ہماری بیشتر زندگی اِسی میں گزر جاتی ہے کہ "لوگ کیا کہیں
گے" جبکہ میرا خیال ہے کہ آپ بھی تو کُچھ کہیں یا لوگ ہی کہتے رہیں گے اور
اسی فقرے کے گرد گھومتے گھومتے زندگی کا آخری لمحہ آجاتا ہے اور کھیل ختم
ہو جاتا ہے اسی مناسبت سے شعر یاد آیا
عقل کے سوگ مار دیتے ہیں
عشق کے روگ مار دیتے
اب خود تو کوئ نہیں مرتا
دوسرے لوگ مار دیتے ہیں
آپ زرا غور کریں ہمارا لباس ہماری رہائیش اور تقریبات سب اس کے تحت ہوتے
ہیں یہاں تک کہ ہماری سوچ کا یہ انداز مزہبی فرائیض اور رسومات تک میں داخل
ہو چُکا ہےاور ایک دن انسان عابدہ پروین کی طرح کہ اُٹھتا ہے
ارے لوگو تمہارا کیا
میں جانوں میرا خُدا جانے
مگر یہ کہنے کے بعد ایسے لوگوں کے پیچھے خلقت ڈنڈا اُٹھاے پیچھے پڑ جاتی ہے
کہ اس کو راہ راست پر لا کر ہی چھوڑیں گے اس میں اپنی سوچ کیسے آی اور
کس سے پوچھ کر آی
کسی کا حکم ہے ساری ہوایں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتایں
کہ انُ کا سمت کیا ہے
ہواوں کو بتانا یہ بھی ہو گا
چلینگی تو کیا رفتار ہو گی
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
اور یہی لوگ جن کی باتیں بنانے کے خوف سے آپ مرے جا رہے تھے وہ بیچ چوراہے
پر نہ صرف آپ کا کچا چھٹا اور نہ جانے کیا کچھ کھول کر رکھ دیں اور آپ اپنا
پٹھا سیلاتے رہ جایں گے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وقت بدلتا ہے اور جب آپ پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں
تو وہ لوگ ہی نہیں رہتے جن کے لیے آپ نے سہا ہوتا ہے اُدھار لے کر بھرم
رکھا ہوتا ہے
یہ کہانی کب اور کہاں جا کر رُکے گی کب تک دکھاوے کے لیے اپنی اور دوسروں
کی زندگی مشکل بناتے رہیں گے اور مفت کے بوجھ اُٹھاتے رہیں گے اور اُس کے
بعد بھی لوگوں کی زبانیں کونسا بند ہو جانی ہے اور ہم سراب کے پیچھے بھاگتے
بھاگتے ایک دن خود سراب نہ ہو جائیں
شائد ہم بے چین ہیں اور ہم اپنی بے چینی کا حل باہر تلاش کر رہے ہوتے ہیں
جبکہ حل کہیں آپ کے اندر چُھپا ہوتا ہے اور خوشی اندر سے ہی آتی ہے اور جو
اندر سے سکون پکڑ لے پھر باہر کی دنیا پریشان نہیں کرتی جسے جو کہنا ہے
کہتا رہے جو ہو رہا ہے ہوتا رہے اور یہ دنیا جنت لگنے لگتی ہے
فادخلی فی عبادی
وادخلی جنتی
|