنارس میں پیدا
ہوئے۔ ان کے والد منشی عجائب لال ڈاکخانے میں کلرک تھے، اس لیے آمدنی قلیل
تھی۔ پریم چند نے ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی کی گائوں کے مکتب میں ہی
حاصل کی اس کے بعد انگریزی پڑھی۔ بہتر زندگی گزارنے کے لیے اعلیٰ تعلیم کی
ضرورت تھی جس کے لیے وہ آخر تک محنت کرتے رہے اوربہت ہی مصیبتوں کے بعد
ایف۔اے اور بی۔اے کے امتحانات پاس کیے۔١٨٩٩ئ میں اولین ملازمت کی اور
ماہانہ تنخواہ١٨ روپے مقرر ہوئی جو بڑی رقم تو نہیں تھی لیکن اس زمانے کی
آمدنی تھی جب تمام دن کام کرنے کے بعد ایک مزدور کو ایک یا ڈیڑھ آنہ ملتا
تھا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کاکام بھی جاری رکھا، جس سے کہ
آمدنی ہونے لگی۔
١٩٠٩ئ میں ان کا ابتدائی افسانوی مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ شائع ہوا جس میں پانچ
کہانیاں ہیں ۔ چار کہانیاں حب وطن پر ہیں ۔ ان کہانیوں میں وطن پرستی اور
حب وطن کی شدت کے تحت انگریز سرکار نے اسے باغیانہ کہانیاں قرار دیتے ہوئے
ضبط کرلیا۔ ان کہانیوں کے ذریعے پریم چند نے عوام میں بیداری پیدا کرکے
اپنے حقوق کے حصول کے لیے نبرد آزما ہونے کی ترغیب دی تھی۔ یہ مجموعہ
انھوں نے دھنپت رائے کے نام سے لکھا تھا، لیکن حکومت نے ان ناموں یعنی
دھنپت رائے اور نواب رائے پر پابندی لگادی اور پھر انھوں نے پریم چند کے
نام سے لکھنا شروع کردیا۔
’’سوزِ وطن‘‘ کے افسانوں میں خالص داستانی رنگ اور رومان کی ہلکی سی چاشنی
ملتی ہے۔ ان افسانوں میں ’دنیا کا سب سے انمول رتن‘، ’شیخ مخمور‘، ’یہی
میرا وطن ہے‘ اور ’حبِ وطن‘ کہانیاں ہیں جس میں پریم چند نے حب وطن اور وطن
پرستی کا ایسا تصور پیش کیا ہے جو اس دور کی قومی تحریکات سے پوری طرح ہم
آہنگ ہیں ۔
منشی پریم چند مشرقی یوپی کے کائستھ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو معاشی
اعتبار سے خود کفیل تھا۔ ان کو محنت کشوں اور غریبوں کے زمرے میں شامل نہیں
کیا جاسکتا ۔ ان کا عمومی پیشہ درباری و سرکاری ملازمتیں تھیں چنانچہ
ملازمتوں سے وابستگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس طبقے کا اجتماعی مزاج انقلابی
اور باغیانہ بن گیا۔ انقلابی اور باغیانہ ذہن کسی روایتی نظام کو قبول نہیں
کرتا۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ زندگی اور سماج میں بھی تبدیلی کا خواہاں ہوتا
ہے اور بنی نوع انسانی کو اس سطح تک لانا چاہتے ہیں جہاں اس کو کسی کے رحم
و کرم پر جینا نہ پڑے چنانچہ اگر پریم چند کی ابتدائی زندگی کا مطالعہ کیا
جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ انقلابی اور باغیانہ نظامِ فکر ان کو ورثے میں
ملا تھا۔
پریم چند کا دور برطانوی حکمت عملی کے تحت مشکل وقت سے گزررہا تھا۔ نوابوں
، زمینداروں اور مہاجنوں نے اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے جس طرح کا
ماحول پیدا کررکھا تھا وہ نہایت سفاک اور جبر و استحصال والا تھا۔ یہ مٹھی
بھر لوگ معیشت اور سیاست کی تمام برکتوں کے حقدار بنے بیٹھے تھے اور
ہندوستان کے ادنیٰ کسان ، مزدور اور محنت کش طبقہ، افلاس، چھواچھوت، جہالت،
توہم پرستی اور دقیانوسیت کے بوجھ تلے تھکی ماندی اور اداس زندگی بسر کررہا
تھا۔ البتہ اس دور میں ہندوستانی معاشرت، فرنگی سامراج کی خواہشات کے
