مزار کے اندر (حکایت)

 وہ سڑک پے کھڑی تھی اور بار بار آگے پیچھے دیکھنے کی بے قراری اس بات کا پتہ دی رہی تھی کہ اسے کسی کا انتظار ہے۔ اس کے پاس ایک رکشے والا رکا، اس سے کچھ بات کی ، وہ چلا گیا۔ شاید اس کا کرایہ طے نہ ہوا ۔ وہ پھر سے انتظار کی بے قراری لئے کھڑی ہو گئی۔ کبھی ادھر کبھی ادھر دیکھا لیکن سکون نہ ملا۔ اس کا کالا عبایا اپنے اندر ایک نو جوان لڑکی کے جسم کی نزاکت اور تیزی چھپانے میں مکمل طور پر ناکام تھا۔ بلکہ اسے دیکھ کر تو لڑکی کے قریب ہونے کا خیال اور بھی مضبوط ہوتا کہ اس سے پوچھ ہی لیا جائے کہ کیا مسئلہ ہے۔

وہ سڑک پر چلنے لگی، کبھی کبھی کوئی رکشے والا جلدی سے اس کی طرف لپکتا، وہ اس کے کان میں کچھ بات کہتی اور وہ جلدی سے اس سے دور ہو جاتا ، موٹر سائیکل کو کِک مارتا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھتا۔ حیرانی ہوتی کہ کیا معاملہ ہے ایسی اکیلی نوجوان لڑکی تو مفت بھی کہیں جانے کا کہہ دے تو نوجوان رکشے والوں کو خسارا نہ ہو گا۔

ہوا تیز چل رہی تھی ، گرد و غبار کے ڈولے، جلوس کی طرح اٹھ رہے تھے۔ اس منظر میں میچور دل بھی نوجوانی کی خو اپنا لیتے ہیں۔ میرا رستہ اتفاقاً وہی تھا جس پے وہ چل رہی تھی۔ میں تو اپنے کام جا رہا تھا مجھے اس سے کیا کام ! وقت کا تقاضا اور تناظر دونوں بہت مختلف اور بُعد پر تھے۔ میں کوئی نوجوان لڑکا نہ تھا، اور نہ ہی کوئی رکشے والا، اور نہ ہی فارغ کہ اس کے پیچھے چلتا ، ویسے بھی لڑکیوں کا پیچھا کرنا کون سا کارِ ثواب ہے ،اور شوہر لوگ تو خوب جانتے ہیں کہ اس سے بڑا گناہ ہی نہیں ہے!

لیکن دل آخر دل ہے تجسس سے بھر جائے تو معقولیت کے کناروں سے باہر اچھل جاتا ہے۔میں نیت میں کوئی خرابی لئے جہاں تک رستہ مشترک تھا اس ک تعاقب کرنے لگا یا یوں کہہ لیں کہ میری نظریں اس کا پیچا کرنے لگیں ، مجھے لگا کہ اس کا سمارٹ جسم، میری آنکھوں میں نہیں بلکہ میرے دل میں بھی سما گیا ہے۔ میں اس بات کا خیال رکھے بغیر کہ سڑک پر آنے جانے والے لوگ کیا کہیں گے اسے دور سے تکنے لگا اور کوشش کرنے لگا کہ درمیان کا فاصلہ سمٹت جائے۔ میں قدم تیزی سے بڑھانے لگا لیکن اتنا فاصلہ ضرور رکھا کہ علیحدہ علیحدہ سمجھے جائیں۔ ورنہ اس کا ردِ عمل کچھ بھی ہو سکتا تھا اور نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا تھا کیوں ایسے موقع پر ہر کوئی غیرت کا پیکر بن کر سامنے آتا ہے اگرچہ کچھ لوگ پیچھے سے بھی آ سکتے ہیں!

