آزادی نسواں محض ایک نعرہ یا ؟

تعلیم یافتہ ممالک آزادی نسواں کا نعرہ لگاتے ہیں کہ مرد عورت دونوں کو برابری کے حقوق دیے جائیں ۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ خواتین کو مرد حضرات کے برابر نہ سمجھا جاۓ ۔
خواتین کو بھی مساویانہ حقوق ملنے چاہئیے۔
جس قدر اسلام میں عورت کی قدر ومنزلت کی گئی آج تک کسی اور معاشرے میں نہیں کی گئی۔ بنیادی مسلئہ آگہی نہیں ہے چونکہ اسلامی تعلیمات سے لاعلمی ہے اس لئے مسلمان عورت کو حجاب اور پردے کی وجہ مظلوم سمجھا جاتا ہے احکام ستر کو عورت پہ ظلم تصور کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔
وہ یورپ جو آج حقوق نسواں کا علم بردار ہے وہاں چند سو سال قبل یہ حالات نہ تھے عورت کو انتہائی حقیر اور لا یعقل سمجھا جاتا تھا انکے اس زمانے کے قوانین میں عورت شادی کے بعد کسی معاہدے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی کوئی دستاویز جو اس نے خود لکھی ہو اپنی مر ضی سے یا شوہر کی مرضی سے اس کی جواب دہ نہیں ہو سکتی تھی ۔ جو جائیداد عورت کو وراثت میں یا شادی سے قبل یا بعد میں ملی ہو اس پر اس کا شوہر قابض ہو جاتا اور عورت دعوی بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ شوہر کی بلا اجازت نہ تو کوئی اسباب خرید سکتی اور نہ کوئی چیز بیچ سکتی وہ روٹی ، کپڑا مکان میں رہنے کے ضروریات زندگی پہ خرچ کے کوئی چیز بغیر شوہر کی پسند کے نہیں لے سکتی تھی۔
1870میں بر طانوی پارلیمنٹ میں منکوحہ عورتوں کی جائیداد سے متعلق ایک بل پیش کیا گیا جس میں عورت کو بعد شادی جائیداد سے محرومی کے قانون کو منسوخ کر نے کی تجویز پیش کی گئی ۔
مسٹر رسل گرے ممبر پارلیمنٹ نے یہ مسودہ قانون پیش کیا انہوں نے کہا قانون کی بمو جب جو کچھ جا ئیداد عورت کے پاس شادی سے قبل ہوتی یا بیس میں شادی کے ملتی ہے جو کچھ وہ اپنی محنت سے کماتی ہے اس کے پاس نہیں رہتا ۔ سب پر شوہر قابض ہو جاتا ہے ۔ بس شادی کا اثر عورت پہ ایسے ہو تا ہے جیسا کوئی جرم قابل ضبطی جائیداد پہ ہو تا ہے ۔ اس پہ ہاؤ س آف کامنز کی اکثریت نے حمایت کی ۔
اس وقت انگلستان کے قانون کا یہ حال تھا کہ کوئی قانون عورتوں کی بابت اس سے زیادہ ظالم اور نا انصاف نہ تھا ۔
دوسری طرف اسلام قانون جو کہ تقریباً چودہ سو سال قبل رائج ہوا ۔اس میں عورتوں کو بے مثال عزت اور وقار دیا گیا ۔ اس کی رو سے نابالغ بچے بچیاں دونوں برابر ہیں دونوں پہ ماں باپ کے حقوق یکساں ہیں ۔ ہمارے نبی حضرت محمد عربی نے بیٹیوں کو بیٹوں پہ ہمیشہ فو قیمت دی۔ اور انہیں اچھے سلوک کا زیادہ حق دار قرار دیا ۔ مرد کی طرح عورت کو بھی شادی کے معاملے میں حق راۓ دہی دی گئی
اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کا بھی بلا رضامندی نکاح نہیں ہو سکتا ۔ عورت اپنی ذاتی جائیداد کی خود مالک و مختار ہے ۔ اور اسُے تصرف کابھی حق حاصل ہے ۔ وہ مرد کی طر ح ہر قسم کے معاہدے کا اختیار بھی رکھتی ہے اسُ کی ذات ان معاہدوں دستاویزات اور جائیداد کی جواب دہ بھی ہے جو اسُ نے تحریر کیے۔ جو جائیداد اُسے نکاح سے قبل ملی یا نکاح کے بعد اس جی ملکیت میں آئی اس کی مالک ہے ۔ وہ مثل مرد دعوی بھی کر سکتی ہے اور خود اس پہ بھی دعوی ہو سکتا ہے ۔ وہ اپنے مال ودو لت کو خرچ کر سکتی ہے ۔ ہبہ کر سکتی ہے۔ وصیت اور وقف بھی کر سکتی ہے۔