برخلاف آہستہ آہستہ جاگیردارانہ نظام کے اندھیروں سے نکل کر سرمایہ
دارانہ نظام کی طرف سفر طے کرنے لگی تھی۔ لہٰذا پریم چند کی ٥٦ سالہ زندگی
میں ہندوستان نے جاگیردارانہ نظام سے صنعتی طبقاتی تنظیم کا سفر سست رفتار
سے طے کیا۔ پریم چند نے اس تبدیلی اور تغیرات کو محسوس کیا اور اسے اپنے
ناول اور افسانوں کا موضوع خاص بنایا۔
پریم چند نے جس ماحول میں زندگی گزاری اس میں قدامت پرستی، ذات پات کی
تفریق اور توہمات و رسومات کی تاریک گھپائیں انسانوں کو خاص طور پر غریب
لوگوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھیں اور دوسری طرف عصر حاضر کی غلامانہ
ذہنیت کا شکنجہ تھا۔ پریم چند کی تمام ترزندگی جدوجہد میں گزری۔ اول اپنے
اہل و عیال و اقربائ کی کفالت اور دوسری غمِ روزگار کی بھاگ دوڑ۔ بچپن میں
والدہ کے مرنے کے بعد والد نے دوسری شادی کرلی اور اس سوتیلی ماں نے پریم
چندپرطرح طرح کے ظلم ڈھائے۔
پریم چند ذات پات کے فرسودہ بندھنوں میں گرفتار معاشرے میں پلے بڑھے مگر
چھواچھوت اور ذات پات کی تفریق سے وہ کوسوں دور تھے۔ وہ اس کو غیرانسانی
عمل سمجھتے تھے۔ حالاں کہ کانگریس میں شرکت سے قبل ان پر ہندوآریہ سماجی
کے اثرات کافی گہرے تھے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ سیکولرزم انسان دوستی
اور روشن خیالی کی طرف گامزن ہوگئے۔ پریم چند کانگریس کے گرم دل کے حامی
تھے ان کی فکر اور مقاصد ارفع و اعلیٰ تھے۔
پریم چند کا ذہن و دل مذہبی تعصبات سے مبریٰ تھا۔ وہ آریہ سماجی اثرات سے
نکل کر گاندھیائی نظریات سے گزرتے ہوئے حقیقت پسندی اور روشن خیالی کی طرف
بڑھتے رہے۔ انھوں نے اپنے ناول اور افسانوں میں مذہب کی آڑ میں ہورہے
غریبوں کا استحصال کرنے والوں اور بداعتقادی کو فروغ دینے والے مولویوں اور
پنڈتوں کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے۔ چنانچہ پریم چند کے ادبی و سیاسی نظریے کا
ایک پہلو ان کا جمہوری مزاج بھی تھا۔ ١٩٢٣ئ میں جب راجپوتوں کی شدھی کی
تحریک چلی تو پریم چند نے اس فرقہ وارانہ تحریک کی مخالفت کی۔
پریم چند کی ادبی زندگی کا آغاز١٩٠١ئ سے ہوتا ہے جب انھوں نے ’’زمانہ‘‘
رسالے میں مضامین لکھنے شروع کیے۔ پریم چند کو ہندی اور اردو دونوں زبانوں
پر عبور حاصل تھا۔ لہٰذا انھوں نے دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کی۔
پریم چند سے پیشتر اردو ادب میں داستانیں اور قصے کہانیاں جو محض تفریح طبع
کے لیے لکھی جاتی تھیں ملتی ہیں جن میں مافوق الفطرت دنیاکی عکاسی ہے جس کا
تعلق حقیقی دنیا اور انسان کی حقیقی زندگی سے بالکل نہیں ہے۔ اس کے بعد
نذیر احمد نے اپنی کہانیوں اور ناولوں کو انسانی زندگی سے قریب کرنے کی
کوشش کی لیکن وہ بھی داستان کی مافوق الفطرت دنیا سے پوری طرح دامن نہ
بچاسکے۔ لہٰذا ان کے کردار اور واقعات غیرفطری ہوکر رہ گئے۔ اس کے بعد
عبدالحلیم شرر، رتن ناتھ سرشار کے ناولوں میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔
١٩٠١ئمیں مرزا ہادی رسوا کا ناول ’’امرائو جان ادا‘‘ شائع ہوا جو ناول کے
سبھی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور زندگی کی سچی تصویر کشی کرتا ہے۔ اس طرح
ناول اور افسانے کو حقیقی زندگی سے ہمکنار ہوتے ہوئے کئی سال لگ گئے۔ پریم
چند کے ابتدائی ناول اور افسانوں میں بھی فطری عناصر کی کمی پائی جاتی ہے
