ملک بھر کے کسانوں سے گنا کی فصل اونے پونے داموں خرید
کران کے گھر اجڑ گئے ہیں اور اب گندم کی فصل آتے ہی ان کی کھالیں مزید
ادھیڑنے کا وقت آن پہنچا ہے گندم کی فصل کو تو پانی قطعاً دستیاب نہیں ہو
سکا کہ ہندوخونخوار بنیوں نے مودی جیسے موذی کی بھی اسلام اور پاکستان
دشمنی کی وجہ سے امسال تو پانی کا1/3حصہ بھی نہیں پہنچنے دیا دھڑا دھڑ بند
ھ باندھے جا رہے ہیں مگر پاکستانی سیاستدان دشنام طرازیوں اور الزامات کی
بارشوں میں مصروف ہیں حکومت نے 1300من گندم کا ریٹ مقرر کیا ہے مگر مکمل
گندم کا1/4حصہ ہی خریدی جا سکے گی باقی غریب کسانوں سے 3/4حصہ گندم فراڈیے
ٹھگ درمیانی سود خور سرمایہ دار طبقات اور آڑھتی وغیرہ باردانہ کی دیر سے
سپلائی کی وجہ سے خرید رہے ہیں اور بقیہ حصہ بھی کسانوں سے چھیننے میں
کامیاب ہو جائیں گے گندم غریبوں سے 900تا1000روپے تک خریدی جارہی ہے اسطرح
کسان مسلسل ظلم کی چکی میں پس رہا ہے اور سرمایہ دار طبقہ ڈھیروں منافع کما
رہا ہے کسان کی فصل پر ہی امید تھی وہ بآمر مجبوری کم قیمت پربیچ رہا ہے کہ
اس نے آئندہ بھی فصل کا شت کرنی ہے اور آڑھتیوں کی کئی سالوں کی ادھار رقوم
بھی دینی ہیں پورے ملک کے تمام کسان خواہ بڑے زمیندار ہی کیوں نہ ہوں بنکوں
اور آڑھتیوں کے مستقل قرضہ دار رہنے پر مجبور ہیں حکومتی قرضے صرف من
پسندوں کو ہی بذریعہ پارٹی کے منتخب ممبران اسمبلی یا پا رٹی راہنماؤں کے
ذریعے ہی ملتے ہیں باقی سب پرا پیگنڈا ہے باردانہ کا ملنا بھی جوئے شیر
لانے کے مترادف ہو تا ہے اس دفعہ باردانہ گھروں میں پہنچانے کا اعلان ہے
مگر جو لائے گا وہ کرایہ بھاڑا لیکر اور مرغے چرغے کھا کر ہی واپس جا ئے گا
جتنا باردانہ دیا جا رہا ہے وہ پیداوار کا چوتھا حصہ بھی نہیں ہو تا
پیداوار 40تا 45من فی ایکڑ ہوئی ہے مگر باردانہ 15بوری فی ایکڑ اور کئی جگہ
صرف12بوری دیا جارہا ہے ممبران اسمبلی کی سفارش بھی ہو تو بھی تول میں پانچ
تا آٹھ کلو فی بوری سنٹروں پر زائد لی جاتی ہے اور پھر ہر بوری پر
75تا125روپے ریٹ مقرر ہے اتنی رقم سینٹر پر جمع کراؤ اور بل وصولی کا بنک
کا چیک فوراً وصول کرلو وگرنہ آپ کی باری ہی نہیں آئے گی اب کی بار چونکہ
حکومتوں کا چل چلاؤ ہے اس لیے سینٹروں پر متعلقین کی مکمل اجارہ داری ہے
کوئی پو چھنے والا نہ ہو گا تو مار دھاڑ زیادہ ہو گی انتظامیہ وغیرہ
انتخابی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور حکمران پانامہ و دیگر کر پشنوں کے
حساب کروانے میں مشغول۔ انہی گھمبیر حالات کے تحت کسان اپنی زمینوں کو
ہاؤسنگ سوسائٹیاں بناکر و بیچ کر شہروں میں شفٹ ہو جانے کا سوچنے لگتے ہیں
اگرزعی کو تعمیراتی زمینیں بنا نے پر پابندی نہ لگی تو پورے ملک میں پلازے
دوکانیں اورکوٹھیاں نظر آنے لگیں گی اور زراعت کا شعبہ مزید تباہی کا شکار
