حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ عَمِّہِ اَبِی سُھَیْلِ
بْنِ مَالِکٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ کَعْبِ الْاَحْبَارِ اَنَّہُ قَالَ اِذَا
أحْبَبْتُمْ اَنْ تَعْلَمُوا مَا لِلْعَبْدِ عِندَ رَبِّہِ فَانْظُرُوا
مَاذَا یَتْبَعُہُ مِنْ حُسْنِ الثَّنَاءِ.
ابو سہیل بن مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ کعب احبار نے کہا کہ جب تم
یہ جاننا چاہو کہ اس بندے کا اللہ کے ہاں کیا مرتبہ ہے تو اس بات کو دیکھو
کہ لوگ اس کے پیچھے کیا تعریف کرتے ہیں۔
اخلاق دراصل زندگی کے طریقے، سلیقے اور قرینے کا نام ہے اور اس طریقے کا
تعین اور سلیقے ا ور قرینے کا اصول ہی دراصل اخلاقیات حقیقی موضوع ہے۔
اخلاق خل کی جمع ہے، اس کے معنی ہیں پختہ عادت کے، اصطلاح میں خلق سے مراد
انسان کی ایسی کیفیت اور پختہ عادت ہے جس کی وجہ سے بغیر کسی غورو فکر اور
توجہ کے نفس سے اعمال سرزد ہوں۔
اعلیٰ انسانی اخلاق کیا ہیں اور زندگی میں ان کی اہمیت کیا ہے، اس مسئلے پر
مختلف علمائے عمرانیات اور دوسرے اہلِ فکر نے بہت کچھ لکھا اور کہا ہے۔ اس
سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ زندگی کے بنیادی مسائل میں سے ہے۔ اخلاق کی
حیثیت اور اہمیت کو مختصر ترین لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اخلاق
دراصل زندگی کے طریقے، سلیقے اور قرینے کا نام ہے، اور اس طریقے کا تعین
اور اس سلیقے اور قرینے کا حصول ہی دراصل اخلاقیات کا حقیقی موضوع ہے۔
بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق۔ یعنی ’’میں مکارمِ اخلاق کی
تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘
دوسری روایت میں حُسْنَ الْاَخْلَاق کے الفاظ آئے ہیں۔
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَحْسَنَ النَّاسِ
خُلْقًا رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں سے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔ (متفق علیہ)
حضور ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کے بارے میں قرآن مجید کی شہادت یہ ہے کہ:
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔
’’بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘‘
حسن خلق سے مراد نیک اور اچھی خصلت ہے۔ مسلمانوں کے لیے عمدہ اور حسین
اخلاق کا مالک ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اخلاقِ حسنہ میں عفوو درگزر، صبرو
تحمل، قناعت و توکل، خوش خلقی و مہمان نوازی، تواضع و انکساری، خلو ص و
محبت جیسے اوصاف پیدا ھوتے ہیں جوکہ قابلِ ذکر ہیں۔
خلق کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے سورۃ العمران آیت نمبر 134میں
”اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے ان کی غلطیوں پر درگزر کرنے ہیں“
مطلب یہ ہوا کہ جب کسی پر غصہ آئے اور اسے سزا دینا چاہتے ہوں تو نفس کوپر
قابو پایا جائے۔ اخلاق اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی، لیکن عام طور پر
اخلاق کااستعمال خلق حسین کے لیے ہوتا ہے۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص
بڑا بااخلاق یا خوش خلق ہے یعنی اچھی خصلتوں کا مالک ہے۔
حضرت نواس بن سمعانؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور
گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلْقِ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ
وَکَرِھْتً اَنْ یطلع علیہ النَّاسُ (مسلم)
یعنی ’’نیکی اخلاق و کردار کی اچھائی کا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل
میں خلش پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس سے آگاہ ہوں۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز
ہے جو کثرت سے لوگوں کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گی، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
تَقوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلْقِ یعنی خدا خوفی اور حسن خلق۔ پھر عرض کیا
گیا کہ وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو کثرت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی۔
فرمایا: اَلْفَمُ وَالْفَرْجُ یعنی منہ اور شرمگاہ (ترمذی)
حضرت ابو ہریرہؓ ہی نے حضور کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ:
اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا (ترمذی)
یعنی ’’مومنوں میں سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جو ان میں سے اخلاق کے
اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
شریعت اسلامیہ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اخلاق نفس کی وہ حالات ِ
راسخہ ہے جس سے اچھے یا برے افعال صادر ہو ں بغیر کسی غورو فکر کے۔ اچھائی
یا برائی کی وہ عادت جو انسان کے اندرراسخ ہو چکی ہو اور قصط و بلا اس کا
صدور ہوتا رہتاہو، یا یوں کہہ لیں کہ آدمی کی طبیعت میں جو بات بیٹھ چکی ہو
بلا تکلف اس کا صدور ہوتا ہو وہ اخلاق ہے۔ جو خوش خلق ہو اس سے خوش خلقی ہی
کا صدور ہو گا۔ ایسے ہی جو بدخلق ہوگا اس سے بدخلقی ہی صادر ہو گی۔ مگر یہ
کہ اسے اخلاق حسنہ کے اظہار کے لیے تکلیف اٹھانی پڑے تب اچھی بات کہہ سکے۔
حدیث مبارکہ میں اخلاق حسنہ کا ذکر کچھ ان الفاظ میں آیا ہے کہ قیامت کے دن
مومن کے میزان میں سب سے بھار ی جو چیز رکھی جائے گی وہ خلق حسنہ ہے۔ اور
اللہ تعالیٰ اس کو دوست نہیں رکھتا جو فحاش گو اور بد زبان ہو(ترمذی)
ایک دوسری جگہ ایمان میں زیادہ کامل وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں (ابو
داؤد)
اور ابو داؤد کی ہی ایک اور روایت میں ارشاد ِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ہے کہ مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے قائم و اللیل اور صائم النہار کا
درجہ پا جاتا ہے
(ابو داؤد)۔
حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ اَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَ آخِرُ مَا
اَوْصَانِی بِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ
وَضَعْتُ رِجْلِی فِی الْغَرْزِ اَنْ قَالَ اَحْسِنْ خُلْقَکَ لِلنَّاسِ
یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ.
