لوٹوں کے بدلتے رشتے

کوئ پارٹی تبدیل کرے وکٹ گر گئی،کوئی نا اہل ہو جائے تو وکٹ گر گئی،کوئی اییکشن ہار جائے تو وکٹ گر گئی ۔ اب نوبت یہاں تک پہنچا دی گئی ہے کہ اگر کوئی کسی کو چھوڑ دے یا طلاق لے دے لے تو اس کے لئےبھی وکٹ ہی گراتے ہیں بے شک اگلے بچارے پر بجلی ہی کیوں نہ گر گئی ہو،یہ وکٹ گرا کر ہی خوش ہو لیتے ہیں۔

انسان ہمیشہ سے ہی تبدیلی پسند رہا ہے۔ زیادہ وقت تک ایک ہی کام کرتے یا ایک ہی ماحول میں رہتے رہتے اکتا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اسی لئے دوسری مرتبہ شادی کا پنگا بھی لے بیٹھتے ہیں کہ پہلی سے بہت تنگ آ جاتے ہیں مگر جب دوسری کا سامنا کرتے ہیں تو وہاں بھی وہی یکسانیت۔وہی کام وہی بک بک جھک تو پھر خود ہی پکار اتھتے ہیں کہ اس سے تو پہلی ہی یا ایک ہی اچھی تھی ،مصیبت تو سنگل تھی۔ اس ظرح زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی لائی جاتی ہے۔ اسے آپ ایک سیاسی جماعت کی انگلی سے آنے والی تبدیلی ہرگز نہ سمجھیں۔ انگلی سے تبدیلی کے مقابلے والے زرا سخت جان لگتے ہیں وہ انگوٹھے سے تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔ بہر حال ان باتوں سے ہٹ کے اور بچ کے ہم جو بات کرنے جا رہے تھے وہ تھی یکسانیت سے اکتاہٹ۔

ایک ہی کام کرنے کے لئے افراد کے مجموعے کو کبھی کمیٹی کا نام دیا جاتا ہے کبھی کمیشن کا اور کبھی جے آئی ٹی کہ دیا جاتا ہے۔ کام سب کا ہی خام ہوتا ہے۔ سب ہی کسی نتیجے تک نہیں پہنچتی تبھی تو ایک کا نام بدل کر دوسرا اور پھر تیسرا نام دیا جاتا ہے تاکہ متعلقہ پارتیوں کو کافی وقت کے لئے دھوکے میں رکھا جا سکے۔
اسی طرح سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے جب دوسروں کی ضرورت پڑتی ہے تو اسے بھی مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ یہ نام پارٹی سربراہ کی شخصیت کے حوالے سے بھی بنتا ہے اور تاریخ میں جاری اقدار کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔

پہلے پہل دائیں بازو اور بائیں بازو کا ذکر ہوا کرتا تھا۔تبدیلی والے بائیں بازو کو لوگ سمجھے جاتے تھے۔ جب بائیں والے اور دائیں والے کافی نفع اٹھا چکے اور عوام کو پتہ چل گیا کہ یہ مولیوں کی طرح صرف عوام کو لڑا کر اپنی دکان چمکاتے ہیں تو انہوں نے اپنے نام بدلنے کا سوچا۔

یہ دھڑے پھر حکومت مخالف اور حکومت نواز بنے۔ اب ان میں سے جو پارٹی چھوڑ جاتا اسے پہلے پہل غدار یا وقت کا پجاری کہا جاتا جب یہ نام بھی عام ہو گئے تو ایک نئی اصطلاح میدان میں آگئی۔اور وہ تھی لوٹا ۔ لوٹا اب بھی رائیج ہے سکہ رائیجی بجھی الوقت کے ساتھ اور اسی کی طرح مگر اس وقت کچھ اور ٹرمیں یعنی اصطلاحیں میدان میں آ چکی ہیں اور ایک پاڑتی تو ہر کام کے لئے یہی اصطلاح استعمال کر رہی ہے۔ کوئ پارٹی تبدیل کرے وکٹ گر گئی،کوئی نا اہل ہو جائے تو وکٹ گر گئی،کوئی اییکشن ہار جائے تو وکٹ گر گئی ۔ اب نوبت یہاں تک پہنچا دی گئی ہے کہ اگر کوئی کسی کو چھوڑ دے یا طلاق لے دے لے تو اس کے لئےبھی وکٹ ہی گراتے ہیں بے شک اگلے بچارے پر بجلی ہی کیوں نہ گر گئی ہو،یہ وکٹ گرا کر ہی خوش ہو لیتے ہیں
 

akramsaqib
About the Author: akramsaqib Read More Articles by akramsaqib: 76 Articles with 65669 views I am a poet,writer and dramatist. In search of a channel which could bear me... View More