صوبہ خیبرپختونخوا میں چونکہ محکمہ تعلیم وہ واحد محکمہ
ہے جس میں آئے تجربات کئے جاتے ہیں یا پھر یوں کہئے کہ ہر کام تجرباتی
بنیادوں پرکیا جاتاہے،اور شاید اسی لئے صوبہ میں خواندگی کی شرح دیگر صوبوں
کے مقابلے میں کم ہے،وہ الگ بات کہ ایک غیر سرکاری تنظیم ’’الف اعلان ‘‘نے
نہ جانے کن بنیادوں پر صوبہ خیبرپختونخوا کو شرح خواندگی میں دیگر صوبوں سے
بہتر قرار دیاہے،کیونکہ صوبائی حکومت اب تک دو بار جماعت پنجم کی اسسمنٹ
کروا چکی ہے کہ جن میں پرائمری سکول کے بچے بچیاں خاطر خواہ اور مطلوبہ
نتائج دینے سے یکسر نظرآئے ہیں،البتہ موجودہ صوبائی حکومت کی اصلاحات پر
بات کی جائے تو یقینا کوئی بھی سمجھدار مطمئن ہوجائے، کیونکہ موجودہ صوبائی
حکومت نے اول تو صوبہ بھر میں اساتذہ کی کمی اگر پوری نہیں کی توکم از کم
تعداد ضرور بڑھادی ہے،اسی طرح گزشتہ دو سالوں میں سرکاری سکولوں میں بچوں
کو بھی ستر سے اسی فیصدداخل کیا جاچکاہے کہ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صوبہ
خیبرپختونخوا کے والدین کا سرکاری سکولوں پر ایک بار پھر سے اعتماد بڑھا
ہے،اس کے علاوہ صوبہ بھر کے سرکاری سکولوں میں بنیاد ی سہولیات فراہم کردی
گئی ہیں کہ جن میں پینے کا صاف پانی ،چار دیواری،سولر سسٹم ،فرنیچر وغیرہ
۔تاہم کہیں کہیں مزید کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، ان سب سے بڑھ کر موجودہ
صوبائی حکومت نے قریباً40ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ،سمجھداراور پروفیشنل لوگوں
کو بھرتی کیا کہ جسے صوبہ کی تاریخ میں سنہرے حرو ف سے لکھا جائے گا ،یقینا
لائق تحسین ہے،اس کے علاوہ ساتھ صوبائی حکومت اور محکمہ تعلیم صوبہ بھر کے
تمام پرائمری اساتذہ کو گاہے بگاہے تربیت بھی دے چکی ہے اور مزید سلسلہ بھی
جاری ہے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی محکمہ تعلیم کا صوبہ بھر کے پرائمری اساتذہ
کے لئے شرو ع کردہ پروگرام (CPD) ہے ،کہ جس کا مقصد صوبہ بھر کے پرائمری
اساتذ ہ میں پائی جانے والی ان کمیوں کو دور کرنا ہے یا پھر دوسرے الفاظ
میں کہ ان میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو سامنے لانا ہے،مذکورہ پروگرام ہر ما ہ
کے آخری ہفتے میں ترتیب دیا جائے گا اور مذکورہ دن صوبہ بھر کے تمام
پرائمری سکولوں کی باقاعدہ چھٹی ہوگی،اس بارے دارالخلافہ پشاور میں اساتذہ
کو تربیت دینے والے ایک ادارے (PITE) سے ہائی سکولوں میں پڑھانے والے
SSTاساتذہ کو تربیت دی گئی ہے،جن کا کام آگے جاکر صوبہ بھر کے پرائمری
سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو تربیت دینا ہے تاکہ ان میں پائی جانے
والی کمی کو دورکیاجاسکے اورانہیں جدید طریقہ ہائے تدریس سے متعارف کروایا
جاسکے۔تاہم باوثوق ذرائع سے معلوم ہواہے کہ محکمہ تعلیم کی مذکورہ ورکشاپ
میں ٹریننگ دینے والے اساتذہ کو متعلقہ سامان ہی مہیا نہیں کیاگیا کہ جس کی
وجہ سے اساتذہ نے خود سے میٹریل مہیا کیا جن میں مینول کاپی،چارٹس اور دیگر
سامان وغیرہ شامل تھا ،حالانکہ محکمہ تعلیم کا مذکورہ پروگرام شروع کرنے کا
بنیادی مقصد اساتذہ کو ایکٹوٹی بیسڈ لرننگ سکھانا تھا کہ جس کے لئے انہیں
