چشم تصور سے سنہرے ماضی کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جب
دنیا میں اللہ نے رحمۃ للعالمین محمد مصطفی ﷺ کو مبعوث فرمایا ۔ مدینہ
منورہ کی اسلامی ریاست ہے اور لوگ امن و اخوت کی مجسم تصویر بنے ہیں ۔اس
رحمت بھرے ماحول میں نبی مہربان ﷺ ایک خوشخبری سنانے کے لئے لوگوں پہ جلوہ
افروز ہوتے ہیں لیکن اسی اثنا میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور نبی ﷺ
کی مسرت خفگی میں بدل جاتی ہے اور اسی کیفیت میں اپنے اصحاب کو مخاطب کر کے
فرماتے ہیں " میں تو تمہیں شبِقدر بتانے آیا تھا لیکن فلاں اور فلاں نے آپس
میں جھگڑا کر لیا تو اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق
میں یہی بہتر ہوگا ۔پس اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ
(کی راتوں) میں کیا کرو"۔گویا خفگی کے باوجود ایک امید کی کرن بھی امت کے
لئے چھوڑ گئے کہ آخری عشرہ کی تاک راتوں میں تلاس کر لو۔ اس کا ذکر صحیح
بخاری میں فضائل لیلۃ القدر کی احادیث کے ساتھ اس طرح ہوا ہے ۔
حدثنا محمد بن المثنى: حدثنا خالد بن الحارث: حدثنا حميد: حدثنا أنس،
عن عبادة بن الصامت قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ليخبرنا بليلة القدر،
فتلاحى رجلان من المسلمين، فقال: (خرجت لأخبركم بليلة القدر،
فتلاحى فلان وفلان فرفعت، وعسى أن يكون خيرا لكم، فالتمسوها في
التاسعة والسابعة والخامسة).
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، ان سے خالد بن حارث نے بیان کیا، ان سے
حمید طویل نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں
جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آیاتھا کہ
تمہیں شب قدر بتادوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا۔ پس اس کا علم
اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا۔ پس اب تم
اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (کی راتوں) میں کیا کرو۔ (صحیح
بخاری کتاب لیلۃ القدرحدیث نمبر: 2023)
پڑھنے پڑھانے والے حضرات اس حدیث کو شب قدر کی فضیلت اور اسکی تعین کے
حوالے سے ایک واقعہ سمجھ کر گزر جاتے ہیں ۔ لیکن بنظر غائر دیکھیں تو یہ
ایک پیغام ہے جو ہر مسلمان کے دریچہ ٔ دل پہ دستک دیتا ہے ۔ ایک مسلمان کا
دوسرے مسلمان سے جھگڑنا اللہ جل شانہ کو اتنا ناگوار ہے کہ اپنے پیارے حبیب
ﷺ کی امت سے لیلۃ القدر کی تعین کا علم اٹھا لیا گیا۔ صرف دو افراد کا
جھگڑنا پوری امت کو ایک ؑظیم رات کی تعین کے علم سے محروم کر سکتا ہے تو
کیامسلمانوں کی ایک جماعت کا دوسری جماعت سے جھگڑا اللہ تعالی ٰ کے غضب کو
دعوت نہیں دیتا؟ ۔ ایک مسلک کا دوسرے کے خلاف نفرت انگیز رویہ ، بیان بازی
اور کفر و شرک کے فتوے امت کو قہر خداوندی کا مستحق نہیں ٹھہراتے ؟ یہ امر
قابل غور ہے کہ رمضان المبارک کا ایک اہم پیغام اتحاد بین المسلمین بھی ہے
جو مذکورہ بالا واقعے سے بھی ہمیں ملتا ہے ۔
رمضان المبارک کا احترام سب مسلمان کرتے ہیں اس ماہ میں ہر شخص حتی الوسع
دین سے جڑنے کی کوشش کرتا ہے عبادات کی کثرت ہوتی ہے ، مسجدوں میں رونق ہو
جاتی ہے ،خیرات و صدقات کا اہتمام ہوتا ہے ہر جانب نیکیوں کی بہار محسوس
ہوتی ہے ۔پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی رمضان المبارک کا خاص اہتمام