مثلاً ’سوزِوطن‘ کے افسانوں میں خالص داستانی رنگ جھلکتا ہے لیکن پھر پریم
چند کا شعور بتدریج ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے حقیقت نگاری پر گامزن ہوگیا
جس کی مثالیں ان کے بعد کے افسانوں اور ناولوں میں مل جاتی ہیں ۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد انقلابِ روس کی کامیابی اور جنگ کے بعد نوآبادیاتی
ممالک میں برطانوی تسلط کے خلاف قوم پرستانہ تحریکات زرو پکڑنے لگی تھیں ۔
دوسری طرف صنعتی انقلاب کے زیر اثر مزدوروں اور کسانوں کا شہر کی طرف ہجرت
کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا ۔ شہروں میں متوسط طبقے کی طاقت و اقتدار میں
اضافہ سے ملکی معاشرہ ایک نئے سانچے میں ڈھل رہا تھا۔ انگریزی تعلیم و علوم
کے فروغ سے عوام میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کا شعور بھی پیدا
ہوگیا تھا۔ ان تمام عوامل نے مل کر ہندوستان کی سیاسی و سماجی فضا میں
بیداری پیدا کردی تھی اور ملک میں بڑی صنعتوں کے قیام سے ہندوستانی عوام
سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں سے بھی واقف ہوچکی تھی۔
زمینداروں اور کسانوں کی جدوجہد میں پریم چند کی تمام تر ہمدردیاں استحصال
کے شکار کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ تھیں ۔انھوں نے ایک خط میں مزدور کو کم
سے کم محنت کے صلے میں زیادہ سے زیادہ مزدوری دیے جانے کی خواہش ظاہر کی ہے
اور خود کو بھی مزدور قرار دیا ہے۔
پریم چند نے انجمن ترقی پسند تحریک کے پہلے اجلاس میں جو الہٰ آباد میں
منعقد ہوا تھا کہا کہ ’’اب ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہوگا‘‘۔ اور انھوں نے
اپنے افسانوں اور ناولوں کے ذریعے اپنے اس قول کو پورا کردکھایا۔
پریم چند پہلے ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں اور
ناولوں کے کردار دیہاتی اور غریب کسانوں کی زندگی سے چُنے، یہ غریب افلاس
کے مارے اور جہالت کے شکار افراد پریم چند کے ناولوں اور افسانوں کے ہیرو
ہیں ، اور جملہ کسانوں اور مزدروں کی استحصال زدہ حالت کے نمائندہ بھی ہیں
۔ پریم چند کے متعدد افسانوی مجموعہ شائع ہوئے جن میں پریم پچیسی، پریم
بتیسی، پریم چالیسی، فانوسِ خیال، خاکِ پرواز، سوزِ وطن، خواب و خیال،
واردات وغیرہ ہیں ۔ ان کے تمام افسانوں میں دیہاتی زندگی اور ان کے مسائل
کی جیتی جاگتی مرقع کشی ملتی ہے۔ابتدا میں ان کی تحریروں میں آئیڈیل ازم
چھایا ہوا تھا پھر انھوں نے حقیقت نگاری کو اپنا شیوہ بنالیا۔ ان کے
آئیڈیل گاندھی جی اور ان کے نظریات تھے لیکن دھیرے دھیرے وہ ان بندشوں سے
اور گاندھائی ماڈل سے آزاد ہوتے گئے۔١٩٣٦ئ میں پریم چند ترقی پسند تحریک
سے وابستہ ہوگئے اور اس تحریک کے اثر سے ان کے قلم نے ایک اور انگڑائی لی
البتہ اس دور میں انھوں نے کم لکھاہے۔١٩٣٨ئ میں وہ اس جہانِ فانی سے کوچ
کرگئے۔
یہ وہ دور تھا جب گاندھی جی سماجی برائیوں اور فرسودہ روحانی اقدار کے خلاف
جہاد کی تیاری کررہے تھے۔انھوں نے عصرِ حاضر کے مسائل مثلاً جاگیرداری،
مہاجنی، لوٹ کھسوٹ کے خلاف عوام کو منظم کیا اور ملک میں اونچ نیچ اور
افلاس کو مٹانے کی بات کی۔ بہت سے لوگ ان کے نظریے سے متاثر ہوکر ان کے
پرچم تلے چلے آئے۔ پریم چند بھی گاندھی جی کے ان نظریوں کے حامی تھے اور
