تحریر : وردہ صدیقی، نوشہرہ
اﷲ رب العزت نے کائنات بنانے کے بعد چند چیزوں کو منتخب فرما کر جداگانہ
شان بخشی ہے۔اﷲ نے انسانوں میں انبیا ء کو چنا ، انبیا میں سے حضرت محمد ﷺ
کو اپنا محبوب بنایا، کتابوں میں سے قران مجید کا مقام سب سے بلند کیا،
شہروں میں مکہ ومدینہ کی شان ہی الگ ہے، جمعہ کے دن کو دنوں کا سردار
بنایا، ایسے ہی مہینوں میں رمضان المبارک کو سب مہینوں پر خاص شان وفضیلت
عطا فرمائی۔
ارشاد ربانی: "جو شخص ماہ رمضان کو پائے اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے۔ "(سورۃ
بقرہ)
ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کو شھر اﷲ کہا گیا ہے۔ یہ وہ ماہ محبت ہے جو اﷲ
جل شانہ کی صفت رحمت کا مظہر ، ایمان کی تروتازگی ، تلاوت قرآن کی لذت
وحلاوت اور قرب خداوندی کا ذریعہ ہے۔ لہذا جو اس مہینے کو پا لے اسے چاہیے
اسکی رحمتوں اور برکتوں کو خوب سمیٹے۔
حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے شعبان کی آخری تاریخ میں
ہمیں وعظ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: " اے لوگو!تم پر ایک مہینہ آرہا ہے جو
بہت بڑا مہینہ ہے، بہت مبارک مہینہ ہے۔ اس مہینے کی ایک رات ہے، جو ہزار
مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالی نے اس کے روزے کو فرض کیا ہے اور اس کی رات
کے قیام کو ثواب کی چیز بنایا ہے ۔ جو شخص اس مہینے میں کسی نیکی کے ساتھ
اﷲ کا قرب حاصل کرے وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا۔ اور جو
شخص اس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر
فرض ادا کرے۔ یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ
مہینہ لوگوں کے ساتھ غمخواری کرنے کا ہے اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا
جاتا ہے۔ (اس مہینے میں )جو شخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے گا تو اس
کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا ، اس کو روزیدار
کے جتنا ثواب ملے گا مگر روزیدار کے ثواب سے بھی کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔
"
صحابہ کرام نے عرض کیا :
"یارسول اﷲ !ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزے دار کو
افطار کرائے".
آپﷺنے فرمایا : یہ ثواب پیٹ بھر کر کھلانے پر موقوف نہیں ، بلکہ ایک کجھور
یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ لسی سے روزہ افطار کرانے پر بھی اﷲ تعالی
یہ ثواب عطا فرما دیتے ہیں ۔یہ ایسا مہینہ ہے کے اس کا اول حصہ اﷲ کی رحمت
ہے درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے۔ جو شخص اس مہینے میں
اپنے غلام (و خادم)سے اس کا بوجھ کم کر دے تو حق تعالی اس کی مغفرت فرما
دیتے ہیں اور اسے آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔ اس مہینے میں چار چیزوں کی
کثرت کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے واسطے ہیں ، اور دو چیزیں ایسی
ہیں کہ جن کو حاصل کیے بغیر تمھیں کوئی چارہ کار نہیں۔ پہلی دوچیزیں جن سے
تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے۔ اور دوسری
دوچیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو ۔ جو شخص کسی
روزیدار کو پانی پلائے گا حق تعالی میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے
جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک اسے پیاس نہیں لگے گی.(رواہ ابن الخزیمہ،
رواہ البیہقی ، الترغیب والترہیب)
حضرت ابو ھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ، حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: " جب
ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات باندھ دیئے جاتے
ہیں ، اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ، چنانچہ پھر ان میں سے کوئی
ایک دروازہ بھی کھلا باقی نہیں رہتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں
اور ان میں سے ایک دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا۔ ایک منادی آواز دیتا ہے :
اے خیر کے طالب !آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے ! بس کر۔اور رمضان
میں اﷲ کی طرف سے لوگ جہنم سے آزاد کئے جاتے ہیں (آزادی کا یہ عمل)ہر رات
ہوتا ہے." ( رواہ الترمذی)
ارشاد باری تعالی ہے:" اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ
تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے۔ تاکہ تم پرہیزگار بن جاو(سورۃ بقرہ)
حضرت ابو ھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: "روزہ
ڈھال ہے۔ (لہذا تم میں سے جو شخص روزے سے ہو تو)بیحیائی والا کام نہ کرے
اور اگر کوئی شخص اس سے جھگڑا کرے یااس کو برا بھلا کہے توجواب میں دو
مرتبہ یوں کہے:" میں روزے سے ہوں ، میں روزے سے ہوں."
