ایک مردِدانا و اقبال شناس کی خدمت میں چند لمحات حاضری
کا شرف نصیب ہوا۔ وہ تاکید فرما رہے تھے کہ آج پاکستانی قوم بحیثیت مجموعی
بے یقینی اور غلامی کا شکار دکھائی دیتی ہے اور ایسے میں علامہ اقبال کے
اشعار و افکار کی روشنی میں اس کی راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ اسی دوران افواج
پاکستان کے شعبہ اطلاعات کی جانب سے 78 واں یوم پاکستان بحوالہ قرارداد
پاکستان منانے کا اعلان نظر سے گزرا۔ اﷲ کا نام لے کر ’’آسان کلیات اقبال‘‘
(از الفیصل کمپنی) کی ورق گردانی شروع کردی۔ اچانک خیال آیا کہ علامہ نے
پیام مشرق میں اشتراکیت کے پس منظر میں کارل مارکس کے بارے میں جو شہرہ
آفاق مصرع لکھا کہ: ’’نیست پیغمبر ولے دارد کتاب‘‘ (یعنی پیغمبر تو نہ تھا
مگر صاحب کتاب ضرور تھا) تو ایسے لگا کہ امت مسلمہ کے ایک بے مثل قائد و
رہبر کے طور پر علامہ خود بھی اسی مصرح کا مصداق قرار پاتے ہیں جس طرح رومیؒ
اپنی مثوی ہاتھ میں اٹھائے صدیوں سے امت کی رہبری فرما رہے ہیں۔ اسی طرح
اقبال اپنی شاعری کی کتاب ہاتھ میں پکڑے اپنے دور سے لے کر آنے والی صدیوں
کے لئے اپنے پیارے رسولؐ کی امت کی رہبری و قیادت فرما رہے ہیں۔ خصوصاً
نوجوانان ملت کو
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
جیسے حیات آفریں نغمے سنا رہے ہیں۔
علامہ کے بقول چونکہ ان کے کلام کا اصل سرچشمہ عرش الٰہی سے نازل ہونے والا
کلام قرآن مجید ہے‘ اس لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان طلب ہدایت و راہنمائی
کے لئے کلام و فرمان اقبال کی جانب رجوع کرے اور خالی ہاتھ واپس آجائے۔
اقبال نے بجا طور پر ارشاد فرمایا کہ
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اﷲ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
مگر راقم جیسے عاجز‘ یکے از طالبانِ فیوض اقبال نے تو کلام اقبال کے بحر
اقبالیات‘ میں ہی چھوٹی موٹی غوطہ خوری کی تو ایسے لگا کہ کتنے ہی اقبالی
جواہر و موتی ہاتھ میں آگئے۔ آیئے آپ خود اقبال کے اشعار سے لطف اندوز بھی
ہوں اور ان کے مطالب و معانی اخذ کرنے کی ایمانی و روحانی‘ اقبال مشق بھی
کریں۔
یقیں محکم‘ عمل پیہم‘ محبت فاتح عالَم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
یہ شعر پوری زندگی میں کامیابی کے حصول کے لئے کلیدی اہمیت کا حامل ہے کہ
زندگی کے امتحانات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی سہ نکاتی حکمت عملی اقبالی
ضمانت یا گارنٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ ایمان و یقین کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔
اپنے ایمانی عقائد پر پختہ یقین کہ کامیابی کا راستہ ’’توحید‘ رسالت‘ آخرت‘‘
کے سائے میں طے ہوتا ہے۔ یعنی کائنات اﷲ وحدۂ لا شریک کی ملکیت ہے ہم اس کی
دی ہوئی نعمتوں کو اس کی عطا کردہ ہدایات کے مطابق کام میں لائیں۔ کبھی اس
کی یاد اوراطاعت سے غافل نہ ہوں۔ حضور رسول مقبولﷺ کی اطاعت و محبت عظیم
ترین اور عزیز ترین سرمایہ حیات ہے اور اﷲ کی مخلوق سے حسب مقام و مرتبہ
محبت اورخیر خواہی کا طریقہ اپنائیں اور عفو و درگزر سے کام لینے میں مسرت
و سکون محسوس کریں۔ یہ پورا فلسفہ حیات قرآن پاک سے ماخوذ ہے۔ جُہدِ مسلسل
سے زندگی کو حسن و کمال ملتا اور کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں۔
یقیں افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیرِ ملت ہے
پہلے شعر کے معافی کو پوری ملت کی کامیابیوں کا طریقہ قرار دیتا ہے۔ افراد
کایقین ان اینٹوں کی مانند ہے جن کے باہم جڑنے سے ملت کی خوب صورت اور عظیم
الشان تعمیر ہوتی ہے۔ یہی صورت حال تو قوم کی تقدیر سنوارنے کا راستہ ہے کہ
جس طرح افراد ملت کو وحدت بخشتے ہیں اسی طرح ان کا پختہ اور سچا یقین ملت
کی تقدیر سنوار دیتا ہے۔
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
