مدارسِ دینیہ کی اسناد کی قانونی حیثیت

مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان
وطنِ عزیز پاکستان اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے نعرے پر معرضِ وجود میں آیا۔ اس ملک کا آئین اسلامی ہے اس لیے ریاستِ پاکستان کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ یہاں کے شہریوں کی دینی تعلیم کا بندوبست کیا جائے ،اسلامی سروسز مہیا کرنے والے افراد تیار کیے جائیں ،قران وسنت کی خدمت کا نظام تشکیل دیا جائے، یہاں کے باسیوں کی دینی تعلیم وتربیت کا فریضہ سرانجام دیا جائے، لیکن بدقسمتی سے شروع سے ہی جو لوگ اور طبقات اس ریاست کے سیاہ وسفید کے مالک چلے آرہے ہیں ان کی ترجیحات میں دینی تعلیم وتربیت شامل ہی نہیں رہی ،اگر ان کا بس چلے تو وہ پاک وطن سے تمام دینی اقدار وروایات کو کھرچ کھرچ کر مٹاڈالیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کی سعی کریں۔

یہ ملک چونکہ عطیہ خداوندی ہے اس لیے شروع سے ہی اﷲ رب العزت نے بہت سے خوش نصیب لوگوں بالخصوص وطن عزیز کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والوں کی اولادوں اور نام لیواؤں کو وطن عزیز کے حصول کے مقاصد کو پیش نظررکھتے ہوئے خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی چنانچہ پاکستان میں دینی مدارس کا ایک معیاری نظام موجود ہے نہ صرف دینی مدارس بلکہ ان کا ایک پور امنظم نیٹ ورک ہے،ایک جامع اور مکمل نظام تعلیم ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت پاکستانی قوم کے تعاون سے ریاست کے حصے کا بوجھ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے ۔ایک ایسا تعلیمی نظام جو نظریہ پاکستان ،مقاصدِ پاکستان اور آئین پاکستان کے تقاضوں کو کما حقہ پورا کرنے میں مصروف عمل ہے ،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دینی مدارس کے اس نظام کو اہمیت دی جاتی ،دینی مدارس کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ،دینی مدارس میں زیرتعلیم طلبہ کو پاکستانی بچے سمجھاجاتا ،دینی مدارس کے فضلاء سے دوسرے درجے کے شہریوں کا سا سلوک روانہ رکھا جاتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا تاآنکہ طویل جدوجہد اور تگ ودود کے بعد 1981/82 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے دینی مدارس کی شھادۃ العالمیہ کو ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے مساوی قرار دے دیا۔ یہ ایک بڑی پیش رفت تھی جس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ،دینی مدارس کے فضلاء کو زندگی کے مختلف شعبوں میں جانے کا موقع ملا،دینی مدارس کی تعلیم کی اہمیت کو ریاستی سطح پر تسلیم کیا گیا ،دینی مدارس کو اپنا نظام ونصا ب بہتر بنانے میں مدد ملی اور بہت سے نوجوانوں کو دین اور ملک وملت کی خدمت کے مواقع میسر آئے ،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کی اسناد کی اس مسلمہ حیثیت کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ بھی بڑھتا چلاگیا اور رفتہ رفتہ دینی اسناد کی قدرو منزلت کو بھی دانستہ طور پر کم کرنے کی کوشش کی گئی ایسے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور اتحاد تنظیمات مدارس مسلسل جہاں دینی مدارس کی حریت وآزادی کی جنگ لڑتے رہے اور دینی مدارس کے نظام کو بہتر سے بہتر ین بنانے میں مصروفِ عمل رہے وہیں دینی مدارس کی اسناد کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور ان اسناد کو حاصل قانونی حیثیت کے تحفظ کے لیے بھی جدوجہد جاری رکھی ۔

کچھ عرصے سے بعض یونیورسٹیزکی طرف سے یہ شکایت موصول ہورہی تھی کہ ان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی وغیرہ کے داخلوں کے لیے دینی اسناد کے ہوتے ہوئے بھی، غیر ضروری اور غیر قانونی طور پر بی اے کی ڈگری کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ہم نے اس صورتحال پر اپنی تشویش سے ایچ ای سی کے ذمہ داران کو آگاہ کیا،ملاقاتیں کیں،رابطے کیے ،تحریری طورپرنوٹس لینے کی درخواست کی جس کے نتیجے میں ایچ ای سی نے اس طرزِ عمل کا فوری نوٹس لیااور تمام یونیورسٹیز کے نام ایک مراسلہ لکھا جس میں دینی مدارس کی اسناد کی قانونی حیثیت اور وقتافوقتا، یو جی سی اور ایچ ای سی کی طرف سے جاری ہونے والے نوٹیفکشنز کی پاسداری کرنے کی تاکید کی گئی اور دینی اسناد اور ایچ ای سی کے معادلہ سرٹیفکیٹ کے ہوتے ہوئے کسی قسم کے اضافی مطالبے پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا اور بی اے سمیت کسی بھی قسم کی ڈگری کے مطالبے کو غیر قانونی قراردیا گیا ۔ہماری دانست میں یہ مثبت سمت کی طر ف ایک اہم پیش رفت ہے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایچ ای سی کے ذمہ داران کی طرح باقی یونیورسٹیز کی انتظامیہ اور ملکی اداروں میں اہم مناصب پر براجمان بیورو کریسی کے رویے میں بھی مثبت تبدیلی آئے اور دینی مدارس کے طلبہ کو بھی اس ملک میں یکساں مواقع دیے جائیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے فضلاء کا احساسِ محرومی جب تک ختم نہیں کیا جاتا ،انہیں آگے بڑھنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے یکساں مواقع جب تک مہیا نہیں کیے جاتے بہت سے مسائل پر قابو پانا ممکن نہیں لیکن اگر دینی مدارس کے فضلاء کو اسی ملک وقوم کے بچے تسلیم کرکے انہیں مواقع دئیے جائیں،ان کے لیے زندگی کے ہر شعبے کے دروازے کھولے جائیں تو اس کے نتیجے میں جہاں دینی مدارس کے فضلاء کا احساسِ محرومی دور ہوگا وہیں طبقاتی تفریق اور دو طرفہ انتہا پسندانہ رویوں کا بھی خاتمہ ہوگا ۔ضرورت اس امر کی ہے کی ایچ ای سی کے حالیہ نوٹیفکیشن کو بنیاد بنا کر بہتری کی طرف خلوص دل سے سفر کا آغاز کیا جائے۔
 

Abdul Quddus Muhammadi
About the Author: Abdul Quddus Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddus Muhammadi: 120 Articles with 129117 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.