ہوتا ہے ۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ جو ہر برس رونما ہوتا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ
ہے اور مذکورہ حدیث نبوی کے تناظر میں اس کے مضمرات پہ غور و غوص اوراسکے
حل کے لیے دعوت فکر بھی دیتا ہے لیکن ہر سال ملت اسلامیہ پاکستان کے اہل حل
و عقد کے ہاں غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے اور باطل کے لئے جگ
ہنسائی کا سبب بھی بنتا ہے ۔وہ ہے رویت ہلال پہ جھگڑے کا معاملہ ۔ تمام سال
چاند ایک ہی رہتا ہے کلینڈر ایک ہی رہتا ہے لیکن رمضان اور شوال کا چاند
ایک نہیں دو دو یا تین تین وجود اختیار کر جاتا ہے ۔ علماء دو گروہوں میں
تقسیم ہوتے ہیں ، لوگ دو گروہوں میں بٹتے ہیں ، ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں
اور رمضان گزر جاتا ہے، میڈیا چسکے لے کر اس مسئلے کو اچھالتا ہے اور نسلی
اور مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر بحث و مباحثے کرا تا ہے اور ابلیس اور اس
کے حواری یقیناًٍ نازاں و فرحاں ہوتے ہیں کہ ہم نے امت سے رمضا ن کا اصل
پیغام ہی چھین لیا ۔ ایک شاعر اس صورتحال کو اس طرح بیان کرتاہے
جب امت ہو ٹکڑے ٹکڑے
کیسے ایک ہو اس کا چاند
سب کی اپنی اپنی مسجد
سب کا اپنا اپنا چاند
یونٹی کیا ہے میری مانو
کیسی عید اور کہاں کا چاند
ایک شہر میں دو دو عیدیں
دیکھ کے ہنستا ہو گا چاند
سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب پیغمبر اقدس ﷺ رحمۃ للعالمین کی
حیثیت سے دنیا میں موجود تھے اور ان کی موجودگی میں دو افراد کا جھگڑا ہوا
تو لیلۃ القدر کی تعین کا علم امت سے اٹھا لیا گیا ۔ اب امت کے علماء غضب
الٰہی کو دعوت دے کر رمضان کے چاند پر ہی لڑ پڑیں تو عبادات و صدقات و
خیرات کی قبولیت کی امید ہم کس بنا پر کیئے بیٹھے ہیں ۔
کہنے کو یہ ایک معمولی مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کیا جا تا ہے لیکن یہ ایک
بڑا سیاسی دینی وسماجی مسئلہ ہے ۔سیاسی اس لئے کہ ایک ریاست میں ایک ادارے
(مرکزی رویت ہلال کمیٹی )کواختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہر ماہ چاند نظر آنے یا
نہ آنے کا اعلان کرے ۔ اسے تمام صوبوں اور تمام مسالک کے اتفاق رائے سے
قائم کیا گیا ۔ اس کے ارکان بھی تمام صوبوں اور تمام مذہبی مسالک سے لئے
جاتے ہیں پھر بھی علماء کا ایک ٹولہ حکومتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے اپنی
کمیٹی بناتا ہے اور اپنے فیصلے کرتا ہے ۔ یہ حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جاتا
ہے لیکن حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی ۔حالانکہ اس موقع پہ حکومتی
مشینری کو حرکت میں آنا چاہیے اور اس کو روکنا چاہئے ۔لیکن حکومت اسےمحض
ایک مذہبی معاملہ قرار دے کر نظر انداز کرتی ہے ۔
دینی مسئلہ اس لئے ہے کہ یہ اختلاف علماء کے درمیان ہے لیکن اس کا اثر عوام
الناس کی عبادات پہ بری طرح پڑتا ہے ۔ اس اقدام سے عوام تقسیم ہو کر رہ
جاتی ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی نصف آبادی ایک طرف اور نصف ایک طرف ہو
جاتی ہے ۔ علماء تو ایک فقہی دلیل یعنی "اختلاف المطالع ممکن ہے"کی آڑ لے
کر خود کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عوام الناس کی عبادات بری طرح