علامہ کے کلام کا قابل ذکر حصہ ’’ظریفانہ‘‘ کے عنوان کے تحت آتا ہے جہاں
انتہائی اہم موضوعات کو سادہ ترین اور ہلکے پھلکے الفاظ میں پیش کر دیا گیا
ہے جس کی بہترین مثال یہ شعر ہے کہ جس طرح ایک گندہ انڈا گھر میں نہیں رکھا
جاتا اور باہر پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح تہذیب کے میدان میں اسلام کی ارفع
و اعلیٰ تہذیب کے مقابلے میں فرنگی اور مغرب کی گھٹیا اور اصلاً ناپاک
تہذیب کا مقام یہ ہے اور اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا جائے چہ جائے کہ اسے
اختیار کیا جائے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
علامہ کا یہ شعر زبان زد عام ہے اور علامہ کے پختہ یقین کی نمائندگی کرتا
ہے کہ جس نوجوان نسل کے ذہنی و فکری آباؤ اجداد نے تاریخ کے صفحات پر اپنی
عظمتوں کے لازوال نقوش ثبت کئے ہیں اور ان کی رگوں میں ان اہل ایمان کا خون
رواں دواں ہے اورجس امت کو انسانیت کی راہ نمائی کے لئے اٹھایا گیا ہے تو
اگرچہ اسے فریب خوردہ شاہین بنا کر غلامی کی ذلتوں تک پہنچا دیا گیا ہے مگر
حضرت علامہ کو اپنی ایمان افروز جدوجہد اور اپنی ایمانی و روحانی صداؤں کی
سچائی پر اس قدر پختہ یقین ہے کہ برملا اعلان کرتے ہیں کہ وہ امت کی اس
بظاہر ویران و برباد کھیتی سے ہرگز مایوس نہیں ہیں اور وہ اپنے محبت بھرے
نغموں کی فضاؤں میں اپنے افکارکی برکت سے لہلہاتے ہوئے پھول اپنی نگاہ
بصیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ علامہ کا پر مغز اور بصیرت افروز کلام امت کی ویران
کھیتی کے لئے طاقت ور پانی کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ قرآن کے فرمان کا مفہوم ہے
کہ مردہ کھیتوں کو زندہ کرنا تو اﷲ ہی کی قدرت کا کرشمہ ہوتا ہے۔
لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے مے ’’لا‘‘ سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ ’’الا‘‘
اس شعر کا مطلب ہے کہ جدید مغربی تہذیب اپنی اصل کے لحاظ سے مادہ پرستی اور
اﷲ کے انکار پر مبنی ہے اور اس کے لیڈروں اور دعوے داروں کا دامن اﷲ پر
ایمان سے بالکل خالی ہے۔ یہ مادہ پرستی اور دنیاوی اغراض کے سوا کوئی حقیقت
نہیں رکھتی۔ مسلمان کے پاس اسے ٹھکرانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے‘ ہے وہی زیبا
اس شعر میں علامہ اقبال غلام کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ وہ تو غلامی کی
لعنت میں مبتلا اور انسانی شرف و احترام سے بالکل محروم ہوتا ہے۔ وہ گراوٹ
کے اس مقام پر ہوتا ہے کہ اسے خوب صورتی اور زیب و زینت کا کچھ پتہ ہی نہیں
ہوتا۔ غلام اندر باہر سے بدصورت اور انسانیت کے معیار سے گرا ہوا ہوتا ہے۔
یہ صرف آزاد انسان کا کام ہے کہ وہ رائے یا فیصلہ دے سکتا ہے کہ کون سی چیز
کس حد تک موزوں یا خوب صورت اور پسندیدہ ہے۔ خوب صورتی اور زینت و زیبائش
کا شعور صرف آزاد انسانوں کو نصیب ہوتا ہے۔ غلام کے تصور سے یہ دور کی بات
ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غلامی سے نکلنا ہی صحیح راستہ ہے خواہ اس
کے لئے کتنی جدوجہد کرنا پڑے۔ اصل ہدف مغرب پرستی اور مغربیت سے آزادی حاصل
کرنے کا سبق ہے۔
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے‘ باطن میں گرفتاری
اس شعر میں دورجدید کی مادہ پرستانہ تہذیب و تقافت سے بیزاری کا درس دینے
کے لئے اس کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ مغربی تہذیب کے پھندے میں گرفتار
ہوکر آزادی کا جو جھوٹا اور باطل تصور زبان پر آتا ہے وہ اصل میں انسان کو
اپنے عقیدے‘ اپنے دین‘ اپنی روایات‘ اپنی تہذیب‘ اپنے تمدن‘ اپنے اسلاف کی
محبت سے دور کرکے ایک کھوکھلی تہذیب کا دلدادہ بنا دیتا ہے اور اقبال جیسا
نباض فطرت اور تہذیبوں کا شناسا اپنی ملت کو غلامی کی لعنت سے آزادی دلانے
کی جدوجہد کرتا ہے۔
یہی زمانہ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ ونگہ بے باک
موجودہ بے خدا تہذیب کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ اس کا کل اثاثہ اس دعوے پر
مبنی ہے کہ ہمارے پاس اتنی معلومات کا خزانہ ہے جس سے ہمارے دماغ روشن ہیں
جب کہ دلوں کی دنیا تاریک‘ جذبوں سے خالی اور سوز و محبت سے محروم ہے۔ اسی
طرح آنکھ میں نہ شرم ہے نہ حیا‘ بلکہ ہر جانب بے شرمی اور بے حیائی کا راج
ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عریانی میں ڈوبی تہذیب ہے‘ مسلمان کی تو زندگی خوف خدا
سے معمور دل و دماغ اور شرم و حیا کی پیکر نگاہوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ خوف
خدا اور خشیت الٰہی کے نتیجے میں انسانی زندگی عاجزی و درد مندی کا مظہر
ہوتی ہے۔ اور علم تو سکھاتا ہی خوف خدا کا سبق ہے۔ سورۂ فاطر میں ارشاد
ہوتا ہے ’’اﷲ سے تو علم والے ہی ڈرتے ہیں۔‘‘
نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش
اس شعر میں مغربی تہذیب کا ایک اور زاویے سے تعارف کرایا گیا ہے کہ یہ محض
ظابرداری‘ بناوٹ‘ تصنع اور ظاہری رکھ رکھاؤ پر مبنی اور اصلاً کھوکھلی
تہذیب ہے جسے بناوٹی ذرائع سے خوب صورت دکھانے کی چالیں چلی جاتی ہیں۔ اس
کے مقابلے میں جو چیز اصل میں خوب صورت ہے وہ بناوٹی طریقے سے خوب صورت
دکھائی دینے کی محتاج نہیں۔ اسی کو عام الفاظ میں یوں بیان کیا جاتا ہے کہ:
’’نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی‘‘ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ:
’’سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے۔ کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ
کے پھولوں سے۔‘‘
یقیں‘ مثل خلیل آتش نشیبی
یقیں‘ اﷲ مستی‘ خود گزینی
سن‘ اے تہذب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
’’بال جبریل‘‘ کی اس اہم رباعی میں علامہ پختہ یقین (ایمان) کی اہمیت بیان
کرتے ہوئے امام انسانیت‘ ابوالانبیاء‘ ملت ابراہیمی کے قائد حضرت ابراہیم
خلیل اﷲ ؑ کی مثال پیش کرتے ہیں کہ جب اﷲ کریم کی ذات و صفات پر پختہ یقین
نصیب ہوتا ہے تو پھر ’’بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق‘‘ کی کیفیت پیدا
ہوجاتی ہے۔ تب انسان اپنی اوراپنے رب کی حقیقت و مقام سے آگاہ ہوتا ہے۔
خودی کا ادراک اسے اپنے رب کا فرماں بردار ایسا بندہ بنا دیتا ہے جو اپنے
مالک کے حکم کی تعمیل میں آگ میں داخل ہوتا ہے تو اسے گلزار بنا دیا جاتا
ہے۔ علامہ یقین کی نعمت سے محروم جدید مغربی مادی تہذیب میں گرفتاری سے
نکلنے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اس حقیقت کو سمجھ لو کہ غلامی اگرچہ بہت
بڑی لعنت ہے مگر یقین سے محروم ہوکر بے یقین بن جانا غلامی سے بھی زیادہ
بری اور بدتر حقیقت ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ رباعی ہمارے موضوع اور عنوان
کی زبردست وضاحت کرتی ہے۔ یقین اور آزادی کی نعمت کا احساس دلاتے ہوئے
غلامی اور بے یقینی سے آزادی حاصل کرنے کی راہ دکھاتی ہے اور اس پر ہمیں
علامہ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
تہی وحدت سے ہے اندیشۂ غرب
کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے
مغربی تہذیب کی حقیقت مادہ پرستی اور حرص و ہوس کی بندگی ہے۔ ان کی ذہنیت
تاجرانہ یعنی خالصتاً مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ ان میں کوئی فکری وحدت اور
یگانگت یا مرکزیت پیدا کرنے والا عنصر نہیں ہے۔ یعنی لامرکزیت کی صورت ہے
جب کہ کلمۂ توحید پر قائم اسلامی تہذیب کا مرکز و محور کعبہ المکرمہ ہے کہ
ہر مسلمان صبح اٹھتے ہی حرم کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتا ہے یہاں تک
کہ دن میں پانچ وقت کی ادائیگی نماز کا آخری مرحلہ بھی یہی ہے کہ قبلہ رخ
ہوکر عشاء کی نماز ادا کرے سنت طریقے پر کعبہ کی جانب رخ کرکے نیند میں چلا
جاتا ہے۔ اسلامی تہذیبی جس عقیدہ توحید پر قائم ہے اس کا ظاہری ثبوت مرکزیت
قبلہ ہے۔