حضرت معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
آخری نصیحت جو مجھے فرمائی کہ جس وقت میں رکاب میں اپنے پاؤں رکھ چکا تھا
وہ یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھنا“۔
اور ایک مسلمان کی پہلی پہنچان اس کا اخلاق ہی ہوتا ہے۔ بچپن سے ہی ہم رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں اپنے والدین
اساتذہ اوربڑوں سے سنتے آئے ہیں۔
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”مسلمان تو وہ ہے جس
کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“ (البخاری مسلم)۔
حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ
الزُّبَیْرِ عَنْ عَاءِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ اَنَّھَا قَالَتْ مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَ مْرَینِ قَطُّ اِلَّا اَخَذَ اَیْسَرَھُمَا
مَالَمْ یَکُنْ اِثْمًا فَاِنْ کَانَ اِثْمًا کَانَ اَبْعَدَ النَّاسِ
مِنہُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
لِنَفْسِہِ اِلَّا اَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ
بِھَا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
سامنے جب ایسی صورت آتی کہ جس میں دو پہلو ہوتے تو آپ اس پہلو کو اختیار
کرتے جو دونوں میں سے آسان تر ہوتا، بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہوتا۔ اگر وہ گناہ
ہوتا تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ گناہ سے دور تر رہتے تھے اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا۔ ہاں اگر دین کی
بے حرمتی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کا انتقام لیتے تھے۔
حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنِ
بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَالَا
یَعْنِیْہِ.
علی بن حسین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
آدمی کے اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو اس کے
متعلق نہ ہو۔
حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ اَنَّہُ بَلَغَہُ عَنْ عَاءِشَۃَ زَوْجِ
النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّھَا قَالَتْ
اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ قَالَتْ عَاءِشَۃُ وَ اَنَا مَعَہُ فِی الْبَیْتِ فَقَالَ
رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِءْسَ ابْنُ
الْعَشِیْرَۃِ ثُمَّ اَذِنَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ قَالَتْ عَاءِشَۃُ فَلَمْ اَنْشَبْ اَنْ سَمِعْتُ ضَحِکَ
النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَہُ فَلَمَّا خَرَجَ
الرَّجُلُ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قُلْتَ فِیہِ مَا قُلتَ ثُمَّ لَمْ
تَنْشَبْ اَنْ ضَحِکْتَ مَعَہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنِ اتَّقَاہُ النَّاسُ
لِشَرِّہِ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے آنے کی اجازت مانگی۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں گھر میں آپ کے ساتھ تھی
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قبیلے کا برا آدمی ہے۔ پھر
اس کو اجازت دے دی۔ زیادہ دیر نہ گزری کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم اس کے ساتھ ہنس رہے ہیں۔ جب وہ شخص نکل گیا تو میں نے کہا یا
رسول اللہ! آپ نے اس کے بارے میں جو بات کہی وہ تو کہی اور پھر میں نے آپ
کو دیکھا کہ زیادہ دیر نہیں گزری کہ آپ اس کے ساتھ ہنس کر باتیں کر رہے
ہیں، (یہ کیا؟)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدترین آدمی وہ
ہے کہ جس کے شر کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا جلنا ترک کر دیں۔
اسلام معاشرتی رواداری کا درس دیتا ہے ان تمام احادیث ِ مبارکہ کی روشنی
میں جو بہترین اصول نکھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ وحی
سلوک کریں جس کی ہم دوسروں سے توقع رکھتے ہیں۔ اس کائنات کی اور انسان کی
تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور اس تخلیق کا مقصد اس امر میں انسان کی