اتفاق سے راستے کے دائیں جانب ایک قبرستان بھی واقع تھا۔ دل کا خیال تھا کہ وہ اس قبرستان میں داخل ہو جائے لیکن کومن سنس یہی کہتی تھی کہ ایسا نہیں ہو گا وہ اکیلی قبرستان کا خطرہ مول نہیں لے گی۔ لیکن نظروں کی حیرانی انتہا کو پہنچ گئی کہ بغیر ادھر ادھر دیکھے وہ قبرستان کا رستہ اختیار کر چکی تھی۔ میرے دفتر جانے کا رستہ بھی اسی قبرستان سے گزرتا تھا لیکن میں قبرستان کی تنہائی اور کسی نامعلوم خطرے کے باعث ادھر سے شاذونادر ہی گزرا کرتا تھا۔ لیکن آج تو جیسے دل کو کوئیـ’ کنڈی‘ پڑی ہوئی تھی اور دل خود بخود قبرستان کی طرف مڑ گیا۔ اگرچہ اس راستے پر چلنا دیکھنے والوں کو شک کی دعوت دینا ہی تھا ، اور بلا وجہ اس قسم کی تہمت اپنے سر لینا تھا۔لیکن جب کسی کام میں دل چلا جائے تو اکثر سر بھی چلا ہی جاتا ہے !

وہ بے دھڑک قبرستان میں داخل ہی نہ ہوئی بلکہ اس کی چال ڈھال سے ایسے لگا کہ جیسے وہ یہاں ہی کہیں رہتی ہو کیوں کہ یہاں آ کر اس کی چال سڑک پر چلنے کی نسبت اور زیادہ آزاد اور دل ربا ہو گئی تھی۔

آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تیر رہے تھے، تیز ہوائیں بادلوں کی زلفوں سے ایسے کھیل رہی تھیں جیسے بادل نوجوان دوشیزائیں ہوں اور ہوائیں کھلنڈرے نوجوان۔ گردو غبار آسمان پر ہونے والے رومانوی واقعات کو لوگوں کی نظر میں دھول جھونک کر ان کی توجہ سے دور رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن جب کوئی حسینہ کسی نوجوان کی نظروں کو اپنے تجسس کی اسیر بنا چکی ہو تو گردوغبار سے ان نظروں کو کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہوتا !

وہ قبرستان کے مرکزی رستے پر گامزن تھی اور میرے قدم ایک کھوجی کی طرح اس کے قدموں کی پیروی کر رہے تھے۔ لیکن میں کبھی کھوجی نہیں رہا اور نہ ہی میں اس کا پیچھا کر رہا تھا ، یہ تو محض اتفاق تھا کہ میرا اور اس کا رستہ ایک ہو گیا تھا ۔یا یہ کہ میں آج اس رستے پے تھا جسے میں اکثر اپنایا نہیں کرتا تھا ۔ کبھی کبھی انسان نئے یا غیر معروف رستوں پر بھی تو چل پڑتا ہے !

دل چاہتا تھا کہ وہ مرکزی رستے سے کسی چھوٹے رستے پر ہو لے۔ کیوں اس رستے پر پھر بھی کبھی کبھی کوئی موٹر بائیک یا پیدل شخص سامنے یا پیچھے سے آ جاتا تھا جس کی وجہ سے اس کے زیادہ قریب ہونے میں بہت سے خدشات حائل ہو جاتے تھے۔ انسان کو اپنی عزت بھی تو بچانی ہوتی ہے۔ آخر ہر کام جذبات کی ڈگر پرچل کر تو نہیں کیا جا سکتا !

