تحریر: فرزانہ ظہور، رحیم یار خان
رات گئے اسکول ہیڈ کا مسیج ملا، پڑھا تو معلوم ہوا اے ای او صاحبہ کی طرف
سے مسیج ہے جس میں کہا گیا تھا کہ صبح سب ٹیچرز کو الیکشن ٹریننگ کے لیے
دوسرے شہر میں بلایا گیا ہے اور یہ بھی ہدایت کی گئی کہ جن ٹیچرز کے نام
ٹریننگ کی لسٹ میں نہیں ہیں وہ بھی جائیں اور جیسے ممکن ہو ٹریننگ میں شامل
ہوں۔ ایک طرف امتحانات کی پریشانی ادھر سے ایک نیا کام شروع ہوگیا۔ ۔۔
گویا ایک ٹیچر کو پڑھانے کے علاوہ یہ بھی ٹیلنٹ ہونا چاہیے کہ وہ ضرورت
پڑنے پر باقی کام بھی نمٹا سکیں ۔ اس کو گندم کی بوریوں کو ٹھیک سے گننا
آنا چاہئیں۔ گھر گھر جا کے سروے کرنا بھی آتا ہو۔ ضرورت پڑے تو ٹیچرز کو
پولیو کے قطرے پلانے کے لیے بھی بھیجا جا سکے۔ سیلاب ہو زلزلہ ہو یا کوئی
بھی آسمانی آفت سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کی طرح یہاں بھی سب سے پہلے
ٹیچرز کا ہی حق بنتا ہے کہ وہ وہاں موجود ہو۔ ایک ٹیچر ہونے کی وجہ سے ان
سب ذمہ داریوں پر اعتراز نہیں بلکہ بحیثیت پاکستانی ہر شہری کی طرح ٹیچرز
کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ کسی بھی ناگہانی آفت میں فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ
کر حصہ لیں۔ یہاں بات ان سب کاموں کی جہاں بلاوجہ ٹیچرز کو گھسیٹا جاتا ہے۔
بات صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوتی سونے پہ سہاگا یہ کے ایک ٹیچر کو مہینے میں
صرف دو چھٹیاں لینے کی اجازت ہے اور وہ چھٹیاں بھی اے ای او سے منتیں کر کے
لینی پڑتی ہیں اور وہ بھی مانیٹرنگ والے کے اسکول چیک کرنے بعد جی ہاں یہاں
ٹیچر کو ایک اور کوالٹی کا بھی حامل ہونا چاہیے یعنی کے مانیٹرنگ والے کے
اسکول چیک کرنے سے پہلے بیمار ہونا بھی ہماری گساتخی میں شامل ہے۔ خدا
ناخواستہ کوئی ٹیچر مانیٹرنگ والے کے آنے سے پہلے بیمار ہو بھی گیا ہے۔ تو
چاہے لاکھ منت کر لے مانیٹرنگ والے کے آنے سے پہلے اسے چھوٹی نہیں مل
سکتی۔( اور یہاں کچھ مہینے پہلے ایک ٹیچر کی موت صرف اس وجہ سے ہوئی کہ ان
کو ڈاکٹر کے پاس اس لیے وقت پر نہیں بھیجا جا سکا کیونکہ مانیٹرنگ والے کا
وزٹ نہیں ہوا تھا اور ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی اسکول میں ہی موت واقع
ہوگئی)۔
اب کچھ بات کرتے ہیں ٹیچرز پر ہونے یا لگنے والے شوکاز کی۔ ایک طرف کہا
جاتا ہے کہ رزلٹ100 فیصد ہو اور دوسری طرف مار نہیں پیار کا نعرہ لگا کر
بچوں پر سختی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر کسی ٹیچر کا رزلٹ سو فیصد سے کم
ہو تو شوکاز ، واش روم صاف نہ ہو تو شوکاز، بچے کم ہوں تو شوکاز ایل ان ڈی
کا رزلٹ سہی نہ آئے تو شوکاز، کوئی بچہ خاندان کے کسی اور جگہ منتقل ہونے
پر اسکول سے جارج ہوا تو شوکاز ، خدانخواستہ کی بچے کو موت وقع ہو جائے تو
شوکاز بھگت کر بتایا جائے کہ بچہ اب اس دنیا میں نہیں اس لیے نام کاٹنا پڑا
رہی کسر اس طرح سے نکالی جاتی ہے کہ ہر سال بچوں کی تعداد میں دس فیصد کا
اضافہ لازمی ہونا چاہیے۔ اور دوسری طرف بچے دو ہی اچھے کا راگ الاپا جاتا
ہے۔ جبکہ پاکستان کی سالانہ آبادی میں اضافے کی شرح 2 سے 3 فیصد ہے اب بندہ
پوچھے ہر سال دس فیصد بچوں کا اضافہ کہاں سے کریں۔ اس کے علاوہ ہر روز نت
نئے نوٹیفکیشن جاری کر کے ٹیچرز پر ذہنی طور پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔( اب ایک
نیا نوٹیفکیشن یہ جاری کیا گیا ہے کہ یو پی ٹارگٹ پورا نہ ہونے کی بنیاد
پراساتذہ کی دو مہنیے کی تنخواہ کاٹی جائے گی۔) جس میں سے ایک انتہائی نا
مناسب نوٹیفکیشن یہ جاری کیا گیا ہے کہ کوئی بھی ٹیچر عمرہ کی سعادت حاصل
کرنے کے لیے چھٹی نہیں لے سکتا اگر کسی کو جانا بھی ہے تو گرمیوں کی چھٹیوں
کا انتظار کرے اور ہر سال چھٹیوں میں بھی کوئی نہ کوئی ٹریننگ رکھ دی جاتی
ہے۔ جس کا زیادہ تر شکار پرائمری ہیڈ ٹیچر اور اے ای اوز ہوتے ہیں یہاں تک
کہ ان کی تو اتوار کی چھٹی بھی ان ٹریننگ کی نظر ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے
باوجود ہمارے تعلیمی اداروں کا حال بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے۔
اور اس کی وجہ ٹیچرز کی عدم دلچسپی نہیں بلکہ تعلیمی نظام میں ایسے لوگوں
کی مداخلت سے جن کو تعلیمی نظام کا کچھ پتہ ہی نہیں ان کی طرف سے نت نئے
