پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
ہندستانی زبانوں کا مرکز
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی
مصر اردو کی تابناک سرزمین
اردو کی نئی بستیوں کا جب بھی ذکر آتا ہے اکثر ہم یوروپ و امریکہ سے اس کی
ابتدا کرتے ہیں اور اسی پر بات ختم بھی ہوتی ہے۔یہ سچ ہے کہ اردو کی دیگر
بستیوں سے پہلے یوروپ وامریکہ میں اردو پہنچی اور یہاں کے ادیب وشاعر
یقیناً قابل مبارکباد ہیں جو اردو زبان و تہذیب کو زندہ و تابندہ رکھے ہوئے
ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی اردو کی کئی اہم بستیاں ہیں جن تک ہماری رسائی کم
ہوئی ہے اور ان کو اس طرح نہیں سراہا گیا جتنا کہ وہ مستحق ہیں۔ان بستیوں
میں مصر سر فہرست ہے، جہاں اردو کی تعلیم و تدریس اور تصنیف و تالیف کا کام
بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہم اردو والوں نے یہاں کے ادیبوں اور
اساتذہ کی خدمات کو نظر انداز کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دانستہ ایسا ہوا
ہے شاید روابط کی کمی کے سبب اردو دنیا میں بالخصوص مصر کو متعارف کرانے
میں ہم اردو والوں سے کوتاہی ضرور ہوئی ہے۔
مصر اگر چہ افریقہ بر اعظم کا حصہ ہے لیکن یہاں کی تہذیب پورے طور پر عربی
تہذیب ہے، بلکہ اس کی تہذیب خود اپنے آپ میں مایہ ناز ہے۔عربی زبان کا ملک
ہونے کے باوصف اس ملک نے دیگر مشرقی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کی آبیاری
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کالج سے یونیورسٹی کی سطح تک اردو کی تدریس اور
ریسرچ کے حوالے سے مصر کے اہل اردو کابڑا کام ہے۔ انھوں نے اردو زبان کی
تعلیم کے ذریعے بر صغیر سے تہذیبی روابط کو بحال کرنے میں نمایاں خدمات
انجام دی ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ اردو ، عربی کے بعددنیا کی دوسری بڑی زبان ہے جس نے تہذیبی و
ثقافتی اعتبار سے دنیا کے طول و عرض کا سفر کیا ہے۔ یعنی تہذیبی ہجرت کے
لحاظ سے اردو ’دنیا کی دوسری بڑی زبان‘ ہے۔ یہ اردو والوں کے لیے باعث فخر
ہے۔ لیکن اس فخر و مباہات کاذکر اب تک ہم اس تزک و احتشام سے نہیں کر پائے
ہیں جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔شاید اس معاملے میں خود ہم اپنی دور افتادہ
تہذیبی وراثتوں سے یا تو واقف نہیں ہیں یا مزید تلاش و جستجو کی کوشش نہیں
کرتے ۔ ورنہ اردو کے تلاطم خیز سمندر، اس کی موجوں کی طغیانی اور اس کی
تہوں میں ابھی بھی بہت سے دْرِنایاب موجود ہیں۔
ان بستیوں میں مصر کی سر زمین بھی ہے جس نے اردو کے گیسو کو سنوارنے ،سجانے
اورنکھارنے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہے۔ لیکن اردو کی بستیوں کے ذکر
میں ہم مصر کو وہ مقام نہیں دے سکے جس کا وہ مستحق ہے۔مصر میں اردو کے طلبہ
واساتذہ کی تعداد کو دیکھیں یا اردو تصنیف و تالیف کو دیکھیں تو خوشی ہوتی
ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ، طلبہ وطالبات اردو کی تعلیم و تدریس میں