ادھر سوچا گیا اور اُدھر میری آنکھوں کی حیرانی ،ملٹن کے شیطان(Satan) کی حیرانی کی طرح جب اس نے حوا ؑ کو جنت میں اکیلی دیکھا،حد سے باہر ہو گئی۔ وہ اچانک ایک طرف مڑ گئی تھی جدھر کسی کا آنا جانا نہ تھا۔ وہ قبرستان کے جنگل کا وہ حصہ تھا جہاں ’وَن جسے مقامی لوگ پیلو بھی کہتے ہیں‘ کے درختوں کا ایک جھنڈ تھا اور کافی گھنا تھا ۔ پرندوں کا یہاں آنا جانا، چہچہانا اور گھر بنانا لگا رہتا۔ یہاں کچھ درویش ٹائپ لوگ بھی بعض اوقات بیٹھے رہتے اور کچھ لوگ ان کے پاس ویسے بھی گرمی کی شدت میں دوپہر کا آرام کرنے لگتے۔ اور کبھی کبھی یہاں بالکل ویرانہ ہوتا اور کوئی بھی ادھر نہ ہوتا خاص طور پر صبح صبح تو یہاں ہو کا عالم ہوتا اور لوگ اکیلے ادھر آنے سے احتراز ہی کرتے ،کیوں کہ بلا وجہ خطرے کے منہ میں جانا عقلمندی نہیں ہے!

میرا دل اس کی طرف ایسے کھنچا چلا جا رہا تھا جیسے کوئی لوہے کا ٹکڑا مقناطیس کی طرف لپکتا ہے۔ اس لمحے مجھے اپنی ذاتی حیثیت کے علاوہ ہر قسم کی سماجی، معاشی، مذہبی، اخلاقی اور کرداری حیثیت بھول چکی تھی۔ مجھے ایک عجیب و غریب قوت اپنے حصار میں لے چکی تھی، میں اب اپنے آپ میں نہ تھا کسی اور طاقت کے رحم وکرم پر تھا۔ میں اس کے پیچھے تھا ، وہ میرے آگے تھی۔ درمیان میں ہوا ، درخت، قبریں اور چند قدم کا فاصلہ تھا۔ جس کی معنویت اب ختم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ بھی ایسی بے باک تھی کہ اس نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا تھا کہ اس کے پیچھے کون آرہا ہے اور میری عقل اپنی تمام تر خیال آرائی کے باوجود یہ بات سمجھنے سے عاجز تھی کہ وہ ادھر کیا لینے جا رہی ہے ۔ شاید اس کا کوئی دوست ادھر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا ہو گا لیکن دوست کو آج کی مو بائلی دنیا میں کسی قبرستانی خندق یا درختوں کے جھنڈ میں اپنے خطرات کی اماجگاہ میں چھپ کے بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن میں بھی کسی دھکیلی جانے والی گاڑی کی طرح اس کے قدموں پر قدم ٹکائے چلاجا رہا تھا اور وہ ایک منچلی ہو کی طرح بس گھنے درختوں کی طرف لپکی جا رہی تھی۔ شاید یہ میری زندگی کی آخری ایڈونچر تھی، نوجوانی میں تو ایسی باتیں ہو سکتی تھیں لیکن ففٹی پلس ہو کر کسی نوخیز دوشیزہ کا تعاقب تمام تر زندگی کی نیک نامی کے منہ پر کالک پھیرنے سے کم نہ تھا! جس سے کوئی بھی ذی ہوش، ذی شعور اور ذی فہم انسان اتفاق نہیں کر سکتا ۔ لیکن دیوانگی اور ہو تی کیا ہے !

میں آج زندگی اور موت کے کناروں پر چل رہاتھا مجھے ان قبروں میں پڑی اپنی لاش بھی نظر آ رہی تھی۔ لیکن میں اس سے نظر چرا کر آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ مجھے یہ بھی پرواہ نہیں رہی تھی کہ کوئی میری ویڈیو ہی نہ بنا لے اور پھر ساری عمر کے لئے بلیک میل کرتا رہے۔آج تو شاید سورج غروب ہونے کے لئے نکلا ہی نہیں تھا ۔ آج کا سورج تو یومِ حشر کا سورج لگ رہا تھا اور اس کے غروب ہونے کا کم از کم مجھے خوف یا خیال نہ تھا ۔ میری ساری کی ساری توجہ اس نقاب پوش سے لپٹ چکی تھی اور وہ تھی کہ آگے سے آگے اور قبرستان کی زیادہ سے زیادہ گہرائیوں میں بلا خوف وخطر بڑھتی جا رہی تھی۔ اور میں اس کی پیروی اپنے اعصاب اور حواس پر فرض قرار دے چکا تھا!

