علمی قید سے آزادی بیان تک !

 شریعت محمد ی کے قوانین فطر ت انسانی کے عین مطابق ہیں جو آدمی کو انسانی کردا ر میں ڈھالنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔تعلیم و تعلم (سیکھنے اور سکھانے )کی آزادی اپنے خیالات کا اظہار ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔اگر یہ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہونے لگے تو دنیا جنت نظیر ہوجائے گی۔

ظہور اسلام سے قبل آزادی بیان کا ماحول کہیں نہیں تھا۔پلوٹاک کےمطابق اسپارٹا(Spartan)کے لوگ صرف علمی ضرورتوں کے لئے لکھنا اور پڑھنا سیکھتے تھے۔ان کےیہاں دوسروں تمام کتابوں پر پابندی لگی ہوئی تھی۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ قدیم یونا ن میں جو کچھ علمی ترقی تھی وہ آرٹ اور فلسفہ (Art & Philosophy)میں تھی۔سائنس کے میدان میں ان کی ترقی اتنی کم تھی کہ کسی شمار نہیں آتی تھی ۔اس قاعدہ کلی سے ارشمیدس (Archimedes)جیسے افراد مستثنیٰ ہیں۔جس کو 212 ( ق۔م )میں ایک رومی سپاہی نے عین اسی وقت قتل کردیا تھا جب وہ شہرکےباہر ریت پر علم ہندسہ (Geometry)کےسوالات حل کررہاتھا۔

حضرت عیسیٰ سے پہلے یونان می جس فلسفہ کا زور و شور تھا اور جس کی صدائے بازگشت آج تک عالم فلسفہ میں سنائی دے رہی ہے ۔اس کےمنادی صرف تین حضرات تھے ۔سقراط(Socrates)،افلاطون(Plato)اور ارسطو(Aristotle)۔

سقراط کو 399(ق۔م)میں تقریباً 70برس کی عمر میں صرف اس جر م میں زہرکا پیالہ پلادیا گیاتھا کہ وہ بت پرستی سے توحید پرستی اور ایتھینز (Athens)کےنوجوانوں میں آزادانہ غور و فکر کا مزاج بنارہاتھا ۔اس تلخ حقیقت کےجرم میں گیارہ ضمیر فروش علماء اور قاضیوں نے اس کے قتل کا فتویٰ دیدیا۔(ذکر وفکر ،علامہ سید ذیشان حیدر جوادی صفحہ 636ناشر :تنظیم المکاتب ،گولہ گنج، لکھنؤ)

اسی طرح عالمی شہرت یافتہ سائنسداں گلیلیو(Galileo)کا قتل کا حکم اس بناء پر لگا یا گیا تھا کہ اس نے"مرکز زمینی"(Geocentric)کی تردید کی تھی ۔اس نے اظہار ندامت کرتے ہوئےعدالت میں اپنا توبہ نامہ پیش کیا۔جس کے باعث اس کے خوشگوا ر زندگی دوبارہ جینے کو ملی ۔لیکن بعد کی تحقیق و جستجو نے حقیقت سے جھوٹ کا پرد ہ ہٹا دیا۔

حقیقت کا یہ ہےکہ سائنسی غوروفکر اور ترقی کے لئے آزادی فکرو بیان کا ماحول انتہائی ضروری ہےاور اسلا م سے پہلے یہ ماحول نہیں تھا ۔شاید اسی وجہ سے ایتھینز کےبہت سے ماہر فن اور فلسفی جلاوطن کردئے گئےیا پھانسی پرلٹکا دیئے گئے یا وہ خود خوف و ہراس سے فرار کر گئے۔جس میں اسکائی لیس (Aeschylus)،فدیاس اور سقراط وغیرہ شامل ہیں ۔

اللہ کی طر ف سے نازل کردہ کتاب قرآن کریم میں دسیوں مقامات پر "افلاتتفکرون "تم فکر کیوں نہیں کرتے ؟(سورہ انعام 50)،"افلایتدبرون "تم تدبر کیوں نہیں کرتے ؟(سورہ نساء 82)اور "افلاتعقلون "تم عقل کا استعما ل کیوں نہیں کرتے ؟(سورہ بقرہ 76,44اور سورہ آل عمران 65)۔مذکورہ بالاجیسے الفاظ کا استعما ل کرکے پروردگار عالم نے ہمارے فکروں کے دریچوں کو وا کرنے کا بہترین موقع فراہم کیاہے اور جگہ جگہ فکر کرنے کی دعوت دے کر منجمد افکار کوجھنجھوڑا ہے ۔

یہ وجود اسلا م کی برکت ہے کہ جس کے سبب لوگ آج کی دنیامیں چاند کی زمین کو پیروں تلے روندرہے ہیں،سور ج کی شعاعوں کو قید کررہے ہیں او ر تاروں پہ کمندے ٖڈالنے کی کوشش میں لگاہوئے ہیں۔اگر اسلام نے آزاد ی فکر و بیان کو اس قدر آزادانہ طور پر پیش کرنے کی اجازت نہ دی ہوتی تو دورحاضر کی ترقیاں گونگے کا خواب بن کے رہ جاتیں!