کچھ لوگ سچے ہوتے ہیں ، من سے سچے ہوتے ہیں ۔ اور وہ
دنیا کی حقیقتوں کو سوانح عمری کی وجہ سے اتنی باریک بینی سے جانچ لیتے ہیں
کہ انہیں زخم کھانے اور مشکلات سے لڑنے میں مزہ آنے لگتا ہے اور ایسے ہی
عمر گزار دیتے ہیں ۔ عاصم تنہا کا انتہائی خوبصورت شعر ہے
بھلا دیا نہ کہیں جاؤں میں ، اسی لئے تو
ہر ایک شخص سے رشتہ کمال رکھا ہے
بس امید ناز پہ عمر گزار دیتے ہیں ۔ یہ نہیں کہ انسان نہیں اور سینے میں دل
نہیں رکھتے لیکن یہ سب زبان نبھانے کی خاطر کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی
حساسیت اور قوت برداشت انتہا درجے کو چھو رہی ہوتی ہے ، وہ کچھ نہ بتا کر
بھی سب کہہ جاتے ہیں ۔ اگر کوئی فلسفہ سمجھ آتا ہے تو صرف حقیقت کا ، لیکن
خیالوں کی دنیا میں جینا بھی ان کے لئے مرہم ثابت ہوتا ہے جو دنیا کی
حقیقتوں کے زخم لئے پھرتے ہیں اتنی پیچیدہ شخصیت کے مالک ہوتے ہیں کہ کوئی
چاہ کر بھی ان میں گھس نہیں سکتا ، جان نہیں سکتا ہاں مگر ایسے لوگوں کے
الفاظ ان کی پہچان کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ حال ہی میں ایک نوجوان شاعر رمضان
نجمی کا دوسرا شعری مجموعہ’’ دھوپ میں بارش ‘‘مجھے موصول ہوا ہے جس کی
اشاعت پر میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ اور مجھے اپنی اس خوشی میں
یاد رکھنے کیلئے اس کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔یہ مجموعہ پڑھ کر مجھے
رمضان نجمی کی شخصیت میں حقیقت پسندی ، اصول پرستی ، رشتوں کا پالنہار ،
فرض شناسی ، محبت ، حساسیت اور بلا کی مضبوطی نظر آئی ۔ ایک شخص جو قربانی
دینا بھی جانتا ہے اور زبان نبھانا بھی اسے اچھے سے آتا ہے ۔اسے زندگی کا
کوئی سانحہ نہیں توڑ پایا لیکن محبت کبھی کبھار مجبور کر دیتی ہے اور اشک
بہہ نکلتے ہیں ، لیکن وہ ان اشکوں کی لڑائی میں اپنا دامن تو بھگو لیتا ہے
مگر گلہ نہیں کرتا ۔ ہر نوجوان کی زندگی میں ایک عمر آتی ہے جب وہ محبت کر
بیٹھتا ہے لیکن ان کی حساسیت کی بدولت ہی محبت کی خوبصورتی واضح ہوتی ہے ۔
ایک سچے اور اصول پرست انسان کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو اپنے
قریب لائے ، بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں ان کی دوستی نصیب ہوتی ہے
، کیونکہ جب وہ ہاتھ تھام لیں تو آخر تک نبھاتے ہیں لیکن اس میں زور
زبردستی نہیں ہوتی بلکہ محبت کا عنصر شامل ہوتا ہے ۔ انتہائی غیر مضر سے
انسان ہوتے ہیں ایسے جو ہر بات پر اپنی قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں ۔ اور
زمانے والے ہر موڑ پر زخم دیتے ہیں چلے جاتے ہیں ، حساسیت کے عالم میں کچھ
لفظ نکلتے ہیں ، چشم تر ہوتی ہے اور پھر سیاہی کے ساتھ خشک ہو جاتی ہے ۔
کوئی شخص رمضان نجمی کی زندگی میں بھی آیا تھا لیکن اس کی خاطر ہی اس نے
اپنی محبت کی قربانی دے دی ، اور آج تک گلہ نہیں کیا ۔ یہ اس کے لفظ بتاتے
ہیں کہ جب وہ امید باندھے ہوئے ہے :
مانگ لوں گا میں تجھے اس پر خدا سے
جس گھڑی ہو دھوپ میں بارش برستی
محبت کی قربانی دی اور رشتے نبھا رہا ہے ۔ انسان چاہے جتنا بھی سنبھل لے
لیکن یہ محبت جانے کیا ہے کہ ہو کر رہتی ہے اور معلوم بھی نہیں ہوتا ۔ اس
خودکار چیز کو بھلا کوئی روک سکا ہے ؟ ہاں مگر اسے برداشت کرنا اور اس کے
زخموں کی ٹیسوں کو برداشت کرنے کا فن بھی رمضان نجمی کے پاس ہے۔کہتاہے :
پگڑی میں نے سنبھال رکھی ہے
جسم پہ سر نہیں رہا ویسے
کیا گنوایا ہے عشق میں ہم نے
رہنے کو گھر نہیں رہا ویسے
رمضان نجمی چاہے جتنا بھی اصول پرست ہے ، مضبوط ہے لیکن اس کا لہجہ اب زخمی
ہو چکا ہے ۔جب ہجر کا خمار اس کے سر کو چڑھتا ہے تو دھاڑے مارتے الفاظ
نکلتے ہیں ۔ کوئی شخص اتنا ذہین نہ ہو کہ اسے باتوں کو بھول جانے میں
دشواری ہو۔ اس کے دماغ میں وہ یادوں کے منظر ہر وقت اس طرح گھومیں کہ لو لو
چیخ اٹھے :
بیٹھا ہوں یادوں کو کفن دے کر
لوگ آتے نہیں جنازوں پر
ایک اور شعر ملاحظہ ہو کہ :
تمہیں رونا نہیں آتا کسی کی یاد میں بادل
کسی دن پھر چلے آنا تمہیں رونا سکھائیں گے
رمضان نجمی امید کو تھامے نوجوانو ں کیلئے سراپا پیغام بن گیا ہے ۔ اس نے
بتایا ہے کہ محبت فقط کرتے جانے کا نام ہے ، پالینے کا نام نہیں ہے ، اس نے
بتایا ہے کہ چاہے مشکل سے مشکل ہی کیوں نہ ہو زندگی نے گزر جانا ہے لیکن سب
سے بڑا نام دوسروں کو راحت دینے میں ہے ، صبر کرنے اور ایثار کرنے میں ہے ۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ رمضان نجمی کی اس امید کو کبھی نہ توڑے اور وہ اسی
طرح ہم سب کے درمیان رہے ۔ آخر میں اس کے چند اشعار پیش کرنا چاہوں گا :
کہاں دشت میں اب دلاسا ملے گا
جو بھی ملے گاوہ پیاسا ملے گا
اسی آس پہ گھر سے نکلے ہیں تنہا
کوئی تو ہمیں بھی شناسا ملے گا
کرو گے بھلا جان کر کیا ہمیں تم
تمہیں بس غموں کا اثاثہ ملے گا
کبھی لفظ میرے سمجھ کے جو پڑھنا
مری زندگی کا خلاصہ ملے گا
|