مزدوروں کو ان کا حق دو ان کے اوقات کار میں کمی کردو اور
ان کی تنخواہوں میں اضافہ کردو . یہ وہ نعرے تھے جو مختلف بینرز پر درج تھے
اور مختلف ریلیوں میں شامل افراد یہی نعرے بھی لگا ر ہے تھے جبکہ یہ نعرے
لگانے والے صاحبان تھے .ھم بھی ٹھہرے قلم کے مزدور ، سو ان کے مطالبات کی
کوریج کیلئے گرمی میں خوار ہوتے رہے تین مختلف پروگرام یوم مئی کے حوالے سے
اٹینڈ کئے لیکن مزے کی بات کہ مزدور کوئی بھی نہیں تھا..
پہلی ریلی باچا خان چوک سے نکالی گئی جس میں تقریبا تیس افراد نے شرکت کی
جو کہ بیشتر سی اینڈ ڈبلیو کے ملازمین تھے نعرے بازی انہوں نے خوب کی اور
روڈ بھی بلاک کردیا . نعرے بازی کی فلم ہمارے کیمرہ مین دوستوں نے بھی خوب
بنائی بعض نعرے بازوں کو یہ کہہ کر مزید نعرے لگانے پر مجبور کردیا کہ نعرے
ضروری ہیں اور ہر کوئی نعرے لگاتا رہا لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مزدور
کدھر ہیں. کیونکہ سی اینڈ ڈبلیو کے ان ملازمین جو کہ پی ڈبلیو ڈی کے بینر
تلے نعرے لگا رہے تھے ان کی اپنی تنخواہیں بیس سے پچیس ہزار روپے تھی اور
یہ صبح نو بجے سے شام چار بجے تک کے ملازمین تھے.جب میں نے ان سے سوال کیا
کہ آپ کے اوقات کار کتنے ہیں تو پتہ چلا کہ آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کرتے ہیں جب ان
سے یہ سوال کیا کہ آپ کے پاس کارکن کتنے تھے تو آئیں بائیں شائیں.. تعداد
وہ پوری نہیں بتا سکے..ایک صاحب جو کیمرے کے سامنے آنے کے بعد شوقین تھے نے
کہہ دیا کہ انڈسٹریل اسٹیٹ میں ملازمین کیساتھ بہت ظلم ہوتا ہے جب میں نے
ان سے سوال کیا کہ کیا کوئی تعداد بتا سکتے ہیں کہ انڈسٹریل سٹیٹ پشاور میں
کتنے مزدور کام کررہے ہیں ان کی تنخواہیں کتنی ہیں اور ابھی آپ کے پاس اس
ریلی میں کتنے مزدور ہیں.. تو خیر خیریت.. بعد میں ہمارے فارغ ہونے کے بعد
مظاہرے میں شامل افراد جو گرمی سے پریشان تھے نے مفتی محمود فلائی اورز کے
نیچے نعرے بازی کی کیونکہ یہاں پر سایہ تھا .. جس کے بعد ان کے اپنے
ساتھیوں نے ان کی تصاویر لی کہ صاحبان نعرے بازی کررہے ہیں اور پھر ہمارے
سامنے ہی یہ صاحب لوگ بینر کو لپیٹ کر چلتے بنے..
دوسرا جلسہ یوم مئی کے حوالے سے ہائیڈرو یونین کا ہوا جس میں پیسکو کے
ملازمین نے شرکت کی . سمجھ نہیں آتا کہ انہیں اس موقع پر جلسے کا خیال کیوں
آتاہے کیونکہ یہ تو وہ مزدور ہیں جن کے بجلی کے بل بھی معاف ہیں اور ہزاروں
روپے کے بل غریب صارفین کے بل میں ڈالے جاتے ہیں جبکہ بعض نے تواپنے بجلی
کے کنکشن پڑوسیوں کو بھی دے رکھے ہیں.یہاں بھی مزدوروں کو حق دو ، اوقات
کار میں کمی کردو کے نعرے سننے کو ملے.. واہ واہ ہوئی ، صحافیوں نے تصاویر
بنا لی ، چائے پی لی اور سب کچھ ختم.
پھر ایک اور تقریب کی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں صوبے کے ایک سابق
وزیر بھی مزدوروں کے حق میں تقریر کرتے دکھائی دئیے.یہ الگ بات کہ قلم کا
مزدور اس کے آگے مائیک اٹھائے کھڑا تھا . اتنی لمبی تقریر موصوف نے کی تھی
کہ مائیک اٹھانے والے صاحب کا منہ بن گیا تھا کیونکہ ہاتھ تھک گیا تھا لیکن
صاحب کی تقریر ختم نہیں..حالانکہ انہی کے دور حکومت ہے انہوں نے مزدوروں
کیلئے کچھ نہیں کیا لیکن..چونکہ لیبر ڈے تھا ان کی تصاویر اچھی آئی..
دفتر سے نکل کر ایک دوست کی ہوٹل پر چلا گیا جہاں پر چائے پی رہا تھا کہ
چودہ سال کا ایک لڑکا صفائی کرتے ہوئے آیا اور اس سے بات کی تھی تو پتہ چلا
کہ اسے نہ تو مزدور ڈے کا پتہ ہے اور نہ ہی اس کے اوقات کار میں کوئی کمی
آئی ہے-بحیثیت صحافی میں نے اپنی مزدوری تو کھری کرلی تھی لیکن ان مزدوروں
کی حالت زار کا کسی کو پتہ ہے .یقیناًنہیں نہ تو میڈیا اس حوالے سے آواز
اٹھا رہا ہے کیونکہ جو سچ ہے وہ پردوں میں چھپایا گیا ہے جبکہ جو جھوٹ ہے
اسے ہرکوئی سامنے لانے کیلئے کوشاں ہیں.مجھ سمیت ہر صحافی رپورٹ ، پیکج ،
خبر بنا رہا ہے مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے لیکن اس میں کوئی جان نہیں
کیونکہ اس میں مزدور کہیں پر نہیں ، یہی صورتحال مزدوروں کے عالمی دن کے
موقع پر ہونیوالے تقریبات میں ہے ، نہ تو ریلیوں میں نعرے لگانے والے پانچ
سو روپے کے مزدور ہیں نہ ہی ان کے اوقات کار آٹھ گھنٹے سے زائد ہیں اسی وجہ
سے ان کے نعروں میں بھی دم نہیں.. لیکن چھوڑیں جی..
بحیثیت صحافی میری مزدوری لگ گئی ، کچھ صحافیوں کی دیہاڑی لگ گئی اور رہ
گئے لیڈر اور رہنما ، تو ان کی تصاویر ، پیکجز ٹی وی چینل اور اخبارات میں
چل گئے . مزدور کا کیا کرنا ہے ایک نہیں تو کوئی اور . یہ کم تھوڑی ہونگے..
|