مصروف ِعمل ہیں۔ کالج سے یونیورسٹی کی سطح تک اور پی۔ایچ ڈی کی سند کے حصول
تک کا سفر اردو کے لیے فال نیک ہے۔ مصر میں فی الوقت طلبہ و طالبات اور
اساتذہ کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔جن یونیورسٹیز میں ارود کی تعلیم کا باضابطہ
نظم ہے ان میں ازہر یونیورسٹی کے دو شعبے (لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے الگ
الگ)عین شمس یونیورسٹی ، قاہرہ یونیورسٹی ، اسکندریہ یونیورسٹی،
طنطایونیورسٹی اور منصورہ یونیورسٹی کے نام قابل ذکر ہیں۔ازہر یونیورسٹی کا
شعبۂ اردو برائے خواتین اور ازہر یونیورسٹی کا لڑکوں کے لیے شعبۂ اردو ،
عین شمس یونیورسٹی اور قاہرہ یونیورسٹی میں سنجیدہ موضوعات پرتحقیقی مقالے
بھی لکھے جارہے ہیں۔
مصر میں اردو کی تاریخ کی ایک صدی بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے
کارنامے حروف زریں سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ہمارے محترم دوست ڈاکٹر
پروفیسر یوسف عامر ، وائس چانسلر ازہر یونیورسٹی جو بنیادی طور پر اردو کے
پروفیسر ہیں ،سے اس سلسلے میں ہماری اکثر گفتگو ہوئی ہے انھوں نے مجھے مصر
میں اردو کی تاریخ کے حوالے سے چند اہم موڑ کی نشاندہی کی اسی کے ساتھ
ڈاکٹر پروفیسر ابراہیم محمد ابراہیم ، ڈاکٹر احمد القاضی اور ڈاکٹر جلال
السعید الحفناوی کے مضامین سے مصر میں اردو زبان کی نشو ونما اور ارتقا کا
علم ہوا۔ ابھی میرے سامنے ڈاکٹر ابراہیم کا مضمون ہے جو عربی زبان میں ہے۔
میں نے اپنے مصری شاگرد مصطفیٰ علاء الدین کی مدد سے اسے سمجھنے کی کوشش کی
ہے۔ ڈاکٹر ابرہیم کا یہ مضمون کافی طویل اور مفید مطلب ہے لیکن کچھ
اقتباسات کا مفہوم اس طرح ہے ’’ سنہ1930ء میں بڑی تعداد میں ہندوپاک کے لوگ
مصر تشریف لائے۔ یہ لوگ اردو زبان اچھی طرح سمجھتے اور بولتے تھے۔ اور ان
میں ہندوستانی ابو سعید العربی کا نام قابل ذکر ہے، جنھوں نے پہلی بار اردو
زبان کا رسالہ (جہان اسلامی) کے نام سے قاہرہ سے شائع کیا۔ اسی سال 1930ء
میں ایک ہفتہ واری اخبار نکلا جس کے مدیر محمود احمد عرفانی تھے۔ اس اخبار
کے اجراء میں ان کے بھائی محمد ابراھیم علی عرفانی نے بھی مکمل تعاون دیا
اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔اردو زبان کی تدریس مصری یونیورسٹیوں ،تعلیمی
اداروں میں پچھلے اسی(80) سال سے چل رہی ہے۔ مصری حکومت نے مشرقی زبانوں کی
تعلیم وتدریس پر بیسویں صدی کے نصف اول ہی سے توجہ دینی شروع کر دی تھی
تدریس کے سلسلے کا آغاز سنہ1939ء میں قاہرہ یونیورسٹی کے معہد اللغات
الشرقیہ (اورینٹل لینگویج انسٹی ٹیوٹ)میں ہوا۔جولائی سنہ1952ء کے بعد مصری
حکومت نے اردو زبان میں ریڈیونشریات کا آغاز کیا تاکہ اس کے ذریعہ ہندوپاک
کے ساتھ مصر کے دوستانہ تعلقات استوار رہیں۔یہ پروگرام شام 6 بجے سے 8 بجے
تک قاہرہ کے وقت کے مطابق " ریڈیو قاہرہ "سے نشر کیا جاتا ہے۔‘‘( پروفیسر
ابرہیم محمد ابراہیم کے مضمون سے ماخوذ)