ان سے متاثر تھے۔ اسی بناپر ترکِ موالات کی تحریک کے زیراثر انھوں نے
انگریزی ملازمت سے استعفیٰ دے کر کانگریس کی تحریک میں حصہ لینا شروع
کردیاتھا اور ملک میں انگریزی حکومت کے جبروتشدد اور اس کی مخالفت میں
کانگریس کی سرگرمیاں پریم چند کے افسانوں اور ناولوں کا موضوع بن گئے۔
پریم چند کے افسانے صداقت پر مبنی ایسی کہانیاں ہیں جو انسانی زندگی کے
المناک پہلوئوں کو پیش کرتی ہیں ۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں دیہاتی اور
شہری زندگی کے ادنیٰ ، اعلیٰ اور متوسط تینوں طبقوں کے کرداروں کو پیش کرنے
میں بڑی چابک دستی سے کام لیا ہے۔ ان کے افسانوں میں ربط و تسلسل اور خیال
کی مرکزیت شروع سے آخر تک قائم رہتی ہے۔ طرزِ تحریر میں سادگی، دلکشی اور
جملوں میں بے ساختگی ہے۔ تشبیہ و استعارے بھی سادہ اور فطری ہیں ۔ انھیں
دیہی زبان پر قدرت حاصل ہے۔ وہ پہلے ادیب ہیں جنھوں نے دیہاتی زندگی کی
تلخی اورافلاس، کو موثر پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ان کے ناول اور افسانے اس
دور کی قومی سیاسی، سماجی رجحانات و انقلابات کی سچی تصویرکشی کرتے ہیں یہ
ان کی قادرالکلامی پر دال ہے۔ پریم چند کو انسانی جذبات و نفسیات پر پوری
دسترس حاصل تھی یہی سبب ہے کہ انھوں نے انسان کی جذباتی الجھنوں اور
نفسیاتی پیچیدگیوں کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔
پریم چند کے افسانوں میں کسانوں ، مزدوروں اور دیہی معاشرے کو صرف مہذب
سماج سے اور اس کے آئینی اصولوں سے ہی نبردآزما ہونا نہیں پڑتا بلکہ فطرت
بھی ان کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کرتی ہے۔ وہ فطرت جس کے سایۂ رحمت میں وہ
پل کر جوان ہو ئے ہیں اور زندگی کے کتنے ہی نشیب و فراز سے گزرے ہیں ۔ یہ
فطرت کبھی اس کے اوپر مہربان ہوتی ہے اور کبھی اس کی حریف بن کر اُنھیں
آزمائش میں مبتلا کردیتی ہے۔ مثلاً آندھی و طوفان میں کمزور اور غریب
لوگوں کے گھر اُڑ جاتے ہیں اور ایک ہی پل میں ان کی دنیا اجڑ جاتی ہے اور
جب سیلاب آتا ہے تو گائوں کے گائوں بہہ جاتے ہیں کہ ان کے نام و نشان تک
باقی نہیں رہتے اسی طرح بارش جو کسانوں کے لیے راحت کا باعث ہے لیکن کبھی
کبھی وہ قہر بن کر برستی ہے۔ پریم چند نے انسان اور فطرت کے اس جابرانہ
رشتے کومختلف پس منظر کے ساتھ پیش کیا ہے جہاں یہ رشتے کسانوں کی زندگی کو
توانائی اور حوصلہ عطا کرتے ہیں وہی ہمتوں اور حوصلوں کو اکثر پست بھی
کردیتے ہیں ۔
•
ادبیات
منشی پریم چند ادب کا شاہکار قلمکار
آفتاب احمد (کراچی)
منشی عجائب لال جو کہ منشی پریم چند کے والد تھے آپ کے یہاں 1880ء کو ایک
بچے کی پیدائیش ہوئی جسکا نام دھنپت رائے رکھا گیا ۔
منشی پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا جو اُن کے والد صاھب نے رکھا
لیکن اُن کے چچا نے اپنے بھتجے کا نام پریم چند رکھا اور آگے چل کر وہ
منشی پریم چند کے نام سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم لائل پور کے مولوی سے حاصل کی،جہاں منشی پریم چند
اردو اور فارسی ذبان کے رموز سیکھے اور ادب سے شناسائی حاصل کی اور 1895ء
میں گورکھپور سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور بعد میں معلم کی حیثیت سے
ملازمت اختیار کی اور ۱۸ روپے ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے۔
