کئی ماہ سے بنوں شہر میں بیوٹی فیکشن کا کام جاری ہے
جو شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا جارہا ہے۔شہر کی حالت ِ زار یہ کہ جگہ
جگہ ملبے کے ڈھیر ، غلاظت اور گندے پانی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔جس سے دن کو
مکھیاں تنگ کرنے اور رات کو مچھر ستانے نکل آتے ہیں۔شہر کے مکین طرح طرح کی
بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ ایک دوست نے
بتایا کہ وہ ایک ماہ میں تین مرتبہ اپنے چھوٹے بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے کر
گیا ۔جب ڈاکٹر سے دریافت کیا کہ اینٹی بائیوٹک سے افاقہ ہوجاتا ہے لیکن بچہ
پھر بیمار کیوں پڑ جاتا ہے تو اس نے بُرا سے منہ بناتے ہو ئے کہا کہ بچے کے
حلق میں زخموں کی وجہ سے پیپ بن چکی ہے لہٰذا اینٹی بائیوٹک کے سوا کوئی
چارہ نہیں ہے۔اور انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ بچے کو گھر سے باہر جانے نہ
دیں یا پھراسلام آباد منتقل ہوجائیں۔یہی حال اور مسئلہ ہر گھر کا ہے۔ بیوٹی
فیکشن کی وجہ سے جہاں گزرن میں تکالیف ہیں تو وہاں گندگی و غلاظت سے جنم
لینے والی بیماریوں کا سامنا بھی ہے۔قے ، دست ، کھانسی ، گلے کی خارش ،
آنکھوں کی خارش و سوجن ، سینے و معدے کی خرابی اور ملیریا جیسی بیماریاں
عام ہو چکی ہیں۔یہاں اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اگر
سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا یہ کام مزید طویل ہوگیا تو گرمی کی شدت کے مہینوں
میں شہری مزید مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔یاد رہے کہ بنوں شہر کی بیوٹی
فیکشن کے لئے ایک اَرب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جو کہ اَب ایک سے
دو اَرب روپے کے لگ بھگ بن چکی ہے، یعنی اس میں اَپرچونٹی کاسٹ (موقع لاگت
) بھی شامل ہو گئی ہے۔ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بیماریوں پر اُٹھنے والا
خرچ ، لانگ روٹ استعمال کرنے پر کرایوں میں اضافہ ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی
وجہ سے گاڑیوں میں پیدا ہونے والی خرابیاں وغیرہ ، اس تمام کو ایک اَرب
روپے میں شامل کرلیا جائے تو بیوٹی فیکشن کا منصوبہ دواَرب روپے کے لگ بھگ
پہنچ جاتا ہے۔اسی کو معاشیات کی زبان میں اپرچونٹی کاسٹ (موقع لاگت ) کہتے
ہیں۔
مذکورہ بالا کے علاوہ شہریوں کو گیس ، بجلی اور پانی کی بندش جیسے سنگین
مسائل کا سامنا بھی ہے۔ سڑکوں ، نالیوں اور نالوں کی کھدائی کے دوران گیس
پائپ پھٹنے سے گیس کی بندش آئے روز کا معمول بن چکی ہے جب کہ بعض علاقوں
میں گیس کئی ماہ سے بند ہے۔بیوٹی فیکشن کے لئے بجلی کے پُرانے کھمبوں کو
ہٹاکر نئے کھمبے لگائے جارہے ہیں۔یوں واپڈا والوں کو بجلی بند کرنے کا ایک
عمدہ و نادر بہانہ مل جاتا ہے اور صرف منہ دکھائی والی بجلی ، اَب کئی کئی
روز غائب رہنے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ آب نوشی کے لئے نئے پلاسٹک پائپ بچھائے
جا رہے ہیں جس سے شہریوں کو صاف پانی کا حصول آب ِ زم زم کی طرح نایاب ہو
چکا ہے۔
یہ ایک چھوٹے سے شہر کی حالت ِ زار ہے جو بیوٹی فیکشن کی وجہ سے مسائل کا
شکار بن چکا ہے۔ اس پر ہم پشاور میٹرو اور شہریوں کی مشکلات کی قیاس
آرائیاں بآسانی کر سکتے ہیں۔ جس کی فزیبلٹی گزشتہ برس اپریل کے ماہ سے تیار
ہونا شروع ہوئی تھی اور جس کی لاگت پچاس اَرب روپے سے زائد ہے۔خیبر پختون
خوا حکومت کے دعوؤں کے مطابق اس منصوبے کو گزشتہ برس دسمبر میں مکمل ہونا
تھا لیکن تاحال جاری ہے۔ اس کے بعد یہ بھی بڑے دعوے سے کہا گیا تھا کہ
الیکشن 2018 ء سے قبل یہ منصوبہ مکمل کر لیا جائے گا اوراس کی تکمیل ووٹ
بنک میں اضافے کا سبب بنے گی لیکن تازہ اطلاعات کے مطابق منصوبے میں تاخیر
کی بناء پر سی ای او الطاف اکبر درانی کو اپنے عہدے سے برطرف کردیا گیاہے
جس کے بعد دیگر پراجیکٹ افسران بھی مستعفی ہوگئے ہیں۔اَب پشاور میٹرو
منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ راقم الحروف نے ایک سال قبل اپنے کالم ’’
جنگلہ بس گلے پڑ گئی ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ ان تمام باتوں کا تذکرہ کیا
تھا۔حرف آخر ہے کہ ہمیں اپنے تمام منصبوں کو نہایت عمدہ منصوبہ بندی اور
خلوص ِ نیت کے ساتھ کرنا چاہیئے تا کہ عوامی فلاحی منصوبے عوام کے لئے وبال
ِ جان نہ بنیں۔
|