قاہرہ کے بعد ازہر یونیورسٹی ، عین شمس یونیورسٹی اور دیگرجامعات میں اردو
درس و تدریس کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ جلد ہی مصر کی
دیگر یونیورسٹیوں میں بھی اردو کے شعبے قائم ہونے والے ہیں ۔ اتنی بڑی
تعداد میں اردو پڑھنے پڑھانے والے موجود ہیں لیکن ابھی تک شاید ہند و پاک
کی یونیورسٹیز سے ان کا باضابطہ کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ جس کے تحت طلبہ و
اساتذہ ایک دوسرے ملک میں تعلیم اور تحقیق کے لیے آ،جا ،سکیں۔حالانکہ
ہندستانی حکومت کے وظیفے بھی موجود ہیں۔ کئی طلبہ و طالبات ہندستان میں ان
وظائف پر تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ جامعات کے مابین باضابطہ معاہدے کے
لیے ہندستان کی جانب سے پہل کی ضرورت ہے اور خود مصری جامعات کو بھی اس
جانب متوجہ ہونا چاہیے۔
مصر میں اردو کے آغاز کی تاریخ ستر برس(70) پر محیط ہیلیکن ابھی تک صرف چند
احباب نے ہی ہند وپاک کی جانب رخ کیا اور یہاں سے فراغت کے بعد اردو کی
خدمت میں مصروف ہیں۔ قاہر ہ میں جن اساتذہ نے جامعہ ازہر سے اردو میں بی۔اے
کرنے کے بعد پاکستان سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ان میں ایھاب حفظی عز العرب،
ابراہیم محمد ابرہیم اور جنھوں نے ہندستان سے پی ایچ ڈی کی ان میں احمد
القاضی اور یوسف عامر صاحبان ہیں۔ فی الوقت میری نگرانی میں ایک مصری طالب
علم مصطفیٰ علاء الدین پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ ازہر یونیورسٹی کے
کئی طالب علموں سے اس سفر میں ملاقات ہوئی جو ایم اے اور پی ایچ ڈی کے لیے
ہندستان آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ( خدا انھیں کامیاب کرے)۔ پروفیسر ابرہیم
محمد ابراہیم کے علاوہ یہ چاروں اساتذہ کئی بار ہندستان کے بڑے سیمناروں کے
لیے مدعو کیے گئے۔ اس ناچیز نے پروفیسر جلال الحفناوی اور پروفیسر احمد
القاضی کو دو عالمی سیمناروں میں مدعو کیا تھا ، انھوں نے میری دعوت قبول
کرکے ہمارے سیمنار کو بامقصد بنایا۔ پروفیسر یوسف عامر کی ضیافت کا وہ شرف
تو حاصل نہ ہوسکا لیکن انھوں نے میری دعوت پر جواہرلعل نہرو یونیورسٹی میں
لیکچرز دیے۔ ڈاکٹر رانیا فوزی سے بھی پہلی ملاقات پروفیسر یوسف عامر کے
ہمراہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ہوئی اورگزشتہ سال ڈاکٹر مروہ لطفی کو
لکھنؤ کے لیے زحمت دی تھی۔ڈاکٹر بسنت محمد شکری اس سال ایوان غالب، نئی
دہلی کی دعوت پر ہندستان آئی تھیں۔ان کے علاوہ مصر کے دیگراساتذہ جیسے
ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی ، ڈاکٹر رباب محمد ، ڈاکٹر ایناس عبد العزیز وغیرہ
سے شوشل میڈیا کے ذریعے میرا تعارف تو تھا لیکن براہ راست ملاقات اس سفر
میں ہوئی۔اساتذہ کے علاوہ بہت سے طالب علموں سے میں شو شل میڈیا کے ذریعے
ہی رابطے میں رہا۔ ڈاکٹر ابرہیم محمد ابرہیم صاحب سے میری پہلی ملاقات فیصل
آباد ، پاکستان کے ایک بین الاقوامی سیمنار میں ہوئی (مجھے خوشی ہے کہ اس
