انسان پر اﷲ رب العزت کے بے شمار نعمتیں ہیں، جس کو
انسان شمار بھی نہیں کرسکتا ، انسان پیداہونے سے لیکر قبر کی اغوش تک اﷲ
تعالیٰ کی لاتعداد نعمتوں سے مستفید ہوتا ہیں، انسان کو پورا وجود اﷲ تعالیٰ
کے انعامات کا مظہر اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے بے کراں احسان وانعام کا
احساس دلاتا ہے، اﷲ تعالیٰ کے بے شمار نعمتوں میں سے ایک اور اہم نعمت
’’پانی ‘‘بھی ہے ۔ پانی اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، پانی پر انسان کی
بقا اور حیات موقوف ہے انسان کو پانی کی قدر اس وقت پتا چلتی ہے جب وہ پیاس
میں مبتلا ہوجاتا ہے، پانی جس کے بغیر دنیامیں جاندار کا تصور ناممکن ہے ۔
پانی کتنی بڑی عظیم نعمت ہے،اس پر ایک چھوٹا سہ واقعہ نقل کرتا ہوں۔ابن
سماک ؒ جو اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اور محدث تھے، انہوں نے ایک مرتبہ
خلیفہ ہارون رشید کو دیکھا کہ وہ سخت پیاس کی حالت میں پینے کے لئے پانی
ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں اور پانی کا گلاس منہ سے لگانے ہی والے ہیں۔ابن
سماک ؒ نے آواز دی: اے امیر المومنین!میں آپ کو اﷲ کی قسم دیتا ہوں کہ
تھوڑی دیر پانی پینے سے رک جائیں،جب ہارون رشید نے پانی کاپیالہ زمین پر
رکھ دیا تو ابن سماک ؒ نے عر ض کیا:میں آ پ کو اﷲ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں
کہ اگر آپ پانی کے اس گھونٹ سے روک دیا جائے تو آپ کتنی قیمت دے کر اسے
خریدیں گے؟ہارون رشید نے جواب دیا کہ اپنی آدھی سلطنت دے کر خرید لوں
گا۔ابن سماکؒ نے کہا: اﷲ تعالی آپ کو خیر و مسرت کے ساتھ رکھے! پانی پی
لیجئے۔جب ہارون رشید پانی پی چکے تو ابن سماکؒ نے کہا:میں آپ کواﷲ کی قسم
دے کر پوچھتا ہوں کہ اگر پیٹ سے یہ پانی نہ نکلے (پیشاب نہ ہو) تو کتنی
قیمت کے عوض اس کو نکالنے کا علاج کرائیں گے؟ہارون رشیدنے کہا:اپنی آدھی
سلطنت کی دولت اس کے علاج میں لگا دوں گا۔ابن سماک ؒ نے کہا:اے امیر
المومنین پھر اس سلطنت کو آپ کیا کریں گے کہ پانی کاایک گھونٹ اس سے زیادہ
قیمتی ہے۔(سنہرے اوراق:327)
قارئین : بلاشبہ پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ لیکن اس وقت کراچی کے بیشتر
علاقوں میں نایاب ہوتا جارہا ہے یا یوں بھی کہا جائے تو شائد غلط نہ ہو کے
نایاب کیا جارہاہے۔
روشنیوں کے شہر کراچی کے باسی پہلے ہی ان گنت مسائل سے دوچار ہے، مثلاً
ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ابلتے ہوئے گٹر ، بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ جیسے
مسائل کے بعد پانی کی قلت آب نے کراچی کے شہریوں کے مسائل میں بے پناہ
اضافہ کردیا ہے، پانی جس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں ، پانی کے لیے انسان
اپنی آدھی سلطنت تک دینے کو تیار ہے ،جیسے درج بالا میں تحریر کیا کہ کیسے
ہارون الرشید اپنی آدھی سلطنت پانی کے لیے قربان کرنے پر تیار ہوتا ہیں۔
کراچی کے بیشتر علاقوں میں ان دنوں پانی کا قلت بحران کی شکل اختیار کرچکا
ہے ، ان علاقوں میں اورنگی ٹاون ، سائٹ ٹاؤن ، بلدیہ ٹاؤن کے کئی علاقے
شامل ہے ، اس کے ساتھ پوش علاقے مثلاً گذری ،گلشن جمال ،گلستان جوہر کے کچھ
علاقے، گلشن اقبال کے کچھ بلاکس ، اس طرح بفرزون ، نیو کراچی ، کورنگی کے
کچھ ایریاز ،لانڈھی اور بھی کئی علاقے کراچی کے جہاں ان دنوں پانی کا شدید
بحران ہے ۔
کراچی کوکینجر جھیل ٹھٹھہ اور حب ڈیم بلوچستان سے پانی فراہم کیا جاتا ہے ،