نقطہ پر کارِ حق‘ مرد خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
عقیدہ توحید کی برکت سے بندہ مومن کا تمام تر اعتماد‘ بھروسہ‘ توکل اور
یقین اﷲ کی ذات پر ہوتا ہے اور اﷲ کریم کی ذات و صفات پر یقین کامل کے
نتیجے میں پوری کائنات اﷲ ہی کے فرمان پر قائم دکھائی دیتی ہے اور ہر جانب
سے ہ‘ (اﷲ ہو) کی صدا سنائی دیتی ہے اور اﷲ کے سوا کسی چیز کی کوئی حقیقت
نہیں جسے علامہ وہم و گماں اور طلسم وجادو جیسی اصطلاحات میں بیان کرتے
ہیں۔ علامہ ہی کا تو فرمان ہے: ’’یہ مال و دولت دنیا‘ یہ رشتہ و پیوند۔
بتانِ وہم و گماں لا الہ الا اﷲ‘‘ یوں یقین پختہ کرنے کی تعلیم دی جارہی
ہے۔
آہ وہ مردانِ حق‘ وہ عربی شہسوار
حاملِ خُلقِ عظیم‘ صاحبِ صدق و یقیں
علامہ ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی شہرۂ آفاق نظم میں قرطبہ آباد
کرنے والے عظیم مسلمانوں کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی صفات عالیہ
اور بے مثل کمالات کو یوں بیان کرتے ہیں کہ تاریخ اسلام کے روشن دور کے یہ
عظیم مسلمان جہاں ایمان و عمل کے مجسمے تھے ان کا مجاہدانہ کردار اور جرأت
و بہادری کے واقعات انسانی تاریخ کا مایہ ناز سرمایہ و اثاثہ ہیں۔ یہ اخلاق
کے بلند مقام پر فائز سچے کردار والے اور مجسم یقین و ایماں تھے جنہوں نے
دنیا کو زندہ رہنے کا ہنر بھی سکھا اور بادشاہی میں فقیری کرکے دکھائی اور
ان کے جذبوں کی امین مسجد قرطبہ آج بھی اپنے ہاں آنے والوں کو بزبان حال ان
کی کیفیات سے آگاہ کرتی ہے۔
جوہرِ زندگی ہے عشق‘ جوہرِ عشق ہے خودی
آہ کہ ہے یہ تیغِ تیز پردگیِ نیام ابھی
علامہ کی نگاہ میں زندگی کوشان دینے والا جذبہ عشق ہوتا ہے جو کہ عقل سے
کہیں ارفع و اعلیٰ کیفیت ہے۔ اس لئے عشق سے محروم زندگی اصل میں بے حقیقت
ہے۔ دوسری جانب عشق کو یہ مقام و مرتبہ دینے والی حقیقت خودی ہے۔ خودی
انسانی کا اپنی حقیقت اور اپنے مقام و کمال و صلاحیتوں کو پہچاننے کا نام
ہے۔ خودی کو علامہ ایسی تیز دھار تلوار قرار دیتے ہیں جس کی کاٹ بہت تیز
ہوتی ہے۔ خودی کی طاقت کا سرچشمہ اﷲ کی ذات پر پختہ یقین ہے۔ ’’خودی کا سرِ
نہاں لا الہ الا اﷲ۔۔۔۔ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اﷲ۔‘‘
تہذیب نوی کا رگہِ شیشہ گراں ہے
آدابِ جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
نئی تہذیب اور اس کے تحت مغربی معاشرت اصلاً مکرو فریب‘ تصنع اور دھوکہ دہی
پر قائم ہے۔ ہمارے شاعروں‘ ادیبوں‘ اہل دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ خودی اور
عشق کی حقیقت کو سمجھیں‘ اپنی زندگی اس کی روشنی میں بسر کریں اور یہ پیغام
نئی نسلوں تک منتقل کریں۔
تعمیرِ خودی کر‘ اثر آہِ رسا دیکھ
خورشید جہاں تاب کی ضَو تیرے شرر میں
نظم ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ میں عظمت آدم کا اعتراف کرتے ہوئے
اس کے مقام بلند کی مناسبت سے اسے یاد دلایا جارہا ہے کہ اپنی خودی کو
پہچان کر اسے ترقی دے پھر اس کے کمالات کا نظارہ کرکہ تیری فریاد کہاں تک
پہنچتی ہے یعنی زمینی مخلوق ہوتے ہوئے تم عرش الٰہی سے ہم کلام ہوجاؤ گے
اور تمہاری چنگاری گویا چمکتے دمکتے آفتااب کی روشنیوں جیسی ہوگی جس سے
تاریکیاں دور بھاگیں گی اور تمہاری من کی دنیا روشن سے روشن تر ہوتی جائے
گی۔ اگلے دو اشعار اسی تسلسل میں دیکھئے۔
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
روح ارضی کا خطاب خودشناس انسان سے جاری ہے جو خودی کے مراتب طے کررہا ہے۔
اسے بتایا جارہا ہے کہ پہلے تمہیں جنت عطا کی گئی تھی مگر اب دنیا کی زندگی
میں تمہیں اپنی دنیا آپ پیدا کرنی ہے اور جہدِ مسلسل کے نتیجے میں اﷲ کی
رضا کا مستحق قرار پاکر میرٹ کی بنیاد پرجنت میں جگہ پانی ہے۔
جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ
گزشتہ دو اشعار سے ملا کر اسے پڑھئے کہ روح زمین انسان سے خطاب کرتے ہوئے
کہتی ہے کہ اے خاکی انسان تو جنت سے زمین پر تو آگیا مگر اب وہاں واپسی کے