ملاقات میں انھوں نے مجھے پہچان لیا)جن اساتذہ کا ابھی ذکر ہواہے اس کے
علاوہ بھی کئی نامور اساتذہ مصر کی مختلف یونیورسٹیز میں تدریس کے فرائض
انجام دے رہے ہیں جن سے اس سفر میں پہلی بار ملاقات ہوئی۔یہ تمام سینئر
اساتذہ کئی درجن کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر اردو کی کتابوں
کا عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ڈاکٹر یوسف عامر کی کتاب’’جدید عربی اردو شاعری
کا تقابلی مطالعہ‘‘ ہندستان کے معروف ادارے انجمن ترقی اردو ہند سے شائع
ہوکرکافی مقبول ہوئی۔ مصر میں حکومت کا ایک ادارہ ’قومی سینٹر برائے ترجمہ‘
ہے جہاں سے اردو کی مترجمہ سیکڑوں کتابیں شائع ہوئی ہیں جس کے سبب اردو
عالم عرب سے رو برو ہورہی ہے۔جن اساتذہ کی کتابیں اس ادارے سے شائع ہوئی
ہیں ان میں پروفیسر ابراہیم محمد ابراہیم ، پروفیسر یوسف عامر، پروفیسر جلا
ل الحفناوی، پروفیسراحمد القاضی وغیرہ اہم ہیں۔اس کے علاوہ جامعہ ازہر کے
شعبۂ اردو سے سالانہ رسالہ بھی نکلتا ہے جو اردو اور عربی دونوں زبانوں میں
ہوتاہے۔
3مارچ 2018 کو پروفیسر یوسف عامر اور ڈاکٹر رانیا فوزی کی دعوت پرمصر جانے
کا موقع ملا۔مصر میری تمناؤں اور آرزؤں کا ملک ہے۔اﷲ کا شکر ہے کہ یہ موقع
نصیب ہوا اور مصر کی سرزمین کی زیارت نصیب ہوئی۔ اس سر زمین کو دیکھنے کی
خواہش اس لیے بھی تھی کہ قرآن پاک میں اس کاذکر آیا ہے۔ یہ سر زمین انبیا
ئے کرام، صحابہ اور اولیائے عظام کی سرز مین رہی ہے۔ تہذیبی اعتبار سے بھی
اس ملک کو دنیا میں امتیاز حاصل ہے لیکن میری خوشی کا ایک بڑا سبب یہ تھا
کہ یہاں اردو کے احباب ، طلبہ وطالبات سے ملاقات ہوگی۔ یہ ملاقات بھی ایسی
رہی کہ تاحیات اس کو فراموش کرنا ممکن نہیں۔ اہل مصر کی ضیافتوں اور مہمان
نوازیوں کے بارے میں سنا تھا لیکن مجھے جس طرح لوگوں نے سر آنکھوں پر
بٹھایا ا ور جس طرح کی ضیافتوں سے سرفراز کیا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل
ہے۔ میری حیرت اس وقت اور بڑھی جب اردو کے طلبہ و طالبات نے گرمجوشی سے
میرا استقبال کیا۔ہر استاد اور طالب علم مجھ سے باتیں کرنا چاہتے تھے۔ اہل
عرب سے اردو میں باتیں سننا میرے لیے خوشگوار تھا کیونکہ ان کے لہجے میں
عجیب سی شیرینی تھی وہ حروف جو عربی میں موجود نہیں ان کی ادائیگی بھی اہل
عرب کے لیے مشکل ہے لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ اساتذہ نے بڑی محنت کی ہے اسی
لیے ٹ، ٹھ ، ڑ ، ڑھ ، پھ ، چھ وغیرہ کی درست ادائیگی ان کی زبانی بہت اچھی
لگتی تھی۔ میری خواہش ہوتی کہ میں دیر تک ان کی گفتگو سنتا رہوں مگر مشکل
یہ تھی یہ مجھ سے بھی سننا چاہتے تھے۔ طالب علموں کا اشتیاق دیکھ کر حیرت
انگیز خوشی ہوئی کہ وہ اہل زبان سے ملنا ، باتیں کرنا ، ضیافت کی ہر ممکن
کوشش کرنا اوراس بات کا لحاظ رکھنا کہ مجھے کسی طرح کی تکلیف نہ ہو، یہ سب
وہ باتیں ہیں جس نے مجھے از حد متاثر کیا۔ اپنے دس دن کے سفر میں میں نے