بعد ازاں 1899ء میں بنارس میں اسسٹنٹ ٹیچر کی نوکری مل گئی اور 1900ء میں
بیرائچ کے گورنمنٹ اسکول میں بہ طور ٹیچر مقرر ہوئے تقرر ہوا اور الہ آباد
میں جا کرآپ نے پہلی مرتبہ سنجیدگی سے لکھنا شروع کیا۔
جونئیر اسکول ٹیچر کا امتحان 1908ء پاس کیا اور اسی سال آلہ باد یونیورسٹی
سے اُردو ہندی کا خصوصی امتحان پاس کیا 1909ء میں ترقی پاکر سب انسپیکڑ آف
اسکولز ہوگئے ۔
فروری 1919 ء1920 ء میں عدم تعاون کی تحریک کے سلسلے میں ملازمت سے علیحدہ
ہوئے اور لکھنو میں پہلی مرتبہ انجمن ترقی پسند مصنیفن کی صدارت کی ۔
منشی پریم چند اپنے ناول ’’نواب رائے‘‘ کے نام سے لکھتے تھے آپ کا پہلا
ناول ’’اسرارِ مابعد‘‘ رسالہ آوازِ خلق میں 18؍ اکتوبر1903ء کو شائع ہوا جس
نے قبول سند عام حاصل کی جب دوسرا ناول ’’کیش نا‘‘ کے نام لکھا جواب موجود
نہیں۔
منشی پریم چند کا پہلا افسانوں کا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے 1908ء میں
شائع ہوا جس میں 5 افسانے شامل تھےان افسانوں میں آزادی ، حریت پسندی،
غلامی سے نجات اور علم بغاوت بلند کرنے کے موضوعات کو سمیٹا گیا تھا۔
جس کے باعث ہندوستان پر قابض حکومتِ برطانیہ نے اس افسانوی مجموعے پر
پابندی عائد کردی چنانچہ گورکھ پور کی حکومت نے افسانوی مجموعے کی تمام
نقول حاصل کر کے جلا دیں اور آئندہ کے لیے سخت پابندی عائد کر دی۔
اس واقعہ کے بعد سے منشی پریم چند اپنا ادبی نام ’’رائے نواب ‘‘ ترک کر کے
اپنے چچا کی جانب سے دیے گئے نام میں منشی کا اضافہ کر کے ’’منشی پریم
چند‘‘ اختیار کیا اور تا دم مرگ یہی ادبی نام استعمال کرتے رہے۔
منشی پریم چند کے مشہور ناول میں اسرار مابعد اور کشانا مشہور افسانوں میں
کفن،حج اکبر اور نجات جب کہ معروف کہانیوں میں انمول رتن شامل ہیں۔
اگر پریم چند کی ابتدائی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ
انقلابی اور باغیانہ نظامِ فکر ان کو ورثے میں ملا تھا۔
پریم چند نے جس ماحول میں زندگی گزاری اس میں قدامت پرستی، ذات پات کی
تفریق انسانوں کو خاص طور پر غریب لوگوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھیں اور
دوسری طرف عصر حاضر کی غلامانہ ذہنیت کا شکنجہ تھا۔ پریم چند کی تمام
ترزندگی جدوجہد میں گزری۔ اول اپنے اہل و عیال و اقربائ کی کفالت اور دوسری
غمِ روزگار کی بھاگ دوڑ۔ بچپن میں والدہ کے مرنے کے بعد والد نے دوسری شادی
کرلی اور اس سوتیلی ماں نے پریم چندپرطرح طرح کے ظلم ڈھائے۔
پریم چند کی ادبی زندگی کا آغاز1901ء سے ہوتا ہے جب انھوں نے ’’زمانہ‘‘
رسالے میں مضامین لکھنے شروع کیے۔ پریم چند کو ہندی اور اردو دونوں زبانوں
پر عبور حاصل تھا۔ لہٰذا انھوں نے دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کی۔
افسانہ ’’پوس کی رات‘‘ میں پریم چند کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے ۔ ان
کی فنّی مہارت حقیقت نگاری ،نفسیاتی بصیرت اور تخیل نے مل کر افسانے کو
پُراثر اور بلند مقام عطا کردیا ہے ۔ پریم چند نے اپنے بہت سے افسانے اسی
موضوع پر لکھے ہیں جن سے ان کا عندیہ یہ ہے کہ قدرت اور انسان کے درمیان
محض جبر اور تصادم کا رشتہ ہی نہیں ہے بلکہ اس میں سچی مفاہمتیں اور
رفاقتیں بھی ہم آہنگ ہیں یعنی یہ آسمان ، چاند ، تارے، جنگل،پہاڑ، ندی،
نالے اور رنگ بدلتے موسم سے انسان کا رشتہ ازلی ہے یہ رشتہ دوستی کا رشتہ
