لفٹ اپنے مقررھ فلور پر رکی تو عمران نےاپارٹمنٹ کا
دروازہ کھولا اور صبا کو پہلا قدم رکھنے کو کہا. صبا دھڑکتے دل سے اندر
داخل ہوئی. اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسا ردعمل ظاہر کرئے. اپارٹمنٹ
بہت نفاست سے سجا ہوا تھا. عمران نے صبا کو ہاتھ منہ دھو کر فریش ہونے کا
کہا. صبا پزل سی باتھ روم میں چلی گئی. عمران کی اس اپارٹمنٹ میں موجودگی
اس کے حواس پر سوار ہورہی تھی. باتھ روم میں ہاتھ منہ دھونے کے بعد بھی وہ
کافی دیر گومگو میں کھڑی رہی. آخر کار ہمت جٹا کر وہ باہر آئی. عمران نے
کھانا گرم کر کے ٹیبل پر سجا دیا تھا. اس کو دیکھ کر وہ بہت دلکشی سے
مسکرایا. صبا نے پہلی بار نوٹس کیا کہ مسکراتےہوئے اس کے گالوں پر بہت گہرے
ڈمپل پڑ جاتے تھے. اس کا پورا چہرہ روشن ہوجاتا تھا. صبا نے اپنی بے ترتیب
دھڑکنوں کو سنبھالا اور کرسی کھینچ کر عمران کے مقابل بیٹھ گئی. اگرچہ اس
کی بھوک اڑی ہوئی تھی مگر عمران کے اصرار پر اس نے چند لقمے کھا لئے. کھانے
کے بعد عمران نے برتن سمیٹنے شروع کئے تو بےاختیار ہی صبا نے اس کی مدد
شروع کردی. سارے برتن دھو کر خشک کر کے انہوں نے کچن میں لگادیے. صبا کو
اچانک احساس ہوا کہ ان کو دیکھ کر کوئی بھی یہ تصور کرسکتا ہے کہ وہ
نوبیاہتا جوڑا ہیں. یہ سوچ کر اس کو خود ہی شرم آگئی. اس کا چہرہ شرم سے
سرخ ہوگیا. عمران اس کی حالت سے بے خبر کچن کے کاؤنٹر صاف کرنے میں مشغول
تھا.
کچن سے فارغ ہو کر عمران نے صبا کو مخاطب کیا :
صبا! میں آپ سے پہلی نظر میں ہی محبت میں گرفتار ہوگیا تھا. اس وقت آپ کی
کہانی پر میں نے کیوں یقین نہیں کیا. اس بات کی میں کوئی صفائی نہیں دینا
چاہتا. مگر جب آپ کو آپ کے نام نہاد گھر والوں کے ساتھ جاتے دیکھا تو آپ کی
بے بسی نے میری راتوں کی نیندیں اڑا دیں. آپ کی وہ بے یقین ،مجروح نظریں
مجھے میری آنکھوں سے گراتی رہیں. پھر میں نے آپ کے بارے میں معلومات اکٹھی
کرنے کا فیصلہ کیا. پھر مجھے آپ کی زندگی کی کہانی کا پتا چلا. آپ کی بہن
کی المناک موت کا واقعہ بھی پتا چلا. اس لئے میں نے ساری تیاری کر رکھی تھی
کہ جب بھی آپ دوبارہ مدد کے لیے ہاتھ بڑھائینگی تو اس وقت میں آپ کا ہاتھ
ہمیشہ کے لیے تھام لونگا. آج مجھے صرف اس لئے غصہ آیا کہ آپ نے میری نیت پر
شک کیا تھا. "
صبا نے عمران کی بات سنی تو کہنے لگی :
"میں نے جب آپ سے مدد کی درخواست کی تھی تو آپ کو اللہ کو حاضر ناظر جان کر
سب سچ بتایا تھا مگر آپ نے پوری تحقیقات کے بعد میری مدد کا فیصلہ کیا. میں
آپ کی ممنون ہوں مگر آپ کو اپنا شریک حیات ماننے میں مجھے کچھ وقت لگے گا.
امید ہے آپ صبر سے اس امر کا انتظار کرینگے. "
عمران کا چہرہ سرخ ہوا مگر اس نے کمال مہارت سے اپنے تاثرات چھپا کر صبا کو
کہا:
"میں بھی اس تعلق کو ایک بوجھ سمجھ کر آپ کے سر پر نہیں ڈالنا چاہتا. جب آپ
دل کی مرضی سے میری طرف ھاتھ بڑھائینگی تو مجھے ادھر ہی پائنگی. "
اتنا کہہ کر عمران نے اس کو اس کا کمرہ دکھایا اور اس کو آرام کرنے کا کہہ
کر خود بالکونی میں چلا گیا. صبا کا نہ جانے کیوں دل بھر آیا. وہ بستر پر
روتے روتے ڈھیر ہوگئی.
(باقی آئندہ ☆☆). |