اس رات کے بارہ میں چند غلط فہمیوں کا ازالہ!
محمد رفیق اعتصامی
مضمون کا یہ عنوان اس لئے اختیار کیا گیا کہ غیر مقلّدین ( اہل حدیث حضرات)
یہ کہتے ہیں کہ شب برأت کی رات میں عبادت کر نے اور دن کو روزہ رکھنے کی جس
حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے وہ ضعیف ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ دنوں کی
تخصیص کر کے یا اپنی طرف سے کوئی تاریخ مقرر کرکے اس میں عبادت یا روزہ
رکھنا بدعت ہے ۔
ظاہر بات یہ ہے کہ جب کسی بدعت کا ارتکاب کیا جائے گا تو بدعتی کو تو اس
فعل پر عذاب ہی ہوگا ثواب کا بھلا وہاں کیا کام!لہٰذا غیر مقلدین اہلحدیث
کے نزدیک شب برأت کی رات جو لوگ اللہ تبارک و تعالی ٰ کی عبادت کر تے ہیں
،قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں نوافل پڑھتے ہیں روتے ہیں گڑگڑاتے ہیں اپنے
گناہ بخشواتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں وہ اس بات سے قطعی بے خبر ہیں
کہ (ازروئے مسلک اہل حدیث) انھیں اپنی عبادات پر ثواب ملنا تو درکنار الٹا
ان پر خدا کا عذاب نازل ہو رہا ہے؟؟العیاذ باللہ!
شب برأت کو عبادت کر نے اور دن کو روزہ رکھنے پر دو اعتراضات کئے جاتے ہیں
مثلاً:
(1) اس رات میں عبادت کرنے کی حدیث ضعیف ہے۔
(2) دن کو روزہ رکھنے کا بھی کوئی ثبوت نہیں لہٰذایہ بدعت ہے۔
ان دونوں اعتراضات کا جواب پیش خدمت ہے۔
بات یہ ہے کہ عبادت کرنا یا روزہ رکھنا ایک مستحب فعل ہے اور مطلوب شرع ہے
اور سارا سال ہی جائز ہے یہ چاہے پندرہ شعبان کی رات کو ہو یا تیرہ شعبان
یا بارہ شعبان یا کسی بھی اسلامی مہینے کی کسی بھی تاریخ کو ، یہ سب جائز
اور مستحب ہے اور پھر جب سار ا سال ہی جائز ہے تو پھر پندرہ شعبان کی رات
کو یہ ناجائز اور خلاف شرع کیسے ہو جائے گی؟
رہا اس حدیث کے ضعیف ہونے کااعتراض توپہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث کو ضعیف کس
نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے یا اسکے رسولﷺ نے ؟یعنی کیا قرآن پاک میں اس
حدیث کے ضعف کی خبر دی گئی ہے یا نبی پاکﷺ نے خود فرمایا ہے کہ یہ حدیث
ضعیف ہے؟ ظاہر ہے ایسی بات نہیں بلکہ اس حدیث شریف کو آئمہ حدیث نے اوران
لوگوں نے ضعیف کہاجو اصول حدیث کے فن سے واقف ہیں۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ جن آئمہ حدیث نے اس حدیث کو ضعیف کہا وہی اس بات پر
متفق ہیں کہ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں معتبر ہوتی ہے یعنی جس حدیث سے کسی
اعمال کی فضیلت ظاہر ہو رہی ہو تو وہ قابل عمل ہے اورپھرضعیف حدیث سے مراد
جھوٹی یامن گھڑت حدیث نہیں بلکہ بعض وجوہات کی بناء پر صحیح حدیث کے مقابلے
میں اس میں کچھ کمی آجاتی ہے یہ نہیں کہ وہ بالکل ہی متروک اور ناقابل عمل
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کو ضعیف کہنے والے بزرگوں نے خود اس رات کو
عبادات کا اہتمام کیاہے مسلسل کرتے آئے ہیں اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے۔
اور تیسری بات یہ ہے کہ جب اس حدیث کو اللہ اور اسکے رسولﷺ نے نہیں بلکہ
آئمہ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے تو اب سوال یہ ہے کہ غیر مقلدین اہل حدیث کے
نزدیک کسی حدیث کی صحت و ضعف کے بارہ میں کیا کسی امّتی کا قول معتبر ہے؟
کیونکہ .....
