امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور ملک سمجھا جاتا ہے
لیکن جس تیزی سے چین اپنے پاؤں پھیلا رہا ہے وہ دن دور نہیں جب چین دنیا کی
سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے گا۔
|
|
بہر حال اس نے معاشی طور پر بہت سے ملکوں میں اپنی کالونی بنا لی ہے جبکہ
چینی سامان دنیا بھر میں خریدے اور فروخت کیے جا رہے ہیں۔
جو چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں ان کے لیے چینی
دارالحکومت بیجنگ ان کی پہلی پسند ہے۔ دنیا بھر سے لوگ بیجنگ آ کر اپنے
کاروبار یا ملازمت کر رہے ہیں۔
ایسے ہی ایک شخص جرمنی کے كليمنس سیہی ہیں۔ ان کہنا ہے کہ بیجنگ میں رہنے
کا مطلب ہے ایک نئے دور میں رہ کر زندگی گزارنے کا تجربہ کرنا ہے۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر بیجنگ غیر ملکی شہریوں کی پسند کیوں بن رہا
ہے؟
چین کی ٹیکنالوجی میں ترقی
چین نے ٹیکنالوجی کے میدان میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے۔ ٹیکنالوجی کی مدد
سے چین نے لوگوں کی روزمرہ زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔
|
|
بیجنگ تیزی سے بغیر نقدی کے سوسائٹی بن رہا ہے۔ یہاں لوگ اعلیٰ معیار کے
انٹرنیٹ کا لطف اٹھاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی مدد سے ہر قسم کے لین دین سمارٹ
فونز پر ہی ہو جاتے ہیں۔
بیجنگ میں سمارٹ فون سے زیادہ ایڈوانس ٹیکنالوجی موجود ہے جو شاید دنیا کے
دوسرے ممالک میں اتنے وسیع پیمانے پر استعمال نہیں کی جاتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی چہرے کی شناخت کرنے والا سافٹ ویئر ہے۔ یعنی بینک اکاؤنٹ کے
مالک کے چہرے کی شناخت کے ساتھ ہی رقم کی منتقلی ہو جاتی ہے۔ اس تکنیک کے
سبب لوگوں کو بینکوں کے چکر نہیں لگانے پڑتے۔ اس کے ساتھ ہی نقد کرنسی کا
کردار بھی نہیں رہ جاتا۔
حال ہی میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ بیجنگ میں کئی ٹیکنالوجی پارک بنائے
جائیں گے۔ یہ پارک تقریباً 13 ارب یوآن میں تیار ہوں گے۔
ایسے ٹیکنالوجی پارک میں تقریبا 400 اقسام کے کاروبار کے لیے تکنیک تیار کی
جائے گی۔ یہ مصنوعی انٹیلیجنس بائیو میٹرکس کے نظام پر مبنی ہو گی۔ اس میں
بغیر ڈرائیور والی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
چین کے لوگ کھانے کے شوقین
تکنیکی طور پر بیجنگ شہر بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ تاہم کھانے پینے کے
معاملے میں یہ اب بھی قدیمی نہج پر گامزن ہے۔ جس طرح ممبئی میں پیٹ بھرنے
کے لیے وڈا-پاؤ اور دہلی میں جگہ جگہ چھولے بھٹورے اور چھولے چاول معقول
قیمت پر مل جاتے ہیں، اسی طرح بیجنگ میں ہر جگہ پر روایتی کھانے فروخت کرنے
والے مل جائیں گے جو صبح سے ہی اپنی دکان سجا لیتے وہاں ہیں لہٰذا وہاں
کھانے کے لیے کوئی پریشانی نہیں۔
|
|
اس کے علاوہ چینی بذات خود مختلف قسم کے کھانے کے بہت شوقین ہیں۔ پورے سال
مختلف تہوار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر فروری میں چینی نئے سال کا جشن ہوا
جو کئی دنوں تک جاری رہا۔ اسی طرح موسم بہار کا فیسٹیول بھی تھا۔ ایسے
مواقع پر گھر سے باہر رہنے والے افراد کو مقامی لوگوں کے ساتھ میل جول کا
ایک نادر موقع ملتا ہے۔
کلیمنس سیہی کا کہنا ہے کہ چینی باشندے نئے سال کو پورے جوش کے ساتھ مناتے
ہیں۔ تارکین وطن بھی ان کے ساتھ مل کر جشن مناتے ہیں۔
غیر ملکیوں کے لیے چینی زبان مشکل
بیجنگ میں غیر ملکیوں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ تارکین وطن مقامی
لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن زبان ان کے لیے
مشکلات کھڑی کرتی ہے۔
|
|
چینی زبان سیکھنا تارکین وطن کے لیے نہایت مشکل کام ثابت ہو رہا ہے۔ اور
بظاہر اسی سبب تارکین وطن چین کی ثقافت کو مکمل طور اپنانے سے قاصر ہیں۔
کلیمنس سیہی کہتے ہیں کہ بہت سے غیر ملکی یہاں سالوں سے رہ رہے ہیں۔ اس کے
باوجود وہ چینی زبان صحیح طور پر نہیں بول سکتے۔ جو لوگ چینی زبان بالکل
بھی بول اور سمجھ نہیں سکتے وہ دوسرے غیر ملکی کے ساتھ دوستی کرتے ہیں۔
چینی زبان سیکھنے کے لیے آپ کو بیجنگ میں بہت ساری کلاسز مل جائيں گی۔ اگر
مقامی ریڈیو کے لیے ایک دو پروگرام روز سن لیے جائیں تو کچھ بنیادی الفاظ
سیکھے جاتے سکتے ہیں جس سے خریداری میں آسانی ہو سکتی ہے۔
چینی باشندے اکڑ برداشت نہیں کرتے
مغربی ممالک میں لوگ سیدھے سپاٹ لہجے کے عادی ہیں لیکن چینی اپنے اقدار کی
پاسداری کرتے ہیں۔ کوئی ان سے اکڑ کر یا غصے سے بات کرے یہ انھیں بالکل
منظور نہیں۔
بیجنگ میں رہنے والے امریکی شہر سان فرانسسکو کے شہری اور بلاگر مائیک وو
کہتے ہیں کہ عام بول چال میں چینی اکڑ برداشت نہیں کرتے لیکن خریداری کے
معاملے میں بیجنگ کا حال انڈیا کے شہروں جیسا ہی ہے۔
لیکن بیجنگ سب سے زیادہ آلودہ ہے
تمام خوبیوں کے باوجود بیجنگ میں رہنے کا ایک بڑا نقصان یہاں کی آب و ہوا
ہے جو کہ اتنی خراب ہے کہ ماسک کے بغیر باہر نکلنا مشکل ہے جبکہ بیجنگ نے
ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دنیا کے نقشے پر اپنی مختلف شناخت بنائی ہے۔
|