رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور ہر حقیقی مسلمان اسے خوش
آمدید کہنے کو بےچین ہے- اس ماہِ مقدس کے آغاز کے ساتھ ہی مسلمان اپنی
عبادات میں مزید خشوع و خضوع پیدا کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتا ہے- اس
بابرکت مہینے میں ہر طرف رونق ہی رونق ہوتی ہے لیکن ایک رونق پاکستانی
چینلوں پر نشر کیے جانے والے انعامی شوز نے بھی لگا رکھی ہوتی ہے جو کہ
حقیقی معنوں میں صرف خرافات ہیں-
جی ہاں میں بات کر رہا ہوں عوام کو لالچ دینے والے ان نیلام گھروں کی جن کا
انعقاد مختلف پاکستانی چینل پر ہوتا ہے اور ان کی میزبانی کے فرائض پاکستان
کے معروف اداکار ناچ گا کر سرانجام دے رہے ہوتے ہیں- اور رمضان کے دوران یہ
شوز پورے سال کے مقابلے میں زیادہ زور و شور سے جاری ہوتے ہیں اور ماہ مقدس
کا تقدس پامال کیا جارہا ہوتا ہے-
لالچ سے بھرپور ان شوز میں اے آر وائی کا جیتو پاکستان اور جیو کا انعام
گھر قابل ذکر ہیں جن کی میزبانی فہد مصطفیٰ اور عامر لیاقت حسین کرتے ہیں
اور اس کے علاوہ ساحر لودھی اور دیگر معروف فنکار بھی اپنے چھوٹے بڑے چینلز
پر اسی قسم کے شوز کے ساتھ پیش پیش دکھائی دیتے ہیں- یہی نہیں بلکہ رمضان
ٹرانسمیشن کے دوران نشر کیے جانے والے درجنوں مارننگ شوز میں بھی رمضان کے
تقدس کا خیال نہیں رکھا جاتا اور دوسری جانب جو مذہبی پروگرام نشر کیے بھی
جاتے ہیں ان کی میزبانی بھی کسی مذہبی شخصیت کے بجائے یہی فنکار اور اداکار
کرتے دکھائی دیتے ہیں-
ان انعامی شوز کا شکار بن کر مسلمان نہ تو نماز کی فکر کرتے ہیں اور نہ
تراویح کی- یہاں تک کہ وہ روزے کے دوران بھی دیگر عبادات سے غافل نظر آتے
ہیں اور انہیں چینل سے مذہب سیکھتے دکھائی دیتے ہیں جن کا مقصد صرف اپنی
ریٹنگ بڑھانا اور اشتہارات حاصل کرنے ہوتا ہے-
لیکن بھلا ہو اس بار اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا جنہوں
نے ایک شہری وقاص ملک کی جانب سے انہی خرافات کے خلاف دائر کی جانے والی
ایک درخواست کی سماعت کے دوران سختی سے چینلوں اور انعامی شوز کے میزبانوں
کو وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ “رمضان کے دوران کوئی انعام گھر اور
سرکس نہیں ہوگا- اور اگر یہ پھر بھی باز نہ آئے تو ان پر تاحیات پابندی
عائد کر دی جائے گی“-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ “مسلمانوں کے لیے اذان سے بڑی
بریکنگ نیوز کوئی نہیں۔ ہر چینل کے لیے 5 وقت کی اذان نشر کرنا لازم ہوگا۔
اسلام کا تمسخر اڑانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔ اسلامی تشخص اور عقائد
کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے“۔
غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ “
کرکٹ ٹورنامنٹس کے دوران میچز پر تبصرے اور تجزیے کے لیے بیرونِ ملک سے
تجزیہ کار بلائے جاتے ہیں جبکہ مذہبی پروگراموں کی میزبانی ایکٹر اور کرکٹر
کرتے دکھائی دیتے ہیں- اب کوئی بھی پی ایچ ڈی اسکالر سے کم اہلیت کا حامل
شخص کسی مذہبی پروگرام کی میزبانی یا پروگرام میں مذہب پر بات کرتا نہیں
دکھائی دے گا“-
مندرجہ بالا بات کی تصدیق ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات ایک سو ایک فیصد درست ہے
اور ہمارے ٹی وی چینلوں کا گھناؤنا چہرہ بھی ہے جو بڑی آسانی سے ان
پروگراموں کی میزبانی میک اپ سے بھری خواتین اینکر اور اداکارائیں یا سارا
سال ناچنے گانے والے ایکٹر ہمارے سامنے بیٹھا دیتے ہیں اور ہم بڑے انہماک
سے ان سے مذہب سیکھ رہے ہوتے ہیں-
درحقیقت چینلوں کو ان خرافات سے روکنا صرف کسی ایک مسلمان شہری یا جج کی
ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اسلامی ملک میں
نہ صرف چینلوں کو ان برائیوں سے روکے بلکہ خود بھی ان کا حصہ نہ بنے-
یہاں المیہ یہ ہے کہ ہم خود ان پروگراموں کے انٹری پاس حاصل کرنے کی کوشش
کرتے دکھائی دیتے ہیں تاکہ ہم بھی بھیک میں سونا٬ موٹر سائیکل یا گاڑی حاصل
کرسکیں٬ کچھ نہ ملا تو فہد مصطفیٰ یا ساحر لودھی کے ساتھ سیلفی ہی لے لیں
گے- اور یہ بھی سوچ رکھا ہوتا ہے کہ اسٹیج پر کچھ جیتا نہ جیتا کم سے کم
واپسی پر کسی کمپنی کی جانب سے کوئی نہ کوئی تو گفٹ ہیمپر لے ہی آئیں گے-
یاد رکھیں کسی بھی پروگرام یا تقریب کی کامیابی کا انحصار اس میں شرکت کرنے
والوں کی تعداد پر ہوتا ہے اور جب ان پروگراموں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد
شرکت کرے گی تو یہ کامیاب تو ہوں گے ہی- ہمیں خود بھی ان پروگراموں سے توجہ
ہٹانی ہوگی اور اپنی عبادات کی جانب دھیان دینا ہوگا اور رمضان کا حق ادا
کرنے کی کوشش کرنی ہوگی- تب ہی یہ بربادی کے پروگرام ناکامی کا شکار ہوں گے
اور مسلمانوں کو گمراہ کرنا بند کریں گے-
صرف اپنے آپ سے عہد کیجیے کہ اس رمضان کے تینوں عشروں کا وہ حق ادا کرنے کی
پوری کوشش کریں گے جو آپ کا فرض ہے اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ایسے لالچ
اور اچھل کود سے بھرپور پروگراموں کو دیکھنے سے گریز کریں اور ساتھ ہی اپنے
اہلِ خانہ کو بھی ان خرافات میں وقت برباد کرنے سے بچائیں گے-
اگر آپ کو یہ پیغام مناسب محسوس ہو تو ضرور شئیر کیجیے تاکہ زیادہ سے زیادہ
لوگوں تک پہنچے اور ان کی اصلاح کا باعث بنے- |