نوٹیفکیشن اور تجربات اس نظام کی پستی کی وجہ ہیں۔ ایک اور بات جو کہ اہم
ہے کہ کہا جاتا ہے پرائیویٹ سیکٹر اور تعلیمی اداروں کا رزلٹ سرکاری تعلیمی
اداروں سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور والدین بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل
کروانے پر راضی نہیں ہوتے جبکہ پرائیویٹ اداروں کی نسبت سرکاری اسکولوں میں
اساتذہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اس کے باوجود سرکاری اسکولوں میں بچوں کی
تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہاں تک کہ خود ایک سرکاری اسکول میں پڑھانے والے اساتذہ بھی اپنے بچوں کو
پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلوانا پسند کرتے ہیں۔ اس کی وجہ پرائیویٹ
اسکولوں میں بچوں پر غلطی کرنے کی صورت میں سختی اور سرزنش کا رواج موجود
ہے جس کے وجہ سے ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچے نہ صرف تعلیمی میدان
میں آگے ہوتے ہیں بلکہ وہ ایک باشعور شہری بھی ثابت ہوتے ہیں۔
یہاں پر سزا اور سرزنش کی بات کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ بلاوجہ بچوں کو
ٹارچر کرنا یا سزا دینے کے عمل کو ٹھیک کہا گیا ہے بلکہ ایک اچھے معاشرے کی
تشکیل کے لئے اس میں تھوڑی بہت سزا اور سرزنش کی گنجائش کی بات کی گئی ہے۔
جس مذہب میں غلطی کرنے پر سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ ہم اس میں سزا کے تصور کو
ہی ختم کر کے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ
اگر نصاب میں ہر سال تبدیلیوں کی بات نہ کریں تو یہ مضمون ادھورا ہوگا۔
جیسا پہلے کہا گیا ہے کہ تعلیمی نظام میں بے جا مداخلت نہ صرف اس نظام کی
پستی کا سبب بن رہی ہے بلکہ امت مسلمہ کو بہکانے، بھٹکانے کا بھی سبب بن
رہی ہے۔ جس کی ایک تازہ مثال کلاس پنجم کی اسلامیات میں کی گئی تبدیلی سے
لی جا سکتی ہے۔ کتاب کے صفحہ نمبر8پر موجود ایک حدیث (دنیا آخرت کی کھیتی
ہے) کو مشہور قول کا نام دے کر بھٹکایا گیا ہے تا کہ نئی نسل سزا اور جزا
کا جو تصور اسلام میں بتایا گیا ہے کو سمجھ ہی نہ سکے۔
مار نہیں پیار کے نعرے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ بچوں کی غلطی اور بدتمیزی
پر بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی ہے جس سے ان میں اچھے اور برے کاموں میں فرق
کی بنیاد ہی نہیں بن پاتی۔ اس کے ساتھ اب یہ حکم نامہ بھی جاری کیا گیا ہے
کہ اساتذہ اسکول ٹائم شروع ہونے اور چھٹی کے وقت اسکول گیٹ پر کھڑے ہو کر
بچوں کا استقبال کریں یعنی کے اب بچے اپنے اساتذہ کرام کی عزت کرنا تو دور
ان سے اپنی عزت کروائیں گے۔ اس طرح کے نامناسب اقدامات کر کے اساتذہ کرام
جو کہ پیغمبری شعبے سے منسلک ہیں ان کی عزت و ناموس کو پامال کیا جا رہا
ہے۔ جس پر نوٹس لیا جانا چاہیے۔ (اور مترم چیف جسٹس آف پاکستان سے میں
گزارش کرتی ہوں کہ وہ خدارا اس شعبے سے منسلک لوگوں کی عزت و ناموس کی
دھجیاں اڑانے والے کی سرزنش کریں)
خدارا پالیسیاں بنانے والے نت نئے تجربات کر کے ملک کا مستقبل داؤ پر نہ
لگائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ با ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب۔ جس قوم میں
استاد کی قدر نہ ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ٹیچرز کو اگر صرف تدریسی
عمل تک ہی محدود رکھا جائے ان پر غیر ضروری ڈیوٹیاں عائد کرنے سے اجتناب
کیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان تعلیم کے معیار کے لحاظ سے اعلیٰ
مقام حاصل کر سکتا ہے بس ضرورت ہے تو اس عمل کی جس سے اساتذہ کی قدر و
منزلت کو مانا جائے اور اساتذہ کا بھی حق ہے وہ اس فرض میں کوتاہی نہ برتیں
اپنے اس فرض کو خوش اسلوبی سے انجام دے کر ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں
اپنا کردار ادا کریں۔ کیوں کہ اچھی تعلیم سے نہ صرف نسلوں کو سدھارا جا
سکتا ہے بلکہ اس سے دلوں کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ بحیثیت ایک استاد کے ہمیں
اس بات پر فخر ہے کہ ہمیں اس پیغمبری شعبے کے لیے چنا گیا ہے اور آخر میں
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ایک اچھا انسان بننے کی توفیق دے اور
ہمیشہ اپنے فرائض کا حق ادا کرنے کی توفیق دے آمین
|