علی ظفر،میشا شفیع اور ملکی غیرت کے 72سال

گلوکارہ میشا شفیع نے گلوکار علی ظفر پر سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر ایک ٹویٹ کے زریعے علی ظفر پر مبینہ جنسی ہراسگی کا الزام عائد کیاہے ، موجودہ وقتوں میں میشا شفیع اور علی ظفر جیسے کیسز کوئی نئی بات نہیں ہے، ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو کہ میشا شفیع کو ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا ہو مگر فی الحال مجھے پتہ نہیں کیوں لگتا کہ معاملہ کچھ اور ہے سادہ سی بات ہے آپ میشا شفیع کا پیرھن اور انداز دیکھیں گے تو ساری کہانی خودہی سمجھ میں آچکی ہے جو خاتون اپنے لباس اور طرز عمل سے پبلک کو خود ہی ہراساں کرتی ہو تو اس کا کیس کس پر بنے گا ؟جبکہ وہ ہی خاتون کسی کام کے سلسلے میں کسی ایک شخص یا غیر محرم کے ساتھ وقت گزارے تو گویا اس نے خود کو اس شخص کو دعوت گناہ میں شامل کیا یا پھر خود کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا۔نمبر دو لفظ یہ ہے کہ مجھے ایک بار نہیں بلکہ کئی کئی بار ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا مطلب کہ جب یہ معاملہ پہلی بار ہوا تو اس وقت میڈیا کو کیوں نہیں بتایا گیا؟ کیاکوئی ڈیل تھی ، ؟دوستی تھی ،؟یا پھر کچھ اور؟ جو بعد میں خیال آیا کہ اب میڈیا کو بتادیا جائے کیوں کہ اب ایک سے زائد بار یہ عمل ہوچکاہے ۔میری زندگی کا ایک حصہ شوبز کے لوگوں کے ساتھ بھی گزرا ہے جہاں اس طرح کے معاملات کو موجودہ وقتوں میں معیوب نہیں سمجھا جاتا جہاں شوبز سے وابستہ ڈائریکٹرز اور پروڈیوسر زکی خوشی کے بغیر آپ ماڈل بھی نہیں بن سکتے ۔اور پھر بے پردگی اور رندوں کی اس محفل میں خراب نظروں سے کیا گھبرانا جب خود ہی آپ کا لباس اور وجود سرعام گناہ کی دعوت دے رہا ہو،ابھی رمضان المبارک کی آمد آمد ہے قوم ان پیشہ ور ماڈل کو رمضان نشریات کی محفلوں میں انعام وثواب کی محفلوں کی میزبانی کرتے ہوئے دیکھے گی ،چہرے پر منوں میک اپ اور سر پر ڈوپٹہ مگر وہ ادائیں دلربائی کہ کیا کہنے ، اور ہمارا معاشرہ وہ سارے ثواب ان کے ایک ہی پروگرام میں سمیٹتے ہوئے دکھائی دیگا ،یعنی جہاں وہ فلمسٹار یا ماڈل جو اپنی پبلسٹی کے لیے سب کچھ کرگزرنے کے لیے تیار ہیں وہاں ہمارا میڈیابھی ان کی رہنمائی میں اپنا بھرپور کردار اداکررہاہے ۔مجھے یہ حیرانگی نہیں ہے کہ کہ میشا شفیع نہیں علی ظفر پر الزام عائد کیا ہے بلکہ وجہ حیرت یہ ہے کہ یہ الزام علی ظفر نے کیوں نہیں عائد کیا ؟۔ جبکہ دوسری جانب جب سے میشا شفیع اور علی ظفر کی رام لیلا کھلی ہے ہر گلی اور ہر چوراہے پر یہ ہی قصہ ہے ۔لوگ فی الحال بھول چکے ہیں کہ نوازشریف نے کیا کیا اور چیف جسٹس نے آج کیا کہا۔ جہاں تک پاکستان میں ہراسگی کا ایشو چل نکل ہے وہاں اب ہر ادکارہ اب اپنی مقبولیت کے لیے یہ ہی کہہ رہی ہے کہ فلاں فلاں نے ماضی میں مجھے ہراساں کیا تھا یعنی جہاں وہ اس عمل کو برا سمجھتے ہیں وہاں میڈیا میں کھل کر ایسے کیسز کوبتاناعزت بھی سمجھا جاتا ہے ، یعنی ان دونوں ہی باتوں میں کھلا تضاد ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر ایسے لوگوں سے ہمدردی کیسی ؟ بلکہ ہمدردی کے قابل ہمارے معاشرے کی بھٹکی ہوئی وہ عوام ہے جن کی جیبوں میں ان ادکاراؤں کے فوٹو زموجود ہوتے ہیں یہ یعنی یہ فنکارہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے اس لیے اس کی تصویر اپنے پرس میں رکھی ہوئی ہے ،میں نے ایک ایسے نوجوان کو غیرت کے نام پر قتل کرتے ہوئے دیکھا ہے جس کی اپنی جیب میں ایک اداکارہ کی تصویر موجود تھی ،اور اس کاوالد خود اپنے وقتوں میں مدھو بالا کا بہت بڑا فین رہ چکا تھا جس نے اپنے بیٹے کو کھلا آڈر جاری کیا کہ تمھاری بہن جہاں کہیں بھی ملے اسے قتل کردو۔