لئے تجھے بہت سخت محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس جہد مسلسل میں جب تو اپنی
خودی کو پہچانتے ہوئے اپنے رب کی رضا کی جدوجہد کرے گا تو تیرا رب تم پر
اپنا فضل فرماتے ہوئے تجھے جنت کا مستحق قراردے گا۔ قرآن میں اعلان فرمایا
گیا کہ لیس للانسان الا ما سَعیٰ (انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کے حصول کے
لئے وہ کوشش کرے گا) یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ انسان اپنی خودی
پہچان کر اپنے رب کی بندگی کا راستہ اپناتے ہوئے اس کے حضور پیش ہوجائے اور
مالک کی رضا سے جنت کا مستحق قرار پائے۔ اس انجام کو قرآن کی زبان میں
’’فوز عظیم‘‘ یعنی عظیم کامیابی قرار دیا گیا ہے۔
عشق مکان و مکیں‘ عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقین اور یقیں فتح یاب
یہاں عشق کا لفظ قرآن پاک کے اس بیان کے معنی میں آیا ہے کہ ’’اشدّ حبّا
اﷲ‘‘ یعنی بندہ مومن کی محبت سب سے بڑھ کر اﷲ سے ہوتی ہے اور شعرو ادب میں
اسے عشق حقیقی کہا جاتا ہے کہ جب توحید کی حقیقت پر پختہ ایمان اور یقین
کامل نصیب ہوتا ہے تو کائنات ارض و سماوی میں ہر چیز پر اﷲ کی ذات و صفات
کی حکمرانی دکھائی دیتی ہے اور اﷲ کریم کا نام ہر مشکل مسئلہ کے حل کی کلید
بن جاتا ہے۔
جہاں میں بندۂ حُر کے مشاہدات میں کیا
تری نگاہ غللامانہ ہو تو کیا کہیے
یہ ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’نکتہ توحید‘‘ کا چوتھا شعر ہے۔ پانچ اشعار پر
مشتمل اس نظم کا ہر ایک شعر اسی سٹائل میں سوال کرتا ہے جس کے پہلے مصرعے
میں جواب موجود ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ مسئلہ توحید یقینا سمجھ میں آسکتا ہے
مگر تیرے دماغ میں بت خانہ پڑا ہو تو اسے کیا کہیں۔ اسی طرح ’’لا الٰہ‘‘ کے
حقائق سمجھ آسکتے ہیں مگر سمجھانے والے کے انداز میں پیچیدگیاں بھری ہوں تو
کیا کر سکتے ہیں۔ تو علامہ فرماتے ہیں کہ یہ جہان تو خود ایک کھلی کتاب ہے
جس کا مطالعہ و مشاہدہ کرکے بے شمار حقائق سمجھ آسکتے ہیں لیکن اس کے لئے
ایک کھلے دماغ کا حامل آزاد فطرت انسان ہونا ضروری ہے۔ اس کے برعکس ایک
غلام کی نگاہ بصیرت سے محروم اور حقائق کو سمجھنے سے معذور ہوتی ہے اور اس
کا یہ اندھا پن اسے کائنات کے کھلے حقائق سمجھنے میں مدد نہیں دے سکتا۔ اﷲ
کا فرمان ہے کہ کائنات میں غور و فکر اور تدبر سے کام لو تو ایک بندہ مومن
اور مرد حر اپنے مالک کے حکم کی روشنی میں کائنات کا بھرپور جائزہ لیتے
ہوئے کئی علوم دریافت اور لیبارٹریاں ایجاد کر ڈالتا ہے۔
اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
تلوار ہزاروں سال انسانی تاریخ کا اہم سامان رہی کہ یہ قوموں اور قبیلوں کے
مابین جنگ و جدال میں فیصلہ کن اور فاتحانہ کامیابیوں کا ذریعہ بنتی رہی
مگر علامہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قوم کا اصل سرمایہ تو وہ غیور اور خوددار
جوان ہوتے ہیں جو خودی کے جوہر سے آشنا ہوکر اﷲ کے سوا کسی کے آگے جھکنا
نہیں جانتے اوراپنے عزائم و جذبوں سے قوم کا سربلند رکھتے ہیں۔ خودی کی یہ
فولادی طاقت تلوار سے کہیں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ
یہ ’’ضرب کلیم‘‘ کے حصہ ادبیات فنون لطیفہ کی پہلی نظم ’’دین و ہنر‘‘ کا
تیسرا شعر ہے۔ اصل میں اس مختصر نظم کا بحیثیت مجموعی مطالعہ کریں تو ہدایت
و پیغام واضح ہوجاتا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ موسیقی‘ شاعری‘ سیاست‘ دانش
وری‘ دین داری‘ مہارتیں سب انسانی ضمیر اور باطن سے طاقت حاصل کرتی یں اور
انسان کو خودی کا حقیقی شعور و مرتبہ اور مقام بلند نصیب ہوتا ہے اور ایسی
صورت میں زندگی کا شعور بھی آتا ہے اور لطف و سرور بھی‘ اور ایسی زندگی
تاریخ پر اپنے نقوش ثبت کرتی ہے۔ بصورت دیگر خودی اور ضمیر کی دولت سے
محروم انسان کی زندگی وہم و گماں اور بے حقیقت افسانے کے سوا کچھ نہیں۔
علامہ کے بقول ادب اور دین جب خودی کے امتیاز سے محروم ہوگئے تو ایسی قومیں
بے نام و نشاں ہوکر تاریخ کے ملبے میں دب کے رہ گئیں۔
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی
علامہ جب دیکھتے ہیں کہ وہ امت جس کے پاس پوری انسانیت کی ہدایت و راہ
نمائی کے لئے کتاب اﷲ جیسی آخری و کامل آسمانی کتاب اور یہ کتاب دنیا تک
پہنچا کر اپنے عمل اور قول مبارک سے ہدایت مہیا کرنے والی سرکار دو عالمﷺ
جیسی ہستی موجود ہے مگر وہ غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر زندگی کے قوانین
جاننے کی بھیک مانگتی ہے تو انہیں بہت صدمہ ہوتا ہے اور وہ اپنی اس بھٹکی
ہوئی ملت کے ضمیرکو بیدار کرکے سوال کرتے ہیں کہ کیا تو نے بطور امت مسلمہ
اپنے پاس موجود لازوال علمی و نورانی خزانوں کی جانب بھی کبھی رخ کیا ہے۔
کیا تجھے اپنے قابل فخر آباء کی تاریخ کا بھی کچھ علم ہے۔ وہ امت کو حق کی
جانب پکارتے ہیں خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہوجاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
’’ضرب کلیم‘‘ میں ’’خواجگی‘‘ کے عنوان سے صرف تین شعروں پر مشتمل نظم کا یہ
آخری شعر ہے۔ نظم کا مطالعہ ہمیں آج کے مذہبی اور سیاسی ماحول تک لے آتا ہے
کہ کوئی مذہبی گدی ہو یا سیاسی ‘دونوں کو اپنے تابع دار مل جاتے ہیں جواپنے
طرز عمل پر کسی قسم کے غور و فکر کی نہ صلاحیت و عادت رکھتے ہیں نہ اس کی
ضرورت محسوس کرتے ہیں بلکہ پیرو میر کی یہ غلامی گویا ان کی فطرت ثانیہ بن
کر علامہ کی اصطلاح ’’خوئے غلامی‘‘ کی مصداق بن جاتی ہے۔ مذہبی گدی نشینی
اور ان کے ساتھ عقیدت و محبت کی روایات تو پرانی ہیں اور بادشاہت کی غلامی
بھی پرانے قصے ہیں مگر پاکستان میں حالیہ عشروں کی سیاست میں جمہوریت کا
دعویٰ کرنے والے خادم و مخدوم بھی کوئی علیحدہ حقیقت نہیں رکھتے۔ ایک ایک
قبر کے نام پر کتنی ہی اسمبلی ممبریاں قائم ہیں۔ ایسے سیاست دان قبروں کے
مجاور کے سوا بھی نہیں ہوتے مگر ووٹوں سے تھیلے اور بوریاں بھروانے کے ماہر
بنے ہوئے ہیں اور اب تو مختلف ادوار کے کسی فوجی جرنیل کے پیدا کردہ خاندان
ہی قابو میں نہیں آتے اور معزز سیاسی خانوادے بن چکے ہیں۔ گورنر جیلانی نے
اپنی ’’مٹھی چاپی‘‘ (خدمت) کراکرجس گھرانے کی ساست کا سنگ بنیاد رکھا تھا
وہ بھی اپنے آپ کو بابائے یا چاچائے جمہوریت سے کم نہیں سمجھتا رہا۔ سندھ
کا سیاسی قبرستان تو اس کے ’’غلام‘‘ اسے اپنا سیاسی کعبہ قرار دیتے ہیں۔
سوائے اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ جب کوئی انسان ہوتے ہوئے کسی کی غلامی کے
نشے میں مبتلا ہوجائے تو اس کے آقاؤں کا کام آسان ہوجاتا ہے اور غلام نسلیں
اپنے آقاؤں کے نام پر جپ کر نعرے اور رقص میں مگن رہ کر دیگ نوشی پر خوش
رہتی ہیں۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
’’ضرب کلیم‘‘ کی ایک نظم کا عنوان ہے ’’ابلیس کا پیغام اپنے سیاسی فرزندوں
کے نام‘‘ چھ اشعار کی اس نظم کا دوسرا اور تیسرا شعر آپ کے سامنے ہیں۔ یوں
لگتا ہے کہ علامہ نے اپنی خداداد بصیرت کے تحت دنیائے سیاست میں ابلیس کی
کارستانیوں کے بارے میں جو کچھ تصور کیا‘ کل سے بڑھ کر آج کا عالمی سیاسی
پیش منظر اس کی حرف بحرف تائید و تصدیق کررہا ہے۔ بھارت میں مسلمان دشمنی
کی سیاست عروج پر ہے۔ ہمارے اپنے وطن پاک میں دل و دماغ سے اسلام کی جڑیں
اکھاڑ کر تہذیب و سیاست میں مغرب پرستی زوروں پر ہے بلکہ حکمران خانوادے
مغرب کو اپنی محبتوں کے مقام بنا چکے ہیں اور نوبت بایں جا رسید کہ ملک میں
ووٹوں سے چنا ہوا لیڈر سال بھر میں اپنی پارلیمینٹ میں چار پانچ مرتبہ مگر
لندن یاترا پر بتیس مرتبہ جاتا ہے۔ نظم میں عالم عرب پر شیطانی پالیسی کا
اظہار ہوا کہ عربوں کو مغربی فکرو ثقافت کا دل دادہ بنا کر حجاز و یمن تک
سے اسلام کورخصت کرنے کی راہ دکھاؤ۔ نیز سر زمین افغانستان کے اصل رہبر