آخر ایک سبز مزار سامنے آگیا ،وہ اس کے قریب پہنچ گئی تھی اور میں اس سے دس بارہ قدم کے فاصلے پر پیچھے تھا۔ اس نے مزار کے دروازے پر رک کر تھوڑا سا توقف کیا اور پھر دروازہ کھولا اور ایک منٹ کے لئے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر مزار کے اندر قدم ٹکا دیئے۔ دروازہ بند کر لیا ۔ میں اس دروازے کے سامنے کھڑا سوچنے لگا کہ اندر داخل ہو جاؤں یا یہاں سے واپس مڑ جاؤں۔ جتنی حماقت ہو گئی تھی اتنی ہی کافی تھی ، کسی نے چھپ کر ویڈیو بنائی بھی ہو گی تو یہاں تک کی ہی ہو گی ۔ یہاں تک تو بچت ہو سکتی ہے اس سے آگے قدم بڑھانے سے واپسی کے تمام رستے بند ہو جائیں گے۔ پھر کسی قسم کی توجیہہ اور کسی قسم کا استدلال کام نہیں آئے گا ۔ لوگ یہاں تک تو معاف کر سکتے ہیں اس سے آگے معافی نہیں جرم اور سزا کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔ میں اسی منجھدار میں غوطے کھا رہا تھا کہ اندر سے کچھ حرکت محسوس ہوئی، میں اور چوکنا ہو گیا ۔ مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ اگر وہ باہر نکل آئی تو میں اپنے جذبات کی عدالت سے سزائے موت سے کم کسی سزا کا حق دار نہیں ہوں گا۔ میرا جذبہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا کہ اتنا سنہری موقع ہاتھ سے نکال دیا اوربت بنے باہر کھڑا رہا۔ شاید وہ دوشیزہ بھی میرے اندر آنے کا انتظار کر رہی ہو ! اس خیال کے آتے ہی میرا ذہن اور دل ایک ہو گیا اور میری معقولیت کی تمام رکاوٹیں میرے جذبات کے قدموں کے آگے سے ہٹ گئے!

میں نے آرام سے دروازہ کھولا، اندر ایک قبر تھی۔ وہ قبر کے سرہانے سے سر لگائے کسی استغراق میں بیٹھی تھی۔ مزار کے اندر اندھیرا تھا ۔ آس پاس کے درختوں پر بیٹھے پرندوں کی آوازوں کے علاوہ یہاں کوئی آواز نہ تھی۔اس کی سانسوں کی ہلکی ہلکی آہٹ مزار کی چاردیواری سے ٹکرا رہی تھی۔ اس کا انداز کسی پر اسرار رومانوی حسینہ سے کم نہیں تھی، اس کا نقاب بھی اب اتر چکا تھا ، یہاں تک کہ اس کی زلفیں بھی اس کے کندھوں پر پریشان ہو چکی تھیں۔ میں کوئی رومانوی ہیرو ہرگز نہ تھا لیکن اس وقت میں ایک رومانوی کیفیت سے دوچار ضرور تھا جو میری تمام بدن میں سرایت کر چکی تھی اور میری روح کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی !

میں مزار میں داخل ہوتے وقت دروازہ کھلا چھوڑ آیا تھا ۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اٹھ کے دروازہ بند کر دوں۔ میں آرام سے بغیر آواز کے اٹھا اور دروازہ بند کر کے اس کی طرف ایک گہری نگاہ ڈالی تا کہ میری نظر کی تسکین ہو سکے۔

لیکن مزار کے اس اندھیرے میں مجھے کچھ نظر نہ آیا ، میں نے اپنی آنکھوں پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے انہیں اپنے دونوں ہاتھوں سے تھوڑا سا ملا کہ شاید نظر کی کمزوری کی وجہ سے اس اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آرہا۔ میں اپنے ذہن کی تسلی کے لئے قبر کے سرہانے کی طرف بڑھاکہ اب تو میں نے مزار کا دروازہ اندر سے لگا دیا ہے اور میری مرضی کی بغیر اسے کوئی کھول نہیں سکتا ۔ لیکن میری حیرانی پہاڑوں سے بھی اونچی ہوچکی تھی کہ وہاں کوئی وجود تھا ہی نہیں ۔

میں گھبرا گیا کہ یہ کیا ہو گیا ۔ ساری عزت و آبروکا سودا کر کے جس کا تعاقب کیا تھا وہ اپنا چہرہ دیکھائے بغیر ہی غائب بھی ہو گئی۔ میرے منہ سے ایک اونچی چیخ نکلی۔۔۔۔۔ ’ نہیں!!!!‘ لیکن اس’ نہیں ‘کے جواب میں ہر طرف سے ایک گھونجتی ہوئی آواز آئی۔۔۔۔۔ ’ہاں!!!!! میں اپنی چیخ کا جواب سن کر پہلے سے بھی زیادہ خوف زدہ ہو گیا ۔ اب میں اس مزار کی چاردیواری میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں ٹھہرنا چاہتا تھا بلکہ۔ میرا جسم ٹھنڈا ہونے لگا ۔ مجھے یقین ہو رہا تھا کہ میں اپنے ہوش و حواس برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔۔

میں بھاگ کر دروازے کی طرف گیاکہ دروازہ کھول کر یہاں سے بھاگ جاؤں اور اپنی جان بچا سکوں۔ لیکن وہاں کوئی دروازہ نہ تھا بلکہ باقی دیوار جیسی دیوار ہی تھی۔ میں نے مخالف سمت میں دیکھا کہ شاید ادھر دروازہ ہو ۔ کسی طرف بھی دروازہ نہ تھا ۔ میں نے موبائل نکال کر کسی کو فون کرنے کا سوچا لیکن میری جیب میں موبائل بھی نہ تھا شاید آج میں گھر بھول آیا تھا یا کہیں گر گیا ہو گا یا کسی فوق الفطرت طاقت نے غائب کر دیا ہو گا۔ میں اب سراپا ندامت اور حیرانی تھا !

کچھ دیر بعد وہ قبر کھلنے لگی اور میں اسے پریشانی اور بے بسی سے دیکھنے لگا کہ اب کیا ہوتا ہے۔ وہ قبر سر سے پاؤں تک کھل گئی۔ وہ اندر سے خالی تھی۔ مجھے ایک طاقت دھکیل کر قبر کے اندر لے گئی۔ اور اس میں لٹا دیا ۔ میں لیٹنے کی بجائے باہر جانا چاہتا تھا لیکن کسی طاقت کے حکم کے تحت مجھے انکار کی سکت نہ تھی۔ میرے قبر میں لیٹ جانے پر وہ قبر بند ہونا شروع ہو گئی اور میری تمام تر چیخ و پکار کے باوجود وہ آہستہ آہستہ جیسے جیسے کھلی تھی ویسے ویسے بند ہو تی گئی اور میں اس قبر میں دفن ہو چکا تھا لیکن عجیب بات ہوئی کہ قبر کے اندر ہونے کے باوجود میں باہر کی ساری چیزیں بھی دیکھ سکتا تھا۔لیکن اب دیکھنے کا کیا فائدہ !

میں دیکھ رہا تھا کہ وہی لڑکی اب میری قبر کے سرہانے سے اٹھ کر باہر جانے لگی تھی۔ دروازہ بھی موجود تھا اور وہ ہوا کی سی آسانی سے قبرستان سے گزرتی ہوئی سڑک کی جانب جا رہی تھی !!!!

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 312971 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More