مصطفیٰ کمال پاشا کو ترک قوم اتا ترک یعنی ترکوں کا باپ
کہتی ہے۔ اتا ترک فوج میں کرنل تھے۔ ان کی یونٹ گیلی پولی کے مقام پر
تعینات تھی۔ ان کے پاس جوانوں اور اسلحہ کی شدید کمی تھی‘ 25اپریل 1915ءکو
اچانک برطانوی فوج کا ایک بہت بڑا لشکر گیلی پولی پہنچ گیا۔ یہ لشکر سمندر
میں تھا جبکہ اتا ترک کے جوان خشکی پر تھے اور ان چند جوانوں نے برطانوی
لشکر کو خشکی پر اترنے سے روکنا تھا۔ اتا ترک کے جوان لڑائی کیلئے تیار
نہیں تھے کیونکہ ان کے پاس اسلحہ بھی کم تھا اور تعداد بھی۔
برطانوی فوج نے ساحل کے قریب پہنچ کر بحری جہاز سے ترکوں کے مورچوں پر
بمباری شروع کر دی۔اتاترک نے اپنے فوجیوں کو گھبرائے ہوئے دیکھا تو وہ
مورچے سے نکلے اور ٹہلتے ٹہلتے پانچ فٹ اونچی دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گئے‘
انہوں نے ٹانگ کے اوپر ٹانگ چڑھائی‘ جیب سے سگریٹ نکالا‘ سلگایا اور
اطمینان سے سگریٹ پینے لگے‘ وہ اس قدر نمایاں تھے کہ برطانوی فوجی انہیں
اپنے جہاز سے دیکھ رہے تھے۔ برطانوی فوج نے انہیں ٹارگٹ کیا اور توپ سے ان
کی طرف گولہ داغ دیا۔ گولہ اتاترک سے دو سو گز کے فاصلے پر گرا۔ بارود‘
پتھر اور مٹی اڑی لیکن اتاترک اطمینان سے سگریٹ پیتے رہے۔اگلا گولہ ان سے
سوفٹ کے فاصلے پر پھٹا لیکن وہ اطمینان سے سگریٹ پیتے رہے ۔ تیسرا گولہ ان
کے سر کے اوپر سے ہوتا ہوا ان کی پشت پر پچاس فٹ دور گرا۔ ایک دھماکہ ہوا
اور اتاترک دھوئیں اور غبار میں گم ہو گئے۔ ان کے ساتھیوں اور برطانوی
فوجیوں کو محسوس ہوا کرنل مصطفیٰ کمال شہید ہو چکے ہیں لیکن جب دھواں ختم
ہوا تو جوان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اتا ترک دیوار پر بیٹھ کر اسی طرح
سگریٹ پی رہے تھے۔ مصطفی کمال نے سگریٹ کا ٹوٹا نیچے پھینکا‘ اسے جوتے سے
بجھایا‘ قہقہہ لگایا اور واپس اپنے مورچوں کی طرف چل پڑے۔ مورچوں کے پاس
پہنچ کر انہوں نے اپنے جوانوں سے کہا”میں تم لوگوں کو یہ بتانا چاہتا تھا
اگر اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو مار نہیں سکتی“۔
وہ رکے اور دوبارہ بولے ”اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں موت صرف ایک بار آتی
ہے‘ بار بار نہیں آتی چنانچہ ڈرنا اور گھبرانا بند کر دو“۔ اتاترک کے ان دو
فقروں نے جادو کا کام کیا‘ ترک جوانوں نے حوصلہ پکڑا اور برطانوی لشکر کو
بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ |