وہ پہلے بٹوارے کے ٹھیک اکتالیس اور دوسرے کے سترہ برس
بعد پیدا ہوا ، دوسرے کو تو کچھ بٹوارا مانتے ہی نہیں ، کو ئی مانے نہ مانے
یہ واقعات تو اُس کے دل و دما غ پر ایسے نقش تھے گویا وہ یکتا چشم دید گواہ
ہو اور کسی بھی وقت قاضی کے حضور طلبی کی صورت میں اُسے ان واقعات کو من و
عن دہرانے کا حکم ملا ہی چا ہتا ہو۔ ابھی اوسط انسانی عمر کے نصف میں بھی
نہ پہنچا تھا لیکن کتنے ہی دن بے چین ، کتنی ہی راتیں بٹوارے کے پالے روگ
کی وجہ سے سو نہ سکا ۔ تقسیم کے واقعات پر اب توعکس بندی خال ہی ہو تی ،لیکن
اُس نے تو کو ئی پرانی فلم بھی اس حوالے سے نہ دیکھی تھی ، ایسے شوق ہی کب
پالے ، یوں کہہ لیجئے اپنے ہم عمر جیسے مشا غل کبھی رہے ہی نہ تھے ، سکول
کی چھٹی کے بعدلڑکے بالے ٹولیو ں کی صورت میں آوارہ گردی کے بھی پروگرام
بناتے مگر وہ ان سے بھی گریزاں ہی رہتا ۔ بچپن سے ہی اُس کے شوق عمر سے
مطابقت نہ رکھتے تھے ،کھلو نوں کی عمر میں کتا بیں لے کر بیٹھ جا تاتھا ،کیا
پڑھتا کیا سمجھ آتا کچھ کہنا مشکل تھا ، تقسیم پر ہو نے والے واقعات پر
لکھے گئے افسا نے بالی عمر میں پڑھ یا حفظ کر لیے تھے لیکن اُن کا بھی ایسا
اثر کیسے ہو سکتا ہے۔جب تک اُسے دورہ نہ پڑتا اُس سے بڑھ کر مہذب ، نرم گو
اور مودب کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا ،لیکن جیسے ہی بٹوارے کا دورہ پڑتا پھر
سبھی کچھ ممکن تھا ۔
گندمی رنگت ، تیکھے نقوش ،گھنگھر یالے بالو ں اور صاف ستھرے ملبوس میں رہنے
والا وہ ایسا عجیب الحال شخص تھا کہ اپنی پیدائش سے قبل وقوع پذیر ہو نے
والے واقعات کا بھی مشا ہدہ کُھلی آنکھو ں کے ساتھ کر سکتا تھا ، اکثر وہ
محسوس کرتا کہ اُس نے ریلوے ا سٹیشن پر بلو ائیو ں سے دس باکرہ عورتو ں کو
تن تنہا بچا یا تھا اور اُن کی پتھر ہو تی آنکھو ں نے جسے مہربان فرشتے سے
تعبیر کیا تھا وہ وہی تو تھا ، ایک بازو پر کسی تیز دھار آلے کا گھاؤ تھا ،
شا ید پیدا ئشی ہو، مگر اُسے لگتا کہ یہ زخم بٹوارے کی دین ہے، اس پر
غیرارادی طور پر بھی ہاتھ لگ جانے کی صورت ، تخیل میں اپنے سامنے نعرے بلند
کرتے ہو ئے مسلح لوگو ں کا جتھہ دیکھ سکتا تھا ۔نعروں کا مفہوم تو اُسے
سمجھ نہ آتا مگر غصے اور جذبات کی شدت سے سرخ ہوتے چہروں پر الفاظ لا تعلق
ٹھہرتے ہیں۔اس عجیب کیفیت پر پریشان ہو نے میں حق بجانب تھا کیونکہ عقیدے
کے اعتبار سے وہ ایسا شخص تھا جو ایک سے زیادہ جنم کا قائل ہرگز نہ تھا۔
یہ بستی ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ دو، تین کلو میڑ مشرق سے مغرب کی طرف
چلتی تھی، ایسی بستی والو ں کو ٹرین کی آوازیں شور وغل محسوس نہیں ہو تیں
کیونکہ یہ آواز اُن کی سما عتوں سے ہو کر اعصاب میں رچ بس جانے کی وجہ سے
آرام میں مخل نہیں ہوتی ، بچپن اسی ٹرین والی بستی میں بیتا نے کے باوجود
بھی وہ ریل کے سفر سے یکسر قاصر ٹھہرتا ، ٹرین پاس سے بھی گزر جا تی تو خوف
کے سا ئے آنکھوں میں لہرانے لگتے ، مگرپھر بھی سارا دن وہ پٹری کے پاس
گھومتا رہتا، ریل کے ڈبو ں میں کٹے پھٹے لا شے اُس کو چڑچڑاتے ، ڈبے کے
دروازے سے رِستا ہوا پانی ، جو اکثر ٹرینو ں کے نیم وا دروازوں کا خاصہ ہو
تا ہے ،لمبے دانتو ں والی چڑیل کے منہ سے نکلنے والا خون محسوس ہوتا ۔اسی
خوف کے عالم میں وہ پٹری پر دیوا نہ وار بھا گنا شروع کر دیتا، کبھی کبھی
تو بلند آواز سے صدائیں دینے لگتا ، وہ آرہے ہیں اس دھرتی کو بچاو ، میرے
لو گو ں کو بچا و ، وہ پھر سے آرہے ہیں۔
بستی والے اُسے بٹوارے کا مریض ہی کہتے اور شاید ایسا غلط بھی نہ تھا کیو
نکہ جیسی تصویر کشی وہ مجذوبانہ حالت میں کرتا ویسی تو بڑے بزرگ بھی نہ کر
پا تے ، جن کی یہ ہڈ بیتیا ں تھیں ۔گھر والو ں نے اپنی بسا ط کے مطا بق کو
ئی ڈاکڑ ،حکیم ،پیر و فقیر ،آستا نے اور خانقا ہیں تک نہ چھو ڑیں جہا ں اُس
کا علا ج نہ کروایا ہو ۔ کو ئی کہتا آپ کا لڑکا غیر معمولی صلا حیتوں کا ما
لک ہے اس کی تعلیم و تربیت کا منا سب اہتما م کیا جا ئے تو فردا میں یہ
لڑکا نامی گرامی شخصیت بن جا ئے گا ،کو ئی کہتا کہ اس پر جنا ت کا سا یہ ہے
، ایک نوسر باز نے تو علا ج کی آڑ میں اُس کی کمر لو ہے کے راڈ سے داغ دی ،
گندمی مائل کمر پر وہ نشان اتنے واضح تو نہ ہو تے لیکن کبھی کبھا ر حبس کے
موسم میں جب وہ بِنا کُرتے پٹری پر دیوانہ وار بھاگتا تو دھوپ سے یہ نشان
چمکنے لگتے جیسے کسی بھٹی میں لو ہے کو کندن بنا یا جا رہا ہو ۔بستی میں
ایسے لوگو ں کی بھی کمی نہ تھی جو اُسے معتبر ہستی سمجھتے ہوئے اپنے لیے
باعث رحمت گردانتے اور جہا ں تک اُن سے بن پاتا خاطر داری کرتے ، موسم کی
مناسبت سے ٹھنڈے ، گرم مشروبات سے توا ضع کی جاتی ، عمدہ کھانے پیش کیے جا
تے ،بدلے میں دعا کی استدعا ہوتی ۔ نجا نے اُسے لوگو ں کی باتیں سمجھ بھی
آتی تھیں کہ نہیں، کیو نکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دورے زیا دہ تسلسل اور
طویل دورانیے کے پڑنے لگے تھے ۔اب وہ بیشتر وقت ٹرین کی پٹری کے پاس ہی
موسم کی سختیوں سے ماوارا ہو کر گزار دیتا۔
خبر نامے اور اخبار سے اپنے مطلب کی باتیں نکالنے میں ملکہ رکھتا تھا، ایسی
کو ئی خبر سن لیتا تو سارا دن اُس کا ورد کرتا رہتا ، کہیں کو ئی علیحدگی
تحریک کی بات چلتی ، صو بائی یا لسا نی تعصب کی بات ہو تی تو وہ بے چین ہو
جاتا، سارا دن بلند آواز میں چو راہے پر کھڑا ہر آتے جاتے کو تشویشناک
انداز میں خبریں سناتا ۔کبھی کبھار سویرے سویرے گلیو ں میں صدا لگاتا
،گھروں میں بے خبر سونے والو ،تم کیا جانو ، کیمپ کی زندگی کیسی ہو تی ہے
،جب گھر ، کھیت ، مال ڈنگر ،چو ک چوارہو ں کے بٹوارے ہو تے ہیں تب احساس
مردہ ہو جاتے ہیں ،ہجرت لازم ٹھہر جاتی ہے ، مہاجر کیمپ آباد ہو جا تے ہیں
،تم کیا سمجھو گے جب کیمپ میں رات آتی ہے تو کتنی وحشت لا تی ہے ، مجھ سے
پوچھو میں کتنے سو برس کیمپ میں رہا ہو ں ، لیکن تم کیا سمجھو گے بستی والو
! تم سوتے رہو آرام سے ، یاد رکھنا جب بٹوارے ہوتے ہیں تو سب سے ارزاں جنس
عورت ٹھہرتی ہے ، کیا بھو ل گئے میرا بھی گھرانہ تھا ، میرے ہا ں بھی
رونقیں تھیں ۔آبادی کے سکول جانے والے بچے کبھی سہم جاتے کبھی ہنستے کیونکہ
وہ سب جانتے تھے کہ وہ تو پہلے بٹوارے کے اکتا لیس اور دوسرے کے سترہ برس
بعد پیدا ہوا تھا ۔
صوبا ئی عصبیت زور پکڑنے لگی ، سیاست دانو ں کے منہ میں گویا کسی نے لسا نی
زہر کی توپ فٹ کردی تھی جب منہ کُھلتا زہر اُگلنا شروع ہو جا تا ۔کسی ایک
علاقے کے ساتھ خاص نہ تھا ، ہر جگہ ایسے ہی واقعات روز ،تواتر کے ساتھ ہو
نے لگے ۔انتخابات کا برس تھا اس لیے ہر کو ئی اپنے مخصوص عوام کی ہمدردیا ں
لینے کے لیے ہر سطح پر جانے کو تیا ر تھا ۔اس وقتی فائدے کے لیے ملکی مفا د
بھلے سے بھاڑ میں جا ئے یا جہاں دل کرے ،وہا ں جا ئے اُنہیں کو ئی سروکار
نہیں تھا۔ عوام وخواص میں الیکشن کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا تھا،سیا ست دانو
ں کے کھو کھلے ، لفا ظی سے بھرے بلند و بانگ نعرے اپنا کام دِکھا رہے تھے ،
جیسے کسی نے پوری قوم کو سحر میں مبتلا کر دیا ہو ۔ لوگ اپنی محنت مزدوری
چھو ڑ کر جلسو ں میں جانے کو ترجیح دیتے، کیو نکہ خوابوں کے محل اس
خوبصورتی سے تعمیرکیے گئے تھے کہ اُنہیں لگتا کہ اب کی بار الیکشن ہو جا
ئیں تو انقلا ب آجا وے گا ، تقدیر بدل جا ئے گی ، اُن کے ووٹ کو سونے کے
ترازو میں تول کر انمول کیا جا رہا تھا ، ایسے میں عوام چند دن کے لیے ہی
سہی خود کو خواص سمجھنے اور مبتلاِفریب ہونے میں حق بجانب تھے ۔
اس گہما گہمی کے ماحول میں بستی والے بٹوارے کے مریض کو بھی بھو ل گئے ، جس
میں اُن کا کو ئی قصور نہ تھا کیو نکہ اب اُن کے پاس زیا دہ دلچسپ با تیں
سنا نے والے لوگ موجود تھے ، وہ انتخابات کے اگلے دن کا منظر سوچ کر اپنے
وقتی جنون اور خوشی کو پھیکا کرنے کے لیے تیا ر ہرگز نہ تھے ۔ اُدھر بٹوارے
کے مریض کی حالت دن بدن خراب ہو تی جا رہی تھی ، وہ نادان یہ کیسے سمجھ
سکتا تھا کہ صوبائی اور لسانی عصبیت کی باتیں محض ووٹ حاصل کرنے کے لیے کی
جا رہی ہیں۔ وہ ان باتو ں کو سنتا تو دورہ پڑجا تا اور دیوانہ وار پٹری کی
طرف بھا گنے لگتا۔اُس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا ، گلی کی نکڑ پر پان والے کی
دوکان پر لگے جہازی سائز کے ٹی وی پر ایک جلسے کی لا ئیو کو ریج چل رہی تھی
جب کسی مفاد پرست سیاست دان نے قوم پرستی کا لبادے اُوڑھے بانگ بلند رعونت
سے کہا اگر ہمارے لوگو ں کو حقو ق نہ دئیے گئے ، اور امتیا زی سلوک بند نہ
ہوا تو ہم الگ ملک بنا لیں گے ، یہ سننا ہی تھا کہ اُسے قے آگئی ، پیٹ میں
بل پڑنے لگا ، دورہ اب کی بار شدیدتھا ، لوگ انہماک سے جلسہ سننے میں مصروف
رہے۔ وہ پٹری کی طرف بھا گا، آج کی باتوں نے اُس کے قلب و ذہن پر کاری وار
کیا وہ صدائیں لگا رہا تھا ،میرا ملک بچا و ، یہ کیا جانیں بٹوارہ کیا ہو
تا ہے ، میرے لوگو ں کو ان بھیڑیو ں سے بچا ؤ ، اُس کے قدم لڑکھڑائے اور
پٹری کے عین اُوپر گرگیا ، ٹرین ڈرائیو ر کے پاس عموما ایسے موقعوں پر بریک
لگانے کی مہلت نہیں ہو تی ۔ لوگ پاوں لڑکھڑا کر اُوندھے منہ گر جانے کو موت
کی وجہ سمجھ رہے تھے ، کسی کو اُس ابن الوقت سیا ست دان کا خیا ل نہ آیا جو
اب بھی پورے جوش کے ساتھ تقریر کر رہا تھا اور عوام ڈھول کی تھاپ پر رقصاں
تھے ۔ |