"موہے عشق نچایا کر تھیا تھیا "(چهٹی قسط*)

عمران نے صبا کو اپنا موبائل نمبر اور دفتر کے نمبر ایک کارڈ پر لکھ کر دئیے اور کل کالج کے بعد اس کو ملنے کے لئے کہا. اچانک دلہا کے آنے سے عمران کو بات کو بدلنا پڑا.

صبا آج تقریب کے اختتام کے بعد گھر جاتے ہوئے پہلی مرتبہ اداس نہیں تھی. اس کو شدت سے کل دوپہر کا انتظار تھا. اس نے گھر پہنچ کر نماز عشاء کے بعد خاص اللہ سے دعا کی کہ عمران اس کے لیے اس زندان سے نکلنے کا زریعہ ثابت ہو.

آج کالج کے لیے نکلتے ہوئے اس نے نانی کو بتایا کہ آج اس کی سہیلیوں نے اس کی دوست کی منگنی کی خوشی میں ٹریٹ لینی ہے اس لیے وہ فارغ ہو کر ڈرائیور کو فون کردے گی. نانی نے کچھ پس وپیش کے بعد اس کو اجازت دے ہی دی.

صبا کا وقت آج کالج میں بہت مشکل سے گزرا. بار بار اس کے دل میں مختلف خیالات آتے. اگر عمران نے صرف اس کے ساتھ وقت گزاری کی اور شادی نہ کی تو وہ کیا کرے گی؟

اس کو معلوم تھا کہ ایک طوائف زادی کو اپنانا بہت دل گردے کا کام تھا جو ایک سچا مرد ہی کرسکتا ہے. اس کو پتا تھا کہ یہ نام نہاد شرافت کے ٹھیکیدار جو صبح لوگوں کو نیکی کے وعظ دینے میں مصروف ہوتے ہیں وہ شام ڈھلے کیسے ان کی گلیوں میں ہلکائے ہوئے کتوں کی طرح پھر رہے ہوتے تھے. آخر کار وہ ایک فیصلے پر پہنچ کر مطمئن ہوگئی.

دوپہر کو جب وہ باہر نکلی تو عمران گاڑی لے کر سامنے کھڑا تھا. صبا نے اس کے قریب جا کر اس کو کہا؛
"سنیے میں ایک دوزخ سے نکلنے کے لئے آپ کا سہارا مانگ رہی ہوں. مگر کسی رشتے کے بغیر میں آپ کے ساتھ نہ اس گاڑی میں بیٹھوں گی اور نہ تنہائی میں آپ کے ساتھ ایک پل بھی گزاروں گی. میں طوائف زادی ہوں مگر طوائف نہیں. اگر آپ مجھ سے نکاح کرنے پر راضی ہیں تو تب ہی مجھ سے رابطہ کیجئے گا. "

عمران کے لیے یہ سب غیر متوقع تھا اس کا منہ پہلے تو حیرت سے کھلا اور پھر آہستہ آہستہ غصے سے سرخ ہوگیا. اس نے گاڑی سے نکل کر صبا کا ہاتھ پکڑ کر اس کو فرنٹ سیٹ پر دھکیلا. گاڑی کا دروازہ زور سے بند کیا اور گاڑی تیزی سے چلادی. صبا اس کو اتنے شدید غصے میں دیکھ کر دہل گئی. عمران کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں. اس کی کنپٹی رگیں تنی ہوئی تھیں. وھ بار اپنے جبڑے بھینچ رہا تھا. صبا نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر عمران نے اس کو ہاتھ سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا.

عمران نے گاڑی رجسٹرار کے آفس کے سامنے روکی.آدھے گھنٹے میں وھ کورٹ میرج کے کاغذات سائن کررہے تھے. صبا عمران کا اثر و رسوخ دیکھ کر متاثر ہوئی. اس کو معلوم ہی نہ ہوا کہ عمران نے اس کا شناختی کارڈ کب بنوا لیا تھا اور اس کے حساب سے وہ اٹھارہ سال کی ایک بالغ اور خودمختار لڑکی تھی. گواہی کے لئے اس کے دوست کیسے کورٹ پہنچے اس کو پتا ہی نہ چلا. کورٹ سے نکل کر عمران اس کو اپنے ایک دوست کے گھر لے گیا جہاں پر اس کے چند دوست، صبا کی چند سہیلیاں موجود تھیں.اس کو کس نے تیار کیا. کب مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا. صبا کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ ایک سہانا خواب دیکھ رہی ہے اور اگر اس نے پلکیں جھپکیں تو خواب ٹوٹ جائے گا. نکاح کے بعد عمران نے اس کو کپڑے بدل کر واپس چلنے کے لیے کہا.گاڑی میں صبا نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا مگر عمران نے اس کو چپ کروا دیا.
(باقی آئندہ ☆☆)
 

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 281200 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More