متاثر ہوتی ہیں ۔ یہ دلیل کے طور پہ احادیث پیش کرتے ہیں کہ عہد نبوی میں
مختلف شہروں میں عید اور روزہ مختلف دنوں میں ہوا ہے اور نبی ﷺ نے دونوں کو
درست قرار دیا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں یہ سب باہمی اختلاف کی
وجہ سے نہیں ہوا بلکہ فاصلے اور ابلاغ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہوا ۔
اور اسی اختلاف مطالع کا علماء متقدمین نے لحاظ رکھا ہے ۔جبکہ آج جو ہو رہا
ہے وہ محض ذاتی اختلاف اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے ۔ اگر مختلف شہروں میں
الگ الگ روزہ اور عید ہو تب بھی قبول کیا جا سکتا ہے لیکن حد تو یہ ہے کہ
پشاور شہر کی ایک ہی گلی میں کچھ لوگوں کا روزہ ہوتا ہے اور کچھ کا نہیں
اسی طرح محلے کی ایک مسجد میں نماز عید ہوتی ہے تو دوسری میں دوسرے دن ۔ یہ
کیفیت دنیا میں کہیں نہیں اور نہ ہی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا ہوا ہے کہ
علماء نے اس پہ رائے دی ہو ، اور پھر یہ اختلاف عوام میں بحث و تکرار اور
جھگڑے کی نوبت تک جا پہنچتا ہے ۔ کچھ برس پہلے ایک مولانا کا قتل بھی ہو
چکا ہے ۔
یہ مسئلہ سماجی مسئلہ بھی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں علاقائی اور لسانی
عصبیت کو فروغ مل رہا ہے ۔ یہاں کے قوم پرست عناصر اس کے ذریعے احساس
محرومی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ تأثر عام کیا گیا ہے کہ اہل
پختونخوا کی گواہی قبول نہیں کی جاتی حالانکہ اس دن تمام پاکستان سے گواہی
اکٹھی کی جاتی ہے اور جو معیار پہ نہ ہو اسے رد کیا جا تا ہے ۔ لیکن اس
صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے احساس محرومی پیدا کیا جا رہا ہے ۔صورتحال یہ
ہے کہ پختون قوم بلوچستان اور کراچی میں بھی آباد ہے لیکن وہاں یہ مسئلہ
نہیں ہے اس معاملے میں وہ قومی دھارے کے ساتھ ہیں ۔یہ صورتحال قومی یکجہتی
اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔اور قوم پرست عناصر اس سے
فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
اس گھمبیر مسئلے کا مستقل حلا تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے لیے پہلی
ذمہ داری تو حکومت کی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی رٹ کو مستحکم کرنے کے
لئے اداروں کو حرکت میں لائے اور کسی بھی شخص کو اجتماعی مذہبی معاملات سے
کھیلنے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے ۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو فیصلہ نافظ
کرنے کا اختیار بھی دیا جائےکمیٹی سے اختلاف کر کے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے
والوں کو قانون کی گرفت میں لا کر سزا دی جائے ۔ اگر مرکزی رویت ہلال کمیٹی
سے کوئی شکایت ہو تو حکومت کو مؤقف سن کر اس کا ازالہ کرنا چاہئے ۔اگر قبل
از وقت اجلاس بلا کر ازالہ ہو سکے تو بھی کر لینا چائیے کیونکہ انسانی فعل
میں غلطی کے امکانات ہوتے ہیں ۔اور ایسی غلطیاں اجتہادی غلطیاں ہوتی ہیں جو
قابل معافی ہیں ۔اگر اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہو تو وہ بھی کی جا
سکتی ہے ۔
حکومت کے بعد بار ذمہ داری علماء کے کاندھے پہ آتا ہے ۔ اتحاد امت سے زیادہ
قیمتی کچھ بھی نہیں ۔ اتحاد امت کی خاطر صحابہؓ کرام اور سلف الصالحین نے
