فیس بک کے نقصانات

جاوید چودھری صاحب ایک معروف اور مشہور کالم نگار ہے۔ ایک مشہور روزنامہ میں اکثر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فیس بک کی حمایت میں ایک کالم لکھا۔ جس میں انہوں نے فیس بک کے استعمال کی ترغیب ایک مسیحا سمجھ کر دی۔ اور اپنا پیج فیس بک میں بنا ڈالا۔ چنانچہ میں نے مناسب جانا کہ اسکے کالم کا جواب دیا جائے اور اسکو اپنے اس سوچ اور فکر پر نظر ثانی کی دعوت دی جائے تو کچھ برا نہ ہوگا، بلکہ شائد بہت مناسب ہو۔ پھر میں نے خیال کیا کہ اگر یہ باتیں اور دوستوں کو بھی معلوم ہوجائیں تو فائدہ سے خالی نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس خیال کے تحت میں نے آپکو بھی یہ مضمون بھیجا۔ آپکے ردعمل کا منتظر رہوںگا۔
شکریہ۔

محترم جناب جاوید چودھری صاحب کو ایک مشورہ
جناب چودھری صاحب میں اکثر آپکے کالم پڑھتا ہوں۔ اور آپکے کالم پڑھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شائد آپ اس ملک کیلئے سنجیدہ ہیں۔ آپ کے فیس بک والے کالم کو میں نے پڑھا ۔ آپکی بات اچھی ہے کہ بجائے صرف بایئکاٹ کرنے، ہم کو انکا بھرپور مقابلہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ کفار کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح مسلمان ہمارے مقابلے کے نہ رہیں۔ آپ نے اپنے کالم میں کہا کہ یا تو ہم کو فیس بک کے اندر ہی رہ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور یا ہم کو کوئی دوسرا سوشل نیٹ ورک بنانا چاہیے۔

آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ جسطرح آپ نے فیس بک میں اپنا پیج کھولا ہے۔ اسی طرح کئی دینی اداروں یا تحریکوں نے بھی اپنے اپنے پیج کھولے تھے۔ ہر ایک ادارہ اپنے طور پر اچھا کام کرتا تھا ۔ لیکن جب بھی ان دینی اداروں یا تحریکوں کا کردار فیس بک والوں کو نہیں بھایا تو ان پیجوں کو بلاک کردیا گیا۔ اور یا چند منچلوں اور شریر غیر مسلموں نے اس پیج کو رپورٹ کیا تو وہ پیج مکمل بلاک کردی گئی۔ اور اس طرح ان تحریکوں کا سارا کام اور ساری محنت پانی میں بہہ جاتی۔

وجہ یہ ہے کہ آپکے اپنے پیج پر کلی اختیار آپکا نہیں ہے۔ بلکہ بلا کسی وجہ بھی فیس بک آپکا پیج بلاک کر سکتی ہے۔ اور آپکو اپنے تمام ممبروں اور ڈیٹا سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ البتہ آپکی دوسری بات اچھی ہے کہ اگر ہم لوگ خود اپنا ایک سوشل نیٹ ورک قائم کریں تو وہ مکمل ہمارے اختیار میں ہوگا ، کہ اس سے قابل اعتراض مواد ہم ختم کر سکتے ہیں۔ نیز ہمارے نیٹ ورک میں پالیسی ہمارے اپنے قوانین اور قواعد کے مطابق ہوگی۔ نیز اسکا یہ فائدہ ہوگا کہ ہم کسی بھی گستاخی کے مرتکب کو بلاک کر سکیں گے، الغرض وہ مکمل ہماری کنٹرول میں ہوگی۔

دوسری بات کیلئے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ اگر بالفرض کوئی آپکو ماں کی گالی پہلی بار دے تو آپکے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور آپکی غیرت اور حمیت اسکو مارنے اور اسکو گالی دینے سے روکنے کیلئے پھڑکتی ہے۔ لیکن اگر وہ بندہ ہر روز آپکو گالی دے تو ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ آپ اسکے گالی دینے کو معمول کہہ کر ٹال دیں گے اور گالی کے خلاف کوئی ردعمل آپ ظاہر نہیں کریں گے۔

اسی طرح فیس بک کی مثال ہے کہ ہر لمحہ اور ہر روز کوئی نہ کوئی گستاخانہ پیج فیس بک میں بنایا جاتا ہے اور پھر فیس بک کے مسلمان اسکو ڈیلیٹ کرنے کیلئے فیس بک والوں کو کہتے ہیں تو پھر انکی مرضی ہوتی ہے کہ اس پیج کو ڈیلیٹ کریں یا اس کو رہنے دیں۔ روز روز اس طرح کے پیج دیکھ کر آخر کار انسان ان واقعات کو روز کا معمول سمجھ لیتا ہے اور پھر ان گستاخانہ حرکات کو مسلمان عام معمول قرار دے کر بےحس ہوجاتا ہے اور آنکیھں بند کر کے بیٹھ جاتا ہے اور کوئی ردعمل نہیں کرتا۔ اور عام اسلامی قانون کے مطابق جو آدمی عاقل ہو کر قرآن یا اللہ تعالیٰ یا نبی کریم صل اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ و بارک و سلم کی شان میں گستاخی کرے تو اسکی سزا شریعت کے مطابق موت ہے۔