آزمائش ہے کہ اس عارضی مہلت ِ حیات میں حسنِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے یا بد
عملی کا حسنِ عمل کا صلہ موت کے بعد ایک دوسری اور ابدی زندگی کی ابدی
نعمتیں ہیں اور بد عملی کی سزا ایک ہمیشہ رہنے والی حیات عذاب ہے۔ مسئلہ
اخلاقیات پر مختلف علماء حق اور اہلِ فکر نے بہت کچھ لکھا اور کہا ہے۔
قرآن مجید میں اصحابِ رسول اللہ ﷺ کی شان ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔
اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ
اسلامی اخلاقی تعلیمات میں یہ چیز ایک خاص اصولی اہمیت رکھیت ہے کہ نیکی کا
کوئی کام حقیر نہیں ہے، خواہ بظاہر وہ کیسا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اور بدی
کا کوئی کام معمولی نہیں ہے، خواہ بظاہر ہو کتنی ہی چھوٹی سی کیوں نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
لَا تَحْتَقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَو اَنْ تَلْقٰی اَخَاکَ
بِوَجْہٍ طَلِیْقٍ (مسلم)
یعنی ’’کسی نیکی کے کام کو حقیر مت سمجھو، خواہ وہ یہی کیوں نہ ہو کہ تم
اپنے بھائی کو ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ملو۔‘‘
اسی طرح سلام سے آغازِ ملاقات و گفتگو کا حکم دیا گیا اور فرمایا گیا کہ:
قرآن مجید اور احادیثِ نبوی میں بے شمار مقامات پر مندرجہ بالا صفات کی
تحسین کی گئی ہے اور اپنی شخصیتوں میں ان کو پروان چڑھانے کی تلقین فرمائی
گئی ہے۔ یہ صفات، مشتعل مزاجی، منتقم طبیعت، بد خوئی درشتیٔ طبع، جلد بازی،
عدم تدبر اور بخل و تنگدلی کی ضد ہیں اور ان سے اسلامی معاشرے کے انفرادی
اور اجتماعی مزاج کا آب و رنگ معین ہوتا ہے۔
ارشاد ہوا: اِنَّ فِیْکَ خَصْلَتَیْنِ یُحِبُّھُمَا اللّٰہُ: اَلْحِلْمُ
وَالْاَنَاۃُ (مسلم)
یعنی ’’تیرے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے:
بردباری اور وقار و سنجیدگی۔‘‘
حدیث قدسی ہے کہ:
مَنْ یُّحْرَمِ الرِّفْقُ یُحْرَمِ الْخَیْرُ کُلُّہٗ (مسلم)
’’جو نرمی سے محروم ہوتا ہے وہ ہر طرح کی بھلائی سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے نصیحت کی درخواست کی تو حضور ﷺ نے فرمایا: لَا
تَغْضَبْ (غصے میں نہ آؤ) اس شخص نے متعدد مرتبہ یہی درخواست کی تو حضور ﷺ
نے ہر مرتبہ اسے یہی نصیحت فرمائی۔ (بخاری)
قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ:
وَالْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ
لَکُمْ (النور: 22)
’’اور انہیں معاف کر دینا چاہئے اور درگزر کرنا چاہئے۔ کیا تم نہیں چاہتے
کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟‘‘
مسلم، مسند احمد اور بخاری میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی نقل ہوا ہے،
فرمایا کہ بخل و تنگدلی (الشُحُ) سے بچو کیونکہ بخل و تنگدلی ہی نے تم سے
پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اُس نے ان کو ایک دوسرے کے خون بہانے اور دوسروں
کی حرمتوں کو اپنے لیے حلال کر لینے پر اُکسایا۔ اَفْشُوا السَّلَامَ
بَیْنَکُمْ ’’اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔‘‘ (مسلمؒ) اس سے اندازہ ہوتا ہے
کہ یہ مسئلہ زندگی کے بنیادی مسائل میں سے ہے۔ مختلف احادیث کی روشنی میں
اخلاق کی حیثیت اور اہمیت کو مختصر ترین لفظوں میں آپ کے سامنے پیش کیا
ہے۔حسنِ اخلاق ہی حسنِ معاشرت ہے، حسنِ معاشرت سے ہی اچھا اور با کردار
معاشرہ بنتا ہے۔ اگر آج ہم اپنے حسن ِ اخلاق کو بہتر کر لیں، اللہ اور اللہ
کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے اپنا لیں تو
اپنی زندگی انتہائی آسان اور پر کشش ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے مطابق بھی ہو
جائے گی اور معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا نہ ہوگا اور ہم ایک قوم بن جائیں گے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ اپنی رحمت سے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
کیونکہ سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کی اسوہ
حسنہ اور تعلیمات ہمارے لیے راہ نجات ہیں. آمین۔ |