ہے جن کے سہارے انسان کبھی نرم کبھی گرم ، کبھی سکھ کبھی دکھ میں زندگی
گزارتا ہے اور جب تمام دنیا اس کی دشمن ہوجاتی ہے تو فطرت ہی اسے اپنے
آغوش میں پناہ دیتی ہے۔
منشی پریم چند نے مریادا،مالا اور مادھوری کے نام سے نکلنے والوں علمی اور
ادبی رسالوں کی ادارت کی اور بعد میں ملازمت ترک کر کے اپنا رسالہ ’’ھنس‘‘
کے نام شائع کیا۔
افسانوں کے مجموعے
( 1) سوزِوطن(1908ء)، (2) پریم دلچسپی جلد اول (1915ء)، (3) پریم دلچسپی
جلد دوم ( 1918ء)، (4) پریم بتیسی (1920ء)، (5) خاکِ پروانہ(1921ء)،(6)
خواب وخیال ( 1928ء)، (7) فردوسِ خیال(1929ء)،(8) پریم چالیسی (1930ء)، (9)
آخری تحفہ (1934ء)،(۱۰) زادِ راہ (1936ء )۔
پریم چند کی افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی سے ہو جاتا ہے۔ 19 ویں صدی کی
کالونیاں 20 ویں صدی میں کئی نئے ادیبوں سے آشنا ہو گئی تھیں۔
ایک طرف جہاں اردو شاعری میں اقبال نے ایک نئی جہت اور احتجاجی لہر کا آغاز
کیا اور 19 ویں صدی کا معذرت خواہانہ لہجہ آہستہ آہستہ احتجاج میں بدل گیا
یہی طرز نثری ادب میں دیکھا گیا اور یوں جنگِ عظیم اول 1914ء اور انقلاب
روس 1917ء نے سامراجی قوتوں کے رعب میں رخنہ ڈال دیا تھا۔
پریم چند بھی اسی نیم سیاسی اضطراب اور ملک و قوم کی بقاء کے دفاع کے لیے
جدو جہد میں گذرے اُس دور سے متاثر ہوئے اور شہرہ آفاق افسانوی مجموعہ
’’سوزِ وطن‘‘ تخلیق کیا جس نے قوم میں حریت و ہمیت کی نئی روح پھونک دی یہی
وجہ ہے کہ برطانوی سامراج کو اس مجموعہ پر پابندی لگانی پڑی۔
آپ کی ابتدائی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا پہلو نمایاں رہا ہے اور پریم چند
اس نکتہ سے واقف تھے کہ حقیقت نگاری کا محدود تصورفن کو تباہ کر دیتا ہے۔
جب ہندوستان میں مذہبی داستانیں اور مافوق الفطرت موضوعات عروج پر تھے، آپ
نے بین الاقوامی، ملکی ، علاقائی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔
آپ نے ہندوستان کے دیہی موضوعات سے ساتھ ساتھ متوسط شہری کی زندگی کے مسائل
پر بھی لکھا۔
رومانوی ادیب زندگی کی عکاسی ایک مصور کی حیثیت سے کرتاہے جبکہ حقیقت پسند،
زندگی کو فوٹو گرافرکی آنکھ سے دیکھتا ہے۔
پریم چند کے ہاں ہمیں دونوں رویے ملتے ہیں۔ ایک طرف سماج کی سچی اور کھری
تصویریں جبکہ دوسری طرف تخیل کی رنگ آمیزی ملتی ہے۔پریم چند کے ہاں رومانیت
کا تصور ایک سماجی پہلو لیے ہوئے ہے اور وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے انحراف
نہیں کرتے۔
پریم چند بنیادی طورپر طبقاتی جبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ
ساتھ فرد کی آزادی کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔ ان کی رومانیت پر وطن پرستی کا
رنگ غالب ہے جس کا اظہار ان کی ابتدائی کہانیوں سے ہوتا ہے۔ پریم چند محبت
کا تصور رومانوی اثرات کے ساتھ ساتھ تلخ حقائق کا اظہار کرنے سے کتراتے
ہیں۔ کیونکہ ان کا تصور محبت سماجی روایت سے منسلک ہے۔ جس میں محبت کے کئی
رنگ موجود ہیں۔ جس میں حب الوطنی، کچلے ہوئے طبقات سے ہمدردی، مادی حقائق
کی اہمیت کو تسلیم کرنا وغیرہ۔
پریم چند کے کردار اکثر معاشرے کے ستائے ہوئے عام لوگ ہیں۔ انھوں نے ان
ستائے ہوئے اور کچلے ہوئے مظلوم لوگوں خصوصاً دیہاتوں میں جاگیرداروں اور
مہاجنوں کے ظلم کے مارے ہوئے لوگوں کو زبان دی۔ ان کے اندر آزادی کی تڑپ