مختلف یونیورسٹیز میں اساتذہ و طلبہ سے ملاقات کی اور ان سے گفتگو کی۔اس
سفر کو میرے ریسرچ اسکالر مصطفیٰ علاء الدین نے مزید خوشگوار بنا دیا۔
مصطفیٰ کی نیاز مندی اور علم دوستی میرے لیے ایک نعمت ہے۔
4 مارچ کو عین شمس یونیورسٹی ، قاہرہ میں’’ معاصر تخلیقی ادب‘‘ کے عنوان سے
لیکچر تھا۔ڈاکٹر رانیا فوزی صدر شعبۂ مشرقی زبان نے میرا والہانہ استقبال
کیا بعد ازاں پروفیسر سوزان القلینی ڈین فیکلٹی ادبیات سے ملاقات ہوئی ،
انھوں نے بھی ویسی ہی گرمجوشی کا اظہار کیا۔اساتذہ میں ڈاکٹر مروہ لطفی،
ڈاکٹر ولاء جمال ، ڈاکٹر ایناس عبد العزیز ، ڈاکٹر رباب محمد وغیرھم سے
ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ طلبہ وطالبات پہلے سے ہی منتظر تھے۔ ایک خوبصورت
سے ہال میں پروگرام کا آغاز ہوا۔ پروفیسر سوزان کے استقبالیہ کلمات کے بعد
پروفیسر رانیا فوزی نے میرا تعارف کرایا اور ڈاکٹر مروہ لطفی نے میری تقریر
کا عربی میں ترجمہ پیش کیا۔ سامعین میں عجب خوشی کا سماں تھا شاید اس کی
وجہ یہ تھی ہندستانی مہمان کا پہلی باروہ استقبال کر رہے تھے۔ پروگرام کے
بعد بھی طالب علموں سے گفتگو ہوئی انھوں نے اردو کے سلسلے میں بہت سے
سوالات کیے ، اپنی تحقیق کے حوالے سے باتیں کی ،مواد کی دستیابی کے صورتیں
معلوم کیں۔ مجھے ایسا لگا کہ ان کے پاس کتابوں کی بہت کمی ہے۔ اسی لیے ہر
استاد نے کتابوں کے میرے تحفے کو دل سے قبول کیا۔( اردو کے ادیبوں سے میری
گزارش ہے کہ کم از کم اپنی ایک ایک کتابیں یہاں کی لائبریریوں کے لیے ضرور
بھیجیں)
5 مارچ کو میرے کرم فرما بھائی اور دوست پروفیسر یوسف عامر ، وائس چانسلر
جامعہ ازہر نے میری خوب پذیرائی کی ، ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے پہلے
ان کے دفتر میں ان سے ملاقات کے لیے حاضرہوا ، بہت دیر تک اردو کی صورت حال
اور مصر میں اردو کے فروغ کے امکانات پر گفتگو رہی بعد ازاں جامعہ ازہر کے
شعبہ ٔ اردو میں حاضری ہوئی۔ پروفیسر احمد القاضی اوردیگراساتذہ سے ملاقات
کے بعد طلبہ سے ’’ اردو کی موجودہ صورت حال ‘‘ پرگفتگوکی۔ یہاں بھی وہی
اشتیاق ، وہی ہجوم ، طالب علموں میں علم کی وہی للک دیکھنے کو ملی۔ خوب
ضیافت ہوئی اور دیر تک علمی و ادبی گفتگو ہوتی رہی میں نے ذاتی طور پر اپنی
خدمات پیش کیں اور علمی تعاون کے لیے اردو کے عالمی اداروں سے ربط باہمی پر
زور دیا۔
6 مارچ کو جامعہ ازہر ، قاہرہ کے شعبۂ اردو برائے خواتین میں حاضری ہوئی۔
صدرِ شعبہ پروفیسر ابرہیم محمد ابراہیم اور ان کے رفیق کار اسی والہانہ
انداز اور اپنائیت کے ساتھ ملے۔ کچھ ہی دیر میں پروفیسر یوسف عامرصاحب بھی
تشریف لے آئے ، مجھے ان کی مصروفیات کا اندازہ ہے لیکن وہ میری محبت اور
اردو کی محبت میں مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر گھنٹوں اس محفل میں شریک
رہے۔ مصری چائے اور وائے کے ساتھ جناب ابراہیم صاحب کے دفتر میں اردو ، مصر
، ہندستان ،پاکستان اور اردو کی بستیوں پر گفتگو ہوتی رہی۔ ہم اساتذہ محو
