انکل سام کے دیس میں

ہمارے کچھ دوستوں کو چڑ کی حد تک شکو ہ ہے کہ سیاست کی بھول بھلیاں ہی ہمیشہ ہمارا موضوع ہوتی ہیں۔ سیاسی حالات وواقعات کے تناظر میں لکھی گئی سطور اگرچہ قومی قیادت کے کارناموں کا احاطہ ہی کئے ہوتی ہیں لیکن مسلسل انہی خطوط پر چلتے چلتے ”براہ راست“ یکسانیت کا شکار ہوگیا ہے۔اگرچہ ہم بھی اپنے ان دوستوں کے ساتھ صد فی صد متفق ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ ”باشعور “ عوام کا حصہ ہونے کی وجہ سے اپنے رہنماﺅں پر نظر کو اپنا صحافتی فریضہ سمجھتے ہیں اور گزرے چھ برسوں میں یہ عادت اس قدر پختہ ہوچکی ہے کہ اسے بدلنا قریبا ناممکن ہے ، پھر بھی یاروں کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے آج ملکی سیاسی بساط کے مہروں کا تعاقب کرنے کے بجائے پڑھنے والوں کو سیاست کے بوریت بھرے موضوع کے بجائے کچھ منفرد معلومات فراہم کی جارہی ہیں جن کا تعلق مہذب ترین سمجھنے جانے والے امریکی معاشرے میں بعض ادوار میں رائج رہنے والے ان انتہائی دلچسپ قوانین سے ہے جو عوام کے لیے نافذ کئے جاتے رہے ہیں لیکن آج قصہ پارینہ بن کر تاریخ کی کتابوں ہی تک محدود ہو چکے ہیں مثلاً 1930 میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر اونٹیریو کی سٹی کونسل نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت شہری حدود میں مرغ کے بانگ دینے پر پابندی لگا دی گئی۔ سان فرانسسکو غالباً دنیا کا واحد شہر ہے جہاں ایک قانون کے ذریعے شہریوں کو دھوپ فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی تھی۔ کیلی فورنیا میں لائسنس حاصل کیے بغیر چوہے پکڑنے کے لیے چوہے دان یا کسی دوسری چیز کے استعمال کی ممانعت کردی گئی تھی۔ اسی طرح ریاست اوہائیو کے شہرکلیولینڈ میں بھی شکار کا لائسنس حاصل کیے بغیر چوہے پکڑنا قابل دست اندازی جرم قرار دیا گیا تھا۔ کولوراڈو کے شہر ڈینور میں سٹی کونسل نے ایک قانون کے ذریعے اپنا ویکم کلینر اپنے ہمسائے کو مستعار دینے پر پابندی عائد کردی تھی۔

کتے کو امریکی معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے اورایک اندازے کے مطابق یہاں پالتو کتوں کی تعداد سات کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہاں ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی ریاستوں میں قانون بھی بنائے گئے۔ ریاست کولوراڈو کے شہر ڈینور میں ایک قانون کے تحت کتوں کو پہلے سے آگاہ کیے بغیر انہیں پکڑنے کی ممانعت کی گئی تھی،قانون میں کہا گیا ہے کہ آوارہ کتے پکڑنے والے افراد اپنی کاروائی سے قبل اہم سڑکوں، پارکوں اور دوسرے عوامی مقامات پر اشتہار لگائیں اور اسے تین دن تک مشتہر کریں۔اسی طرح ریاست الی نوائے کے شہر نارمل میں کتے کے سامنے مضحکہ خیز شکلیں بنانے اور اس کو منہ چڑھانے کی قانونی طور پر ممانعت تھی، جبکہ اس سلسلے میں اوکلاہاما کا قانون اس سے بھی زیادہ سخت ہے اور اسے قابل دست انداز پولیس جرم قرار دیا گیا ہے۔ اسی ریاست کے شہر زبون کی ایک قانونی دفعہ کے تحت کتے ، بلی یا کسی پالتو جانور کو سلگتا ہوا سگریٹ دینے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ آج سے چند عشرے قبل امریکہ میں پالتو جانور بھی تمباکو نوشی کرتے ہوں کیونکہ ریاست الی نوائے کے شہر ساؤتھ بینڈ میں 1924 میں ایک عدالت نے ایک بندر کو سگریٹ پینے پر 25 ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا۔ تاہم ریاست اوہائیو کے شہر بولڈنگ نے کتوں سے قدرے بے مروتی کا برتاؤ کرتے ہوئے ایک قانون کی منظوری دی جس کے تحت پولیس کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ کسی کتے کو چپ کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کرسکتی ہے۔متعدد امریکی ریاستوں میں کئی دوسرے جانوروں کے لیے بھی قانون سازی کی گئی تھی۔ بالٹی مور میں نافذ کیے جانے والے اس قانون کے کیا کہنے جس میں شہریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ شیر کو فلم دکھانے اپنے ساتھ سینما ہال نہیں لے جاسکتے، ایک ایسا ہی قانون ڈیلاویئر کا ہے جس کے مطابق پارکنگ میٹر کے ساتھ ہاتھی باندھنے کی فیس گاڑی پارک کرنے کے برابر ہے۔