یعنی علمائے اسلام کو نظروں سے گرا دو کہ ان کے چہروں پر سنت رسولﷺ کی قابل
صد افتخار علامت پر دہشت گردی کی تہمت دھر دو اور خود اقبال کی شاعری چونکہ
نوجوانان ملت کو اسلامی جذبوں سے سرشار کررہی ہے تو اسے ’’دیس نکالا‘‘ دے
دو اور آج ایک مسلمان وزیراعظم نے نو نومبر کو منایا جانے والا سالانہ
’’یوم اقبال‘‘ قانوناً جرم قرار دے کر ابلیس کے فرمان کی تکمیل کر ڈالی اور
کتنی ہی پالیسیاں مسلمانوں کو جہاد ترک کرکے مغربی ثقافت اپنانے کے لیے زیر
عمل ہیں۔
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
’’ضرب کلیم‘‘ میں ’’نصیحت‘‘ کے عنوان سے پانچ شعروں پر مشتمل ایک نظم لکھی
ہے جس کا مرکزی مضمون تعلیم کی اہمیت ہے کہ اگر آپ کسی قوم کو مستقل طور پر
غلام بنانا چاہتے ہیں تو اس سے جنگ و جدال کی بجائے اسے اپنے مطلب کا
تعلیمی نظام دے دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سکول سے اٹھنے والی نسل اپنے
آباؤ اجداد کی تہذیب و ثقافت سے بیزار ہوکر آپ کے تصورات اور تہذیب کی دل
دادہ بن جائے گی اور اپنے آباؤ اجداد کو رجعت پسند‘ قدامت پسند‘ سادہ نوح
اور فرسودہ تصورات کے حامل قرار دے کر رد کردیں گے۔ علامہ کیمسٹری کی زبان
میں مثال دے کر سمجھاتے ہیں کہ جس طرح تیزاب میں ڈالی گئی چیز ٹوٹ پھوٹ
جاتی یا اتنی نرم و ملائم ہوجاتی ہے کہ آپ اسے جس شکل میں ڈھالنا چاہیں وہ
ڈھل جاتی ہے۔ بالکل ایسے جیسے لوہے کی بھٹی میں پگھلایا جانے والا لوہا
ٹھوس حالت بدل کر مائع بن جاتا ہے اور آپ اسے جس روپ میں چاہیں ڈھال دیں۔
اس سے اگلے شعر میں علامہ نے حیرت انگیز مثال دی ہے کہ اگر آپ تیزاب کے
ذخیرے میں سونے کا بنا ہمالیہ پہاڑ بھی ڈال دیں تو یہ سونا اس تیزاب کے تیز
عمل سے مٹی کا اک ڈھیر بن کر رہ جائے گا اور تہذیبوں کے مقابلوں میں دشمن
قوم کے نونہالوں کو چالاکی سے ’’تعلیم کے تیزاب‘‘ میں غوطے دے کر ایک بدلی
ہوئی غلام قوم حاصل کر لی جاتی ہے ۔ثبوت ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں کہ کہاں
اٹھارہویں صدی میں برطانوی سامراج کا خم ٹھونک کر مقابلہ کرنے والے مجاہدین
آزادی اور کہاں اکیسویں صدی کے مسلم خاندانوں میں جنم لینے والے مغربی
تہذیب و ثقافت کے طلب گار و فدائی۔ بقول اقبال
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کر گسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسمِ شہبازی
آج وطن پاک میں انگلش میڈیم کے نعرے تلے ذہنی غلامی میں ڈھلتے اور مغربی
لباس میں ملبوس نسل سے ہم کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہیں؟
خودی میں ڈوب‘ زمانے سے نا امید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے در پردہ اہتمام رفو
’’ضرب کلیم‘‘ میں ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ کے تحت دیئے گئے کلام کی
دوسری نظم صرف تین اشعار پر مشتمل ہے جس کا یہ دوسرا شعر ہے۔ علامہ نے
انسانی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ قوموں اور ملکوں کی باہم
دشمنیاں اور معرکہ آرائیاں ایک مسلسل عمل ہیں۔ اس فضا میں نوجوانوں کو
تلقین کی جارہی ہے کہ دو سچائیاں پلے سے باندھ لو ایک یہ کہ اپنی ’’خودی‘‘
کو پہچان کر اﷲ کی دی ہوئی بے پناہ صلاحیتوں کا جائزہ لے کر زمانے میں اپنا
کردار ادا کرنے کی کوشش کرو اور دوسری بات یہ کہ اپنا دامن نا امیدی مایوسی
اور بے یقینی سے بچاتے ہوئے امید اور یقین کا راستہ اپناؤ۔ اﷲ ہی تو کائنات
کا مالک ہے۔ سب کامیابیاں اس کے ہاتھ میں ہیں اور اﷲ کو انسان کا مایوس و
نا امید ہونا سخت نا پسند ہے اور یاد رکھیں کہ شیطان ہی انسان کو بے یقینی
اور مایوسی کی راہ پر لگاتا ہے۔ علامہ کے بقول یقین اور امید کی راہ پر چلو
گے تو زمانے کے لگائے ہوئے زخم خود بخود مندمل ہوجائیں گے اور کامیابیاں
تمہارے قدم چومیں گی اور تم زمانے کی کتاب کے صفحات پر اپنے نقوش رقم کرسکو
گے۔
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