اپنا حق خلافت تک چھوڑا ہے لیکن یہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنے کو تیار نہیں ۔
علمائے کرام اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے ہر اس شخص کو روکیں جو انتشار
کا باعث بن رہا ہو ۔ اس ضمن میں اگر علماء اتفاق کریں اور حرمین شریفین کو
مرکز مان لیں تو پوری دنیا میں ایک ہی دن عید اور روزہ ممکن ہو سکتا ہے۔
لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب علماء اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر
صدق دل سے اتحاد امت کے لئے کمربستہ ہو جائیں ۔
اس وقت ملک کی دینی جماعتوں نے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل کے نام سے قائم
کیا ہے ۔ جو ماضی میں بھی قائم ہو چکا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت
بھی کر چکا ہے ۔ لیکن اس وقت اس اتحاد نے بجائے اس مسئلے کو حل کرنے کے اسے
وفاق اور صوبے میں رسہ کشی کی صورت میں ڈھال دیا۔اور مسئلے کو حل کرنے کے
بجائے خودسر عناصر کو صوبائی حکومت کی پشت پناہی فراہم کی گئی۔ اگر دینی
جماعتوں نے واقعی دینی مصلحت کے تحت اتحاد کیا ہے تو پھر یہ ان کی ترجیح
میں ہونا چاہئے کہ صوبے میں موجود اس مسئلے کو حل کیا جائے ۔یاد رہے کہ اس
مسئلے میں فریق بننے والے زیادہ تر علماء کاتعلق مجلس عمل میں شامل بڑی
جماعت سے ہے ۔ یہ اس جماعت کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اراکین کو
اتحاد بین المسلمین کا پابند کریں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایسا کر سکیں گے
یا نہیں ۔
ملک میں دہائیوں سے جاری اس مرض کا علاج ناگزیر ہے ۔ اس کے لئے پہلی ذمہ
داری تو حکومت وقت کی ہے خواہ وہ مرکزی ہو یا صوبائی کہ اپنے عوام کو رمضان
میں فرائض کی ادائیگی کا موقع فراہم کریں اور بغیر کسی اختلاف کہ تمام ملک
میں ایک دن روزہ اور ایک ہی دن عید کا التزام کریں ۔ اور اس ضمن میں موجود
شکایات کا ازالہ کریں ۔یہ وزارتوں پہ براجمان افراد خود کو اللہ کے سامنے
جوابدہی کا پابند گردانیں تو معاملہ حل ہو سکتا ہے -دوسری جانب خود کو
علماء کہلانے والے مولانا صاحبان ہیں جو دین کا علم رکھتے ہیں اور اتحاد
بین المسلین کی اہمیت سے خوب واقف ہیں اگر ہوش کے ناخن لیں اور اپنی اناؤں
کو اتحاد امت پہ قربان کر دیں تو ملت اسلامیہ پاکستان رمضان اور عید سے
صحیح معنوں میں مستفید ہو سکتے ہیں ۔اگر اس طرف سے بھی معاملہ حل نہیں ہوتا
تو پھر اس ملک کے ایوان عدل پہ مامور ججوں پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
وہ اس سنگین مسئلے پہ از خود نوٹس لیں اور اداروں کو اس کے حل کا پابند
کریں ۔اس سنگین مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو اس صوبے میں بسنے والے افراد کے
صوم و صلاۃ کے ذمہ دار یہی حکمران، علماء ، سیاستدان ا، مذہبی جماعتیں ور
جج صاحبان ہوں گے جو اختیار رکھنے کے باوجود اس مسئلے کو حل نہیں کرتے اور
بارگاہ خداوندی میں عوام کی عبادات کا بار گراں ان سب کی گردنوں پہ ہو گا۔
اللہ تعالی ٰ ان سب کو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی توفیق عطا فرمائے
اور اہل پاکستان کو رمضان کے اصل پیغام اتحاد بین المسلمین کے ثمرات کے
ساتھ عبادات و معاملات کا اجر عطا فرمائے آمین ۔ |