ہو کر غذاؤں کی کمی کی وجہ سے ایتھو پیا کی طرح کا ہو جائے گا اور بھوک نا
چنے لگے گی حکومتی 1300روپے فی من گندم کا ریٹ مقرر کرنے کا فائدہ کسان کو
تبھی پہنچ سکتا ہے کہ اس کی ساری گندم حکومت خریدے پھر وہیں سے آٹا پیسنے
والے کارخانے اور دیگر افراد خریدتے رہیں گنا کی طرح گندم کی فصل کی بھی
محنت کسان کے پلے نہیں پڑتی حتیٰ کہ اپنے کھانے کے لیے بھی گندم بچا نہیں
پاتا قرضوں کے بوجھ تلے دبے کسان کا گند م بیچے بغیر کیسے گزارا ہو سکتا ہے۔
ایک سینٹر پر 75000تا150000بوری خریدی جاتی ہے عام اضلاع کے سینٹروں پر
تقریباً30لاکھ بوری خریدی جائے گی اب 100روپے فی بوری کے حساب سے محکمہ فوڈ
نے رشوت لی تو اس طرح تقریباً تین ارب روپے فوڈ انسپکٹروں اور ڈسٹرکٹ فوڈ
کنٹرولر و ں ودیگر ملازموں نے آپس میں بانٹنا ہے اوپر والوں کو بھی باقاعدہ
جمع تفریق کرکے حصہ پہنچانا ہے جس میں کبھی غلطی نہیں ہوتی ٹھگوں چوروں کے
اپنے اصول ہیں دو ارب ضلع میں افسران ہڑپ کریں گے اور ایک ارب اوپر والوں
کا حصہ ہو گا۔اس طرح صوبائی و مرکزی حکومت کے کار پرداز بھی کرپشنی گنگا
میں خوب نہائیں گے حساب لگائیں توپولیس کے بعد سب سے زیادہ کماؤ محکمہ
خوراک ہے جس کی طرف کسی نے کبھی توجہ ہی نہیں دی پھر جو فی بوری زیادہ گندم
وصول کی گئی تھی جب گندم سینٹروں سے اٹھائی جائے گی تو اس کا باقاعدہ حصہ
منہا کرکے بیچ کر دوبارہ آپس میں بندر بانٹ اوپر تک کے افسران کی ہو گی
کوئی چوری پکڑی جائے تو افسران نچلے عملہ کو معطل کر دیتے ہیں میڈیا کا شور
شرابا دے دلا کر ختم ہو جاتا ہے مقدمہ درج ہو جائے تو تھانے حصہ وصول کرتے
ہیں دوبارہ ملازمت بحال کہ یہ روزمرہ کا روٹین سمجھ لیں میاں بیوری راضی تو
کیا کرے گا قاضی کہ اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں دیگر محکوں کی طرح معطلی
اور پھر بحالی کا ڈرامہ چلتا رہتا ہے کبھی سیاستدانوں کی پکڑ دھکڑ تو ہو تی
ہی نہ تھی کہ انہوں نے اپنے تابعداروں کو احتسابی محکموں میں حتیٰ کہ عدلیہ
میں بھی بھرتی کر رکھا ہو تا تھا کسی کی پرواہ نہ ہو تی تھی وہ خود مختار
ہو کر اپنے حلقہ انتخاب میں راجوں کی اپنی راجھدانی کے بادشاہ سمجھے جاتے
تھے اسی لیے ایسی کماؤ پوسٹوں یعنی ممبری وغیرہ پر انتخابات کے ذریعے
کروڑوں خرچ کرکے پہنچنا ضروری سمجھا جاتا ہے مگر اس بار خدا کی پکڑ میں
آگئے بڑوں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا ہے شاید سخت طوفا ن کے تھپیڑے لگے تو سیاسی
خاردار جنگل سے لوگ بھاگ نکلیں گے کہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کبھی کبھی بڑے
شہزادوں اور شہزادیوں کے ساتھ۔ کسانوں کے بچے بیویاں دھاڑیں مار مار کر اﷲ
اکبر اﷲ اکبر کہہ کربد دعائیں دے رہی ہیں کہ محنتیں ہم نے کیں مال افسران
آڑھتی اور سود خور لے اڑے خدایا ہم پر رحم فرما اور ان ٹھگوں لٹیروں کا
بیڑہ غرق کردے۔ |