کینجر جھیل کراچی کے علاوہ ٹھٹھہ اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں کو پانی فراہم
کرتا ہے، جبکہ حب ڈیم سے حب شہر کے ساتھ کراچی کو پانی فراہم کیا جاتا ہے ،
ایک جانب حب ڈیم جو پورے ضلع غربی اور شرقی کو پانی فراہم کرتا ہے ، پانی
کی سطح حد درجے کمی کا شکار ہے تو دوسری جانب پولیس کی سر پر ستی میں دن
رات لسبیلہ کینا ل سے کر اچی کے واٹر ٹینکر ز پا نی کی چو ری میں مصر وف
ہیں حب انتظا میہ اور واٹر بورڈمنیج منٹ اس مسئلے پر مکمل خامو شی اختیا ر
کئے ہو ئے ہیں۔گذشتہ چند ما ہ سے حب کے گرد و نوہا میں با ر شیں نہ ہو نے
کے با عث حب ڈیم میں سطح آب خطر نا ک حد تک کم ہو چکی ہے، اگلے ما ہ سے حب
و گڈانی کے شہروں سمیت ساکر ان اور پیر کس کے زمیند ار و ں اور حب میں واقع
صنعتو ں کو لسبیلہ کینا ل کے ذریعے پا نی کی فر اہمی رک جا ئے گی جس سے پا
نی کے خطر نا ک بحر ان کا خد شہ ہے۔
رمضان المبارک قریب آتے ہی پانی کے بحران میں بھی شدت آرہی ہے ، کراچی میں
پانی کے بحران پر آبی ماہرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہم اپنے گرد و
پیش کے روز مرہ معمولات پر نظر ڈالیں تو کہیں نلکے سے پائپ لگا کر گھروں کے
در و دیوار کو گھنٹوں دھویا جارہا ہے تو کہیں سیکڑوں گیلن میٹھا پانی ہم
اپنی گاڑیوں کو دھونے دھلانے میں ضایع کررہے ہیں یا پھر بڑی بستیوں میں لوگ
اپنے وسیع و عریض لان میں سبزہ سینچنے کے لیے پائپ کے ذریعے پانی لگاکر
بھول جاتے ہیں۔ اس بات کا احساس بھی ہمیں نہیں ہے جب گھر کے بالائی ٹینک یا
زمینی ٹینک کا پانی ہماری عدم توجہی کے سبب لان کے ذریعے گلیوں اور سڑکوں
پر بلاوجہ بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے، بہ ہر حال اخلاقیات اور ہمارا دین کسی
بھی صورت پانی کے استعمال میں بے پروائی کی اجازت نہیں دیتا۔
کراچی میں پانی کی کمی کے ساتھ بے قدری اور چوری بھی لمحہ فکریہ ہے۔ کہا
جاتا ہے کہ جن علاقوں میں میڈیا یا عدالتی دباؤ کی وجہ سے غیر قانونی
ہائیڈرنٹس توڑ دیے جاتے ہیں تو بااثر افراد کا اشارہ ملتے ہی یہ غیر قانونی
ہائیڈرنٹس دوبارہ تعمیر ہوجاتے ہیں اور پیسہ بنانے کی ان مشینوں کو دوبارہ
فعال کردیا جاتا ہے اور شہر میں پانی کی چوری کا یہ سلسلہ دوبارہ شروع
ہوجاتا ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران اور عملہ
اس پورے عمل کے پیچھے ہوتا ہے۔
اگرچہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کارروائی کے وقت نہ صرف یہ منظر سے
مکمل طور پر غائب ہوجاتے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ افراد اسی مقام پر موجود
بھی ہوتے ہیں کہ جہاں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف آپریشن ہورہا ہوتا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ کراچی کے ہر علاقے میں پانی کا شدید بحران ہے لیکن حیرت
انگیز بات یہ ہے کہ ٹینکر مافیا کو پانی دستیاب ہے جو اسے اپنے منہ مانگے
دام پر فروخت کرکے عوام کی جیب پر ڈاکا ڈال رہے ہیں، لیکن ان سے پوچھنے
والا کوئی نہیں ہے، تو کیا اس کا سیدھا مطلب یہ نہیں کہ ایک منظم منصوبے کے
تحت کراچی کے عوام حق چوری کرکے عوام کوہی فروخت کیا جارہاہیں۔ قارئین اب
آپ خود سوچئے کہ کراچی میں پانی کا بحران حقیقی یا مصنوعی ہے ۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااﷲ اپنی کرم سے باران رحمت برسا اور کراچی کے
عوام پر رحم فرما (آمین)
|