وہ یوں چل رہا تھا گویا قدم من بھر وزنی ہوں۔ اس نے گھر
جانے کی بجاۓ سیدھا دادا کے گھر کا رخ کیا۔وہ پیدل ہی چلتا جا رہا تھا۔
بمشکل نصف رستہ ہی طے کر پایا تھا کہ ہانپ کر ایک سڑک کنارے بیٹھ گیا۔تھوڑی
ہی دیر بعد اسے ایک آواز سنائی دی۔ جیسے کوئی کچھ گا رہا تھا۔کچھ لمحہ بعد
ایک نا بینا شخص انتہائی خوبصورت آواز میں نعت پڑھتا ہوا اس کے قریب سے
گزرا۔
سنو! اس نے نا بینا شخص کو آواز دی۔
یہ مصطفٰی کون ہے؟؟؟ اس نے بہت ہی معصومیت سے سوال کیا تھا
وہی تو ہیں جن کی خاطر یہ کائنات بنی ہے۔ وہی تو ہیں جن کا نام لیکر ہم
اللہ سے بخشش کا سوال کرتے ہیں۔وہی تو ہیں جن کا نام لینے سے شفا مل جاتی
ہے۔وہی تو ہیں نبی آخر الزماں ﷺ۔ اتنا کہہ کر وہ شخص نعت پڑھتا ہوا آگے بڑھ
گیا لیکن اس کے ذہن میں بار بار ایک ہی مصرع گونج رہا تھا
"جو نامِ مصطفٰی چومیں نہیں دکھتی کبھی آنکھیں"
وہ دادا کے گھر پہنچا تو وہاں دعا کروانے والوں کا ایک ہجوم تھا۔لوگ باری
باری تخت کے پاس آکے بیٹھتے جاتے اور دعا کروا کر اٹھتے جاتے۔وہ بھی ایک
طرف ہو کر بیٹھ گیا اور چپ چاپ دادا کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔اس سے
پہلے کہ دادا جی نماز کے لیے اٹھتے ایک عورت جس نے تقریباًدو سال کا ایک
بچہ ہاتھوں میں اٹھایا ہوا تھا روتی پیٹتی اندر داخل ہوئی۔
کچھ کرو بابا جی خدا کے لیے کچھ کرو میرے بچے کی آنکھ ضائع ہو جاۓ گی خدا
جانے کیا لگ گیا ہے کہ آنکھ سوجن سے اتنی ہو گئی ہے۔ دادا جی بچے کی حالت
دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے اسی لیے عورت کو تقریباًڈانٹتے ہوۓ ڈاکٹر کے پاس
لے جانے کو کہا لیکن وہ عورت بضد تھی کہ تعویذ لیے بغیر نہیں جاۓ گی
بی بی تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی آخر کہ یہ تعویذوں سے ٹھیک ہونے والا
معاملہ نہیں ہے اس کو کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لیکر جاؤ۔ دادا جی نے سخت لہجے
میں کہا
آپ کو اللہ کا واسطہ بابا جی مجھے مایوس نہ کرو میں اکیلی بچے کو لیکر کہاں
جاؤں گی؟؟ عورت زاروقطار رو رہی تھی اور فریاد کر رہی تھی۔سندیپ جوکافی دیر
سے ایک طرف بیٹھا یہ معاملہ دیکھ رہا تھا اچانک اس کے ذہن میں کچھ خیال آیا
اور وہ بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر اندر کمرے میں چلا گیا اور جب باہر آیا
تو سیدھا اس عورت کے پاس گیا جو ابھی تک دادا جی سے بحث کر رہی تھی۔
یہ لو بی بی تعویذ۔ اس کو بچے کی آنکھ پہ لگانا بچہ ٹھیک ہو جاۓ گا۔ اس نے
مٹھی کھول کر ہتھیلی عورت کے سامنے کر دی عورت نے لپک کر تعویذ پکڑا اور
سندیپ کو دعائیں دیتی چلی گئی
یو کیہہ کیا پتری؟؟ تنّے بچے کی آنکھ کونی دیکھی جو نیوں اٹھا کے تعویذ
تھما دیا اس نے؟؟ تیں خود بتا وا تعویذ سے ٹھیک ہونے والی تھی کیہہ؟؟؟ اِب
وا کبھی بچے کو ڈاکٹر کے پاس کونی لے کر جاوے گی۔ دادا جی نے پریشان ہو کر
کہا لیکن وہ پر سکون تھا اور پر اعتماد بھی۔
تیں فکر کیوں کردا ہے بابا بچہ ٹھیک ہو جاوے گا منّے تعویذ ہی اِیسا دیا
ہے۔ سندیپ نے مسکراتے ہوۓ دادا کا کندھا تھپتھپایا اس کو اس قدر پرسکون اور
پر اعتماد دیکھ کردادا جی بہت حیران تھےوہ دادا سے اجازت لیکر گھر کی طرف
نکل پڑا
اگلے دن صبح ہی صبح دادا جی کے گھر لوگوں کا ہجوم لگ گیا ہر کسی کو وہی
طلسماتی تعویذ چاہیے تھا جو کل باباجی کے پوتے نے اس عورت کوبچے کی آنکھ پہ
لگانے کے لیے دیا تھا۔بابا جی کو تفصیل پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ تعویذ
بچے کی آنکھ پر لگاتے ہی بچہ سکون محسوس کرنے لگا تھا اور اگلی صبح تک بچے
کی آنکھ بالکل ٹھیک تھی۔بابا جی خود بہت حیران تھے کہ آخراس نے ایک ہندو ہو
کر ایسا کیا لکھ دیا تعویذ میں کہ بچہ صبح تک بالکل ٹھیک ہو گیا۔باباجی کے
اسرار پر عورت نے تعویذ بابا جی کو دے دیا اور جب انہوں نے تعویذ کھول کر
دیکھا تو اندرانگریزی میں فقط ایک نام ہی لکھا ہوا ملا۔اور وہ نام تھا.....
"مصطفٰی" |