وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
8 مارچ کو ہر سال دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا
مقصد خواتین کے بنیادی حقوق کا تحفظ، ان کی فلاح و بہبود، غربت و افلاس کا
خاتمہ اور انہیں بنیادی تعلیم کی فراہمی ہے۔
یہ دن 1975 ء سے پوری دنیا میں اور پاکستان میں بھی بھرپور جوش و جذبہ سے
منایا جا تاہے۔ ہرسال دنیا بھر میں خواتین یہ دن منا کر واضح کرتی ہیں کہ
کسمپرسی میں بھی گزارہ کرنے والی ذات کس طرح ترقی کے مدارج طے کرتی آگے بڑھ
رہی ہے۔ ہر ملک و قوم کی خواتین اپنا تشخص منوانے کی بھرپور کو شش کر رہی
ہیں اور یوں وہ ہرسال یوم خواتین عالمی سطح پر مناتی ہیں، تاکہ ہر سال اُن
کی تگ و دوکی تجدید ہو۔
یہ دن خواتین کی ’’جدوجہد‘‘ کی علامت ہے۔
دین ِ اسلام میں خواتین کو باعزت اور باوقار حیثیت حاصل ہے ۔ اس لئے ہم یوں
کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس میں عورتوں کو مردوں کے مساوی
حقوق دیئے گئے ہیں۔ اگر آج بھی اُسے معاشرہمکمل طور پریہ حقوق دے تو وہ
اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری ملکی ترقی اور خوشحالی میں بھرپور
کردار ادا کر سکتی ہیں۔ موجودہ دور میں اس کی زندہ مثال اسلامی جمہوریہ
ایران کی پیش کی جا سکتی ہے۔ جس میں اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے، ایرانی
خواتین ہر شعبۂ زندگی میں حصہ لیے ہوئے ہیں۔
یہ کسی قدر حیرت کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد تو علم حاصل کر کے ترقی
کی مدارج تیزی سے طے کرنا چاہتا ہے، لیکن عورت کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا
معیوب سمجھا جاتا ہے اوربالخصوص معاشرے کے متوسط یا نچلے طبقے کی خواتین کے
لیے علم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ یہ معاشرے کا ایک بہت بڑا
المیہ ہے۔ عورت بھی مرد کے شانہ بشانہ علم حاصل کر کے ان درجات کو طے کر
سکتی ہے۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین ہی ملک و ملت کے لیے روشن ستارے بن کر رہنمائی کا
کام دیں گے۔
ہمیں دوسری ترقی یافتہ قوموں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج کے دور میں تو
خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہونے لگی ہیں اور اس
طرح انہیں اپنے جوہر اور تخلیقی صلاحیتیں دکھانے کا موقع مل رہا ہے۔ ان میں
خود داری اور اپنے اوپراعتماد پیدا ہو رہا ہے۔ بعض لوگ جن کے پاس روپے پیسے
کی دولت تو ہے مگر علم کی دولت نہیں، وہ خود جاہل ہونے کی وجہ سے بچیوں کو
علم کے زیور سے آراستہ کرنے کے بجائے قیمتی لباس اور زیورسے پیراستہ کرتے
ہیں۔ جس سے ان میں بے راہ روی اور لالچ جیسی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جس
سے وہ شمع محفل تو بن جاتی ہیں مگر چراغِ خانہ نہیں رہ سکتیں۔ یہ صرف تعلیم
یافتہ
خواتین کا ہی کام ہے کہ وہ ملک کی شان بڑھاتی ہیں اپنی اولاد کو ملک و قوم
کی خدمت کے لائق بناتی ہیں۔ انہیں برائی اور بھلائی میں تمیز کرنا بھی
سکھاتی ہیں اور اپنے فرائض ِ دینی و دنیاوی بڑے اچھے طریقے سے پورے کرتی
ہیں۔ اس لیے نپولین کا کہنا تھا کہ:
’’تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمھیں ترقی یافتہ قوم دوں گا‘‘
حوا کی بیٹی اپنی فطری جسمانی کمزوریوں کے باوجود دنیا اور کائنات کی
ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے اس کی ترقی ، خوشحالی اور فلاح و بقاء کے لیے
بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر دنیا کی
اس آدھی سے زیادہ آبادی کو مسائل و مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑتا توآج مردوں
کی ا س دنیا میں ترقی اور خوشحالی دگنی اور چوگنی ہوتی ۔ کیونکہ ہر کامیاب
مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر مرد اس ساتھ کو جھٹلائے یا اپنے سے
کم تر سمجھے تو اس کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع بھی کم ہو جاتے
ہیں۔ماضی پر نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی مثال سامنے
نظر آتی ہے۔ جنھوں نے اپنی سیاسی بصیرت کا لوہا منوایا۔حصولِ آزادی کے لیے
فلسطینی، کشمیری اور افریقی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں۔مادی
ترقی کے حوالے سے یورپی اور امریکی ممالک کی خواتین نے صنعتی ترقی کی سطح
پر اپنی
حیثیتوں کو منواتے ہوئے مردوں کے برابر ، بلکہ اُن سے کچھ زیادہ حقوق حاصل
کر لیے ہیں۔اب تو پاکستان میں بھی خواتین ہر شعبے میں بہترین صلاحیتوں کا
مظاہرہ کر رہی ہیں۔ آج کے سماج میں خواتین اس قدر مؤثر اور فعال ہیں کہ اب
کوئی طاقت ان کے حقوق سلب نہیں کر سکتی۔
واقعی ایک مثالی قوم کی تعمیر و ترقی کا دارومدار صرف پڑھی لکھی خواتین پر
ہے۔ اچھی قوم اچھی ماؤں ہی کی تربیت کی مرہونِ منت ہے۔معاشرے میں خواتین کی
دینی، اخلاقی، سماجی اور فنی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی جائے تو وہ مذہبی
اور قومی امور کی انجام دہی میں پیش پیش ہو گی اور پاکستانی قوم بھی دنیا
میں عظیم ترین قوم بن کر اُبھرے گی۔ انشا ء اﷲ ، کیونکہ
مکالماتِ افلاطوں نہ لکھ سکی لیکن اسی کے شعلہ سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
|