انمول تحفہ

دیا خان بلوچ ، لاہور
رات کی خاموشی میں دو نحیف وجود اس چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے بہت افسردہ تھے۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد بس اک نظر اٹھا کر دیکھتے اور دوبارہ نظر جھکا لیتے۔آنکھوں میں سوال تھے اور جواب کوئی نہ تھا۔چند دنوں سے وہ سکون سے سو نہیں پا رہے تھے۔بچی کی بگڑتی حالت ان کے لیے بہت بڑی وجہ تھی۔

امجد جو کہ ایک عام سا مزدور ہے،دن رات محنت مزدوری کر تا ہے اور اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتا ہے۔اس کے گھر میں کل پانچ افراد تھے۔بوڑھے ماں باپ،بیوی اور دو پیارے پیارے پھول سے بچے۔کچھ دن پہلے اس کی بیٹی کو معمولی بخار نے آگھیرا تھا۔وہ سمجھے کہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔چند سستی دوائیں کھلائیں کہ پیسے اتنے ہی تھے۔لیکن بخار نہ اترا،جب بچی کی حالت نہ سنبھلی تو اسے سرکاری ہسپتال لے گئے۔جب لمبی سی قطار میں لگ کر ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ بچی کا بخار بگڑ کر ٹائیفائیڈ میں بدل چکا ہے۔یہ سنتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

بی بی جی! اس کا علاج کیسے ہوگا؟امجد نے ایک نظر اپنی بچی پہ ڈالی جو بخار کی شدت سے بے ہوش پڑی تھی۔یہ کچھ ٹیسٹ کروا لاؤ،پھر میں دوائیاں لکھ دوں گی۔ابھی اسے یہ دوا دے رہی ہوں۔ڈاکٹر عائشہ نے اسے لمبی سی پرچی تھما دی۔

اس نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے ،پھر چپ ہوگیا۔کہتا بھی تو کیا۔وہ جانے کو پلٹا ۔

سنو!یہ کچھ پیسے لے لو۔اس سے دوا لینا اور لیبارٹری میں یہ پرچی دے دینا وہ ٹیسٹ کے پیسے نہیں لیں گے۔ڈاکٹر عائشہ نے اس کی طرف پیسے بڑھاتے ہوئے کہا۔

امجد کی آنکھوں میں امید کی روشنی جگمگانے لگی تھی۔چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی اور آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔

بہت شکریہ ڈاکٹرنی جی!آپ کا بہت بڑا احسان ہے مجھ غریب پر،اﷲ آپ کی ساری مرادیں پوری کرے۔خوشی کے مارے اس کی آواز کانپ رہی تھی۔

شکریہ بھائی!جاؤ اور جلدی سے ٹیسٹ کروا کر رپورٹس لے کر آؤ۔وہ بولیں۔جی اچھا۔یہ کہہ کر وہ بچی کو اٹھائے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

اس کے جانے کے بعدڈاکٹر عائشہ گہری سوچ میں گم ہو گئیں تھیں۔ایک ایسی ہی رات میں ان کی ماں کو ہسپتال لے جایا گیاتھااور پیسوں کی کمی کی وجہ سے ان کا علاج نا ہوپایا تھا۔جس کی وجہ سے وہ اس دنیا سے روٹھ گئیں تھیں۔کیا ہو جاتا جو ڈاکٹر پیسوں کی جگہ اس جیتے جاگتے انسان کو اہمیت دیتا تو آج ان کی امی ان کے ساتھ ہوتیں۔وقت کے بے رحم تھپیڑوں سے لڑتے لڑتے انہوں نے سوچا تھاکہ مسیحا بن کر قوم کی خدمت کرنی ہے۔ضرورت مندوں کی مدد کرنی ہے۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ کوئی بھی ان کی طرح اپنے ماں باپ کی شفقت سے محروم زندگی گزارے۔آج امجد کی حالت دیکھ کر اسے اپنے باپ کی یاد آئی تھی کہ اس وقت وہ بھی ایسے بے بس ہوں گے۔اسی وجہ سے انہوں نے امجد کی مدد کرنے میں دیر نہیں کی تھی۔

امجد کی بیٹی کا علاج بہت اچھا ہوگیا تھا،وہ چند دنوں میں ہی ٹھیک ہوگئی تھی۔امجد ڈاکٹر عائشہ کابہت احسان مند تھا۔جب بھی جاتا ڈھیروں دعائیں دیتا۔ڈاکٹر عائشہ کے لئے یہ دعائیں ہی انمول تحفہ تھیں ۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025586 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.