گفتگو تھے اورطالبات باہر ہمارے منتظر تھیں۔ پروفیسر ابراہیم نے طالبات کی
اضطرابی کیفیت کو سمجھ لیا اس لیے فوراً ہی ہال میں ہمیں لے گئے تاکہ ان سے
بھی گفتگو ہوسکے۔ کچھ ہی دیر میں ڈین کلیتہ الادب پروفیسر تحیہ ابو شعیشع
صاحبہ بھی تشریف لے آئیں۔ پروفیسر ابراہیم صاحب کی خوشی ان کے لفظوں سے
عیاں تھی انھوں نے اردو کوبڑی تہذیبی زبان بتاتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز
کیا اور کہا کہ اردو کا ہی یہ فیض ہے کہ ہم ہندستان کے اردو استاد
پروفیسرخواجہ اکرام سے اس شعبے میں مل رہے ہیں۔ انتہائی خلوص دل کے ساتھ
میرا استقبال اور تعارف پیش کیا۔ ڈین صاحبہ نے بھی اسی مسرت کا اظہارکیا۔
پروفیسر یوسف عامر کی پْر مغز گفتگو کے بعد مجھے بھی طالبات سے گفتگو کرنے
کا اعزازحاصل ہو ا۔ ان طالبات کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ ایک ایسی
زبان کی طالبہ ہیں جس میں بھی ہزراوں سال کی تہذیب سانس لے رہی ہے۔مجھے ذرا
تکلف تھا کہ شاید یہ میری باتوں کو پوری طرح نہ سمجھ سکیں لیکن اندازہ ہوا
کہ میرے ایک ایک لفظ کو سمجھ رہی ہیں ، بیشترطالبات بہت اچھی طرح اردو
بولنے پر قادر بھی ہیں۔ یقیناً اس کے لیے جامعہ ازہر کے اساتذہ قابل
مبارکباد ہیں کہ انھوں نے تدریس پر کافی محنت کی اسی لیے بولنے ، پڑھنے اور
سمجھنے میں ان طالبات کو چند سالوں میں ہی عبور حاصل ہوجاتاہے۔
7 اور 8 مارچ مصر کے خوبصورت ساحلی شہراسکندریہ میں گزرا۔ اسکندریہ
یونیورسٹی میں اردو ابھی بی۔ اے کی سطح پر ہی پڑھائی جاتی ہے۔ 7 کی صبح
قاہر ہ سے بذریعہ ٹرین اسکندریہ پہنچے وہاں ایناس احمد نے ہمارا استقبال
کیا۔ ایناس احمد تاریخ کی طالبہ ہیں جو بہت اچھی اردو بولتی ہیں۔ میری
ضیافت کی ذمہ داری انہیں کے سر تھی۔ایناس صاحبہ نے انتہائی خنداں پیشانی سے
ہمارا استقبال کیا پورا دن شہر کو دیکھنے اورمقدس مقامات کی زیارت میں
گزار۔ ایناس کی خوش اخلاقی سے میں اس قدر متاثر ہوا کہ میں نے انھیں اپنی
منہ بولی بہن بنا لیا۔ دوپہر کو گھر سے بہت ہی لذیذ کھانا بنوا کر لے آئیں
اور سمندر کے کنارے بیٹھ کر اس کا لطف لیا۔ ( اﷲ انھیں جزائے خیر دے)۔ مصر
ی طالب علموں کا اخلاق بیان سے سے باہر ہے۔کچھ طالبات جو مجھے پہلے سے
جانتی تھیں کیونکہ وہ ہندستان اردو پڑھنے کے لیے ایک ماہ جواہر لعل نہرو
یونیورسٹی میں رہ چکی تھیں ان میں فاطمہ ماہر (اپنی والدہ کے ساتھ)، فاطمہ
عمر ، میار ناصر، فاطمہ بدرالدین جن سے مصر میں میری پہلی ملاقات ہوئی ،پْر
تکلف اردو میں گفتگو کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ عین شمس یونیورسٹی میں اردو کی
استاد مروہ لطفی ہیکل جنھیں میں اپنی بہن مانتا ہوں اور وہ بھی مجھے بھائی
کی طرح پیار کرتی ہیں ، یہ سب کے سب میرا ساتھ دینے کے لیے صبح صبح
اسکندریہ پہنچ گئیں۔یہاں مروہ ، یسرمحمد ، ایمن، تقیٰ اور کئی اساتذہ
وطالبات سے ملاقات ہوئی۔’’ اردو ادب میں مصری تہذیب و ثقافت‘‘ کے عنوان
پراسکندریہ یونیورسٹی میں گفتگو کی۔لیکچر کے بعد سوالات و جوابات کا سیشن