آئس کریم دنیا میں ہر جگہ مقبول ہے لیکن ماضی میں بعض امریکی ریاستوں میں آئس کریم کے حوالے سے کچھ مسائل پیش آتے رہے ہیں جس کا اظہار اس پر قانون سازی سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ریاست انڈیانا کے شہر بکنل کی شہری انتظامیہ نے ایئر پورٹ پر کانٹے کے ساتھ آئس کریم کھانا خلاف قانون قرار دیا تھا۔ ڈیلاوئیر کے ایک قانون میں کہا گیا ہے پائلٹ یا کوئی بھی مسافر آئس کریم جیب میں ڈال کر جہاز میں سوار نہیں ہوسکتا اور نہ ہی جہاز میں سوار ہونے کے لیے قطار میں کھڑا ہوسکتا ہے۔ اور غالباً ریاست نیوجرسی کے شہر نیورک کا یہ قانون ڈاکٹروں کی خوشنودی کے لیے تھا کہ شام چھ بجے کے بعد ڈاکٹری نسخے کے بغیر آئس کریم خریدنا خلاف قانون ہے۔ کھانے پینے کی بات ہورہی ہے تو ذرا لہسن کا ذکر بھی ہوجائے جسے آج کے طبی ماہرین صحت کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں، مگر کئی امریکی ریاستوں کے چند عشرے پہلے کے قوانین ایک اور تصویر پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیانا کے شہر گیری کے ایک قانون کے مطابق کوئی بھی شخص لہسن کھانے کے چار گھنٹے بعد تک سینما ہال جاسکتا تھا اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار ہوسکتا تھا۔ اسی طرح رہوڈ آئی لینڈ میں لہسن کھانے والے پر یہ پابندی لگا دی گئی تھی کہ وہ اس کے بعد چا رگھنٹوں تک ایئرپورٹ کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ریاست جارجیا کے شہر پوکاٹا لیگو کا ایک قانون200 پونڈ سے زیادہ وزنی عورت کو نیکر پہن کر جہاز میں سوار ہونے سے روکتا ہے۔ ریاست ورمانٹ کے ایک قانون کے مطابق کوئی شادی شدہ شخص اتوار کے روز ہوائی جہاز کا سفر نہیں کرسکتا۔ ہوائی سفر کے سلسلے میں سب سے دلچسپ قانون ریاست اوہائیو کے شہر ویسٹ یونین کا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی شادی کے پہلے سال اپنی بیوی کے بغیر ہوائی جہاز پر نہیں جاسکتا۔ کئی امریکی ریاستوں میں خواتین کے حوالے سے خاصے دلچسپ قوانین موجود ہیں۔ ریاست پنسلوانیا کے ایک قانون کے تحت کوئی بھی شخص اپنی بیوی کی تحریری اجازت کے بغیر شراب نہیں خرید سکتا جبکہ ڈیلاویئر کا قانون عورتوں کو اپنے بال خشک کرتے وقت ہیئر ڈرائر کے نیچے سونے سے روکتا ہے اور اگر وہ بیوٹی پارلر میں ہیئر ڈرائر کے نیچے سوجائیں تو اس کے ساتھ پارلر کے مالک کو بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ میں خواتین کی آزادی کی مثال دینے والے ذرا مشی گن کے اس قانون پر بھی نظر ڈالیں جس میں انہیں اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اپنے بال کاٹنے سے روکا گیا ہے۔ وکلاہاما میں ریاست سے لائسنس حاصل کیے بغیر خواتین کو اپنے بال کاٹنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ ایک دلچسپ قانون ریاست ٹینی سی کے شہر میمفس کا ہے جس میں کہا گیا ہے کوئی خاتون اس وقت تک کار نہیں چلاسکتی جب تک کار کے آگے ایک شخص سرخ جھنڈی لے کر نہ چل رہا ہو۔ریاست واشنگٹن میں ایک ایسا ہی قانون مردوں کے بارے میں بنایا گیا تھا جس کے مطابق رات کے وقت کوئی شخص اس وقت تک گاڑی نہیں چلاسکتا تاوقتتکہ ایک شخص لالٹین لے کر اس کے آگے نہ چل رہا ہو۔ دوسروں کے خراٹوں سے اکثر لوگ تنگ ہوتے ہیں، لیکن خراٹوں پر قانون سازی غالباً صرف ریاست میساچوسٹس میں ہی کی گئی تھی اور کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں اچھی طرح بند کیے بغیر خراٹے لینے کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا گیاتھا۔

جنوں بھوتوں کی کہانیاں تو آپ نے بہت پڑھ اور سن رکھی ہوں گی لیکن شاید یہ کبھی نہ سنا ہو کہ وہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے پابند بھی ہیں۔ تاہم یاست الی نوائے کے شہر اربانا کی سٹی کونسل نے ایک قانون کے ذریعے جنوں ، بھوتوں اور بلاؤں پر یہ پابندی عائد کردی تھی کہ وہ شہر کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اس قانون پر عمل ہوا یا نہیں، اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ اور آخر میں امریکی ریاست ویسٹ ورجینیا کی کاؤنٹی نکولس کا منظور کردہ ایک قانون بلاتبصرہ ، جس کے تحت پادریوں پر پہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ اپنے واعظ کے دوران کوئی لطیفہ نہیں سنا سکتے۔مندرجہ بالا تمام قوانین اگرچہ اب کتابوں کا حصہ بن چکے ہیں لیکن ذرا غور کیجیے کہ جب یہ نافذ تھے تو عوام کی مشکلات میں اسی طرح اضافہ کرتے ہونگے جس طرح ہمارے چاہنے والوں نے سیاست سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی فرمائش کر کے ہمارے ساتھ کیا ہے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 53867 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.