کہنے کو توپاکستان کے ہر قصبے ہر گوٹھ میں آئے روز غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں مگر اس کی ذمہ داری غیرت کے نام پر قتل ہونے والی لڑکی پر عائد نہیں ہوتی کہ جس نے پسند کی شادی تھی بلکہ اس گھرکے سربراہ پر بھی عائد ہوتی ہے جس نے اپنے گھر کو ایسا ماحول فراہم کیا ہوتا ہے جہاں اسلامی معاملات کو ایک طرف رکھتے ہوئے میشا شفیع اور علی ظفر کامعاملہ زیر بحث یا ہو جہاں ازان کو طویل ہونے پر تو براسمجھا جاتاہے مگر گانے بجانے کی آواز پر گھر کے اسپیکر پر یہ تبصرہ ہوتا ہے کہ اس کی آواز کچھ کم ہے ، جس شخص نے اپنی بیٹی یا بہن کا قتل کیا ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی لحاظ سے گھر کا سربراہ ہوتاہے مگر وہ خود کیا ہے اس نے یہ جاننے کی کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی ہوتی کن شہروں میں دیہاتوں میں ایسا نہیں ہوتا جہاں چھتوں پر رات گئے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کا ملنا ملانا نہیں ہوتا، جو ایک دوسرے کو اس انداز میں پسندکرتے ہیں کہ میرے والی کترینہ کیف جیسی ہے اور خود وہ مجھے سلمان خان جیسا سمجھتی ہے، جو لڑکے اورلڑکیاں اپنے والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ حرکتیں کرتے ہیں وہ خود بھی یہ مناظر کسی سے سیکھ کر ہی ایسا کرتے ہیں اکثر فلموں اورڈراموں میں ایسے مناظر دکھائے جاتے ہیں جو دیکھنے والوں کو خود بھی ایسا ہی کرنے کی دعوت بھی دے جاتے ہیں ہمارے بڑے غیرت کے نام پر قتل عام تو کرگزرتے ہیں مگر گھر میں وہ ماحول دینے سے قاصر ہوتے ہیں جن سے بچے بگڑ کر ایسی حرکتوں کو گزرتے ہیں اور پسند کی شادی کو اپنا حق سمجھتے ہیں وہ چاہے ماں باپ کوراضی کرکے کی جائے پا پھر بھاگ کر ۔ہم نے دیکھا کہ سری دیوی کی ناگہانی موت نے انڈیا ہی نہیں بلکہ پاکستان کی نوجوان نسل کو آبدیدہ کردیا تھا حالانکہ اس وقت کشمیر اور شام میں مسلمانوں کے اوپر جس انداز میں گولہ باری اور ان کا قتل عام جاری تھا وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی مگر فرق یہ تھا کہ درجنوں زخمی اور شہید معصوم بچوں کادرد اس معاشرے کی رگوں کو ناجھنجھوڑ سکا مگر سری دیوی کی موت نے قوم کی نئی نسل کو صدمے سے ضرور دوچارکردیا تھا،اس کے علاوہ ؂ جب میں ؂ اس تحریر کو لکھنے بیٹھا توثانیہ مرزا اور شعیب ملک کے اس ٹویٹر پر بھی نظر پڑی جس نے راتوں رات ہی سوشل میڈیا پر دھوم مچادی تھی یعنی وہ یہ ہے کہ شعیب ملک اب باپ بننے والے ہیں ، عوام اس وقت لاکھوں کی تعداد میں دنیا میں ابھی نہ آنے والے بچے کے لیے فکر مند تھے اور دھڑا دھڑ اس بچے کی صحت اور تندرستی کی دعائیں دے تھے اور اپنی پسند کے نام بھی تجویز کررہے تھے ۔ خدا کی قسم دل کرتا ہے کہ اپنے سر کو دیواروں سے ٹکرانا شروع کردوں ایک طرف یہودیوں کی جانب سے ہمارے مسلمان اور معصوم بچوں کا بہیمانہ قتل اور دوسری جانب اس قوم کوفلمی ستاروں سے اس قدر ہمدردی۔ تو کیاہم پھر بھی یہ سمجھیں کہ کیا ہم مسلمان ہیں اس کا جواب ہر فرد خود ہی دے مجھے تو خود اپنے ایمان کی فکر پڑگئی ہے ۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔

Rao Imran Salman
About the Author: Rao Imran Salman Read More Articles by Rao Imran Salman: 75 Articles with 60469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.