اہل حدیث کے دو اصول
قال اللہ و قال الرّسول
قیاس کا ر ابلیس ہے
وجہ یہ ہے کہ آئمہ حدیث نے اپنے قیاس کی بناء پر ہی تو اس حدیث کو ضعیف
ٹہرایا ہے انھیں اس بارہ کوئی الہام تو نہیں ہوا تو پھر کسی امّتی کے قیاس
کو اپنی طرف سے ایک دلیل بنا کر پیش کرناکیا ’’کار ابلیس‘‘ کے ضمن میں نہیں
آتا؟ امّید ہے کہ غیر مقلدین اہل حدیث اسکا جواب ضرور دیں گے۔
اور اس رات کو عبادت کرنے اور دن کو روزہ رکھنے کو بدعت قرار دینے کا ثبوت
یہ پیش کیا جاتا ہے کہ عبادات میں اپنی طرف سے دنوں کی تخصیص کرنا بدعت ہے۔
تو اس بارہ میں عرض ہے کہ بدعت تو تب ثابت ہو گی کہ کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ
اگر شب برأت کے علاوہ کسی اور رات کو یہ عبادت کی جائے گی یا دن کو روزہ
رکھا جائے گا تو ایسی فضیلت حاصل نہیں ہو گی بلکہ اگر اس نیّت سے عبادت و
روزہ رکھا جائے گا کہ امت مسلمہ کے اکابرین اور نیک لوگوں نے یہ کام کیا ہے
لہٰذا انکی اتباع میں میں بھی یہ کر رہاہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ورنہ
اس ماہ کی کسی اور تاریخ کو یہ کام کیا جائے تب بھی وہی ثواب حاصل ہو گا جو
اس رات میں ہوتا ہے یہ دن یا وقت کی تخصیص تو اپنی سہولت کیلئے ہے۔
اس کی مثال اس طرح ہے کہ مساجد میں نمازوں کے اوقات مقرر ہیں اب کوئی یہ
نہیں کہ سکتا کہ دس منٹ پہلے یا دس منٹ بعد نماز نہیں ہو سکتی، یا شادی
بیاہ کے موقعہ پر دن اور تاریخ مقررکی جاتی ہے اب تاریخ تو مقرر ہو گئی مگر
کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتاکہ مقررہ تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے یا بعد اگر
نکاح کیا جائے تو شرعاً نکاح ہی نہیں ہو گا۔لہٰذایہ تخصیص صرف اپنی سہولت
کیلئے ہے۔
اوراصولی بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس رات عبادت کرنا یا روزہ
رکھنا بدعت ہے تو وہ یہ کام نہ کریں دوسروں کو کیوں منع کرتے ہیں؟ کہ اگر
کوئی مومن شخص خلوص دل سے یہ چاہتا ہے کہ میں اس رات اللہ تعالیٰ کی عبادت
کروں گا ،نوافل پڑھوں گا اپنے گناہ بخشواؤں گا تو اسے یہ کہنا کہ نہ میاں
نہ یہ کام ہرگز نہ کرنا ، یہ حدیث ضعیف ہے دن کو روزہ رکھنا بدعت ہے؟
اور پھرآپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ دوسروں کو اللہ کی عبادت سے منع کریں
اوراسکا گناہ اپنے ذمّہ لیں ؟ آپ تومحض اپنے مسلک پر عمل کرنے کے پابند ہیں
بقول شخصے’’ اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں اور دوسروں کے مسلک کو چھیڑو نہیں!‘‘
الحمد للہ شب برأت کی عبادت اور دن کو روزہ رکھنے کے بارہ میں تمام
اعتراضات دور ہو گئے لہٰذا اس رات میں سلف صالحین کی اتباع میں حسب استطاعت
دلجمعی کے ساتھ عبادت کی جائے اوردن کو روزہ رکھا جائے۔ اللہ تبارک و
تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین۔ |