بچوں کی نفسیات کو سمجھیں

تحریر: مدثر قیصرانی، کراچی
آئے روز ہمیں محلے والوں اور رشتے داروں کی طرف سے یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ ’’آپ کا بچہ بڑابدتمیز اور ضدی ہے۔ آپ انہیں تمیز سکھائیں گالم گلوچ کرتا رہتا ہے ‘‘۔وغیرہ وغیرہ۔درحقیقت دیکھا جائے تو والدین زیادہ تر اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے اپنی مصروفیات میں مگن رہتے ہیں جس سے بچہ باہر کے معاشرہ کو دیکھ کر اپنی پرورش کی سیڑھیوں پر چڑھنا شروع کر دیتا ہے جس کا ہمیں نقصان کا اندازہ اس وقت چلتا ہے۔ جب ہمارا بچہ کافی بگڑ چکا ہوتا ہے،چڑچڑا پن،ضدی عادت،گالم گلوچ ،جھگڑالو قسم کا ہونا تو اس طرح کی عادات بچوں میں پائے جانے لگتے ہیں اور بعض والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوتے ہیں جس سے بچہ بھی جھگڑالو بن جاتا ہے۔

معزز والدین اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھیں انہیں وقت دیں یہی مناسب وقت ہے جب آپ اپنے بچوں کی بہترین رہنمائی کر سکتے ہیں،دیکھیں اگر بچہ آپ کے ساتھ اپنی باتیں شیئر نہیں کررہا ہے اور آپ کے پاس بیٹھنے سے بھی کترا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اور بچے کے درمیان دوستانہ ماحول نہیں ہے۔آپ بچے سے میل جول نہیں رکھتے آپ بچے کیساتھ بہت زیادہ غصے میں رہتے ہو۔جس سے بچہ کوئی چیز آپ سے شئر نہیں کرنا چاہتا اور نہ آپ کے ساتھ بیٹھنا چاہ رہا ہے اس کا تعلق کسی اور سے ہوجائے گا جو اس کو پیار و محبت دے گااور اگر بچے کی فطرت لڑائی جھگڑے اور غصے والی ہے تو زیادہ تر یہ سب بچے اپنے والدین اور دیگر فیملی ممبرز سے سیکھتے ہیں اسی لئے کہتے ہیں بچوں کے سامنے آپس میں نہ لڑا کریں اسی سے بچے بھی بگڑ جاتے ہیں بچوں کے سامنے لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتایا کریں جس سے بچہ بھی سیکھیں گا اور اسکی ایسی تربیت کریں کہ بچہ میں خود اعتمادی پیدا ہو،اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ اکثر بچے حسد کرتے ہیں ۔

اگر بچہ حسد کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ان کا موازنہ ہمیشہ دوسروں سے کرتے رہتے ہو،کہ فلاں بچہ دیکھو وہ کیسا ہے اس بچے کو دیکھو وہ کیسا ہے۔آپ انہیں حسد پر اکسا رہے ہوحالانکہ یہ کہو کہ آپ بھی کر سکتے ہو ایسا جیسا انہوں نے کیا فلانے نے کیا اس سے حسد کے بجائے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اگر بچے میں خود اعتمادی کم ہے یا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ہر وقت نصیحتیں کرتے رہتے ہو۔بہت زیادہ نصیحتوں سے بھی بچہ سہم جاتا ہے کچھ بھی کرنے سے ڈرتا ہے کہ کچھ غلط ہی نہ ہو جائے،اگر کچھ غلط کر لیا تو پھر وہی لیکچر وہی نصیحتیں ،،تو بجائے لمبے لمبے لیکچر دینے کے حوصلہ افزائی کریں کہ بیٹا کوئی بات نھیں ،چلیں خیرہے اگر ابھی غلط ہو ا تو آپ اگلی دفعہ اس سے بہتر کرسکتے ہو،اس سے خود اعتمادی پیدا ہوگی اور ڈر ختم ہوگا اوراگر پھر بھی بچہ بہت ڈرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس کی ہر کام میں بہت جلدی ہی مدد کردیتے ہو۔اسے خود سے کچھ نہیں کرنے دیتے۔اس کے راستے کی رکاوٹیں اسے خود سے ہٹانے دیں جوکام کریں پہلے اس کام کی تفصیل بتلائیں کہ بیٹا یوں نہیں یوں کرنا ہے تو وہ خود ہمت کرکے وہ کام سر انجام دے گا اگر آپ خود ہی تمام کام کر کے دو گے تو بچہ تمام عمر دوسروں کا محتاج رہے گا کہ میرا کام کوئی اور کرکے دیں۔بعض بچوں میں جان بوجھ کر تنگ کرنے کی عادت پائی جاتی ہے تھوڑی تھوڑی سی باتوں پر تنگ کرنا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اسے وقت نہیں دے پا رہے اور اسکو درگزر کر جاتے ہو اس کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں اس کیساتھ شریک نہیں ہوتے وقت نہیں دیتے۔
 
ان کی پسند کے مطابق چیزیں نہیں خریدتے بلکہ اپنی پسند بچوں پر ٹھونس دیتے ہیں جس سے بچہ تنگ کرتا ہے اور لائی گئی چیزوں کو ناپسند کرتا ہے تو اس سے بہتر ہے ان ہی چیزوں کا انتخاب کریں جو بچے کی پسند ہے اور یہ اس وقت پتہ چلے گا جب آپ اور بچے کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو۔اسی طرح اگر آپ کے بچے کو غصہ جلدی آجاتا ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ اس کے اچھے کاموں کو سراہتے نہیں اور اس کی اچھی طرح سے تعریف نہیں کرتے وہ آپ کی توجہ کے ساتھ ساتھ آپ سے تعریف بھی سننا چاہتا ہے۔تو بچے کی تعریف کریں کہ بیٹا آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے حالانکہ انہوں نے بے شک اچھا نہ کیا ہو مگر حوصلہ افزائی کر کے ان کی تعریف کو سراہے ،اور اسی طرح بعض بچوں میں جھوٹ بولنے کی عادت پائی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اسے اس کی غلطیوں پر سمجھانے کی بجائے اسے بہت زیادہ ڈانٹتے ہو۔اور سمجھانے میں بھی ڈانٹ کا پہلو اختیار کرتے ہو۔لھذا بچوں کو ڈانٹنے ،غصہ کرنے کے بجائے ان کی نفسیات کو سمجھیں کہ بچہ کیا چاہتا ہے اسی مطابق اس کی تربیت کریں ۔بہترین تربیت سے ایک بہترین معاشرہ جنم لیتا ہے۔تو ہماری اولین ترجیح ہماری اولاد کی بہترین تربیت ہونی چاہئے ،اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نیک صالح اولاد اور ان کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق عطافرمائے ،آمین۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1020722 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.