بہت کامیاب رہا۔ اکثر طالب علموں نے ہندستان میں ارود پڑھنے کی خواہش ظاہر
کی۔ مجھے امید ہے کہ جلد ہی ہندستانی یونیورسٹیز کے مابین معاہدے ہوں گے
اور ان طالب علموں کو یہاں آنے کا موقع ملے گا۔اس کے بعد اساتذہ و طالبات
کے ساتھ اسکندریہ کے مشہور ہوٹل میں سمندری غذا(SeeFood) کا لطف لیا۔ میں
دل کی گہرائیوں سے ان تمام اردو کی طالبات اور اساتذہ کا شکر گزار ہوں۔
طنطا یونیورسٹی کا سفر بھی یادگار رہا ڈاکٹر پروفیسر مدحت حماد مشرقی
زبانوں کے صدراور ڈاکٹر بسنت شکری کی دعوت پر اس یونیورسٹی کو بھی دیکھنے
کا موقع ملا ڈاکٹر مروہ لطفی اور مصطفی ٰ علاء الدین میرے ہمراہ تھے۔ یہاں
بڑے انوکھے انداز میں استقبال کا پروگرام مرتب کیا گیا تھا ایک طالبہ نے
ہندستانی طر ز کی ساڑی پہن کر ہند اور مصر کے تعلقات اور اردو کے رشتے کو
بتانے کی کوشش کی ، کئی طالبات نے اردو کے نغمے بھی سنائے۔ بہت دیر تک
ڈاکٹر مدحت حماد سے اردو اور فارسی زبان کے حوالے سے باتیں ہوئیں۔ ازہر
یونیورسٹی سے ڈاکٹر حبیبہ بھی اس میں شرکت کے لیے موجود تھیں ، منصورہ سے
جناب ہانی السعید بھی تشریف لائے تھے۔ طالب علموں میں عجیب خوشی کا ماحول
تھا۔ ان سب نے مجھے بہت متاثرکیااور یہ ملاقات میری ناقابل فراموش یاد داشت
کا حصہ بن گئی۔
اردو کے مصر ی اساتذہ سے ملنے اور مجموعی طور پر اردو کے شعبوں کے دورے کے
بعد ایک کمی کا احساس ہوا جس کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں شاید غلط ہو۔
مجھے محسوس ہوا کہ اردو کے اساتذہ اور طلبہ اکثر آپس میں عربی زبان میں ہی
باتیں کرتے ہیں۔ اگر اساتذہ اس جانب متوجہ ہوں اور ایسی کوشش کریں کہ کم از
کم شعبے میں تمام اساتذہ اور طلبہ وطالبات اردو میں ہی باتیں کریں تو اردو
کی تفہیم اور تدریس میں مزید تیزی آئے گی۔ گاہے بگاہے ان شعبوں میں قومی
اور بین الاقوامی سیمنار بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں لیکن سیمنار کی زبان
اکثرعربی ہوتی ہے اگر یہ تمام سرگرمیاں اردو زبان میں ہوں تو اردو کا رواج
زیادہ ہوگا جو نئے طالب علموں کے لیے مفید بھی ہوگا۔ دوسری بات جس کا خصوصی
طور پر میں ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ مصر کے اساتذہ کی زیادہ تر تصانیف عربی
زبان میں ہیں۔ اگر یہ اپنی تحریریں اردو میں لکھیں اور ہند وپاک کے رسائل
میں شائع ہوں تو یہ خود بخود بر صغیر اور اردو کی دوسری بستیوں میں متعارف
ہوں گے۔اردو کے مہجری ادیب ہر جگہ اپنی تخلیقات کے سبب جانے جاتے ہیں۔ مصر
کے اساتذہ میں بھی بخوبی تخلیقی صلاحیتیں موجود ہیں میری ان سے گزارش ہے کہ
اس جانب بھی متوجہ ہوں۔مجموعی طور پر میں اہل مصر اور حکومت مصر کو ہدیہ ٔ
تبریک پیش کرتا ہوں کہ وہ بر صغیر کی زبان وتہذیب کو پروان چڑھانے کی دل سے
کوشش کر رہے ہیں۔مجھے امید ہے کہ اب ملنے جلنے کا سلسلہ برقرار رہے گا اور
زبان کے ساتھ ساتھ ہندستان اور مصر کے تعلقات میں مزید خوشگواری آئے گی۔
|