وراثت سے جو حصہ اسلام نے اس کے لیے مختص کیا ہے ایک بٹا دو حصہ ہے ۔یہاں مرد کو 1حصہ اس لئیےدیا گیا کیونکہ معاشی تگ ودو کا ذمہ دار اسلام مرد کو بناتا ہے مرد کایہ فرض ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے لئے کما کر لاۓ عورت کو اسلام نے گھر کی چار دیواری میں ملکہ کی حیثیت دی جس کا فرض صرف بچوں کی پیدائش اور تعلیم و تر بیت ہے ۔ شوہر کونان نفقہ کا زمہ دار ٹھہرا یا گیا ۔
عورت ہر نیکی کمآسکتی ہے
۔جو ایک مرد کماسکتا ہے اس پہ برابر ثواب حاصل کر سکتی ہے اور گناہوں کے عوض مرد کی طرح سزا بھی پائے گی ۔ اسلام میں مرد کو عورت کے برابر سمجھا گیا۔ کچھ شرعی معاملات میں عورت کو ایک درجہ کم حیثیت اس کی جذباتی فطرت کی وجہ سے دی گئی۔
پردے کے احکامات
عورت کے وقار کے لئے دیے گۓ۔ بے پردگی سے معاشرے میں اخلاقی بے راہ روی پھیلتی ہے جس کا خمیازہ پھر آنے والی نسلیں بھگتتی ہیں اس کے اثرات دوُر رس ہیں ۔
خلع کی صورت میں
جو مال ومتاع عورت کو دیا جاتا ہے واپس نہ لینے کا حکم ہے بیوگی کی صورت میں ایک سال تک گھر سے نہ نکالے جانے کا حکم ہے۔
مغرب میں عورت کو آج
زیادہ حقوق حاصل ہیں ۔ کیونکہ وہاں قانون کی بالا دستی ہے ۔ اسی لئے مغربی مما لک میں عورتوں کی حالت بہتر ہے اور اس کی وجہ قانون پہ عمل درآمد ہے آج جب پاکستان میں کوئی عورت خلع لینا چاہتی ہے تو اس کو عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑ تے ہیں گھر سے بے گھر ہو نا پڑ تا ہے در در کی ٹھوکریں کھا نی پڑ تی ہیں اکثر تو بچوں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
مغرب میں
مرد کو گھر سے نکالا جاتا ہے بچے عورت کے حوالے کیے جاتے ہیں اور باپ کو بچوں کے اخراجات کا پابند بھی کیا جاتا ہے ۔
اسلام کو جو نظام
حضر ت محمد عر بی نے قائم کیا تھا اس میں عورت کے لئے تمام مراحل بے حد آسان تھے کئی امثال ہیں کہ خواتین کو خلع ،طلاق اور بیوگی کے بعد بھی تحفظ دینے کے واسطے عقد ثانی کر دیا گیا اسلام عورت کے تحفظ کے لئے عقد ثانی پہ بے حد زور دیتا ہے تاکہ معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار نہ ہو آج یورپ میں نکاح اور عقد ثانی پہ عمل نہ کر نے کی وجہ سے جنسی بے راہ روی عام ہے مرد کے لئے عورت کھلونا بن کر رہ گئی ہے یا شائید ایک ٹشو پیپر۔
عورت کو
ترقی کے نام پر بے پردہ کر دیا گیاہے ۔
معاشی دوڑ میں شانہ بہ شانہ۔ آزادی کے نام پہ عورت نے در حقیقت زمہ داریوں کا طوق گلے میں ڈال لیا ۔
اسلام عورت کے ساتھ حسن
سلوک ،محبت اور خاطر داری کا حکم دیتا ہے۔ عورتوں کو خدمت گزار سمجھنے کا تصور ہندو آنہ ہے اسلامی نہیں۔ ہندو معاشرے میں ایک عورت بیاہ کر جب سسرال میں قدم رکھتی ہے تو سب کی باندی بنا دی جاتی ہے جبکہ اسلام نکاح کے بعد عورت کو الگ گھر دیتا ہے ۔مشترکہ خاندانی نظام اسلام کی سوچ نہیں۔ ہندوستان میں عورت کے معاملے میں ایسی خاک اڑ رہی ہے کہ مظالم کا تصور ہی روح فر سا ہے۔
عورت پہ جو ظلم
آج پاکستان میں ہورہا ہے اس کی وجہ احکام اسلام پہ عمل نہ کر نا ہے بلکہ شعور کی کمی ہے آگہی کا فقدان ہے۔
مغرب نے آ
ہستہ آہستہ خواتین کی حالت کو سدھارا ہے ان کا قانون آج عورت کے معاملے میں دنیا میں رائج سب قوانین سے بہتر ہے۔
اور پاکستان میں صورت حال
اس کے بر عکس ہے۔ آج ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے اعمال کو درست کر کے مذہب اسلام کے نور سے عالم کو منور کریں تاکہ آزادی نسواں کا اصل تصور سامنے آسکے ۔
 

NADIA UMBER LODHI
About the Author: NADIA UMBER LODHI Read More Articles by NADIA UMBER LODHI: 51 Articles with 79986 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.