’’ارمغان حجاز‘‘ کی ایک نظم سے لیا گیا یہ شعر اپنی جگہ ایک مستقل باب ہے
جس میں بتایا گیا ہے کہ امت مسلمہ و ملت ابراہیمی کی اصل پہچان اسلام سے
ہے۔ اسلام کو مذہب کے محدود معنوں میں نہ لو کہ اسلام مذہب کے عمومی مفہوم
سے کہیں بڑھ کر راہ ہدایت ہے۔ قرآن میں اسلام کو ’’دین‘‘ قرار دیا گیا ہے
جس کی تعلیمات و ہدایات انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی اور زندگی کے ہر
شعبے‘ ہر محکمے‘ ہر معاملے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ تہذیب و ثقافت کا ہر عنوان
اسلام کی تعلیمات سے روشنی حاصل کرنے کا پابند ہے۔ جس طرح ریاست کے امور
مختلف وزارتوں اور شعبوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں تو کوئی ایک وزارت یا
محکمہ بھی اسلام کی ملی‘ معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ تعلیمی‘ اطلاعاتی‘ دفاعی
وغیرہ تعلیمات سے لا تعلقی اور بے نیازی اختیار نہیں کر سکتا۔ علامہ نے
غلامی کی زنجریں توڑ کر برطانوی سامراج کی غلامی سے آزادی کا راستہ بھی
دکھایا اور اس کے لئے ہدایات بھی دیں جن میں اپنی خودی پہچاننے اور بے
یقینی سے دامن چھڑا کر پختہ یقین کا راستہ دکھایا مگر ساتھ ہی یہ فرمایا کہ
انگریز سے آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے اﷲ کی بندگی سے آزاد ہوکر دین سے
ہاتھ دھو بیٹھیں۔ نہیں‘ نہیں‘ ایسا ہرگز نہ کرنا کہ اگردین سے محروم ہو کر
تم نے کسی بھی قسم کی آزادی حاصل کر لی تو یہ نفع کا نہیں صریحاً نقصان اور
خسارے کا سودا ہوگا۔ علامہ نے پیارے رسولﷺ کی محبت میں یہ ارشاد فرمایا ہے
کہ: ’’آبروئے مازنام مصطفیﷺ است‘‘ (ہماری عزت و آبرو تو حضرت محمدﷺ کے نام
نامی اسم گرامی سے وابستہ ہے۔)
اے کہ غلامی سے ہے روح تری مضمحل
سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام
’’ارمغان حجاز‘‘ کی نظم ’’ملا زادہ ضیغم لولابی‘‘ کے دوسرے حصے سے لیے گئے
اس شعر میں علامہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کے آرزو مند جو ان کو آزادی حاصل
کرنے کا طریقہ اور راستہ بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غلامی کی تاریک رات نے
تمہاری شخصیت کو یوں بری طرح متاثر کیا ہے کہ تمہاری روح بالکل نڈھال اور
کمزور ہوکر غم زدہ بنی ہوئی ہے اور اس کیفیت سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ
اپنے دل میں ایمان و حریت کے جذبوں ی پرورش کرو‘ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ
اپنے اﷲ پر اعتماد‘ یقین اور بھروسہ کرتے ہوئے اپنی ذات کی اصل حقیقت یعنی
اپنی خودی کو پہچانو کہ اﷲ نے تمہیں اشرف المخلوحات اور زمین پر اپنا خلیفہ
بنایا اور اس عظیم مرتبے کی مناسبت سے تمہارے اندر بہت سی چھپی ہوئی
صلاحیتیں اور جوہر پیدا کئے۔ یوں اپنی ذات کے اندر چھپے کمالات اور ترقی کے
امکانات کا ادراک کرتے ہوئے انسانی عظمت کے شایان شان زندگی بسر کرنے کا
عزم اور عہد کرو۔ جدوجہد کو لائحہ عمل بناؤ اور اﷲ پر یقین اور اعتماد کے
سرمائے کے ساتھ اپنی منزل کے حصول میں لگ جاؤ۔
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
علامہ اقبال کو قافلہ ملت کا حدی خواں بھی کہا جاتا ہے اور قافلہ جب روانگی
پکڑتا ہے تو تیاری کے لئے جو گھنٹی بجائی جاتی ہے اسے بانگ درا کہا جاتا
ہے۔ علامہ کے لکھے ہوئے ترانہ ملی کا اختتام اسی شعر پر کیا گیا ہے اور یہ
ان کی شاعری کی مشہور کتاب کا نام بھی ہے۔ علامہ مفکر پاکستان کے مقام پر
فائز ہیں اور وہ آج بھی ملت پاکستانیہ کو بالخصوص اپنے وطن پاک کے قیام کی
غرض و عافیت یاد دلاتے ہوئے ہدایت فرماتے ہیں کہ ہر قسم کی تہذیبی غلامی سے
اپنے آپ کو آزاد کرکے پختہ یقین و اعتماد کا راستہ اپنا کر قیام پاکستان کے
مقاصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد کریں کہ نظریہ پاکستان آج بھی اتنی ہی بڑی
سچائی ہے جتنی قیام پاکستان کے وقت تھی۔ |