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے روزیدار کے منہ کی بدبو اﷲ
تعالی کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔(اﷲ تعالی روزیدار کے بارے میں
ارشاد فرماتے ہیں:)اس نے اپنا کھانا پینا اور شہوت کو میرے خاطر چھوڑ دیا۔
روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ اسے ایک نیکی کا اجر دس
گناہ ملے گا۔"(رواہ البخاری)
اﷲ رب العزت بڑی رحیم وکریم ذات ہے۔ روزوں کی فرضیت کا مقصد مسلمانوں کو
مشقت میں ڈال کر سزا وعذاب دینا مقصد نہیں بلکہ مسلمانوں سے گناھوں کی میل
کچیل کو دور کر کے جنت میں داخل کیا جائے۔
حضرت ابو ھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:
"ہر چیز کی ایک زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے." (رواہ ابن ماجہ)
رمضان صرف صبح وشام سحری وافطاری کھانے اور باقی دن بھوکے پیاسے رہنے کا
نام نہیں بلکہ یہ روح اور جسم کی تربیت کیلئے ایک ماہی کورس ہے۔ جو ہر سال
مسلمانوں کو کروایا جاتا ہے۔
اس کورس کا مقصد بندے کا اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنا ہے ۔
گیارہ ماہ مختلف قسم کی غذائیں کھانے اور گناھوں میں گزارنے سے جو جسمانیت
وروحانیت میں فساد پیدا ہوگیا ہے اس کو دور کرنے کیلیے اس ماہ میں کثرت
طعام کی قید کے ساتھ ترک المنکرات کا بھی پابند بنا دیا ۔ مادی غذائیں
انسان کو تندو توانا رکھتی ہیں مگر ہر وقت کی لیبیاخوری بھی اچھی نہیں ، اس
سے حیوانی صفات جنم لیتی ہیں ، شیطانیت کو قوت ملتی ہے اور عبادت کے ذوق و
شوق میں کمی آتی ہے۔
رمضان کا مقصد ہی یہی ہے کہ عبادات طاعات اور ترک المنکرات کے ذریعے سے
اپنے خالق و مالک سے تعلق کو مضبوط بنایا جائے۔ اس ماہ میں ریاضتوں اور
مجاہدوں کے ذریعے اخلاق رذیلا اور اعمال خبیثہ کو کچل کر خاتمہ کیا جائے
اور اعلیٰ اخلاق اور بہترین اوصاف کو پیدا کیا جائے۔ نیکیاں اور بھلائیاں
کرنے میں مسابقت اور گناھوں سے اجتناب کا جذبہ پیدا ہو ۔ اقوال و اعمال سنت
نبوی سے آراستہ و پیراستہ ہوجائیں۔ دل میں خوف الہی اور فکر آخرت پیدا ہو
جائے جو اسے دن کی روشنیوں ، رات کی تاریکیوں ، صحرا کی ویرانیوں میں
گناھوں اور غلط کاریوں سے محفوظ رکھے۔ بس اسی کا نام " تقوی" ہے
جب تقوی کی کیفیت انسان میں آجاتی ہے تو انسان کو فرشتوں سے یک گونہ نسبت
ہونے لگتی ہے ، اس میں ملکوتی صفات پروان چڑھنے لگتے ہیں پس بلاخر نتیجہ یہ
نکلتا ہے کہ روح وقلب پر انوارات کی بارش ہوتی ہے اور اﷲ سبحانہ وتعالی کا
قرب نصیب ہوتا ہے۔
جس کا رمضان تقوی کے تربیتی کورس کے زیر سایہ گز رگیا۔ سمجھو اس نے اس ماہ
کی تمام رحمتیں برکتیں اور نعمتیں اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔ " بڑا ہی خوش
نصیب ہے وہ شخص جس نے رمضان کی برکتوں کو پالیا اور بڑا ہی بدنصیب ہے وہ
شخص جو اس کو پاتے ہوئے بھی اس سے محروم رہا."
اﷲ پاک ہمیں مبارک ماہ میں برکتوں والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے
اﷲ پاک اور اس کے رسول ﷺ راضی ہوجائیں (آمین )
|