اور جدوجہد کا جذبہ پیدا کیا اور ایک نئی دنیا تعمیر کی اور طبقات سے آزاد
معاشرے کا وجود ان کا بنیادی نظریہ تھا۔ وہ مثالیت اور حقیقت کے امتزاج سے
اپنی افسانوی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں۔
آپ نے اپنے افسانوں میں سادہ زبان استعمال کی۔ آپ نے سنسکرت کے الفاظ کا کم
استعمال کیا۔ آپ نے اکثر کرداروں کے مکالمے ان کی معاشی اور معاشرتی حیثیت
کے مطابق لکھے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے لیے مکالمے ان کے لہجے اور تلفظ میں
تخلیق کیے۔ جو آپ کے زبردست مشاہدے کا غماز ہے۔ آپ نے ہندوستان کے لوگوں کو
حقیقت پسندی سے روشناس کرایا۔ اُس وقت جب ہندوستان میں مذہبی داستانیں اور
مافوق الفطرت موضوعات عروج پر تھے، آپ نے بین الاقوامی، ملکی ، علاقائی،
معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔ آپ نے ہندوستان کے دیہی موضوعات سے
ساتھ ساتھ متوسط شہری کی زندگی کے مسائل پر بھی لکھا۔
کفن حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ فنی جمالیات کی ایک عمدہ مثال ہے۔ یہ افسانہ
ان کے اس نقطۂ نظر کا ترجمان ہے جو انھوں نے اپنے ایک خط میں بیان کیا۔ وہ
لکھتے ہیں ’’محض واقعات کے اظہار کے لیے میں کہانیاں نہیں لکھتا۔ میں اس
میں فلسفیانہ یا جذباتی حقیقت کا اظہار کرنا چاہتاہوں جب تک اس قسم کی
بنیاد نہیں ملتی میرا قلم نہیں اٹھتا
انھوں نے کفن میں جس جرأت کے ساتھ انسانی فطرت کو بے نقاب کیا ہے وہ ان کے
فن کا کمال بھی ہے اور نقطۂ نظر کااظہار بھی۔ آپ نے ’’کفن‘‘ کے بنیادی
کرداروں ’’گھیسو‘‘ اور ’’مادھو‘‘ کے باطن میں گھس کر فطرت کو بے نقاب کیا۔
پوری کہانی کی جان حالات کی ستم ظریقی ہے۔ جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے
دیا
طبقاتی نظام میں محکوم اور مجبور لوگوں کا استحصال ان کے اندر انسانی
احساسات کو ختم کر دیتاہے اور ان کو حیوانی سطح پر رہنے پر مجبور کر
دیتاہے۔ ’’کفن‘‘ کی یہ طنزیہ صورت حال اس درد ناک منظر سے شروع ہوتی ہے کہ
جھونپڑے کے اندر جواں سال بہو دردِ زہ سے تڑپ رہی ہوتی ہے اور باہر گھیسو
اور مادھوبجھے ہوئے الاؤ کے گرد بیٹھے خاموشی سے اس کے مرنے کا انتظار کر
رہے ہوتے ہیں۔ پریم چند کا کمال یہ ہے کہ وہ کم لفظوں میں بڑی حقیقت کو
کہانی کا روپ دیتے ہیں۔
بنیادی طور پر کفن کی کہانی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جس میں پہلے حصے میں
کرداروں کا تعارف، دوسرا حصہ بہو کی موت اور اثرات ، تیسرا حصہ غربت و افلا
س کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے حسی کا اظہار۔
پریم چند نے اردو زبان و ادب اور اس کے سرمایہ فکرکو ایک نئی جہت سے آشنا
کیا۔ انھوں نے زندگی اور کائنات کو فکر و نظر کے مروجہ زادیوں سے ہٹ کر ایک
نئی سطح سے دیکھا۔ ایک ایسی بلند سطح سے جہاں سے زندگی اور انسانیت کا
سمندر کروٹیں لیتا اور ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا تھا۔ وہ پہلے ادیب تھے جن کی
نظر حیات انسانیت کے انبوہ میں ان مجبور اور بے بس انسانوں تک پہنچی جو
قدرت کے دوسرے بے زبان مظاہر کی طرح صدیوں سے گونگے اور بے زبان تھے۔ پریم
چند نے انھیں زبان دی۔
نوٹ: پریم چند کے دو افسانے ’’کفن اور سبحان بھگت‘‘ پریم چند خود یکجا نہ