مختلف قسم کے سامان کی اشد ضرورت تھی ،تاہم ٹرینر نے روایتی طریقہ ہائے
تدریس کو اپناتے ہوئے صرف اپنی ڈیوٹی پوری کی،ایسے میں محکمہ تعلیم بھلا
کیسے صوبہ بھر کے پرائمری اساتذہ سے اچھے نتائج کی توقع رکھے گی،جہاں بچہ
سکول آنے سے کتراتا ہے،جہاں بچے کے پاس پنسل کاپی وغیرہ نہیں۔کلاسز میں سو
سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں،پنکھا چلتا نہیں اور اگر غلطی سے چلتا بھی ہے تو
اس کے چلنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اساتذہ اپنی حتیٰ الوسعٰی کوشش کرتے ہیں کہ
بچے سیکھ جائیں تاہم بچوں کی جانب سے عدم دلچسپی آڑے آرہی ہے۔اور جیسا کہ
ہم اوپر ذکر کرچکے کہ موجودہ صوبائی حکومت صوبہ بھرمیں قریباً40ہزار اساتذہ
میرٹ پر بھرتی کرچکی ہے او ر جن کی اکثریت تعداد پروفیشنل ہے ،یہی اساتذہ
اعلیٰ تعلیم ہیں،قبل از سرکاری ملازمت سے صوبہ کے بہترین نجی اداروں میں
پڑھا چکے ہیں،اپنی جیب سے بچوں کے لئے کاپیاں ،یونیفارم وغیرہ بھی خرید کے
دے رہے ہیں ، بچوں میں دلچسپی بڑھانے کی غرض سے لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ کا
استعمال بھی جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا
جاسکے۔لیکن بوجوہ ان سب کے بچے پڑھائی میں اپنا مَن نہیں لگا رہے تو اس میں
بھلا بے چارے استاد کاکیا قصور ۔۔۔؟یقینا یہ باتیں سمجھنے ،سوچنے اور غور
کرنے لائق ہیں۔تاہم اس بارے سنجیدگی کا عدم مظاہرہ کرتے ہوئے محکمہ تعلیم
صرف استاد کو ہی قصور وار ٹھہراتی ہے ،اور شاید اسی لئے صوبہ بھر میں
مذکورہ پروگرام شروع کیاگیاہے،لیکن کیا چند روزہ تربیت سے اساتذہ میں چھپی
صلاحیتوں کو سامنے لایاجاسکے گا،کیا (CPD) پروگرام سے جوکہ قابل تعریف ہے
سے مذکورہ اہداف حاصل ہوپائیں گے ،تو جواب ملے گا ہرگز نہیں ،کیونکہ ایک دن
کی تربیت سے اساتذہ تھوڑا بہت تو سیکھ جائیں گے تاہم ان میں نکھار پیدا
کرنا یقینا ایک سست رفتارعمل ہے کہ جس کے لئے اساتذہ کو کم از کم چھ سے سات
ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔یوں ایک دن کی تربیت سے صرف اساتذہ ٹائم پاس پر ہی
اکتفا کرتے ہیں۔یہاں ٹائم پاس سے مراد ٹائم ضائع کرنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ
اساتذہ کو تربیت ہی دینی ہے تو صحیح معنوں میں دی جائے ناکہ استعمال شدہ
چارٹس پر انہیں روایتی طریقے سکھائے جائیں ،اس سے دنیا کی آنکھوں میں دھول
تو جھونکی جاسکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ شرح خواندگی میں بہتری آئے گی درست نہ
ہوگا۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ صوبہ بھر کے
اساتذہ کو تربیت ان کے پسندیدہ مضمون میں دی جائے کہ جنہیں وہ اچھے سے
سمجھتے ہوں اور اس کے ابجد سے خوب واقف ہوں ۔اس کے علاوہ دوران تربیت انہیں
وہ تمام چیزیں مہیا کردی جائیں کہ جس سے اساتذہ اپنی کمیوں کو آئندہ کے لئے
دور کرسکیں ۔بصورت دیگرمختلف ضرب المثال ہمیں روز سننے کوملیں گی ،کہ جیسے
’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘یا پھر ’’اب کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘‘۔ |