خود اپنے زمانہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ و بارک و سلم کی شان میں جو شخص گستاخی کرتا تو فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ کے غلاف کے اندر سے بھی اسکو کھینچ کر قتل کیا گیا، حالانکہ اس روز عام کافروں کیلئے معافی کا اعلان ہوا تھا۔

اور یہ بات ایک مسلمان کیلئے انتہائی خطرناک ہے کہ وہ اتنا بے حس ہوجائے کہ کوئی کتاب اللہ یا مسلمانوں کے دیگر مذہبی بنیادی اور اہم ارکان کی گستاخی کرئے اور یہ مسلمان اتنا بے حس ہوں کہ واجب القتل بننے والے ملزم کے خلاف کوئی رد عمل تک نہ کریں۔ ظاہر ہے روز روز کی گستاخی دیکھ دیکھ کر بےحس اور بے غیرت جو بنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس لئے بھی فیس بک کو ترک کرنا چاہیے۔ تاکہ آدمی اتنا دیوث نہ بنے کہ وہ اسلام کے بنیادی ارکان کی گستاخی دیکھ کر اپنا بھرپور رد عمل ظاہر نہ کرسکے۔

تیسری بات جو کہ اگرچہ میری ذات تک محدود ہے لیکن میں پھر بھی اسکو آپکے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ میں بھی پہلے فیس بک کو استعمال کرتا تھا ۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے میں نے اسکا بائیکاٹ کردیا۔ چند دن بعد میں نے پھر فیس بک کو استعمال کرنا چاہا لیکن اس بار میں نے سنت پر عمل کرتے ہوئے پہلے استخارہ کیا، تو رات کو ایک خواب دیکھا کہ میرے سامنے ایک سیاہ پہاڑ ہے اور اس پہاڑ کے اندر ایک سیاہ غار ہے ۔ میں جب اس غار میں داخل ہوا تو اس غار کے درمیان چند لوگ نظر آئے جنہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔ اب اس دوران میں نے دیکھا کہ لاؤڈ سپیکر سے بار بار اعلان ہو رہا ہے کہ سفید کپڑوں والے لوگ اس غار سے نکل جائیں ، اور یہ اعلان میں بار بار سن رہا ہوں ۔

اسکے بعد میں جاگ گیا تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ سفید کپڑوں والے یا سفید پوش لوگ صرف مسلمان ہی ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایمانی نور ہے ۔ اور اسی ایمان کے بابت مسلمانوں کے پاس قیامت کے دن بھی نور ہوگا ۔ جبکہ کفار وغیرہ اس نور سے محروم ہونگے۔اور ان سفید لباس والے مسلمانوں کو بار بار لاؤڈ سپیکر سے خبردار کیا جاتا رہا کہ وہ اس کالے اور تاریک غار سے باہر نکل جائیں ، تو ظاہر ہے وہ کالا اور تاریخ غار اس استخارہ میں فیس بک ہی دکھایا گیا ہے۔

لہٰذا اس خواب کے بعد میں نے فیس بک کے دوبارہ استعمال کا ارادہ ترک کردیا۔ اگرچہ اس خواب کا تعلق ہو سکتا ہے صرف مجھ سے ہو لیکن میں نے پھر بھی آپکے ساتھ اپنا تجربہ شئیر کرنا چاہا کہ میں نے کیوں فیس بک کا استعمال چھوڑا۔

لہٰذا میرا مشورہ تو یہ ہے کہ اگر ہم خود اپنا ایک سوشل نیٹ ورک بنائیں تو اسکا بہت فائدہ ہوگا، فیس بک کئی سالوں میں مقبول ہوئی ہے ، تو انشاء اللہ یہ نیٹ ورک بھی مقبول ہو گا ایک دن۔ یا کسی ایسے نیٹ ورک میں اپنا پیج بنائیں کہ وہ کم از کم ملکی یا مسلمانوں کی ملکیت ہو۔

غیروں پر انحصار کرنے کے بجائے ہمیں ہر معاملے میں خود کفیل ہونا چاہیے۔ اور ہمارے خود کفالت فیس بک کے استعمال میں نہیں بلکہ اپنے نیٹ ورک بنانے میں ہے۔ آپکا قیمتی وقت ضائع کرنے پر معذرت کرتے ہوئے اجازت چاہتا ہوں۔
والسلام
آپکا خیر خواہ
درویش
Darvesh Khurasani
About the Author: Darvesh Khurasani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.