کر سکے جو بعد میں جعلی ایڈیشن کے ناموں سے شائع ہوئے۔
پریم چند طبعاً ایک غیر متعصب مصنف تھے۔ اس میں شک نہیں کہ زیادہ تر
افسانوں میں ہندو کلچر پیش کیا مگر جہاں جہاں انھوں نے مسلم کلچر کے پس
منظر میں کہانیاں تحریر کیں۔ ان میں ان کے مشاہدے کی گہرائی کمال پر ہے۔ جس
کی عمدہ مثال افسانہ ’’ حج اکبر‘‘ ہے۔
منشی پریم چند کو قصہ گوئی کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ دوسرے بچوں کی طرح انہیں
بھی اپنی دادی ماں سے قصے سننے کو ملے اور وہ ایسے ذہن نشین ہوئے کہ اُن
کہانیوں نے ان کے اندر چھپے فن نے افسانہ نگاری کو جنم دیا۔
اسی کے ساتھ ساتھ پریم چند کو کھیلوں میں بھی بے حد دلچسپی تھی۔ یوں تو وہ
سبھی کھیل کھیلتے تھے مگر گلی ڈنڈا ان کا عزیز ترین کھیل تھا۔ وہ پورے پورے
دن گلی ڈنڈا کھیلتے رہتے۔ وہ اپنی باری حاصل کرنے کے لئے بڑی سے بڑی چیز
بھی قربان کر دیتے تھے۔ ان کے ساتھیوں میں سب سے زیادہ دم دار ٹول مارتے
تھے۔ ’’گلی ڈنڈا‘‘ افسانے میں بھی انہوں نے اپنی رغبت اور اپنے ایک دوست’’
گیا‘‘ کو بہت یاد کیا۔ بچپن کی انہیں شرارتوں اور معمولی گھرانوں کے لڑکوں
سے دوستی کی وجہ سے ان کی زندگی کے وہ دن سہانے گزرے اور نقش کرتے چلے گئے۔
پریم چند کم عمرسے ہی حساس طبیعت کے مالک تھے۔ اور گاؤں کی زندگی ، رہن سہن
اور حالات کا انہوں نے بہت اچھی طرح مشاہدہ کیا تھا۔ دیہی سماج کی مفلوک
الحالی اور پستی و بلندی کا بغور مطالعہ کیا تھا۔گاؤں والوں پر ساہوکار ،
سیٹھ ، بنئے، پٹواری اور بڑے زمین داروں کے مظالم ہوتے ہوئے دیکھے کسانوں
کی سادگی اور جہالت کو دیکھا، پرکھا اور اس قسم کی بہت سی باتیں انہیں بار
بار اکساتی رہیں۔ کچھ اس طرح کی باتیں ان کے دل میں گھر کر گئیں، اور ان سب
چیزوں کی وجہ سے ان کا دل بے حد متاثر رہتا۔
منشی پریم چند نے چاہے بچپن کو بنیاد بنا کر افسانے قلمبند کئے ہوں یا چاہے
اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر دوسرے افسانے لکھے ہوں، بچوں کے حوالے
سے رقم کئے ہوں یا عورتوں مردوں اور بزرگوں کی نفسی وجنسی زندگی کوپیش کیا
ہے۔ دیہات کی جزئیات نگاری کے عناصر در آجاتے ہیں ۔ بڑے گھر کی بیٹی،
روشنی، وفا کی دیوی، بڑے بھائی صاحب، گلی ڈنڈا، رام لیلا، زیور کا ڈبہ، پوس
کی رات، عیدگاہ وغیرہ افسانوں میں گاؤں کے رہن سہن، دیہاتیوں کے خیالات ان
کے نظریات، رسومات اور سنسکاروں اور ضعیف الاعتقادیوں کو بخوبی دیکھا
جاسکتا ہے ۔
منشی پریم چند نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں دیہات کی زندگی اور وہاں کے
بسنے والوں کو جس خلوص ، دیانت داری اور تعمیری جذبے کے ساتھ پیش کیا اس سے
افسانے کے فن کو فقط جلا ہی نہ ملی بلکہ آنے والی نسلوں کی راہیں بھی ہموار
ہوئیں۔منشی پریم چند کے حوالے سے یہی کہا جائے گاکہ منشی پریم چند جیسا
افسانہ نگار، ناول نگار اور حقیقت شناس شاید ہی کوئی دوسرا پیدا ہو۔ اور ن
کا قلم آخری ناول ’’منگل سوتر‘‘ کو لکھتے ہوئے بیچ میں چھوڑ کر ہی 7اکتوبر
1936کو ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔
دس افسانوی مجموعوں کے تخلیق کار اور ناول نگاری میں سے ڈارمہ نگاری کے
رموز تراشنے والے اردو ادب کے پہلے معروف ناول نگار،افسانہ نگار اور ڈرامہ
نگارمنشی پریم چند آج بھی اپنی لازوال تحریروں میں زندہ ہے اور علم و ادب
کے پیاسوں کوسیراب کر رہا ہے ۔ |